حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعض کرامات

امام کاظم علیہ السلام
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

 واقعہ شقیق بلخی علامہ محمدبن شافعی لکھتے ہیں کہ آپ کے کرامات ایسے ہیں کہ ”تحارمنہاالعقول“ ان کودیکھ کرعقلیں چکراجاتی ہیں ،مثال کے لیے ملاحظہ ہو؟ ۱۴۹ ھ میں شقیق بلخی حج کے لیے گئے ان کابیان ہے کہ میں جب مقام قادسیہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک نہایت خوب صورت جوان جن کارنگ سانولہ (گندم گوں) تھا وہ ایک عظیم مجمع میں تشریف فرماہیں جسم ان کاضعیف ہے وہ اپنے کپڑوں کے اوپر ایک کمبل ڈالے ہوئے ہیں اورپیروں میں جوتیاں پہنے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعدوہ مجمع سے ہٹ کر ایک علیحدہ مقام پرجاکربیٹھ گئے، میں نے دل میں سوچا کہ یہ صوفی ہے اورلوگوں پرزادراہ کے لیے باربنناچاہتاہے ،میں ابھی اس کی ایسی تنبیہ کروں گاکہ یہ بھی یادرکھے گا،غرضیکہ میں ان کے قریب گیاجیسے ہی میں ان کے قریب پہنچاہوں،وہ بولے ائے شقیق بدگمانی مت کیاکرویہ اچھاشیوہ نہیں ہے، اس کے بعدوہ فورااٹھ کرروانہ ہوگئے ،میں نے خیال کیاکہ یہ معاملہ کیاہے انہوں نے میرانام لے کرمجھے مخاطب کیااورمیرے دل کی بات جان لی

اس واقعہ سے میں اس نتیجہ پرپہنچاکہ ہونہ ہویہ کوئی عبدصالح ہوں بس یہی سوچ کرمیں ان کی تلاش میں نکلااوران کاپیچھاکیا، خیال تھاکہ وہ مل جائیں گے تومیں ان سے کچھ سوالات کروں گا،لیکن نہ مل سکے،ان کے چلے جانے کے بعدہم لوگ بھی روانہ ہوئے ، چلتے چلتے جب ہم ”وادی فضہ“ میں پہنچے توہم نے دیکھاکہ وہی جوان صالح یہاں نمازمیں مشغول ہیں اوران کے اعضاء وجوارح بیدکی مانندکانپ رہے ہیں اوران کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں میں یہ سوچ کران کے قریب گیاکہ اب ان سے معافی طلب کروں گاجب وہ نمازسے فارغ ہوئے توبولے ائے شفیق خداکاقول ہے کہ جوتوبہ کرتاہے میں اسے بخش دیتاہوں اس کے بعدپھرروانہ ہوگئے اب میرے دل میں یہ یقین آیاکہ یقینا یہ بندہ عابد،کوئی ابدال ہے ،کیوں کہ دو باریہ میرے ارادہ سے اپنی واقفیت ظاہرکرچکاہے میں نے ہرچندپھران سے ملنے کی سعی کی لیکن وہ نہ مل سکے جب میں منزل زبالہ پرپہنچاتودیکھاکہ وہی جوان ایک کنویں کی جگت پربیٹھے ہوئے ہیں اس کے بعدانہوں نے ایک کوزہ نکال کرکنوئیں سے پانی لیناچاہا،ناگاہ ان کے ہاتھ سے کوزہ چھوٹ کرکنوئیں میں گرگیا،میں نے دیکھاکہ کوزہ گرنے کے بعدانہوں نے آسمان کی طرف منہ کرکے بارگاہ احدیت میں کہا: میرے پالنے والے جب میں پیاساہوتاہوں توہی سیراب کرتاہے اورجب بھوکاہوتاہوں توہی کھانادیتاہے خدایا!اس کوزہ کے علاوہ میرے پاس کوئی اورکوزہ نہیں ہے ،میرے مالک! میرا کوزہ پرآب برآمدکردے،اس جوان صالح کایہ کہناتھاکہ کنوئیں کاپانی بلندہوااوراوپرتک آگیاآپ نے ہاتھ بڑھاکر اپناکوزہ پانی سے بھراہوالے لیااوروضوفرماکر چاررکعت نمازپڑھی، اس کے بعدآپ نے ریت کی ایک مٹھی اٹھائی اورپانی میں ڈال کرکھاناشروع کردیایہ دیکھ کرمیں عرض پردازہواجناب والا! مجھے بھی کچھ عنایت ہومیں بھوکاہوں آپ نے وہی کوزہ میرے حوالے کردیاجس میں ریت بھری تھی خداکی قسم جب میں نے اس میں سے کھایاتواسے ایسالذیذستوپایاجیسامیں نے کھایاہی نہ تھا، پھراس ستومیں ایک خاص بات یہ تھی کہ میں جب تک سفرمیں رہابھوکانہیں ہوا اس کے بعدآپ نظروں سے غائب ہوگئے ۔

جب میں مکہ معظمہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک بالو(ریت) کے ٹیلے کے کنارے مشغول نمازہیں اورحالت آپ کی یہ ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں اوربدن پرخضوع وخشوع کے آثارنمایاں ہیں آپ نمازہی میں مشغول تھے کہ صبح ہوگئی ، آپ نے نمازصبح ادافرمائی اوراس سے اٹھ کرطواف کاارادہ کیا،پھرسات بارطواف کرنے کے بعد ایک مقام پرٹہرے میں نے دیکھاکہ آپ کے گردبیشمارحضرات ہیں اورسب بے انتہاتعظیم وتکریم کررہے ہیں ،میں چونکہ ایک ہی سفرمیں کرامات دیکھ چکاتھا اس لیے مجھے بہت زیادہ فکرتھی کہ یہ معلوم کروں کہ یہ بزرگ ہیں کون؟ انہوں نے کہاکہ یہ فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم ہیں،میں نے کہابے شک یہ صاحب کرامات جومیں میں نے دیکھے وہ اسی گھرانے کے لیے سزاوارہیں (مطالب السول ص ۲۷۹ ،نورالابصارص ۱۳۵ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۳ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ، ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔

مورخ ذاکرحسین لکھتے ہیں کہ شقیق ابن ابراہیم بلخی کاانتقال ۱۹۰ ھ میں ہواتھا ( تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۵۹) ۔

امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ عیسی مدائنی حج کے لیے گئے اور ایک سال مکہ میں رہنے کے بعدوہ مدینہ چلے گئے ان کاخیال تھا کہ وہاں بھی ایک سال گزاریں گے، مدینہ پہنچ کرانہوں نے جناب ابوذرکے مکان کے قریب ایک مکام میں قیام کیا۔

مدینہ میں ٹہرنے کے بعد انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے وہاں آناجاناشروع کیا،مدائنی کابیان ہے کہ ایک شب کوبارش ہورہی تھی اورمیں اس وقت امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا، تھوڑی دیرکے بعد آپ نے فرمایاکہ اے عیسی تم فورااپنے مکان چلے جاؤکیونکہ ”انہدم البیت علی متاعک“ تمہارامکان تمہارے اثاثہ پرگرگیاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں یہ سن کرمیں فورامکان کی طرف گیا، دیکھاکہ گھرگرچکاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں،دوسرے دن جب حاضرہواتوامام علیہ السلام نے پوچھاکہ کوئی چیزچوری تونہیں ہوئی ،میں نے عرض کی صرف ایک طشت نہیں ملتا جس میں وضو کیاکرتاتھا، آپ نے فرمایاوہ چوری نہیں ہوا،بلکہ انہدام مکان سے پہلے تم اسے بیت الخلاء میں رکھ کربھول گئے ہو،تم جاؤاورمالک کی لڑکی سے کہو،وہ لادے گی، چنانچہ میں نے ایساہی کیا اورطشت مل گیا(نورالابصارص ۱۳۵) ۔

علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک صحابی کے ہمراہ سو دینارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بطورنذرارسال کیاوہ اسے لے کرمدینہ پہنچا، یہاں پہنچ کراس نے سوچاکہ امام کے ہاتھوں میں اس جاناہے لہذا پاک کرلیناچاہئے وہ کہتاہے کہ میں نے ان یناروں کوجوامانت تھے شمارکیا تووہ نناوے تھے میں نے ان میں اپنی طرف سے ایک دینارشامل کرکے سوپورا کردیا،جب میں حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایاسب دینارزمین پرڈال دو،میں نے تھیلی کھو ل کرسب زمین پرنکال دیا ، آپ نے میرے بتائے بغیراس میں سے میرا وہی دینارجومیں نے ملایاتھا مجھے دیدیا اورفرمایا بھیجنے والے نے عددکالحاظ نہیں کیا بلکہ وزن کالحاظ کیاہے جو ۹۹ میں پوراہوتاہے۔

ایک شخص کاکہناہے کہ مجھے علی بن یقطین نے ایک خط دے کرامام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا،میں نے حضرت کی خدمت میں پہنچ کر ان کاخط دیا، انہوں نے اسے پڑھے بغیرآستین سے ایک خط نکال کرمجھے دیااورکہا کہ انہوں نے جوکچھ لکھاہے اس کایہ جواب ہے (شواہدالنبوت ص ۱۹۵) ۔

ابوبصیرکابیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام دل کی باتیں جانتے تھے اورہرسوال کاجواب رکھتے تھے ہرجاندارکی زبان سے واقف تھے (روائح المصطفی ص ۱۶۲) ۔

ابوحمزہ بطائنی کاکہناہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ حج کوجارہاتھا کہ راستہ میں ایک شیربرآمدہوا،اس نے آپ کے کان میں کچھ کہاآپ نے اس کواسی کی زبان میں جواب دیااوروہ چلاگیا ہمارے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنی شیرنی کی ایک تکلیف کے لیے دعاکی خواہش کی، میں نے دعاکردی اوروہ واپس چلاگیا(تذکرة المعصومین ص ۱۹۳) ۔

 

Comments powered by CComment