قرآن میں امام  کی خصوصیات 

اصول دین
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

کیا خدا بغیر کسی ہدف کے اس نعمت امامت کو کچھ لوگوں کو دے دیتا ہے اور کچھ کو نہیں دیتا؟ یا یہ کہ اس نعمت کو عطا کرنے میں خدا کی حکمت بالغہ بطور میزان کار فرما ہے؟

قرآن نے امامت کو ایک خاص عنایت جانا ہے.  یا متکلمین کے مطابق امامت ایک لطف ہے. لیکن ہم قرآن سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ: کیا خدا بغیر کسی ہدف کے اس نعمت امامت کو کچھ لوگوں کو دے دیتا ہے اور کچھ کو نہیں دیتا؟ یا یہ کہ اس نعمت کو عطا کرنے میں خدا کی حکمت بالغہ بطور میزان کار فرما ہے؟

ممکن ہے کوئی جواب دے: خدا بغیر کسی ہدف کو مد نظر رکھتے ہوئے ارادہ کرتا ہے کہ اس نعمت کو زید کو دے اور بکر کو نہ دے. ایسا وہ بغیر کسی حکمت، قانون یا سنّت کے کرتا ہے اور جواب دینے والا اپنے اس قول کی دلیل میں قرآن کی یہ آیت لے کر آۓ کہ : اور وہ جو بھی کرے اسکے لئے اس سے سوال نہیں ہوگا، بلکہ مخلوقات اپنے اعمال کی جواب دہ ہیں (انبیاء، ٢٣). لیکن قرآن اس نظریہ  کی نفی کرتا ہے، بلکہ اس بات کی یاد آوری کرتا ہے کہ نعمت امامت سواۓ اس کے کہ  جسکو آزمائش میں ڈالا جاۓ اور وہ صبر کرے، کسی اور کو نہیں ملتی. پس جو صبر نہ کر سکے اسے یہ نعمت عطا نہیں ہوتی اور وہ اس وجودی اور تکوینی مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی نظام ہستی کی اس اہم ذمہ داری کا بار اٹھا سکتا ہے. اسی وجہ سے قرآن حضرت آدم کے بارے میں فرماتا ہے: اور ہمنے ان میں ثابت قدمی اور عزم نہیں پایا (طہ، ١١٥).   یعنی انکو مورد آزمائش قرار دیا گیا لیکن بقول قرآن وہ صبر  نہ کر سکے، اور اسی طرح دوسرے پیامبروں کا بھی قصّہ ہے. واضح ہے کہ یہاں صبر نہ کرنا گناہ کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ان معنی میں ہے کہ فلاں شخص کو نعمت امامت حاصل کرنے کے لئے مراتب وجود میں سے ایک خاص مرتبہ  تک پہنچنا تھا لیکن وہ نہ پہنچ سکا، اور یہ گناہ نہیں ہے کہ جسکا معنی عام طور سے شریعت کی زبان میں خداوند متعال کے دستورات کی مخالفت ہے.

جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قرآن نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ امامت علاوہ انکے کہ جو صبر کریں، کسی کو  عطا نہیں ہوتی.سوره سجدہ میں قرآن کہ رہا ہے: اور ان میں سے ہمنے کچھ کو امام بنایا جو ہمارے امر سے ہدایت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے حق کی راہ میں صبر کیا. (سجدہ، ٢٤). پس ان کو بلا وجہ اور مفت میں امامت عطا نہیں ہوئی ہے، بلکہ "لما صبرو ا" کیونکہ انہوں نے صبر کیا لہٰذا  انکو امامت عطا ہوئی ہے. اس بارے میں علامہ طباطبائی (رحمه اللہ) تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں:خداوند متعال امامت جیسی نعمت کو عطا کرنے کی علّت یوں بیان فرماتا ہے: لما  صبرو ا  و  کانوا  بآیاتنا  یوقنون.خداوند بیان کر رہا ہے کہ خدا کی خاطر ائمّہ کا صبر کرنا ہی امامت کے عطا ہونے کا معیار  اور کسوٹی ہے. یہاں صبر سے مراد صبر مطلق ہے جس کا مطلب ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعہ سے عبودیت خدا کی راہ میں بندہ کا  امتحان لیا جاتا ہے. (تفسیر المیزان، ج ١ ، ص ٢٧٣)

پس انسان کی آزمائش ہوتی ہے ، اگر وہ اس آزمائش میں صبر کا دامن تھام لیتا ہے تو  اپنے صبر  کی مقدار   کے مطابق اس مقام امامت کا مستحق ہو جاتا ہے. اس بابت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل ہوا ہے  کہ اپنے فرمایا: کسی بھی نبی کو ایسی  اذیت نہیں دی گئی جیسی مجھے دی گئی ہے (کشف الغمہ، ج ٢ ، ص ٥٣٧).  لیکن اسکے باوجود پیامبر نے حضرت یونس علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کے لئے بد دعا نہیں کی، بلکہ انہوں نے کہا: ای پروردگار میری قوم کی ہدایت فرما، کیونکہ یہ نادان ہیں(بحار الانوار، ج  ٢٠،باب  ١٢،صفحہ  ٢١). یہ ہے خدا کے پیامبران حضرت یونس علیہ السلام اور خاتم النبیین  محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ کے مقامات کا فرق. اگر چہ حضرت یونس علیہ السلام نے پیغمبر اکرم جتنی اذیت نہیں اٹھائی لیکن اپنی قوم کے لئے بد دعا کر دی ، جب کہ پیغمبر اکرم نے تمام اذیتیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی قوم کے لئے بد دعا نہیں کی، بلکہ اذیتوں کے جواب میں کہا: ای پروردگار میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ یہ نادان ہیں.

قرآن اس آیت میں  "ان رسولوں میں بعض پر ہم نے بعض کو برتری عطا کی ہے" پیغمبروں کے بیچ کے فرق کی طرف اشارہ کر رہا ہے.اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ  پیغمبروں کے بیچ کا یہ فرق بیہودہ  اور بغیر کسی قانون اور سنّت کے نہیں ہے، بلکہ اسکی کسوٹی مصیبتیں اور سختیاں ہیں کہ جن میں تمام پیامبران  مبتلا ہوئے ہیں اور اس موقع پر انہوں نے صبر کیا ہے.

سوره بقرہ کی آیت ١٢١٢٤ جسے بحث امامت کا محور اور مدار جانا جاتا ہے، اس میں بھی یہی ترتیب بیان ہوئی ہے. اس آیت میں خدا وند متعال حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کرکے فرما رہا ہے کہ : اور یاد کریں وہ وقت جب ابراھیم کےپروردگار نے انکو کچھ امور میں آزمایا اور ابراھیم ان آزمائشوں میں کھرے اترے؛ خدا نے ان سے کہا میں تمکو لوگوں کا امام بناتا ہوں. اگر چہ مفسرین کے درمیان اس آیت کے بارے میں اختلاف پاۓ جاتے ہیں لیکن نتیجہ ایک ہی اخذ ہوتا ہے. کچھ قائل ہیں کہ "فاتمھن " سے مراد حضرت ابراھیم ہیں اور  انہوں نے اپنے امتحانات کو اتمام تک پہنچایا، یعنی خدا نے انکو یہ قدرت عطا کی کہ وہ اپنے امتحانات کو درجہ اتمام تک پہنچائیںتاکہ جس مقام والا تک ان کو پہنچنا ہے  وہاں پہنچیں. مفسرین کی رائے جو بھی ہو، نتیجہ خلاصتا یہ ہوگا کہ اس مقام امامت کا مستحق وہیں ہوگا جو خدا کے امتحان کے مد مقابل صبر کرے.

اگر اس آیت  کریمہ  "اور ہمنے ان میں سے کچھ کو امام بنایا جو ہمارے امر سے ہدایت کرتے ہیں ، اور یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری نشانیوں پر یقین رکھتے تھے" کی طرف نظر ثانی کریں  تو ہم دیکھیں گے کہ یہ آیت امام کی ایک اور نشانی کی طرف اشارہ کر رہی ہے. خالی صبر کافی نہیں ہے، بلکہ ایک اور خصوصیت کا  بھی  انسان میں ہونا ضروری ہے  تاکہ مقام امامت کا مستحق ہو، اور وہ خصوصیت یقین رکھنا اور مقام یقین تک پہنچنا ہے.

بہتر ہے کہ ہم یہاں یقین اور قرآن میں آنے والی اسکی اقسام کا بھی ذکر کریں. قرآن میں علم الیقین، عین  الیقین اور حق الیقین   کا ذکر ہوا ہے.ظاہر ہے ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ امام ان میں سے یقین کی کس منزل پر فائز ہے. عین الیقین اور علم الیقین کے بارے میں قرآن سوره تکاثر  کی آیت ٥ ٥ سے ٧ ٧ میں فرما رہا ہے: حتما اگر تمہارے پاس علم الیقین ہوتا تو بیشک تم دوزخ کو دیکھ لیتے.اور اسکو عین الیقین (یقین کی آنکھوں) سے دیکھتے. اسی طرح سوره واقعہ کے آخر میں آیا ہے: بیشک یہ حق الیقین ہے. ان آیات میں یقین کے تینوں مراتب کا ذکر ہوا ہے.

تقریب ذہن کے لئے ایک سادہ سی مثال عرض کر سکتا ہوں: بعض اوقات انسان کسی شی کے آثار کے ذریعہ سے اسکی حقیقت تک پہنچتا ہے. یعنی خود اس شی کو نہیں پہچانتا لیکن اسکے آثار کو پہچانتا ہے.مثلا انسان آگ کو نہیں دیکھتا، اسکی گرمی کو بھی محسوس نہیں کرتا لیکن اس سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھتا ہے اور اس سے ثابت کرتا ہے کہ اس طرف ایک حقیقت بنام آگ موجود ہے.اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ آگ کے قریب جاتا ہے اور اسکی گرمی کو محسوس کرتا ہے، اور ایک تیسری حالت ہوتی ہے جب وہ آگ میں گر پڑتا ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھ آگ کی گرمی کو محسوس کرتا ہے. پہلی حالت کو علم الیقین کہتے ہیں. اس حالت میں کیونکہ انسان اثر کو دیکھتا ہے لیکن مؤثر کو نہیں دیکھتا  ، لہٰذا ممکن ہے کہ دچار شک و تردید  ہو جاۓ اور شک کرے کہ یہ اثر اسی مؤثر کی جانب سے ہے یا کسی اور چیز کی جانب سے. لیکن حق الیقین اور عین الیقین کے موارد میں انسان شک و تردید کا شکار نہیں ہوتا.وہ انسان جو آگ کے اندر کھڑا ہو ، وہ شک نہیں کریگا کہ آیا یہ گرمی اور جلانا اسی آگ کا کام ہے یا کسی اور چیز کا.اگر آپ اسکے لئے ہزار دلیل بھی لے آئیں کہ یہ آگ نہیں جلتی ہے تب بھی وہ آپکی بات کو رد کریگا اور جواب دیگا کہ حتما یہ آگ جلتی ہے.

ایک اور مثال عرض کرتا ہوں: علم کی کئی اقسام ہیں.ایک علم وہ ہے جسے انسان حاصل کرتا ہے لیکن اس علم کا اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے. مثلا وہ علم کہ جسکی طرف ان دو آیتوں میں اشارہ ہوا ہے:انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ انکے دل یقین کر چکے تھے (سوره نمل، آیت ١٤)، اور یہ آیت : اور باوجود سمجھ بوجھ کے الله نے اسے گمراہ کر دیا ہے (سوره جاثیہ، آیت ٢٣). ان آیات میں  مذکورہ افراد علم رکھتے ہیں لیکن اسکا نتیجہ جوکہ ایمان ہے وہ انکے پاس نہیں ہے. اس بنا پر ممکن ہے کہ علم اور اسکا اثر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں.

لیکن قرآن ایک اور علم کی طرف اشارہ کر رہا ہے جسکا اثر اس سے  ہرگز جدا نہیں ہوتا. یہ ایک خاص علم ہے جوکہ اکتسابی یعنی حاصل کئے جانے کے قابل نہیں ہے. اس علم کو علم حضوری کہا جاتا ہے. کچھ اسی کے مانند جیسا کہ حضرت ابراہیم  کے بارے میں قرآن فرما رہا ہے: اور اسی طرح ہمنے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت او ر باطن کو دکھلایا تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں (سوره انعام، آیت  ٧٥). اس نوعیت کے یقین آسمانوں اور زمین کے ملکوت (باطن) کا دیدار  اور انسے آگاہی حاصل کرنے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے. آیت صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ اس قسم کا علم  - یعنی ملکوت کا دیدار – اپنے اثر – یعنی یقین تک پہنچنا – سے جدا نہیں ہے. یعنی جو بھی ملکوت آسمان اور زمین کو دیکھے گا وہ حالت یقین تک پہنچےگا اور یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں.

پژوهشی در پرسمان امامت، گفتگو با سید کمال حیدری، صفحہ ١٠٥ 

 

Comments powered by CComment