ایک شیعہ عالم کہتے ہیں: ”ہم تقریبا ً پچاس آدمیوں کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ منورہ مسجد النبی میں گئے اور وہاں جا کر آنحضرت کی زیارت پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔ حرم کا منتظم (شیخ عبد اللہ بن صالح )میرے قریب آیا اور اعتراض کے طور پر اس نے کہا: ”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے مرقد کے قریب اپنی آواز بلند نہ کرو“۔ میں نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے؟“ منتظم: ”خدا وند متعال قرآن (سورہ حجرات آیت ۲)میں فرماتا ہے: ” یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اٴَنْ تَحْبَطَ اٴَعْمَالُکُمْ وَاٴَنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ“۔ ”اے ایمان لانے والو! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آواز بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے چیخوچلاوٴ جس طرح تم ایک دوسرے کے سامنے چیختے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بیکار نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہونے پائے“۔ میں: ”امام جعفر صادق علیہ السلام “کے اسی جگہ پر چار ہزار شاگرد تھے اور تدریس کے وقت باآواز بلند درس دیتے تھے تاکہ ان کی آواز ان کے شاگردوں تک پہنچ جائے کیا انھوں نے حرام کام کیا؟ابو بکرو عمر اسی مسجد میں بلند آواز سے خطبہ دیا کرتے تھے اور تکبیر کہتے تھے کیاا ن سب لوگوں نے حرام کا م انجام دیا؟اور ابھی ابھی تمہارے خطیب نے بلند آواز سے خطبہ دیا تم لوگ مل کر با آواز بلند تکبیر کہہ رہے تھے کیا یہ لوگ قرآن کے خلاف کر رہے تھے؟ کیونکہ قرآن اس سے منع کرتا ہے ؟ منتظم: ”اچھا تو پھر آیت کاکیا مطلب ہوا؟“ میں: ”اس آیت سے مراد ہے بے فائدہ اور بے جا شور و غل نہ کرو جو آنحضرت کی حرمت و احترام کے خلاف ہو جیسا کہ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں روایت ہے: قبیلہٴ ”بنی تمیم“کے کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے پیچھے سے چیخ کر کہنے لگے یا محمد باہر نکلو اور ہم سے ملاقات کرو۔ 1 دوسری بات یہ کہ ہم تو نہایت ہی تواضع و احترام سے زیارت پڑھنے میں مشغول ہیں اور مذکورہ آیت میں غور وفکر کرنے سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اس آیت میں وہ لوگ شامل ہیں جو رسول اکرم کی اہانت کی غرض سے چیخ کر آواز لگاتے تھے کیونکہ اس آیت میں اعمال کے بیکار ہونے کی بات آئی ہے اور یقینا اس طرح کی سزا کافر یا گناہ کبیرہ انجام دینے والے اور توہین کرنے والے کے لئے ہوگی نہ کہ ہمارے لئے کیونکہ ہم تو نہایت ادب واحترام سے ان کی زیارت پڑھ رہے ہیں اگر چہ ذراسی آواز بلند ہوگئی تو کیا ہوا اس لئے روایت میں آیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثابت بن قیس (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطیب )جن کی آواز بہت ہی موٹی تھی نے کہا کہ اس آیت سے مراد میں ہوں اور میرے نیک اعمال حبط ہو گئے۔جب اس بات کا علم آنحضرت کو ہوا تو آپ نے فرمایا: ”نہیںایسانہیں ہے ثابت بن قیس جنتی ہے“۔(کیونکہ وہ اپنے وظیفہ پر عمل کرتا ہے نہ کہ توہین کرتا ہے)۔ 2 منبع: ۱۰۱ دلچسپ مناظرے؛ استاد محمدی اشتہاردی - مترجم: اقبال حیدر حیدری. 1. تفسیر قرطبی، ج۹،ص۶۱۲۱۔صحیح بخاری، ج۶،ص۱۷۲۔ 2. مجمع البیان، ص۹،ص۱۳۰۔تفسیر فی ظلال ومراغی، اسی آیت کے ذیل میں۔
قبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بلند آواز میں زیارت پڑھنا
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Helvetica Segoe Georgia Times
- Reading Mode
Comments powered by CComment