احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مختلف کتب حدیث
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مؤلف: عالم اہل سنت ،علامہ جلال الدین سیوطی

ترجمہ : محمد منیر خان لکھیم پوری (ہندی)

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی ۖ غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلام ۖ کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتۖو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اہل سنت والجماعت کے جلیل القدر عالم دین علامہ جلال الدین سیوطی کی گرانقدر کتاب ''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت'' '(ع)فاضل جلیل عالیجناب مولانا محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ و مقدمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت (ع)

 

 مقدمہ :

١۔ کچھ اس رسالہ کے بارے میں الحمد ﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی سیدنا رسول

اﷲ(ص) وآلہ الامناء واللعنة الدائمة علی اعدائہم ومنکری فضائلہم من الآن الیٰ یوم لقاء اﷲ، وبعد: نَسُرُّ ان نقدم الیوم الی القراء الکرام اثرا نفیساً وکنزا ثمیناً فی فضائل اہل البیت ( وان کان فضائلہم لا تعد ولا تحصٰی کما شہدت بہ اعدائہم والفضل ما شہدت بہ الاعداء ).

اما بعد :

مفادحدیث ثقلین (١) کے مطابق نبی اکرم ۖ نے اسلامی امت کی راہنمائی کیلئے دو گرانقدر چیزیں چھوڑیں : قرآن اور اہل بیت ،اگر مسلمانوں نے ان دونوں سے تا قیامت تمسک بر

..............

(١)حدیث ثقلین وہ حدیث ہے جو علمائے اسلام کے نزدیک تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے ، یہاں تک اہل سنت کی مشہور و صحیح کتاب ''صحیح مسلم'' میں بھی زید بن ارقم سے نقل کی گئی ہے ،خود علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے ، جس کی تکمیل اسی کتاب کے حاشیہ میں کردی گئی ہے .

قرار رکھا تو ہدایت یافتہ، اور اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑدیا تو پھر گمراہی اور ضلالت کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہو گا ،لہٰذاحدیث کی رو سے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی راہ اختیار کریں جوقرآن و اہل بیت پر منتہی ہوتی ہو ، یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے مد نظرمسلمانوں کا ہر فرقہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس بات کو ظاہر کرے کہ ہم ہی نبی کی مذکورہ حدیث پر عمل پیرا ہیں ، اگر قرآن

کی بات آتی ہے تو اپنے کو اہل قرآن بتاتا ہے اور اہل بیت کی بات آتی ہے تو ہر ایک کواس بات کا یقین کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم ہی اہل بیت کے صحیح چاہنے والے ہیں ، لیکن حقیقت کیا ہے ؟ ا س کو وہی سمجھ سکتا ہے جو بصیرت اور انصاف کے ساتھ تمام ان فرق و مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرے جو اس بات کا دعوی کرتے ہیں ، اس وقت حقیقت اس کے سامنے عیاں ہو جائے گی ۔

چنانچہ مسلمانوں کے مختلف ِفرَق و مذاہب کے علماء نے اس بات کو ثابت کر نے کیلئے کہ ہمارا فرقہ ہی قرآن کے ساتھ اہل بیت کو مانتا ہے، اہل بیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ،تاکہ ثابت کر سکیں کہ ہم اہل بیت سے دور نہیںہیں، ان میںامام احمد بن حنبل اورنسائی قابل ذکر ہیں جنھوں نے اہل بیت کے فضائل میں'' المناقب'' نامی کتابیں لکھیں ، اسی طرح شیخ ابی الحسن علی بن ابی الرحمن ، ابی علی محمد بن محمد بن عبیدا ﷲاور شیخ علی بن مؤدب بن شاکر کی کتابیں'' فضائل اہل بیت(ع)'' ہیں،اسی طرح ابی نعیم کی کتاب ''نزول القرآن فی مناقب اہل البیت (ع) '' یاجوینی حموی کی ''فرائد السمطین فی فضائل المرتضی والزہراء والسبطین '' نیز دار قطنی کی کتاب ''مسند زہرا ء ''یا ''مناقب خوارزمی''مناقب مغازلی ، جواہر العقدین سمہودی ، تذکرة الخواص علامہ سبط ابن جوزی ،الفصول ا لمہمہ؛ابن صباغ مالکی، ذخائر العقبی، محب الدین طبری ،نور الابصار ،شبلنجی ،ینابیع المودة،حافظ سلیمان ابن قندوزی،کوکب دری ، ملا صالح کشفی اورامام جلال الدین سیوطی … وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جنھوں نے اہل بیت کے فضائل سے متعدد صفحات کو مزین فرما کر محبت اہل بیت کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ، ان کے علاوہ بہت سے علمائے اہل سنت ایسے ہیں جنھوں نے خصوصیت سے اس موضوع پر کتاب نہیں لکھی ہے لیکن اپنی کتابوں کے اندر دوسرے مباحث کے ساتھ فضائل اہل بیت کو نقل کیا ہے ،مثلاً صواعق محرقہ؛ ابن حجر ہیثمی ، مجمع الزوائد ، ہیثمی ،اور طبرانی کی تینوں کتابیں'' المعاجم'' اسی طرح مناوی کی کتاب'' کنوز الدقائق'' اور دیگر کتابیں……ان سب کتابوں میں اہل بیت کے فضائل نقل کئے گئے ہیں۔

قارئین کرام! زیر نظر کتاب'' احیاء ا لمیت بفضائل اہل بیت'' بھی اسی کوشش کا ایک سلسلہ ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام اہل سنت علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب کو لکھ کر پہل نہیں کی ہے بلکہ ان سے پہلے بھی علمائے اہل سنت اس موضوع سے متعلق متعددکتابیں لکھتے آئے ہیں ، جن سے آج بھی اسلامی کتب خانے پر ہیں ، البتہ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علامہ موصوف نے اپنے ذوق کے مطابق اہل بیت کے فضائل سے متعلق ٦٠ احادیث جمع کی ہیں،اور اس کتاب میں ان مدارک اور مآخذ پر اعتماد کیا ہے جو اہل سنت کے یہاں معتبر اور اصح مدرک مانے جاتے ہیں منجملہ:

صحاح ستہ اور سنن سعید بن منصور ،اسی طرح ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور محمد بن جریر طبری کی کتب تفاسیراو ر طبرانی کی معجم کبیر و معجم اوسط ونیز عبد ابن حمید ، ابن ابی شیبہ اور مسدد وغیرہ کی کتابیں یا ابن عدی کی اکلیل اور ابن حبان کی صحیح و بیہقی کی شعب الایمان ، حکیم ترمذی کی نوادر الاصول ،خلاصہ یہ کہ تاریخ ابن عساکر، تاریخ بخاری ، تاریخ بغداد خطیب ،افراد دیلمی ، حلیة الاولیاء ابو نعیم اور تاریخ حاکم ، ان سب کتابوں میں اہل بیت کے فضائل نقل ہوئے ہیں،بہر کیف اگرچہ علامہ کی یہ کتاب حجم کے لحاظ سے ایک کتابچہ ہے لیکن مدرک اور منابع کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے،البتہ اس کی بیسویں حدیث میں عمر ابن خطاب کے ساتھ بنت علی ـ کی تزویج کاجو بیان آیا ہے وہ جز ء حدیث نہ ہو نے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ اسے علمائے اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے رد کیا ہے، بہر حال علامہ جلال الدین سیوطی کا یہ رسالہ کئی مرتبہ چھپ چکا ہے ، لاہورپاکستان میں ١٨٩٣ ء میں چند رسا لوں کی ضمن میں چھپا(١)

..............

(١)قارئین کرام! جب یہ رسالہ ناچیز کے قلم سے ترجمہ ہوکرچھپنے کیلئے آمادہ تھا اس وقت ایک صاحب کے ذریعہ E

اسی طرح شہر فاس( مراقش) میں ١٣١٦ ھ میں چھپ چکا ہے، اور ایک مرتبہ جونپور ہندو ستان سے شائع ہوا، اسی طرح کتاب ''الاتحاف بحب الاشراف'' مؤلفہ عبد اﷲشبراوی، کے حاشیہ پر قاہرہ ١٣١٦ ہجری میں شائع ہوا ، پھر کتاب'' العقیلة الطاہرہ زینب بنت علی ''مؤلفہ احمد فہمی محمد، کے ساتھ ٢٣۔١٤ صفحات تک منظر عام پر آئی،لیکن افسوس کہ ان تمام ایڈیشنوںمیں اس کتاب کے بارے میں کوئی تحقیقی کام انجام نہیں دیا گیا تھا ، الحمد ﷲ شیخ محمد کاظم فتلاوی اورشیخ محمد سعید طریحی کی تحقیق و تصحیح کے بعد اب یہ کتاب اہل تحقیق کے لئے ایک دائرة المعارف کی حیثیت رکھتی ہے، آپ حضرات نے اس کے تمام اصلی اورمشابہ مدارک و منابع ذکر کرکے اس کتاب کی کمی کو دور کر دیا ہے ، نیز مناسب مقامات پر احادیث کے ناقلین کے مختصر حالات بھی قلمبند کردئے ہیں، بہر حال علامہ جلال الدین سیوطی کی یہ مختصر خدمت قابل قدر ہے ، اہل بیت کی شان والامیںآپ کے قلم سے اتنا ہی صفحہ قرطاس پر آجانا کافی اہمیت رکھتا ہے ۔

 

رسالہ کی تحقیق : شیخ محمد طریحی نے کتاب احیا ء ا لمیت کے جن نسخوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق کی ہے ان میں ایک نسخہ پیر محمد شاہ لائبریری گجرات ہندوستان میں موجود ہے ، اور دیگر نسخے جن کو مد نظر رکھتے ہوئے

تحقیق کی ہے وہ ظاہریہ لائبریری دمشق شام میں موجود ہیں ، ان میں سے پہلے نسخہ کااندراج نمبر

..............

علم حاصل ہوا کہ ا س کا اردو ترجمہ فخر المحققین جناب نجم الحسن کراروی کے ہاتھوں پچھتر سال پہلے شائع ہو چکا ہے ، چنانچہ اس اطلاع کے ملتے ہی بندے نے اس کی اشاعت کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس تک و دو میں لگ گیا کہ آیا موصوف کا ترجمہ کیسا ہے ؟ بڑی تلاش و جستجو کے بعد یہ ترجمہ دستیاب ہوا تو اس کو ملاحظہ کرنے کے بعد ا س بات کا اندزہ ہوا کہ مولانا موصوف نے اس میں صرف متن احادیث کا ترجمہ کیا ہے لیکن بندے نے جس کا ترجمہ کیا ہے اس میں شیخ محمد کاظم فتلاوی اورشیخ محمد سعید طریحی جیسے بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح بھی شامل ہے جو ہمارے ترجمہ کو علامہ نجم الحسن صاحب کے ترجمہ کے مقابلہ میں ممتاز کرتی ہے ، نیز اس کے مقدمہ میں عقد ام کلثوم کے افسانہ پر سیر حاصل تحقیقی و تنقیدی بحث بھی شامل کردی گئی ہے .

٥٢٩٦ ہے، اور جن رسالوں کے ساتھ یہ شائع ہوا ہے ان کے صفحہ ١١٨ سے ١٢١ تک یہ مرقوم ہے ، اس کو ابراہیم بن سلمان بن محمد بن عبد العزیز الحنفی نے لکھا ہے ، اس کی تاریخ اختتام ٤شعبان المعظم١٠٧٦ھ ہے ۔

دوسرا نسخہ ،اوردیگر رسائل جو(١٤٧١)صفحات پر مشتمل ہیں ان کے ساتھ ٨٤ سے ٩١ صفحہ تک مشتمل ہے ، اور ان کا ناسخ : عثمان بن محمود بن حامد ہیں، جس کی سال اشاعت : ١١٨١ ھ ہے ۔

شیخ فتلاو ی نے بھی انھیں دو نسخوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق فرمائی ہے جو ظاہریہ لائبریری میں موجود ہیں ۔ (١)

..............

(١)حق کے متلاشی حضرا ت کیلئے احیاء ا لمیت کا قدیم نسخہ جو ہندوستان اور دمشق شام سے چھپا ہے اس کی زیراکس کاپی اسی کتاب میں منسلک کردی گئی ہے . مترجم .

 

رسالہ کی وجہ تسمیہ : علامہ موصوف سے قبل کسی بھی شخص نے اہل بیت کے فضائل سے متعلق اس نام کا انتخاب نہیں کیا ہے ، لیکن اس کے بعد علامہ صدیق حسن بن حسن بخاری کنوجی (یو،پی)ہندی ( ١٢٤٨ ہجری۔١٣٠٧ ھ۔ ١٨٣٢ ء ١٨٨٩ ء ) نے : ''احیاء ا لمیت بذکر مناقب اہل البیت '' نامی کتاب لکھی جو ابھی تک نہیں چھپی ہے، بہرحال علمائے لغت نے لفظ میت (با تشدید وجزم ) کے معنی میں اختلا ف کیا ہے ،چنانچہ استاد صبحی البصام نے اس بارے میں چند اقوال ذکر کے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لفظ میت تشدید کے ساتھ ہو یا جزم کے ساتھ دونوں کے معنی ایک ہیں یعنی وہ شحص جو مر چکا ہو ، اسی قول کی تائید و تصدیق فراء ، خلیل اور ابوعمرو جیسے نحویوں کے قول سے بھی ہوتی ہے،لہٰذا اس نظریہ کے برخلاف صاحب'' القاموس'' اور صاحب'' تاج العروس'' کا قول صحیح نہیں ہے۔

 

٢۔ عقد ام کلثوم کا افسانہ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ جس قوم کی تاریخ صدیوں بعد لکھی جائے گی اس میں غلط واقعات، فرسودہ عقائد اور مہمل باتیں زر خرید راویوں کے حافظے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتے ہوتے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، کیونکہ ان حالات میں اکثر اصل واقعات نسخ ہو جاتے ہیں ، بلکہ اہل قلم کے کردار اور قلم کی رفتار پر وقتی مصلحتوں کی حکو مت ہوتی ہے، جس کی بنا پر ایسے ایسے افراد بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ،جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے مثلاً آپ علامہ جلال الدین سیوطی کو ہی لے لیجئے ، آپ کا علمائے اہل سنت کے محققین میں شمار ہوتا ہے، آپ نے نت نئے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ، لیکن جب بیسویں حدیث کہ جس میں حضرت عمر کی بنت علی ـ سے شادی کاتذکرہ ہواہے، نقل کیا ،تو بغیر کسی تنقید و تبصرہ کئے گزر گئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو قبول کرتے تھے ، جبکہ آپ نے اس رسالہ کو اہل بیت(ع) کے فضائل و مناقب میں لکھا ہے،لیکن اس بات سے غافل رہے ہیں کہ اس روایت سے خاندان رسالتمآب کی توہین ہوتی ہے ، چنانچہ اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے اسے رد فرمایا ہے، جیسے امام بیہقی ، دار قطنی اور ابن حجرمکی اپنی کتابوںمیں کہتے ہیں : یہ واقعہ غلط ہے ، کیونکہ حضرت علی نے اپنی صاحبزادیوں کو اپنے بھتیجوں سے منسوب کر رکھا تھا ، چنانچہ جب حضرت عمر ام کلثوم سے رشتہ لے کر گئے تو آپ نے کہا: ا ن کا رشتہ میں اپنے بھیتجوں سے طے کر چکا ہوں،یا امام ابن ماجہ اور ابن دائود کہتے ہیں: ام کلثوم دو تھیں ، ام کلثوم بنت راہب اور ام کلثوم بنت علی ان کی شادی محمد ابن جعفر طیار سے ہوئی ، اور ام کلثوم بنت راہب کے بارے میں تاریخ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ عمر کی زوجیت میں تھیں ۔

بہر کیف قارئین کی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس مسئلہ پر اختصار کے طور پر یہاں روشنی ڈالتے ہیں تاکہ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ علامہ جلال الدین سیوطی کی ذکر کردہ روایت کذب پر محمول ہے ،اورعلامہ اس سلسلے میں ایک بے سروپا افواہ کے شکار ہوئے ہیں :

جناب ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب ـ کی عمر ابن خطاب سے شادی کا ہونا یا پھر خلیفہ کی منگنی ہونا، اس سلسلہ میں متعدد اقوال پائے جاتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :

١۔ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی صاحبزادی نہیں تھیں بلکہ یہ ام کلثوم وہ ہیں جن کی حضرت نے پرورش کی تھی ۔

٢۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شادی انجام کونہیں پہونچی تھی بلکہ عمر نے صرف شادی کرنے کی خواہش کی تھی جسے حضرت علی نے قبول نہیں کیا ۔

٣۔ بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ عقد نکاح باقاعدہ ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی جس کی بنا پر عمر نا مراد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ۔

٤۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے راضی و خوشی کے ساتھ ام کلثوم کی شادی خلیفہ سے کردی تھی اوررخصتی بھی ہوگئی تھی ۔

٥ ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ـ نے خلیفہ کے جبر و اکرا ہ کی بناپر ام کلثوم کی شادی عمرکے ساتھ کر دی تھی ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے اقوال ہیں جو آیندہ مباحث کے ضمن میں آئیں گے۔

بعض اہل سنت بحث امامت میں اس واقعہ سے استدلال پیش کرتے ہیں کہ جناب ام کلثوم کی خلیفہ سے شادی ہونا اس با ت کو ظاہر کرتی ہے کہ امام علی ـ اور خلیفہ کے درمیا ن روابط بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور آپس میں کوئی رنجش نہیں تھی،بلکہ حضرت علی ـ حضر ت عمر کی خلافت کی تائید کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے عمر سے اپنی لڑکی بیاہ دی ، چنانچہ باقلانی نے اس واقعہ سے اسی بات کا استدلال کیا ہے !

 

مذکورہ واقعہ سے متعلق روایات جن وجوہات جن کی بناپر یہ مسئلہ پیچید ہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا وہ یہ ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت دونوں نے اس واقعہ کو اپنی حدیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ، البتہ اس واقعہ کو اہل سنت نے تفصیل اور بڑی شدو مدکے ساتھ نقل کیا ہے ،لیکن شیعوں نے اس کو یا تومجمل او رضعیف یا پھر اہل سنت سے حکایت یا الزام خصم کے طور پر نقل کیا ہے،جس سے بعض نا فہم اہل سنت کا دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوتا ،بہر حال ہم یہاں ان روایات کو نقل کرکے جن میں اس مسئلہ کا بیان ہوا ہے تحقیق کرتے ہیں:

١ ۔ ابن سعد کہتے ہیں : عمر ابن خطاب نے ام کلثوم بنت علی ـ سے اس وقت شادی کی جبکہ ابھی وہ بالغ بھی نہیں ہوئی تھیں ،اور شادی کے بعد وہ عمر کے پاس ہی تھیں کہ عمر کا قتل ہوگیا ، اور آپ کے بطن سے دو بچے زید اور رقیہ نام کے پیدا ہوئے ۔ (١)

٢۔ حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: عمر ابن خطاب ام کلثوم بنت علی سے شادی کرنے کی غرض سے حضرت علی ـ کے پاس آئے ، اور اپنی خواہش کو حضرت کے سامنے پیش کیا ،حضرت علی ـ نے کہا : میں نے اس کواپنے بھتیجے عبد اﷲ ابن جعفر سے منسوب کیا ہوا ہے ، عمر نے کہا :آپ کو اس کی شادی میرے ساتھ ہی کرنا ہوگی، چنانچہ حضرت علی ـ نے جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی ، اس کے بعد عمر مہاجرین کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم لوگ مجھے مبارک باد کیوںنہیں پیش کرتے ؟ سب نے پوچھا :کس بات کی مبارک بادی ؟ کہنے لگے : اس لئے کہ میں نے علی و فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم سے شادی کی ہے ،اور میں نے رسول ۖ سے سنا ہے کہ آپ

نے فرمایا: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی

..............

(١)طبقات ابن سعد ج٨ ، ص ٤٦٢.

لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔ (١)

٣۔ بیہقی اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: حضرت عمرسے جب جناب ام کلثوم سے نکاح ہوگیا تو عمر مہاجرین کے پاس آ کر اپنے لئے تبریک کے طالب ہوئے اس لئے کہ انھوں نے سن رکھا تھا کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا ہے: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول ۖ کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔ (٢)

اس واقعہ کو اہل سنت کے دیگر مؤرخین نے بھی اپنی کتابوںمیں لکھا ہے جیسے خطیب بغدادی ، ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ابن حجر عسقلانی۔(٣)

 

تمام روایتوں کی جانچ پڑتال ١) امام بخاری او رمسلم نے اپنی مشہور اور مہم کتابوں میں ان روایتوں کے ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے ، چنانچہ بہت سی روایات ایسی ہیں جنھیں ان کتابوں میں نقل نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف

قرار دیا گیاہے، لہٰذا اہل سنت کو ان روایات پر بھی غور کرنا ہوگا ۔

٢) جس طرح یہ حدیثیں صحاح ستہ میں نقل نہیں کی گئی ہیں ، اسی طرح یہ روایتیں اہل سنت کی دیگر مشہور کتابوں میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں جیسے مسند احمد بن حنبل ۔

 

ہر روایت کی جدا جدا سند کے لحا ظ سے چھان بین حاکم نیشاپوری نے اس واقعہ کو صحیح جانا ہے ، لیکن ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس کی سند کو

..............

(١) مستدرک حاکم جلد ٣ ، ص ١٤٢ .

(٢)بیہقی ؛ سنن کبری جلد ٧، ص ٦٣۔

(٣)تاریخ بغداد ، جلد ٦، ص ١٨٢۔ الاستیعاب ج ٤،ص ١٩٥٤۔ اسد الغابة جلد٥،ص ٦١٤۔ الاصابة جلد ٤، ص٤٩٢۔

منقطع قرار دیا ہے ، اسی طرح بیہقی نے اس کو مرسل کہا ہے ،نیز بیہقی نے دوسری سندوں کے ساتھ بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن یہ سب سندیں ضعیف ہیں ۔

ابن سعد نے بھی''الطبقات الکبری '' میں اس کی سند کو مرسل نقل کیا ہے ، اور ابن حجر نے اصابہ

میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم ہے ، لیکن اہل سنت کے اکثر علمائے رجال نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔(١)

اسی طرح اس سند میں عبد اﷲ بن وہب ہے جس کی تضعیف کی گئی ہے ۔ (٢)

ابن حجر کہتے ہیں:یہ روایت دوسری سند کے ساتھ بھی نقل کی گئی ہے حس میں عطا خراسانی ہے لیکن اس کو امام بخاری اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (٣)

خطیب بغدادی نے دوسری روایت جس سند کے ساتھ نقل کی ہے اس میں احمد بن حسین صوفی ، عقبہ بن عامر جہنی اور ابراہیم بن مہران مروزی نظر آتے ہیں ان میں سے پہلے راوی کیلئے صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یہ ضعیف ہے ، اور دوسرا راوی معاویہ کے لشکریوں میں سے تھا، اور تیسرا مہمل ہے ، اس تفصیل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان روایتوں میں سے کوئی بھی روایت معتبر سند نہیں رکھتی ۔

..............

(١) عقیلی ؛ الضعفاء ج ٢، ص ٣٣١ ۔ ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج ٧، ص ١٥٨١۔

(٢) ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج٥، ص٣٣٧۔

(٣)الکامل ج ٧ ، ص ٦٩ ۔

 

 

متون احادیث کی تفتیش

 

متون احادیث کی تفتیش مختلف احادیث کے متون ملاحظہ کرنے کے بعد قابل اعتراض چند باتیں ظاہر ہوتی ہیں :

 

١۔ڈرانا اور دھمکانا بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خواستگاری تہدید کے ساتھ تھی ۔

ابن سعد نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے عمر کے جواب میں فرمایا وہ ایک چھوٹی لڑکی ہے ،

لیکن عمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم آپ کو حق نہیں کہ مجھے اس کام سے روکیں ، میں اس کو جانتا ہوں کیوں نہیں تم اس کومیرے نکاح میں لاتے ؟ (١)

ابن مغازلی عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عمر نے کہا: قسم خدا کی مجھے اس شادی کے اصرار پر

کسی نے مجبور نہیں کیا مگر اس بنا پر کہ میں نے رسول ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا…۔(٢)

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام نے بہت زیادہ اصرار کرنے پرا س کام کو مجبوراً انجام دیا ۔

 

٢۔ متن حدیث میں اضطراب و تزلزل عقد ام کلثوم کے بارے میں جتنی روایتیں نقل کی گئی ہیں وہ اپنے متن اورمضمون کے لحاظ سے مضطرب و متزلزل نظر آتی ہیں ، اور یہ اضطراب و تزلزل ایسا ہے جو ان کو حجت اورمعتبر ہونے سے ساقط کررہا ہے ، مثلاً بعض روایتوں میں اس طرح وارد ہوا ہے: حضرت علی ـ خود اس عقد نکاح کے متولی تھے اور بعض میں آیا ہے کہ اس عقد کی ذمہ داری عباس کی حوالے تھی، اسی طرح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ یہ عقد ڈرا اور دھمکا کے کیا گیا ، بعض میں ہے کہ امیر المومنین اس پر راضی تھے ، اسی طرح بعض روایتوں میں ہے کہ عمر ان سے بچہ دار بھی ہوئے، ان میں سے ایک بچہ کا نام زید تھا، بعض کہتے ہیں کہ عمر مباشرت کرنے سے پہلے ہی مر گئے تھے ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ زید بن عمر نے اپنے بعد اپنی نسل بھی چھوڑی ، بعض روایتوں میں آیا ے کہ زید بن عمر نے کوئی نسل نہیں چھوڑی ، بعض کہتے ہیں کہ زید اور ان کی ماں ماردئے گئے تھے ، بعض میں ہے کہ زید کے مرنے کے بعد ان کی ماں زندہ تھیں ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ عمر نے اس شادی میں چالیس ہزار درہم مہررکھا تھا ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چار ہزار درہم تھا …… ۔!!

اس کثرت سے روایتوں میں اختلاف کا پایا جانا ان کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

..............

(١)طبقات ابن سعد ج ٨، ص ٤٦٤ ۔

(٢)مناقب امام علی ص ١١٠۔

 

٣۔حضرت ام کلثوم اور عمر کے سن میں تناسب نہیں تھا فقہاء حضرات بحث نکاح میں زوجین کا آپس میں کفو ہونا شرط جانتے ہیں چنانچہ اس چیز کو مد نظررکھتے ہوئے عمر اور ام کلثوم کے سن میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے ، کیونکہ ٩ ھ میں

جناب ام کلثوم پیدا ہوئیں، اس طرح ان کی عمر ١٧ ہجری میں آٹھ یا نو برس ہوتی ہے جبکہ حضرت عمر

اس وقت ستاون سال کے ہو رہے تھے، چنانچہ ابن سعد کہتے ہیں : علی ـ نے عمر سے کہا میری لڑکی ابھی صغیرہ ہے ، (بعض روایتوں میں صبیہ کی لفظ آئی ہے ، جس کے معنی وہ بچی جو بہت چھوٹی ہو) (١)کیا حضرت علی ـ کو ام کلثوم کیلئے کوئی رشتہ دستیاب نہیں ہورہا تھا کہ ستاون سال کے بڈھے سے کردیا ؟!

 

٤۔ یہ ام کلثوم حضرت ابوبکر کی بیٹی تھی بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی ایک لڑکی کا نام ام کلثوم تھا عمر نے اس سے شادی کرنے کی درخواست کی تھی جسے قبول کرلیا گیا تھا ، چونکہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی بچی کا نام بھی تھا لہٰذا نام کی مشابہ ہونے کی وجہ سے بعض نافہم لوگوں نے اسے ام کلثوم بنت علی کی طرف منسوب کردیا ، چنانچہ ابن قتیبہ معارف میں لکھتے ہیں : جب عمر ام کلثوم بنت ا بی بکر سے شادی کرنے کی

درخواست عائشہ کی پاس لے کر گئے تو عائشہ نے اسے قبول کرلیا،لیکن ام کلثوم عمر کو پسند نہیں کرتی تھیں۔(٢)

حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عائشہ اورحضرت عمر کے درمیان وسیع تعلقات کا قائم ہونااس احتمال کے قوی ہونے پر مزید دلالت کرتا ہے۔

عمر ی موصلی اور عمر رضا کحالہ نے بھی اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔(٣)

..............

(١)طبقات ابن سعد ج ٦ ،ص ٣١٢ ۔

(٢)ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ١٧٥۔

(٣)عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص ٣٠٣۔ عمر رضا کحا لہ؛ اعلام النساء ج ٤ ،ص ٢٥٠۔

 

٥۔ جرول کی بیٹی ام کلثوم بعض مؤرخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی جانا ہے ، لہٰذا اسم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ام کلثوم بنت علی لکھ دیا گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہیں : زید اصغر اور عبیداﷲ(جو جنگ

صفین میں معاویہ کے ساتھ مارے گئے) کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسلام نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ (١)

اکثر مؤرخین ام کلثوم بنت جرول اور عمر کے درمیان شادی زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔(٢)

 

٦۔ام کلثوم بنت عقبہ ابن معیط بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔

 

٧۔ ام کلثوم بنت عاصم بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عاصم تھی ۔

 

٨۔ام کلثوم بنت راہب امام ابن ماجہ اور ابن دائود کے قو ل کے مطابق عمر کی شادی انھیں سے ہوئی تھی۔

 

٩۔عقد ام کلثوم شرعی معیارسے منافات رکھتاہے عقد ام کلثوم سے متعلق روایات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یا عمر شرعی مسائل سے بے خبر تھے یا پھر یہ واقعہ ہی جعلی اور گڑھا ہوا ہے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ قبل اس کے کہ عمرحضرت علی ـ سے ام کلثوم سے شادی کی درخواست کرتے حضرت نے ام کلثوم سے کہا : جاؤ اپنی زینت کرو اور خوب سج دھج کر آؤ ، جب وہ اپنا سنگار کرکے آئیں تو آپ نے ان کوعمر کے پاس بھیج دیا جب عمر نے ان کو دیکھا تو ان کی طرف لپکے اور اپنے ہاتھوں سے ان کی پنڈلیاں کھول دیں! اور کہنے

..............

(١)تاریخ طبری ج ٣، ص ٢٦٩، کامل ابن اثیر ج ٣، ص ٢٨۔

(٢)الاعصابہ ج ٤، ص ٤٩١۔ صفوة الصفوة ص ١١٦۔ تاریخ المدینہ المنورة ج٢، ص ٦٥٩۔

 

لگے : اپنے بابا سے کہو میں راضی ہوں ، جب ام کلثوم حضرت علی ـ کے پاس آئیں توآپ نے کہا: عمر

نے کیا کہا؟ کہنے لگیں : جب عمر نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف بلایا، اور جب میں ان کے نزدیک گئی تو میرے بوسے لینے لگے اور جب کھڑی ہوگئی تو میری پنڈلیا ں پکڑ لیں !

لا حول ولا قوة الا باﷲ ،اگر اس روایت کی تنقید کرنا مقصود نہ ہوتی تو ہم ہرگز ایسی رکیک اور توہین آمیز روایت نقل نہ کرتے، یہ واقعہ حضرت امیر المومنین ـ کی غیرت سے بالکل سازگاری نہیں رکھتا ، حضرت علی شادی سے پہلے کیسے اپنی لڑکی کا ہاتھ ایسے شخص کے حوالے کردیں گے جو شرعی حدود کی رعایت کرناجانتا ہی نہ ہو،اسی وجہ سے سبط ابن جوزی اس واقعہ کو اپنے جد صاحب''المنتظم'' سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : یہ واقعہ بہت قبیح ہے ،اگرچہ میرے جد اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے شادی سے پہلے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھ لیں لیکن عمر نے اس کو دیکھا تو اسکی شلوار کو اٹھاکر اس کی پنڈلیاں ہاتھوں سے مس کرنے لگے ، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ام کلثوم کے علاوہ کوئی کنیز بھی ہوتی تب بھی خدا کی قسم یہ عمل قبیح اور خلاف شرع تھا ،کیونکہ تمام مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ غیر محرم عورت کامس کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ، اور وہ بھی عمر ایسا کام کریں !!(١)

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب ام کلثوم نے یہ کام کرتے دیکھا تو بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں :اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو میں تیری ناک توڑ دیتی، اس وقت خلیفہ کے گھر سے باہر نکلیں اور اپنے باپ کے پاس آگئیں ، اور سارا ماجرہ بیان کیا اور کہنے لگیں: اے بابا جان آپ نے کس پست اور بد تمیز بڈھے کے پاس بھیج دیا تھا؟(٢)

 

١٠۔ یہ ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا نہیں اہل سنت والجماعت اس بات پر شدت سے اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا

..............

(١)سبط ابن جوزی ؛ تذکرة الخواص ، ص ٢٨٨ ۔

(٢)اسد الغابة ج ٥، ص ٦١٤ ۔ الاصابة ج ٤، ص ٤٩٢ ۔ ذ ہبی؛تاریخ الاسلام ج ٤ ،ص ١٣٨ ۔

 

کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خدا ۖسے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دو

لڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)

ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔ (٢)

نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)

..............

(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔

(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔

(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔

 

نتیجہ: اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:

١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولۖ کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولۖ نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟

٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں

کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟

٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق

تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟

٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولۖ کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!

٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !

البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمۖ کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔

٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔

ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔

٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟

 

 

٣۔مؤلف کا مختصر تعارف

علامہ جلال الدین سیوطی کی شخصیت اہل علم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے لیکن عوام الناس کے فائدہ کومد نظر رکھتے ہوئے آپ کے حالات زندگی کو اختصار کے طور پر یہاں تحریر کیا جاتا ہے :

علامہ جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن عثمان سیوطی شافعی ،یکم رجب المرجب بروز یکشنبہ ٨٤٩ ہجری، شہر اسیوط مصر میں پیدا ہوئے ، ابھی آپ کا سن پانچ سال بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا ، آپ پچپن سے ہی علم دین پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اور آٹھ سال ہونے تک قرآن کریم اور دیگر درسی رائج متون کو حفظ کرلیا، اور ٨٦٤ ہجری کے ابتداء تک قانونی حیثیت سے اچھے اور مایہ ناز طالب علم کی حیثیت سے شمار کیا جانے لگا ، آپ نے فقہ ، نحو ، اصول اور دیگر اسلامی علوم پر کافی دست رسی حاصل کی،اور اس وقت کے پچاس سے زیادہ بزرگ علماء سے کسب فیض کیا ،اور ٨٦٦ ہجری میں آپ نے اپنے علم کا کتابی شکل میں مظاہرہ کیا ،اور ٨٧١ ہجری میںمقام افتاء پر قدم رکھا ، اور ٨٧٢ ہجری سے املاء حدیث کی مجلس ترتیب دی ،آپ نے تلاش علم میں شام ، حجاز ، یمن ، ہند وستان اور مغرب متعدد سفر کئے ، اور یہاں کے علماء سے علمی مذاکرہ کیا ، علامہ موصوف نے تفسیر ، حدیث ، فقہ ، نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، اصول فقہ، قرائت ، تاریخ ، اور طب جیسے موضوعات سے متعلق مختلف کتابیں تحریر کیں ،جوآج بھی مرجع خاص و عام ہیں،لہٰذا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی زحمت کش اور قوی حافظہ کے مالک تھے چنانچہ آپ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو لاکھ حدیثیں حفظ کیں ہیںاور اگر اس سے زیادہ میسور ہوتیں تو ان کو بھی حفظ کر لیتا ،آپ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ حدیثیں اس وقت روئے زمین پر موصوف کی اطلاع میں نہ تھیں،آپ کی چھوٹی اور بڑی کتابوں کو ملا کر تقریباً ٥٠٠ کتابیں ہوتی ہیں ، آپ نہایت برد بار ، پاکیزہ نفس اور پرہیزگارانسان سے تھے، ہمیشہ حکام وقت سے ملنے سے کتراتے اور ان کے تحائف اکثر ردکردیا کرتے تھے ، عمر کے آخری حصہ میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک کرکے پروردگار کی عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی،آخر کار بروز پنجشنبہ ٩١١ ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا ،اور شہر خوش قوصون کے اطراف میں دفن کردیا گیا۔ (١)

علامہ جلال الدین سیوطی کو جن وجوہات کی بنا پر آج تک یاد کیا جاتا ہے وہ ان کی وسعت تالیف و تصنیف ہے، علامہ ابن حماد حنبلی لکھتے ہیں : علامہ سیوطی کی تصانیف و تالیفات خود ان کے زمانہ میں شرق و غرب میں پھیل چکی تھیں ۔(٢)چنانچہ علامہ سیوطی کے وفادرارشاگرد دائودی لکھتے ہیں : ان کی تالیفات کی تعداد پانچ سو تک پہنچتی ہے ۔

علامہ سیوطی نہ صرف یہ کہ وسعت تالیف کے مالک تھے بلکہ آپ کی تالیفات میں دقت نظر بھی پائی جاتی ہے،بہر کیف یہاں پر ہم علامہ کی ان کتابوں کی ایک فہرست نقل کرتے ہیں جو ہماری دست رس میں تھیں :

١- الاتقان فی علوم القرآن ٢- مسالک الحنفاء فی اسلام والدی المصطفیۖ ٣- نشر العالمین فی اخبار الابوین الشریفین ٤-العرف الوردی فی اخبار المہدی ٥- احیاء المیت بفضائل اہل البیت ٦- تفسیر الدرالمنثور

٧-تفسیرالجلالین ٨- تلخیص البیان فی علامات المہدی صاحب الزمان

..............

(١) شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ؛ ابن حماد حنبلی۔معجم المصنفین ؛ عمر رضا کحالہ .

(٢)شذرات الذہب.

٩-الثغور الباسمہ فی مناقب فاطمہ ( س) ١٠- تاریخ الخلفاء ١١- اللئالی المصنوعة فی احادیث الموضوعة ١٢- المرقاة العلیة فی شرح الاسماء النبویة ١٣- الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة (یسمی ایضاً التعظیم فی ان ابویۖ فی الجنة) ١٤- العجاجة الزرنبیة فی السلالة الزینبیة(س) ١٥- الخصائص والمعجزات النبویة ١٦- قطف ثمر فی موافقات عمر ١٧- ابواب السعادة فی اسباب الشہادة ١٨- الآیة الکبری فی شرح قصة الاسراء ١٩- بلوغ المامول فی خدمة الرسول ٢٠-تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ٢١- اتمام النعمة فی اختصاص الاسلام بہٰذہ الامة ٢٢-القول الجلی فی حدیث الولی٢٣ - الاحادیث المنیفة ٢٤- احاسن الاقتباس فی محاسن الاقتباس ٢٥- الاحتفال بالاطفال ٢٦- الاخبار الماثورة فی الاطلاء بالنورة ٢٧- اخبار الملائکة ٢٨- الاخبار المرویة فی سبب وضع العربیة ٢٩-آداب الملوک ٣٠- ادب الفتیاء ٣١- اذکار الاذکار ٣٢ -الاذکار فی ماعقدہ الشعراء من الآثار ٣٣- اربعون حدیثاً فی فضل الجہاد ٣٤ -اربعون حدیثاً فی ورقة ٣٥-اربعون حدیثاً من روایة مالک عن نافع عن ابن عمر ٣٦-الارج فی الفرج ٣٧ -الارج المسکی ٣٨- ازالة الوہن عن مسئلة الرہن ٣٩ -ازہار الاکام فی اخبار الاحکام ٤٠- الازہار الغضة فی حواشی الروضة ٤١- الازہار الفائحة علی الفاتحة ٤٢- الازہار المتناثرة فی الاخبار المتواترة ٤٣- الاساس فی مناقب بنی عباس ٤٤- الاسئلة المائة ٤٥- الاسئلة الوزیریة و اجوبتہا ٤٦ - اسعاف المبطاء برجال الموطاء ٤٧- الاشباہ والنظائر الفقہیة ٤٨-الاشباہ والنظائر النحویة ٤٩- اطراف الاشراف بالاشراف علی الاطراف ٥٠- اعذب المناہل فی حدیث من قال انا عالم فہو جاہل ٥١- اعمال الفکر فی فضل الذکر ٥٢- الافصاح ٥٣ -الاقتراح فی اصول النحوو جدلہ ٥٤- الاقتناص فی مسئلة النماص ٥٥- اکام المرجان فی احکام الجان ٥٦- الاکلیل فی استنباط التنزیل ٥٧ -الالفاظ المعرّبة ٥٨- الالفیة فی القرائت العشر ٥٩ -الالفیة فی مصطلح الحدیث ٦٠- القام الحجر لمن ذکی ساب ابی بکر و عمر ٦١- انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء ٦٢- الانصاف فی تمییز الاوقاف ٦٣- انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ٦٤- الویة النصر فی خصیصی بالقصر ٦٥- الاوج فی خبر عوج ٦٦- اتحاف الفرقہ برفوالخرقہ ٦٧ -البارع فی اقطاع الشارع ٦٨- بدائع الزہور فی وقائع الدہور ٦٩- البدر الّذی انجلی فی مسئلة الولا ٧٠- البدور السافرة عن امور الاخرة ٧١- البدیعة ٧٢- بذل الہمة فی طلب برائة الذمة ٧٣- البرق الوامض فی شرح تائیة ابن الفارض ٧٤- بزوغ الہلال فی الخصال الموجبة الظلال ٧٥- بسط الکف فی اتمام الصف ٧٦ - بشری الکئیب فی لقاء الحبیب ٧٧ -بغیة الرائد فی الذیل علی مجمع الزوائد ٧٨- بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة ٧٩- بلغة المحتاج فی مناسک الحاج ٨٠- اتحاف النبلاء فی اخبارالفضلاء ٨١ -البہجة المرضیة فی شرح الالفیة ٨٢ -التاج فی اعراب مشکل المنہاج ٨٣ -تاریخ سیوط ٨٤- تاریخ العمر ٨٥- تارخ مصر ٨٦- تایید الحقیقة العلیة و تشیید الطریقة الشاذلیة ٨٧- تبییض الصحیفة ٨٨- تجرید العنایة فی تخریج احادیث الکفایة ٨٩ -تجزیل المواہب فی اختلاف المذاہب ٩٠- التحبیر لعلم التفسیر ٩١- التحدث بنعمة اﷲ ٩٢- تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ٩٣- تحفة الانجاب بمسئلة السنجاب ٩٤- تحفة الجلساء برؤیة اﷲ للنساء ٩٥ -تحفة الحبیب ٩٦- تحفة الظرفاء باسماء الخلفاء ٩٧ -تحفة الکرام باخبار الاہرام ٩٨ -تحفة المجالس و نزہة المجالس ٩٩- تحفة المذاکر فی المنتہی من تاریخ ابن عساکر ١٠٠-تحفة النابة بتلخیص المتشابة ١٠١-تحفة الناسک ١٠٢-التخبیر فی علم التفسیر ١٠٣ -تخریج احادیث الدرة الفاخرة ١٠٤ -تخریج احادیث شرح العقائد ١٠٥- تذکرة المؤتسی بمن حدث و نسی ١٠٦ -اتمام الدرایہ لقراء النقایہ ١٠٧ - التذنیب فی الروایة علی التقریب ١٠٨- ترجمان القرآن ١٠٩- ترجمة البلقینی ١١٠- ترجمة النووی ١١١ -تزیین الارائک فی ارسال النبی ۖ الی الملائک ١١٢- تشنیف الاسماع بمسائل الاجماع ١١٣ -تشیید الارکان من لیس فی الامکان ابدع مما کان ١١٤ -تعریف الاعجم بحروف المعجم ١١٥ -التعریف باداب التالیف ١١٦ -تعریف الفئة اجوبة الاسئلة المائة ١١٧ -التعقیبات ١١٨ -التفسیر المأثور ١١٩-تقریب الغریب ٠ ١٢ -تقریر الاستناد فی تیسیر الاجتہاد ١٢١ -تمہید الفرش فی الخصال الموجبة لظل العرش ١٢٢- تناسق الدرر فی تناسب السو ر ٣ ١٢- تنبیہ الواقف علی شرط الواقف ١٢٤ -تنزیہ الاعتقاد عن الحلول والاتحاد ١٢٥- تنزیہ الانبیاء عن تسفیہ الاغبیاء ١٢٦ -التنفیس فی الاعتذار عن الفتیا ء والتدریس ١٢٧ -تنویر الحلک فی امکان رؤیة النبی والملک ١٢٨ -تنویر الحوالک فی شرح موطاء الامام مالک ١٢٩ -التوشیح علی التوضیح ١٣٠- التوشیح علی الجامع الصحیح ١٣١- توضیح المدرک فی تصحیح المستدرک ١٣٢ -ثلج الفؤاد فی احادیث لبس السواد ١٣٤ -الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر ١٣٥ -الجامع الکبیر ١٣٦ -الجامع فی الفرائض ١٣٧- جزء فی اسماء المدلسین ١٣٨- جزء فی الصلاة ١٣٩- جزء فی صلاة الضحی ١٤٠- الجمانة ١٤١ - الجمع والتفریق فی الانواع البدیعة ١٤٢ -جمع الجوامع ١٤٣ -الجواب الجزم عن حدیث التکبیر جزم ١٤٤- الجواب الحاتم عن سؤال الخاتم ١٤٥ -الجواہر فی علم التفسیر ١٤٦-الجہر بمنع البروز علی شاطیٔ النہر ١٤٧- حاطب اللیل و حارف سیل ١٤٨ -حاشیة علی شرح الشذور ١٤٩ -حاشیة علی القطیعة للا سنوی ١٥٠ -حاشیة علی المختصر ١٥١- الحاوی للفتاوی ١٥٢- الحجج المبینة فی التفضیل بین مکة والمدینة ١٥٣ -حسن التعریف فی عدم التحلیف ١٥٤ -حسن التسلیک فی عدم التشبیک ١٥٥ -حسن المحاضرة فی اخبار مصر والقاہرة ١٥٦ -حسن المقصد فی عمل المولد ١٥٧-لحصر والاشاعة فی اشراط الساعة ١٥٨- الحظ الوافر من المغنم فی استدراک الکافر اذا اسلم ١٥٩ - حلبة الاولیاء ١٦٠- حمائل الزہر فی فضائل السور ١٦١ -الحواشی الصغری ١٦٢- الخبر الدال علی وجود القطب والاوتاد والنجباء والابدال ١٦٣-الخلاصة فی نظم الروضة ١٦٤۔خصائص یوم الجمعة ١٦٥ -الدراری فی ابناء السراری ١٦٦ -در التاج فی اعراب مشکل المنہاج ١٦٧-در السحابة فیمن دخل مصر من الصحابة ١٦٨ -الدرر المنتشرة فی الاحادیث المشتہرة ١٦٩- الدر المنثور فی التفسیر المأثور ١٧٠ -الدر المنظم فی الاسم الاعظم ١٧١- الدر النثیر فی تلخیص نہایة ابن الاثیر ١٧٢- درج المعالی فی نصرة الغزالی علی المنکر المتعالی ١٧٣- الدرج المنیفة ١٧٤ درر البحار فی احادیث القصار ١٧٥ -درر الحکم و غررالکلم ١٧٦ -الدرة التاجیة علی الاسئلة الناجیة ١٧٧ -دفع التعسف عن اخوة یوسف ١٧٨ -دقائق الملحة ١٧٩- الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج ١٨٠- دیوان الحیوان ١٨١ -دیوان خطب ١٨٢- دیوان شعر ١٨٣-ذکر التشنیع فی مسئلة التسمیع ١٨٤- ذم زیارة الامراء ١٨٥- ذم القضاء ١٨٦ -ذم المکس ١٨٧-الذیل الممہد علی القول المسدد ١٨٨- الرحلة الدمیاطیة ١٨٩- الرحلة الفیومیة ١٩٠- الرحلةالمکیة ١٩١-رسالة فی النعال الشریفة ١٩٢-رشف الزلال ١٩٣- رفع الباس عن بنی العباس ١٩٤ -رفع الخدر عن قطع السدر ١٩٥ -رفع الخصاصة فی شرح الخلاصة ١٩٦ -رفع السنة فی نصب الزنة ١٩٧ -رفع شان الحبشان ١٩٨-رفع الصوت بذبح الموت ١٩٩ -رفع اللباس و کشف الالتباس فی ضرب المثل من القرآن والالتماس ٢٠٠-رفع منار الدین و ہدم بناء المفسدین ٢٠١- رفع الید فی الدعا ٢٠٢- الروض الاریض فی طہر المحیض ٢٠٣- الروض المکلل والورد المعلل فی المصطلح ٢٠٤ -الریاض الانیفة فی شرح اسماء خیر الخلیقة ٢٠٥-الزجاجة فی شرح سنن ابن ماجة ٢٠٦- الزند الوری فی الجواب عن السئوال الاسکندریہ ٢٠٧- الزہر الباسم فیما یزوج فیہ الحاکم ٢٠٨- زہر الربی فی شرح المجتبی ٢٠٩- زوائد الرجال علی تہذیب الکمال ٢١٠ -زوائد شعب الایمان للبیہقی ٢١١ -زوائد نوادر الاصول للحکیم الترمذی ٢١٢ -زیادات الجامع الصغیر ٢١٣ -السبل الجلیة ٢١٤- السلاف فی التفضیل بین الصلاة والطواف ٢١٥ -السلالة فی تحقیق المقر والاستحالة ٢١٦- السماح فی اخبار الرماح ٢١٧ -السیف الصیقل فی حواشی ابن عقیل ٢١٨- السیف النطار فی الفرق بین الثبوت والتکرار ٢١٩-شد الاثواب فی سد الابواب ٢٢٠- شد الرحال فی ضبط الرجال ٢٢١ -شذ العرف فی اثبات المعنی للحرف ٢٢٢- شرح ابیات تلخیص المفتاح ٢٢٣ -شرح الاستعاذة والبسملة ٢٢٤ -شرح البدیعة ٢٢٥ -شرح التدریب ٢٢٦- شرح التنبیہ ٢٢٧- شرح الرجبیة فی الفرائض ٢٢٨- شرح الروض ٢٢٩ -شرح الشاطبیة ٢٣٠ -شرح شواہد المغنی ٢٣١- شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور ٢٣٢ -شرح ضروری التصریف ٢٣٣- شرح عقود الجمان ٢٣٤ -شرح الکافیة فی التصریف ٢٣٥- شرح الکوکب الساطع ٢٣٦- شرح الکوکب الوقاد فی الاعتقاد ٢٣٧- شرح لغة الاشراف فی الاسعاف ٢٣٨- شرح الملحة ٢٣٩ -شرح النقایة ٢٤٠ -شرح بانت سعاد ٢٤١ -شرح تصریف العزی ٢٤٢- الشماریخ فی علم التاریخ ٢٤٣ -الشمعة المضیئة ٢٤٤- شوارد الفوائد ٢٤٥- الشہد ٢٤٦ -صون المنطق والکلام عن فنی المنطق والکلام ٢٤٧- ضوء الشمعة فی عدد الجمعة ٢٤٨ -ضوء الصباح فی لغات النکاح ٢٤٩ -الطب النبوی ٢٥٠ -طبقات الاصولیین ٢٥١- طبقات الحفاظ ٢٥٢- طبقات شعراء العرب ٢٥٣- طبقات الکتاب ٢٥٤ -طبقات المفسرین ٢٥٥ -طبقات النحاة الصغری ٢٥٦- طبقات النحاة الوسطی ٢٥٧ -طلوع الثریا باظہار ماکان خفیا ٢٥٨ طی اللسان عن ذم الطیلسان ٢٥٩ الظفر بقلم الظفر ٢٦٠ -العاذب السلسل فی تصحیح الخلاف المرسل ٢٦١- العشاریات ٢٦٢- عقود الجمان فی المعانی والبیان ٢٦٣ -عقود الزبرجد علی مسند الامام احمد ٢٦٤- عین الاصابة فی معرفة الصحابة ٢٦٥ -غایة الاحسان فی خلق الانسان ٢٦٦ -الغنیة فی مختصر الروضة ٢٦٧- فتح الجلیل للعبد الذلیل فی الانواع البدیعیة المستخرجة من قولہ تعالی: ''ولی الذین آمنوا'' ٦٨ ٢- الفتح القریب علی مغنی اللبیب ٢٦٩- فتح المطلب المبرور و برد الکبد المحرور فی الجواب عن الاسئلة الواردة من التکرور ٢٧٠ - فتح المغالق من انت تالق ٢٧١-فجر الثمد فی اعراب اکمل الحمد ٢٧٢ -فصل الحدة ٢٧٣ -فصل الخطاب فی قتل الکلاب ٢٧٤ -فصل الشتاء ٢٧٦ -فصل الکلام فی حکم السلام ٢٧٧- فصل الکلام فی ذم الکلام ٢٧٨ -فضل موت الاولاد ٢٧٩ -فلق الصباح فی تخریج احادیث الصحاح (یعنی صحاح اللغة للجوہری) ٢٨٠ -الفوائد المتکاثرة فی الاخبار المتواترة ٢٨١ -فہرست المرویات ٢٨٢ -قدح الزند فی السلم فی القند ٢٨٣ -القذاذة فی تحقیق محل الاستعاذة ٢٨٤ -قصیدة رائیة ٢٨٥-قطر النداء فی ورود الہمزة للنداء ٢٨٦ -قطع المجادلة عند تغییر المعاملة ٢٨٧ -قطف الازہار فی کشف الاسرار ٢٨٨- قلائد الفوائد ٢٨٩- القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ٢٩٠ -الجوبة الزکیہ عن الالغاز السبکیة ٢٩١- القول الحسن فی الذب عن السنن ٢٩٢ -القول الفصیح فی تعیین الذبیح ٢٩٣ -القول المجمل فی الرد علی المہمل ٢٩٤ -القول المشرق فی تحریم الاشتغال بالمنطق ٢٩٥- القول المشید فی الوقف المؤبد ٢٩٦-القول المضی فی الحنث فی المضی ٢٩٧ -الکافی فی زوائد المہذب علی الوافی ٢٩٨- الکاوی علی السخاوی ٢٩٩- کتاب الاعلام بحکم عیسی علیہ السلام ٣٠٠- کشف التلبیس عن قلب اہل التدلیس ٣٠١ -کشف الریب عن الجیب ٣٠٢ -کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة ٣٠٣ -کشف الضبابہ فی مسألة الاستنابة ٣٠٤ -کشف المغطاء فی شرح الموطا ء ٣٠٥- کشف النقاب عن الالقاب ٣٠٦ -الکشف عن مجاوزة ہٰذہ الامة ٧ ٣٠ -الکوکب الساطع فی نظم جمع الجوامع ٣٠٨-الکلام علی اول الفتح ٣٠٩- الکلام علی حدیث ابن عباس احفظ اﷲ یحفظک ٣١٠- الکلم الطیب والقول المختار فی المأثورة من الدعوات والاذکار ٣١١- لباب النقول فی اسباب النزول ٣١٢- لب اللباب فی تحریر الانساب ٣١٣- لبس الیلب فی الجواب عن ایراد الحلب ٣١٤ -لم الاطراف و ضم الاتراف ٣١٥ -اللمع فی اسماء من وضع الاربعون المتباینة ٣١٦ -اللمعة فی تحریر الرکعة لادراک الجمعة ٣١٧ -اللوامع والبوارق فی الجوامع والفوارق ٣١٨ -ما رواہ الواعون فی اخبار الطاعون ٣١٩ -المباحث الزکیة فی المسألة الدورکیة ٣٢٠ -مجمع البحرین و مطلع البدرین فی التفسیر ٣٢١ -مختصر الاحکام السلطانیة للماوردی ٣٢٢ -مختصر الاحیاء ٣٢٣- مختصر الالفیة ٣٢٤ -مختصر تہذیب الاحکام ٣٢٥ -مختصر تہذیب الاسماء ٣٢٦- مختصر شرح ابیات تلخیص المفتاح ٣٢٧- مختصر شفاء الغلیل فی الذم الصاحب والخلیل ٣٢٨- مختصر معجم البلدان ٣٢٩ -مختصر الملحة ٣٣٠ -المدرج الی المدرج ٣٣١- مذل العسجد لسوال المسجد ٣٣٢- مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع ٣٣٣ مرقاة الصعود الی سنن ابی داؤد ٣٣٤ -مسألة ضربی زیداً قائما ٣٣٥ -المستظرفة فی احکام دخول الحشفة ٣٣٦- المسلسلات الکبری ٣٣٧ -المصاعد العلیة فی قواعد النحویة ٣٣٨- المصابیح فی صلاة التراویح ٣٣٩-مطلع البدرین فیمن یوتی اجرین ٣٤٠- المعانی الدقیقة فی ادراک الحقیقة ٣٤١ -معترک الاقران فی مشترک القرآن ٣٤٢ -مفاتح الغیب فی التفسیر ٣٤٣- مفتاح الجنة فی الاعتصام بالکتاب والسنة ٣٤٤ مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن ٣٤٥ -المقامات ٣٤٦ -مقاطع الحجاز ٣٤٧- الملتقط من الدرر الکامنة ٣٤٨- مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا ٣٤٩ -المنتقی ٣٥٠- منتہی الامال فی شرح حدیث '' انما الاعمال …'' ٣٥١- المنجلی فی تطور الولی ٣٥٢- المنحة فی السبحة ٣٥٣- من عاش من الصحابة مأة و عشرین ٣٥٤ من وافقت کنیتہ زوجتہ من الصحابة ٣٥٥ -منہاج السنة و مفتاح الجنة ٣٥٦ -المنی فی الکنی ٣٥٧ -المہذب فی ما وقع فی القرآن من المعرب ٣٥٨- میزان المعدلة فی شرح البسملة ٣٥٩ -نتیجة الفکر فی الجہر بالذکر ٣٦٠- نشر العبیرفی تخریج احادیث الشرح الکبیر ٣٦١ -نظم التذکرة ٣٦٢ -نظم الدرر فی علوم الاثر ٣٦٣ -النفحة المسکیة والتحفة المکیة ٣٦٤-النقایة فی اربعة عشر علماً ٣٦٥- النقول المشرقة فی مسألة الفقة ٣٦٦- النکت البدیعات ٣٦٧- النکت علی الالفیة والکافیة والشافیة والشذور والنزہة ٣٦٨-نکت علی حاشیة المطول لابن العقری ٣٦٩- نکت علی شرح الشواہد للعینی ٣٧٠ -نور الحدیقة ٣٧١ -الوافی فی مختصر التنبیہ ٣٧٢- الورقات المقدمة ٣٧٣- الوسائل الی معرفة الاوائل ٣٧٤ وصول الامانی باصول التہانی ٣٧٥- ہدم الجانی علی البانی ٣٧٦- ہمع الہوامع فی شرح جمع الجوامع ٣٧٧ -الہیّة السنیة فی الہیة السنیة ٣٧٨- الید البسطی فی الصلاة الوسطی - ٣٧٩ الینبوع فیما زاد علی الروضة من الفروع ۔

 

٤۔ رواةِ احادیث اور علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی

علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس رسالہ میں جن جلیل القدر اور عظیم الشان راو یوں اور علمائے اہل سنت سے روایتیں نقل کی ہیں اگرچہ ان کے مختصر حالات کتاب کے حاشیہ میں نقل کردئے گئے ہیں لیکن یہاں قارئین کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اسمائے گرامی ذیل میں یکجا نقل کئے جارہے ہیں:

 

راویوں کے اسمائ: ١۔سعید بن جبیر ٢۔ حضرت ابن عباس ٣۔ مطلب بن ربیعہ ٤۔ زید بن ارقم ٥۔ زید بن ثابت ٦۔ ابو سعید خدری ٧۔ حضرت ابو بکر صدیق ٨۔ حضرت امام حسن ـ ٩۔ حضرت علی ـ ١٠۔ عبد اﷲ ابن عمر ١١۔ جابر بن عبد اﷲ انصاری ١٢۔ عبد اﷲ ابن جعفر ١٣۔ سلمہ بن الاکوع ١٤۔ ابو ہریرہ ١٥۔ عبد اﷲ ابن زبیر ١٦۔حضرت ابوذر ١٧۔ حضرت فاطمہ الزہرا ١٨۔ حضرت عمر فاروق ١٩۔ انس بن مالک ٢٠۔ ابن مسعود ٢١۔ مطلب بن عبد اﷲ ٢٢۔ حکیم ٢٣۔ حضرت عثمان غنی ٢٤۔ زوجہ ٔ رسول حضرت عائشہ

 

علمائے اہل سنت کے نام: ١۔ سعید بن منصور ٢۔ ابن المنذر ٣۔ ابی حاتم ٤۔ ابن مردویہ ٥۔ طبرانی ٦۔ ترمذی ٧۔ امام احمد بن حنبل ٨۔ نسائی ٩۔ حاکم ١٠۔ مسلم ١١۔ عبد بن حمید ١٢۔ ابو احمد ١٣۔ ابو یعلی ١٤۔ امام بخاری ١٥۔ ابن جریر ١٦۔ عقیلی ١٧۔ ابن شاہین ١٨۔ خطیب ١٩۔ دیلمی ٢٠۔ حافظ ابو نعیم ٢١۔ باوردی ٢٢۔ ابن عدی ٢٣۔ ابن حبان ٢٤ ۔ امام بیہقی ٢٥۔ ابن ابی شیبہ ٢٦۔ مسدد ٢٧۔ بزار ٢٨۔ ابن عساکر.

 

٥۔حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ کی مختصر توثیق

حدیث ثقلین: حددیث ثقلین کی ٣٤ صحابہ و صحابیات نے جناب رسولخدا ۖسے روایت کی ہے، اور دور تالیف سے آج تک ہر عہد کے علماء ،انہیں حدیث و سیرت و مناقب و تاریخ کی کتابوں میں درج کرتے چلے آئے ہیں:

١۔ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلا م سے بزار، محب الدین طبری ،دولالی، سخاوی،سمہودی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں حدیث ثقلین کو درج کیا ہے۔

٢۔ امام حسن ـسے،ابن قندوزی نے '' ینابیع المودة'' میں حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٣۔سلمان فار سی سے بھی قندوزی نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے ۔

٤۔ حضرت ابوذرغفاری سے ( صحیح ترمذی )

٥۔ ابن عباس سے ( قندوزی)

٦۔ ابوسعیدی خدری (مسعود ی،طبری،ترمذی و غیرہ )

٧۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (ترمذی ،ابن اثیر و غیرہ)

٨۔ ابوالہیثم تیہان(سخاوی وقندوزی)

٩۔ ابورافع(سخاوی وقندوزی )

١٠۔ حذیفہ یمان(، محب الدین طبری ،مودةالقربی)

١١۔ حذیفہ بن اسید غفاری(ترمذی،ابونعیم اصفہانی،ابن اثیر ،سخاوی و غیرہ)

١٢ ۔ خزیمہ بن ثابت (سخاوی ،سہمودی،قندوزی )

١٣۔ ابوہریرہ (بزار ، سخاوی،سہمودی)

١٤ ۔ زیدبن ثابت (احمدبن حنبل، محب الدین طبری، ابن اثیر و غیرہ)

١٥ ۔ عبد اللہ بن حنطب(طبرانی،ابن اثیر وغیرہ)

١٦۔ جبیربن مطعم(ابونعیم اصفہانی و غیرہ)

١٧ ۔ براا بن عازب ( ابو نعیم اصفہانی)

١٨۔ انس بن مالک ( ابو نعیم اصفہانی )

١٩ ۔ طلحہ بن عبید اﷲ بن تمیمی( قندوزی )

٢٠۔ عبد الرحمن بن عوف( قندوزی )

٢١۔ سعد بن وقاص( قندوزی )

٢٢۔ عمرو بن عاص ( خوارزمی )

٢٣۔ سہل بن سعد انصاری (سخاوی ، سمہودی )

٢٤ ۔ عدی بن حاتم( سخاوی ،سمہودی و غیرہ)

٢٥۔ عقبہ بن عامر (سخاوی وغیرہ )

٢٦۔ ابو ایوب انصاری ( سخاوی)

٢٧۔ شریح خزاعی( سخاوی ، سمہودی و غیرہ)

٢٨۔ ابو قدامہ انصاری( سخاوی وغیرہ )

٢٩۔ ضمیرہ ٔ اسلمی( سخاوی وغیرہ)

٣٠۔ ا بو لیلی انصاری ( سخاوی ، سمہودی ، قندوزی )

٣١۔ حضرت فاطمہ الزہرا ( قندوزی )

٣٢۔ ام المومنین ام سلمہ( سخاوی س،سمہودی )

٣٣۔ ام ہانی بنت ابو طالب( سخاوی، سمہودی وغیرہ )

٣٤۔ زید بن ارقم ( صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل ، کنزالعمال ۔ سیوطی؛ در منثور،ترمذی)

 

حدیث ثقلین پرعلامہ ابن حجر ہیثمی کی ایک نظر :

سمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ، القرآن وعترتہ ،وہی الاہل والنسل والرہط الادنون، ثقلین، لان الثقل کل نفیس خطیر مصون، وہٰذان کذلک، اذ کل منہما معدن للعلوم اللُّدنیّة والاسراروالحکم العلیة والاحکام الشرعیة ، ولذا حث ۖ علی الاقتداء والتمسک بہم۔

رسول خدا ۖ نے قرآن وعترت کو جو کہ آپ کے اہل ونسل و قریب تر لوگ ہیں ، ثقلین فرمایا ، اس لئے کہ ثقل '' ہر نفیس و گرانقدر شۓ کو کہتے ہیں" - اور یہ دونوں اسی طرح ہیں بھی- کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی ، بلند اسرار و حکم اور احکام شرعی کے معد ن ہیں ، اسی لئے رسول خدا ۖ نے ان سے تمسک اور ان کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے ۔(١)

 

حدیث سفینہ: اس حدیث کوامام احمد بن حنبل ، امام مسلم ، ابن قتیبہ دینوری، بزار ، ابو یعلی موصلی ، طبری ، صولی صاحب کتاب الاوراق ، ابوالفرج اصفہانی ، طرانی، حاکم نیشاپوری ، ابن مردویہ اصفہانی ، ثعلبی ، ابو نعیم اصفہانی، ، ابن عبد البر ، خطیب بغدادی ، ابن مغازلی ، سمعانی ، فخر الدین رازی ، سبط ابن جوزی، محمد بن یوسف گنجی ، شہاب الدین حلبی ، نظام اعرج نیشاپوری، خطیب تبریزی ، طیبی شارح مشکاة، جمال الدین زرندی ، شہاب الدین قندوزی ،حموی جوینی ، ابن صباغ مالکی ، علی قاری اور عبد الرؤوف مناوی وغیرہ نے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے ۔

..............

(١) علامہ ابن حجر ہیثمی مکی؛الصواعق المحرقة، ص٧٥.

قارئین کرام ! مقدمۂ کتاب کے طولانی ہونے کی بنا پر آپ سے بیحد معذرت خواہ ہیں، چونکہ اس کتاب سے مربوط کچھ مطالب ایسے تھے کہ جن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی محسوس ہورہی

کہ مقدمہ میں ان پر قدرے روشنی ڈالی جائے ،بہر حال اس کتاب کا پہلی دفعہ اردو ترجمہ دو بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ مؤمنین اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا تے ہوئے ناچیز کو دعائوں میں یاد رکھیں گے، آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ اقدس میں دست بہ دعا ہیں کہ تا دم آخر قرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے۔ (آمین)

 

والسلام

مترجم: محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی

گرام و پوسٹ بڑھیا ّ،ضلع کھیری لکھیم پور

یوپی ۔ ہندوستان .

١٨ ذی الحجہ(بروز عید سعید غدیر)

مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء بروز شنبہ

مقیم حال : قم مقدس ، جمہوری اسلامی ایران

 

 

 

 

ترجمۂ احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت (ع)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی .

ہذہ ستون حدیثا اسمیتہا :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَہْلِ الْبَیْتْ''.

تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔

یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل اہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔

 

پہلی حدیث(١) : رسول کے قرابتداروں کی مودت ہی اجر رسالت ہے .

اخرج سعید بن منصور فی سننہ ، عن سعید بن جبیر، فی قولہ تعالی :

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قال:قربی رسول اﷲ ۖ.

سعید بن منصور (٢)نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر (٣)سے آیۂ مودت:

( قل لااسئلکم علیہ اجراًالاالمودة فی القربی)

(اے رسول !تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت )کا اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا)(٤)کی تفسیرمیں نقل کیا ہے کہ'' القربی'' سے مراد؛رسول اسلام ۖ کے قرابتدار ہیں ۔(٥)

..............

 

اسناد ومدارک کی تحقیق: (١)محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کی اصطلاح میں قول ، فعل اورتقریر رسول کو حدیث کہا جاتا ہے ، اسی طرح رسول کے خَلقی اور خُلقی اوصاف نیز صحابہ اور تابعین کے کلام کو بھی اہل سنت کے یہاں حدیث کہا گیا ہے .

ڈاکٹرنورالدین عتر؛ منہج النقد،ص ٢٧۔ دکتر صبحی الصالح؛علوم الحدیث ومصطلحہ،ص ٤٢٦۔

لیکن شیعہ علماء کی اصطلاح میں حدیث وہ کلام ہے جو معصوم کے فعل ، قول اور تقریرکی حکایت کرے .

سید حسن الصدر الکاظمی ؛نہایة الد رایة،ص٨٠۔شیخ عبد اﷲ مامقانی ؛مقباس الہدایہ فی علم الدرایة جلد١،ص٥٩۔

(٢)ابو عثمان سعید بن منصور بن شعبہ ٔ خراسانی یا طالقانی؛ آپ جوزجان میں متولد ہوئے، اور بلخ میں پرورش پائی،اور آپ نے دیگر ممالک کی طرف متعددسفر کیا ، آخر کار مکہ میں سکونت اختیار کی ،اور یہیں ٢٢٧ ھ میں وفات پائی ،امام مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ، ان سے مروی احادیث کتب صحاح ستہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٤١٧،٤١٦۔ تاریخ البخاری ،جلد ٢ ، ص ٤٧٢۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٦٨۔ مختصر تاریخ دمشق ،جلد ٦، ص ١٧٥۔تہذیب التہذیب جلد ٣ ، ص ٨٩ ، ٩٠.

(٣)ابو محمد سعید بن جبیر بن ہشام اسدی والبی؛آپ ٤٦ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٩٥ھ میں ٤٩ سال کے سن میں حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں قتل ہوئے،آپ کی شہادت کے بعد ابن جبیر نے عبد اﷲ بن عباس اور عبد اﷲ بن عمر کی شاگردی اختیار کی ، یہ جملہ تابعین میں بہت ہی بلند پایہ کے عالم دین شمار کئے جاتے ہیں ، اور انھیںتفسیر قرآن لکھنے والے گروہ میں قدیم ترین مفسر قرآن مانا جاتا ہے، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٧٧،٧٦۔ طبقات ابن سعد جلد ٦،ص٢٦٧،٢٥٦۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٩۔تہذیب التہذیب جلد ٤ ، ص١٤،١١.

(٤) سورہ ٔ شوری آیت ٢٣ .

(٥)مذکورہ حدیث کو درج ذیل علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے:

سیوطی ؛ تفسیردر منثور ج ٦ ، ص٧.حسکانی ؛ شواہد التنزیل جلد٢، ص ١٤٥. حاکم؛مستدرک الصحیحین جلد٣ ، ص ١٧٢. ابن حجر ؛ صواعق محرقة ص ١٣٦۔ طبری ؛ ذخائر العقبی ص٩۔

دوسری حدیث : رسولۖ کے قرابتدار کون لو گ ہیں ؟

اخرج ابن المنذر،و ابن ابی حاتم،و ابن مَرْدَوَیْہ ، فی تفاسیرہم ، والطبرانی فی المعجم الکبیر ، عن ابن عباس ؛لما نزلت ہذہ الآیة :( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )قالوا : یا رسول اﷲ! من قرابتک ہولاء الذین وجبت علینا مودتُہم ؟ قال:(( علی وفاطمة وولداہما)) .

ترجمہ:۔ابن منذر (١)ابن ابی حاتم (٢)اور ابن مردویہ (٣)نے اپنی تفاسیر میں اور طبرانی (٤)نے اپنی کتاب'' المعجم الکبیر ''میں ابن عباس (٥)سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت:

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )

نازل ہوئی تولوگوں نے رسول ۖسے کہا : یا رسول اﷲ ! آپ کے وہ قرابتدار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے؟

تو رسول ۖنے ارشاد فرمایا: وہ علی، (٦)فاطمہ (٧) اور ان کے دونوں بیٹے ( امام حسن اور امام حسین ) ہیں۔ (٨)

..............

 

اسناد ومدارک کی تحقیق: (١) ابو بکر محمد بن ابراہیم ابن منذر نیشاپوری ؛ آپ بہت بڑے حافظ ، فقیہ ، مجتہد اور مسجد الحرام کے پیش اما م تھے، آپ کی مشہور کتابیں : المبسوط فی الفقیہ ،الاشراف فی اختلاف العلماء اور کتاب الاجماع ہیں،آپ ٢٤٣ ھ میں متولد ہوئے اور ٣١٨ ھ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ،آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٧٨٣ ، ٧٨٢۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢، ص ١٠٨ ، ١٠٢ ۔ کتاب الاعلام جلد ٦ ، ص ١٨٤۔شذرات الذہب جلد٢، ص ٢٨٠۔

(٢)ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم محمدبن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی؛

آپ ٢٤٠ھ میں شہر''رَےْ '' میں پیدا ہوئے اور ٣٢٧ ھ میں اسی شہر میںدنیا سے گزر گئے ، آپ کا اپنے زمانے کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ،اور آ پ نے علم حدیث کو اپنے وا لد محترم اور فن جرح وتعدیل کے ماہر جناب ابو ذرعہ جیسے اساتذہ سے سیکھا ، اسی طرح آپ کا شمار علم قرائت کے مشہور علماء میں ہوتا تھا ، علم دین کی تلاش میں آپ نے مکہ ، دمشق ،مصر، اصفہان اور دیگر شہروں کی جانب متعدد سفر کئے ،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد٢ ، ص٨٣٢ ، ٨٢٩۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢،ص ٣٢٨، ٣٢٤ ۔شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ فوات الوفیات جلد١ ص ٥٤٣ ، ٥٤٢۔ طبقات الحنابلہ جلد ٢، ص ٥٥۔ لسان المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢ ، ٤٣٣۔

المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢۔ مرآة الجنان جلد ٣، ص ٢٨٩۔

(٣)ابو بکر بن ا حمد موسی بن مردویہ بن فورک اصفہانی؛ آپ ہی تفسیر ابن مردویہ،تاریخ ابن مردویہ ''و چند دیگر کتابوں کے مؤ لف ہیں،آپ کا شمار اپنے معاصر محدثین، مؤرخین ، مفسرین اور علم جغرافیہ کے جاننے والوں میںہوتا ہے ، آ پکی پیدائش ٣٢٤ ھ میں اور وفات ٤١٠ ھ میں ہوئی،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢، ص ١٠٥١۔١٠٥٠۔ اخبار اصفہان جلد ١، ص ١٦٨۔ المنتظم جلد ٣، ص ٢٩٤۔

(٤)ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر لخمی شامی طبرانی ؛ آپ ٢٦٠ ھ میں شہر عکا میں متولد ہوئے ، اور سوسال کی عمر میں ٣٦٠ ھ میں شہر اصفہان میں انتقال کرگئے، آپ نے حدیث رسول کی تلاش میں حجاز ، یمن ، ایران اور الجزیرہ وغیرہ کے متعدد سفرکئے ، آپ کی اہم کتابیں یہ ہیں :المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ جلد ٣، ص ٩١٨،٩١٢۔ ذکراخبار اصفہان جلد ١، ص ٣٢٥۔ میزان الاعتدال جلد ٢، ص ١٩٠ ۔ النجوم الزاہرة جلد٤، ص ٥٩۔الاعلام جلد ٣، ص ١٨١۔ لسان المیزان جلد ٢، ص٧٤۔

(٥)ابو العباس عبد اﷲ بن عباس بن عبد المطلب قرشی ہاشمی؛ آپ حبر امت، جلیل القدر صحابی تھے ،آپ ہجرت کے تین سال پہلے دنیا میں آئے ، رسول اسلام نے دعا فرمائی تھی کہ خدا ان کو دین اسلام کا فقیہ قرار دے ، اور علم تاویل عطا فرمائے ، صحاح ستہ کے مؤلفین نے سولہ سو ساٹھ ]١٦٦٠[ حدیثیں اپنی کتب صحاح میں ان سے نقل کی ہیں ، موصوف نے جنگ صفین اور جنگ جمل میں حضرت علی ـ کی طرف سے شرکت کی تھی ، اور واحدی کے قول کے مطابق آپ کی وفات ٧٢ سال کی عمر میں ٦٨ ھ میں شہر طائف میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

وفیات الاعیان جلد ٣، ص ٦٣ ، ٦٢۔ الاصابة جلد٤ ، ص ٩٤ ،٩٠ ۔ جوامع السیرة ص ٢٧٦۔ تذکرة الحفاظ جلد ١، ص ٤٢٥۔ العقد الثمین جلد ٥، ص١٩٠۔ نکت الہمیان ص ١٨٠ ۔ تاریخ دمشق جلد٦، ص ٢٦٠۔ الاعلام ج ٤، ص ٢٢٨۔ لسان المیزان جلد ٣ ص ٧٣۔

(٦)ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب(ع)؛ آپ کی ولادت بعثت سے دس سال قبل مکہ میں ہوئی، اور آغوش رسالت میں پرورش پائی،کتاب'' الاصابہ'' میں ابن حجر کے قول کے مطابق آپ ہی پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،(اظہار اسلام کیا )آپ نے سوائے جنگ تبوک کے اسلام کی تما م مشہور جنگوں میں شرکت فرمائی، کیونکہ اس جنگ میں آپ مدینہ میں رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام پذیر رہے ، آپ کے بیشمارفضائل ہیں ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:

جتنے فضائل و مناقب علی ـکے لئے رسول ۖسے نقل ہوئے ہیں اس مقدار میں کسی بھی صحابی کیلئے نقل نہیں ہوئے ہیں،آپ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ میں ہوئی، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

الاصابة جلد ٤، ص ٢٧١، ٢٦٩۔ تذکرة الحفاظ جلد١ ، ص ١٢ ، ١٠۔ حلیة الاولیاء جلد ١، ص ٧٨، ٦١۔ الاستیعاب جلد ٢ص ٤٦١۔ اسد الغابة جلد ٤، ص ٢٩٢۔

(٧) آپ ہی سیدة نساء العالمین ، حسنین کی مادر گرامی ، جناب خدیجہ کی لخت جگراوررسول اسلام کی دختر نیک اختر ہیں،آپ خدا کے نبی کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھیں ،آپ کی ذات سے رسول کی نسل چلی ، بعض اقوال کی بنا پر آپ کی ولادت با سعادت ؛ ٢٠ جمادی الثانیہ بروز جمعہ،بعثت سے دوسال قبل شہر مکہ میں ہوئی ، البتہ شیخ کلینی اور ابن شہر آشوب نے شہزادی کی تاریخ ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرمائی ہے، اور یہی مشہور بھی ہے ، اور امام جعفر صادق ـ کے نقل کے مطابق آپ کے شہادت ٣ جمادی الثانیہ ١١ ھ میں ہوئی.دیکھئے:

کتاب اعیان الشیة جلد ٢، ص ٣٢٠،٢٧١.

(٨)اس حدیث کو اہل سنت کے مشہورو جلیل القدر علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، چنانچہ حسب ذیل کتابیںدیکھئے:

سیوطی ؛ در منثور جلد٦، ص٧.

( سیوطی نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ).

طبرانی المعجم الکبیر ؛جلد ١ ،ص ١٢٥.(قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری، دمشق سوریہ ) .

ابن حجرہیثمی ؛ مجمع الزوائد جلد ٩، ص ١١٨۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٥۔

محب الدین طبری کہتے ہیں : اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اپنی اپنی کتاب'' المناقب'' میں نقل کیا ہے.

ابن صباغ مالکی ؛ الفصول المہمةص ٢٩.

ابن صباغ نے بغوی سے مرفوع سند کے ساتھ ابن عباس سے اس حدیث کونقل کیا ہے.

قرطبی ؛ا لجامع لاحکام القرآن جلد١٦، ص ٢٢،٢١.

قرطبی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث میں دو بیٹوں سے مراد رسول اسلام کے دونوں نواسے حسنین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں .

تفسیر کشاف جلد ٢، ص ٣٣٩۔ اسعاف الراغبین ص ٢٠٥۔ ارشاد العقل السلیم جلد١، ص ٦٦٥. حلیة الاولیاء جلد ٣ ، ص ٢٠١ ۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ١ ، ص ٢٢٩۔ شواہد التنزیل جلد ٢، ص ٣٠ و ص ١٥٠۔ تفسیر طبری جلد ٢٥ ، ص ١٧۔ تفسیر ابن کثیر جلد ٤ ، ١١٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ نزل الابرار ص ٣١۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨. الغدیر جلد ٣، ص ١٢٧.

 

 

تیسری حدیث :

 

تیسری حدیث : حسنہ سے مراد آل محمد کی محبت ہے

اخرج ابن ابی حاتم،عن ابن عباس فی قولہ تعالی:( وَمَنْ یَقْتَرِف حَسَنَةً)قال : ((المودة لآل محمد )).

ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے اس آیہ ٔ( ومن یقترف حسنة… :اور جو شخص بھی ایک نیکی حاصل کرے گاہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے )(١)کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آیت میں ''حسنة ''سے مراد آل محمدۖ کی مودت ہے ۔(٢)

 

چوتھی حدیث : ایمان کا دار و مدار آل محمدد کی محبت ومودت پر ہے

اخرج احمد ، والتِّرمذی و صححہ ،والنسائی والحاکم ،عن المطلب بن ربیعة ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ:((واﷲلا یدخل قلب امریء مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

احمد ،(٣)ترمذی (٤)( صحیح سند کے ساتھ )، نسائی (٥)اور حاکم(٦) نے مطلب بن ربیعہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامۖ نے فرمایا :

قسم بخدا کسی بھی مسلم مرد کے دل میںاس وقت تک'' ایمان''(٨) داخل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رضایت اور میری قرابتدار ی کی وجہ سے تم (اہل بیت) کو دوست نہ رکھے ۔ (٩)

..............

 

اسناد ومدارک کی تحقیق: (١)سورہ شوری آیت ٢٣.

(٢)مذکورہ حدیث علمائے اہل سنت کی دیگر کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے ، چنانچہ مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:

سیوطی ؛ تفسیر در منثور جلد ٦ ، ص ٧۔ تفسیر کشاف جلد ٣، ص ٤٦٨۔ الفصول المہمة ص٢٩۔ الجامع لا حکام القرآن جلد ١٦ ،ص ٢٤۔

قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں : اقتراف کے معنی حاصل اور اکتساب کرنے کے ہیں جس کا مادہ قرف بمعنی کسب ہے،اور اقتراف بمعنی اکتساب آیا ہے .

الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ الشواہد التنزیل جلد ٢ ،ص ١٤٧۔ فضائل الخمسة ج ٢، ص ٦٧۔

(٣)ابو عبد اﷲ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال ذہلی شیبانی مروزی بغدادی ؛ آپ ١٦٤ھ میں پیدا ہوئے، اور ٧٧ سال گزار کر ٢٤١ھ میں شہر بغداد میں چل بسے ، آپ کو اہل سنت کے فقہی چاروں اماموں میں سے ایک جلیل القدر امام کے طور پر مانا اور پہنچانا جاتاہے ، آپ ایک بلند پایہ کے حافظ اور محدث تھے ،یہاں تک کہ دس لاکھ حدیثیں آ پ کو یاد تھیں، آ پ کی اہم ترین کتاب ''المسند'' ہے، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

شذرات الذہب ، جلد ٢ ، ص ٩٨ ،٩٦. تذکرة الحفاظ ج ٢ ، ص ٤٤٢، ٤٤١.

(٤)ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی ترمذی ؛ آپ جلیل القدر محدث، نابینااور امام بخاری کے خاص شاگرد تھے ،آپ ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٧٩ ھ میں شہر ترمذ میں گزر گئے ، اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، اوردیگر شہروں وغیرہ کا سفر کیا ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٤٣٥ ، ٤٣٣۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٦١٦۔ میزان الاعتدال ج ٣، ص ١١٧۔لباب ابن اثیر ج ١، ص ١٧٤۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص ١٩٣۔ النجوم الزاہرہ ج ٣، ص٧١۔ تہذیب التہذیب ج ٩، ص ٣٨٧۔

(٥)ابوعبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی؛ آپ ٢١٥ ھ میں شہر نسائ(خراسان کا ایک شہر) میں متولد ہوئے ،اور ٣٠٣ ھ میں ٨٨سال کے سن میں فلسطین میں وفات پائی ،کہا جاتا ہے کہ آ پ کے جنازے کو فلسطین سے مکہ لاکر وہاں دفن کیا گیا ، آپ اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، حجاز ، شام اور مصر کے علماء کی خدمت میں گئے، اور ان سے حدیث کے بارے میں کسب فیض کیا ،آ پ کا بزرگ علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ، آپ ایک مدت تک مصر میں قیام پذیر رہے ، اس کے بعد دمشق میں سکونت اختیار کی ، آ پ کی مشہور کتابیں'' السنن اور الخصائص'' ہیں ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

طبقات الشافعیةج ٣، ص ١٦، ١٤۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٢٤١،٢٣٩۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٢٥۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص٢٤۔ تہذیب التہذیب ج١٠، ص٣٦۔

(٦)حاکم ابو عبد اﷲ محمد بن محمد بن حمد ویہ بن نعیم طہمانی نیشاپوری ؛ آپ ٣١٢ھ میں پیدا ہوئے، او ر ٤٠٥ ھ میں وفات ہوئی ، آپ علم کے اشتیاق میں ٢٠ سال کے سن سے ہی عراق چلے گئے تھے، اس کے بعد خراسان اور ماورای النہر سفرکیا ، آپ ایک مدت تک شہر نسا ء کے قاضی رہے ، لیکن بعد میں اس عہدے سے استعفا ء دیدیا ،بہر حال آپ متعدد مرتبہ آل بویہ کی حکومت میں اہم منصب پر فائز رہے، آپ سے دار قطنی ، بیہقی اور دیگر بڑے محدثین نے روایتیں نقل کی ہیں،آپ کی مشہور کتابیں یہ ہیں : مستدرک الصحیحین ،اور المدخل الی العلم الصحیح ،اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ، ص ١٠٤٩، ١٠٤٥۔ وفیات الاعیان ج ٤، ص ٤٠٨۔ اعلام المحدثین ٣٢٤۔

(٧) آپ مطلب بن ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب بن ہاشم ہاشمی یعنی ربیعہ (بن حرث) اور ام الحکم( بنت زبیر بن عبد المطلب) کے بیٹے ہیں ،آپ نے رسول اور علی سے احادیث نقل کی ہیں ، اور جن لوگوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ یہ حضرات ہیں : خود آپ کے بیٹے عبد اﷲ اور عبد بن حرث بن نوفل ہیں ، علمائے انساب نے آپ کو مطلب کے نام سے یاد کیا ہے حالانکہ بعض محدثین آپ کو عبد المطلب کے نام سے جانتے ہیں ، آپ پہلے مدینہ میں پھر شام میں رہنے لگے ، اور یہیں ٦٢ ھ میں وفات پائی ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے:

الاصابة جلد ٤ ، ص١٩١۔ نیز جلد ٦، ص ١٠٤۔ الاستیعاب جلد ٣، ص ٤١٣۔

(٨)مذکورہ حدیث نقل کئے گئے حوالوں کے بعض نسخوں میں کلمہ ایمان نہیں آیا ہے لہٰذا اس صورت میں حدیث کے معنی اس طرح ہوںگے : خدا کسی مسلمان کے دل میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ تم کو خدا کیلئے اور میری قرابت کی خاطر دوست نہ رکھے .

(٩) مذکورہ حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی تمام اسناد کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: ایک مرتبہ جناب عبا س یعنی رسول کے چچا آپۖ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: یا رسول اﷲ! کچھ مقامات پر میں نے دیکھا کہ قریش آپس میں باتیں کررہے تھے ،لیکن جب میں وہاںپہنچا تو وہ سب خاموش ہوگئے ،یہ سنکر رسول بہت نا راض ہوئے اور فرمایا:

((واﷲ لا یدخل قلب امری مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

المسند جلد ٣، ص٢١٠،حدیث نمبر :١٧٧۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح ج ٣، ص ٣٠٥ ، ٣٠٤۔ باب مناقب عباس ابن عبد المطلب.

(ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے). سیوطی ؛ الدر المنثور ج ٦ ،ص ٧۔(سیوطی نے اس حدیث کو آیہ مودت کے ذیل میں نقل کیا ہے) . طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٩ ۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج ٦، ص ٢١٨۔ خطیب تبریزی ؛مشکاة المصابیح ج ٣، ص ٢٥٩ ، ٢٥٨۔

پانچویں حدیث : اہل بیت کے بارے میں خدا کا لحاظ کرو

اخرج مسلم ، والترمذی والنسائی ،عن زید بن ارقم ؛ ان رسول اﷲ ۖ قال:(( اذکرکم اﷲ فی اہل بیتی ))

مسلم (١)، ترمذی اور نسائی نے زید بن ارقم (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے ارشاد فرمایا : اے میری امت والو! میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،(ان کا خیال رکھنا کیونکہ میں قیامت میں تم سے ان کے بارے میں سوال کروں گا اگر تم نے ان سے نیکی کی تو خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہوگی اور اگر تم نے انھیں ستایا تو اس کے عذاب سے ڈرو،اقتباس از احادیث ) . (٣)

 

چھٹی حدیث: کتاب خدا اور اہل بیت سے تمسک ضروری ہے

اخرج الترمذی و حسنہ ، والحاکم ،عن زید بن ارقم ؛قال: قال رسولﷲ ۖ :((انی تارک فیکم ماان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی ،کتاب اﷲ ، وعترتی اہل بیتی و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیہما))

ترمذی ( حسن سند کے ساتھ)اور حاکم نے زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا:اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور دیکھو !یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز ہر گز جدا نہ ہوںگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگے،(لہٰذااچھی طرح اور خوب سمجھ بوجھ لو! )تم میرے بعد ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ؟ (٤)

..............

 

اسناد ومدارک کی تحقیق: (١) آپ کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری ہے آپ ٢٠٢ھ (یا٢٠٦)میں متولد ہوئے ، او ر ٢٦١ ھ میں (دیہات)نصر آباد ،ضلع نیشاپور میں وفات ہوئی ،آپ نے بغداد کے کئی مرتبہ سفر کئے ، آپ بہت بڑے محدث اور عالم دین تھے ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح (صحیح مسلم )ہے، اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ١٥٠۔طبقات الحنابلہ ص٢٤٦۔ مرآة الجنان ج ٢ ص١٧٤۔ وفیات الاعیان ج٢، ص١١٩۔ تاریخ بغداد ج ٣، ص ١٠٠۔بستان المحدثین ص ١٠٤۔

(٢) زید بن ارقم بن زید انصاری خزرجی؛ ذہبی نے آپ کو بیعت رضوان والوں میں شمار کیا ہے ، موصوف نے تقریباً ١٧ غزووں(جنگوں) میںرسول اسلام کے ساتھ شرکت کی ، اور جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت فرمائی ، او ر ٦٦ ھ میں جناب مختار کے دور حکومت کوفہ میں وفات پائی ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج١، ص ٤٥۔الاصابة ج ٣،ص ٢١۔ الاستیعاب ج ١ص ٥٦٦،٥٧٨۔

(٣)مذکورہ حدیث کو سیوطی نے اس جگہ اختصار کے ساتھ نقل کی ہے، لیکن امام مسلم نے اس حدیث کوتفصیل کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے:

حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیہ، قال لہ حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، رأیت رسولَۖ اللّٰہ، وسمعت حدیثہ،وغزوت معہ،و صلیت خلفہ، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! ما سمعت من رسولۖ اللّٰہ، قال یابن اخی:واللّٰہ لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عہدی،و نسیت بعض الذی أعِی من رسولۖ اللّٰہ، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا۔،فلاتکلفونیہ۔ثم قال:قام رسولۖ اللّٰہ یوما فینا خطیباًبِمائٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰہ َو اَثْنیٰ علیہ و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ :الَاَ یا ایہا الناس! فانما انا بشر یوشک ان یأتِیَ رسولۖ ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِک فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُہُماَ کتاَبُ اللّٰہ ،فِیْہِ الہُدیٰ وَ النُّورُ فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ بہ، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰہ وَ رَغَّبَ فِیْہِ، ثم قاَلَ: وَ اَہْلُ بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہ فی اَہْلِ بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فیِ اَہْلِ بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰہ فِی اَہْلِ بَیْتی ثلَاَثا،فقال لہ حصین :و من اہل بیتہ؟ یازید !أَلَیس نسائُہ من اہل بیتہ؟ قال: نسائہ من اہل بیتہ، و لکن اہل بیتہ من حُرِم الصّدقة بعدہ ،قال :و من ہم؟ قال: ہم آلُ عَلی ،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل ہٰؤلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم.''

مسلم نے روایت کی ہے کہ یزید بن حیاَّن کہتے ہیں: ایک مرتبہ میںاور حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، اور حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:''اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، کیو نکہ تورسول خداۖ کے دیدار سے مشرف ہو چکا ہے، اور حضرتۖ کی گفتگو سے فیض حاصل کرچکاہے، اور تونے رسول کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، اور حضرتۖ کی اقتداء میں نماز پڑھی، اس طرح تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، لہٰذا جو تونے رسولۖ سے سنا ہے اسے ہمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کہتے ہیں: اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اور میری عمر گزر چکی ہے، چنانچہ بہت کچھ کلام رسولۖ میںفراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رہا ہوں اسے قبول کرلینا،اور جہاں سکوت کرلوں تو اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کہتے ہیں: ایک روز رسول اسلام مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے، اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمایا: اے لوگو !میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے ،اور مجھے موت سے ہم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی کتاب خدا ہے جو ہدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ہے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رہو، اور اس سے بہرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اہل بیت ہیں ،اور میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے خوف کرنا ،اور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا).

زید نے جب تمام حدیث بیان کردی، تو حصین نے پوچھا: اہل بیت رسولۖ کون ہیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ہے؟ کیا رسولۖ کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں؟

زید ابن ارقم نے کہا: ہاں رسولۖ کی بیویاں بھی اہل بیت میں ہیں مگر ان اہل بیت میں نہیں جن کی سفارش رسولۖ فرمارہے ہیں، بلکہ یہ وہ اہل بیت ہیں جن پر صدقہ حرام ہے .

حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے؟

زید بن ارقم نے کہا :وہ اولاد علی ، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ہیں!

حصین نے کہا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے کہا: ہاں.

عرض مترجم: اس حدیث کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ہے، حالانکہ حدیث غدیر کے سینکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم ہیںجو یہ کہتے تھے :''اس وقت رسولۖ نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ہے، اس کے بعد علی کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا و آقا ہیں، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ، اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ ''

البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے اہل بیت کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ہے، حالانکہ خود رسولۖ نے اہل بیت سے مراد آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا تھا.

یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے:

مسند احمد بن حنبل ج ٤، ص ٤٦٧ ،٤٦٦۔ کنزالعمال ج ١، ص ١٥٩، ١٥٨۔ سیوطی؛ در منثور ج٦،ص٧۔

(مذکورہ حدیث سیوطی نے اس کتاب میںترمذی اور مسلم سے نقل کی ہے).

اکلیل ص ١٩٠۔ القول الفصل ج ١،ص٤٨٩۔ عین المیزان ص ١٢ فتح البیان ج٧، ص ٢٧٧۔

(٤)مذکورہ حدیث کو ترمذی نے باب مناقب اہل بیت میں نقل کیا ہے ، اور حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث حسن اور غریب ہے .

دیکھئے : الجامع الصحیح(ترمذی شریف) ج ٢ ، ص٣٠٨۔

البتہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

جب رسول خدا ۖ حجة الوداع سے واپس ہوئے تو غدیر خم کے مقام پرٹھہر نے کا حکم دیا اور کہا یہاں سائبان لگایا جائے، پھر فرمایا:

کانی قد دعیت فاجبت،انی تارک فیکم الثقلین احدہمااکبر من الآخر کتاب اﷲ ، وعترتی، فانظرواکیف تخلفونی فیہما،و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،ثم قالۖ:ان اﷲ عز وجل مولای و انا مولی کل مومن ،ثم اخذ بید علی فقال:ۖ''من کنت مولاہ فھذاولیہ، اللّھم وال من والاہ وعاد من عاداہ.

گویا میرے لئے خدا کی طرف سے دعوت ہونے والی ہے جسے مجھے یقیناً قبول کرنا ہوگا،میں تمھارے درمیا ن دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک؛ د وسرے سے اکبر ہے(یعنی ایک ثقل اکبر ہے اور دوسری ثقل اصغر) اوریہ کتاب خدا ہے اور میری عترت ، پس دیکھو کہ تم میرے بعد کیا ان کے ساتھ سلوک کرتے ہو، یعنی ان کا احترام کرتے ہو یا نہیں ؟ یقیناً وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے،اور میرے پاس حوض کوثر پروارد ہونگے،اس وقت فرمایا :بیشک میرا مولااور سر پرست خدا ہے، اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں ، پھر علی ـ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا ولی اور آقا علی ہے اے میرے خدا !تو دوست رکھ اسکو جو علی کو دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے .

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : مذکورہ حدیث شرط شیخین(بخاری اور مسلم) کی روشنی میں صحیح ہے .

ایک وضاحت : امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ حدیثوں کونقل کیا ہے،ممکن ہے ایک حدیث ان حضرات کے نزدیک صحت( اور صحیح ہونے)کے شرائط پر نہ اترے لیکن دوسرے محدثین کے نزدیک صحیح ہو ،یا ان کے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو لیکن دوسروں کی نزدیک ضعیف ہو، اور نیز خود ان حضرات کے درمیا ن بھی حدیث کے شرائط صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ مسلم نے احادیث کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے :

١۔ وہ احادیث جن کے راوی اعتقاد کے اعتبارسے درست اور نقل روایت میں متقن ہوں،اور ان کی روایتوں میں نہ کسی قسم کی فاحش غلطی اور نہ ہی ان روایتوں کے اندر کوئی شدید اختلاف پایا جاتاہو .

٢۔وہ احادیث جن کے راوی حفظ اور اتقان میں پہلے درجہ تک نہ پہنچیں .

٣۔وہ احادیث جن کے راوی اکثر محدثین کے نزدیک کذب بیانی میں متہم ہوں .

مسلم نے اپنی کتاب میں مذکورہ تیسرے طبقے سے روایت نقل نہیں کی ہے .

امام بخاری کی شرط صحت کے بارے میں حافظ ابو الفضل بن طاہر کہتے ہیں :

احادیث کے تمام راوی موثق ہوں ، اور ان کی وثاقت تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہونے کے ساتھ ان کی سند بھی متصل ہو ، نیز سند مشہور صحابہ میں سے کسی ایک تک منتہی ہوتی ہو .

حافظ ابو بکر حازمی کہتے ہیں : شرط صحت بخاری کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے تمام اسناد متصل ہوں ، اور راوی مسلمان اور صادق ہو، اور ان میں کسی طرح کی خیانت اور غش نہ پائی جائے ، اور عادل ، حافظہ قوی اورعقیدہ سالم ہو،نیزہر قسم کے اشتباہات سے دور ہو ں .

مزید معلومات کیلئے حسب ذیل کتابیں دیکھئے :

صحیح مسلم ج ١، ص٢ ۔فتح ا لباری شرح صحیح ا لبخاری ج ١، ص٧۔ مترجم.

نسائی نے بھی مذکورہ حدیث کو الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ،اور حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی نقل کیا ہے کہ زید سے جب کسی نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس حدیث کو خود اپنے کانوں سے سنا ہے ؟تو انھوں نے کہا: ایسا کوئی فردنہیں جو اس سائبان کے نیچے ہواور اس نے اس حدیث کو نہ سنا ہو .

قارئین کرام !مذکورہ کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج ١،ص ١٥٤۔ذخائر العقبی باب فضائل اہل بیت ۔ مسند احمد بن حنبل ، ج ٣ ، ص ١٧و ج٤ص ٣٦٦۔ سنن بیہقی ج ٢، ص ١٤٨، ج ٧،ص ٣٠ .سنن دارمی ج ٢ ،ص ٤٣١۔ مشکل الآثار ج ٤، ص ٣٦٨۔ اسد الغابة ج ٢، ص ١٢ ۔ مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٠٩و ص ١٤٨۔ مجمع الزوائد جلد ١،ص ١٦٣۔و جلد ١٠، ص ٣٦٣۔ طبقات ابن سعد جلد ٢، ص ٢ ۔ حلیة الاولیاء جلد ١ ،ص٣٥٥۔ تاریخ بغداد جلد ٨، ص ٤٤٢۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ الریاض النضرة جلد٢، ص ١٧٧ ۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ینابیع المودة، ص ٣١۔ مصابیح السنة ص ٢٠٥۔ جامع الاصول جلد١ ،ص ١٨٧۔ المواہب اللدنیة جلد٧، ص ٧۔

 

 

ساتویں حدیث :

 

ساتویں حدیث : کتاب خدا اور اہل بیت تا بہ حوض کوثر ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے

اخرج عبد بن حُمَید ،فی مسندہ ،عن زید بن ثابت ؛ قال: قال رسولۖ:((انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ بعدی لن تضلوا،کتاب اﷲ و عترتی اہل بیتی ، و انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ))

عبد بن حمید (١)اپنی مسند میں زید بن ثابت (٢)سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرمۖ نے فرمایا: اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے ،اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہونگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونگے۔(٣)

 

آٹھویں حدیث : حدیث ثقلین

اخرج احمد ،وابو یَعْلی ، عن ابی سعید الخُدری ان رسول اﷲۖ قال:((انی اوشک ان ادعی فاجیب،و انی تارک فیکم الثقلین ،کتاب اﷲ، وعترتی اہل بیتی و ان اللطیف الخبیر خبَّرنی انہما لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیہما))

احمداورابو یعلی(٤) نے ابی سعید خدری (٥)سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے اپنے (اصحاب کو مخاطب قرار دیتے ہوئے )فرمایا : مجھے عنقریب بلایا جائے گا اور میں چلا جاؤں گا، چنانچہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور(دوسری) میری عترت، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور بیشک خدائے لطیف و خبیر نے مجھے آگاہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوںگی یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگی،پس میں دیکھتا ہوں کہ میرے بعد تم ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟(٦)

..............

 

اسناد و مدارک کی تحقیق : (١) ابو محمد بن عبد بن حمید بن نصر کشی؛ آپ سمرقند کے دیہات'' کش'' کے باشندہ ہیں ، موصوف نے عبد الرزاق بن ہمام ، ابو دائود اور طیالسی و دیگر محدثین سے روایت نقل کرتے تھے ، امام بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی آپ سے روایات نقل فرمائی ہیں ، آپ کا شمار ثقہ اور ان علماء میں ہوتاہے جنھوں نے حدیث ،اور تفسیر میں کتابیں تالیف کیں ، بہر کیف آپ کی وفات ٢٤٩ ھ میں ہوئی ،آپ کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

تہذیب التہذیب ج ٦،ص٤٥٧، ٤٥٥۔ رجال قیسرانی ص ٣٣٧۔ شذرات الذہب ج٢ ، ص ١٢٠۔ تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ٥٣٤۔ طبقات الحفاظ سیوطی ج٢، ص٤۔

(٢) ابو سعید زید بن ثابت بن ضحاک انصاری خزرجی ؛ موصوف کاتبین وحی میںسے تھے ،آپ کی ٤٥ ھ میں وفات ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

الاصابة جلد١، ص ٥٦٢، ٥٦١۔ الاستیعاب جلد١، ص ٥٥٤، ٥٥١۔ تذکرة الحفاظ جلد٣، ص ٢٣، ٢٢۔

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

مسند عبد بن حمید (قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری دمشق). کنز العمال جلد ١، ص ١٦٦۔ العقد الفرید جلد ٢،ص ١١١۔

(٤)حافظ ابو یعلی احمد بن علی بن مثنی بن یحی بن عیسی بن ہلال تمیمی موصلی ؛ آ پ ہی محدث الجزیرہ اور کتاب المسند الکبیر کے مؤلف ہیں، آپ ٢١٠ ھجری میں شہر موصل عراق میں پیدا ہوئے، اور ٣٠٧ ھ میں وفات پائی ، آپ نے احمد بن حاتم بن طویل ، یحی بن معین اور دوسرے لوگوں سے روایتیں سنی اور پھر انھیں نقل کیاہے ، آ پ کی مشہور کتاب المسند الکبیر ہے ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

معجم البلدان جلد٥، ص ٢٢٥۔ شذرات الذہب جلد ٢،ص ٢٥٠۔ تذکرة الحفاظ جلد٢، ص٧٠٩، ٧٠٧۔

(٥)ابو سعید سعد بن مالک بن سنان بن عبید انصاری خزرجی مدنی خدری؛ آپ کی ہجرت کے تین سال قبل پیدائش ہوئی ،اور ٧٢ ھ میں وفات ہوگئی ، آپ رسول کے ان صحابہ میں سے تھے ، جوآپ کے ساتھ اکثر ساتھ رہا کرتے تھے،آپ نے بیعت الشجرہ میں شرکت کی ،اور ١٢ غزووں میں رسول اسلام کے ہم رکاب جنگ کی ، آپ کے باپ شہدائے احد سے تھے ، آپ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں تقریباً ٥٢ حدیثیں نقل کی گئی ہیں ،بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

حلیة الاولیاء ج ١ ،ص ٢٩٩۔الاصابة ج٢، ص ٨٦، ٨٥۔ الاستیعاب ج ٤، ص ٨٩، ۔ تذکرة الحفاظ ج١، ص٤٤۔

(٦) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

مسند احمد بن حنبل ج ٢ ، ص ٧١۔ مسند ابو یعلی ج ١ ،ص ٣٨٧۔

(یہ قلمی نسخہ ہے جو ظاہریہ لائبریری دمشق میں موجود ہے).

معجم طبرانی ج١،ص ١٢٩۔ ( قلمی نسخہ ) . کنز العمال ج١، ص ١٨٦، ١٦٧۔ طبقات ابن سعد ج٢ ،ص ١٩٤ ۔ ذخائر العقبی ص ١٦۔

نویں حدیث : اگر رسول کے دوستدار ہونا چاہتے ہو تو اہل بیت سے محبت کرو

اخرج الترمذی وحسنہ و الطبرانی ،عن ابن عباس؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((احبوا ﷲ لما یغذوکم بہ من نعمہ ، واحبونی لحب اﷲ، واحبوا اہل بیتی لحبی ))

ترمذی (حسن سند کے ساتھ )اور طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسولۖ نے فرمایا : اے لوگو!خدا کو دوست رکھو کیونکہ وہ تمھیں اپنی نعمتوں سے شکم سیر اور آسودہ کرتا ہے ، اور مجھے بھی خدا کیلئے دوست رکھو،اور میری محبت کے واسطے میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔ (١)

 

دسویں حدیث: اہل بیت کی بارے میں رسولۖ کا خیال رکھو

اخرج البخاری ،عن ابی بکر الصدیق ؛ قال:((ارقبوا محمداًرسول اﷲ ۖفی اہل بیتہ ))

اما م بخاری(٢) حضرت ابو بکر صدیق(٣) سے نقل کرتے ہیں : رسول اسلام کا ان کے اہل بیت(٤) کے بارے میں پورا پورا لحاظ اور پاس رکھو۔

..............

 

اسناد و مدارک کی تحقیق : (١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

الجامع الصحیح ج٢ ،ص ٣٠٨، باب ''مناقب اہل بیت''

(ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن اور غریب ہے).

معجم الکبیر للطبرانی ج ١ ،ص ١٢٥۔ ج ٣، ص ٩٣۔

سیوطی نے اس کتاب کے علاوہ تفسیردرمنثور میںترمذی، طبرانی ،حاکم اور بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

مستدرک الحاکم ج٢،ص ١٤٩۔ کنز العمال ج ٦، ص ٣١٦۔ منتخب کنز العمال ج٥، ص ٩٣۔ جامع الاصول ابن اثیر ج٩، ص١٥٤۔جلد ١٠، ص ١١٠۔ تاریخ ج ٤،ص ١٥٩۔ اسد الغابة ج٢، ص١٢۔ذخائر العقبی ص ١٨۔ مسترک الصحیحین ج٣،ص ١٥٠۔ میزان الاعتدال ج٢، ص ٤٣ ۔ مشکاة المصابیح ص ٥٧٣۔ نزل الابرار ص ٣٤۔ ینابیع المودة ص ١٩٢ و ٢٧١ ۔

(٢)ابو عبد اﷲ محمد بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بدرزبہ بخاری حنفی ؛ موصوف ١٩٤ ھ میں متولد ہوئے، اور ٢٥٦ میں قریہ ٔ خرتنگ سمرقندمیں وفات پائی ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح ( صحیح بخاری)ہے ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ ج ٢ ص ٥٥٧ ،٥٥٥۔ تاریخ بغداد ج ٢،ص ١٦۔ الجرح والتعدیل ج٣،ص ١٩١۔ وفیات الاعیان ج٣،ص ٥٧٦۔ شذرات الذہب ج٢،ص ١٣٤۔ جامع الاصول ج١، ص ١٨٦، ١٨٥۔

(٣) ابو بکر عبد اﷲ بن عثمان قرشی تمیمی صحابی ؛ آپ رسول خداۖ کے یار غار اور بزرگ صحابی میں سے تھے، آپ کا نام زمانہ ٔ جاہلیت میں عبد العزی یا عبد اللات تھا ، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد عبد اﷲ رکھ دیا گیا ، موصوف ہی نے رسول کی وفات کی بعد زمام خلافت کو سنبھالا ، اور اپنی حکومت میں عراق اور فلسطین کے اطراف کو جو ابھی تک اسلامی حکومت کے بالکل کنٹرول میں نہیں تھے، ان کو فتح کیا،اور دو سال کچھ کم حکومت کرنے کے بعد ٦٣ سال کی عمر میں ١٣ھ میں وفات پائی ،بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ ج ١، ص٥ـ٢. الاصابة ج ٤،ص ١٠٤، ٩٧۔

(٤) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

صحیح بخاری ج ٣، ص ٢٥١، باب ''مناقب قرابة الرسول'' طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٨۔ کنزالعمال ج ٧،ص ١٠٦۔ الصواعق المحرقة ص ٢٢٨۔ در منثور ج ٦،ص ٧۔

کاش خلیفہ اول حضرت ابوبکر اس حدیث کے مضمون پر عمل کرتے جسے خود انھوں نے نقل کیا ہے!! حضرت ابو بکر کا اہل بیت کے ساتھ کیا رویہ تھا ،اس سلسلے میں کتاب النص والاجتہاد ، مؤلفہ سید شرف الدین، فصل اول نمبر ١ ۔٧۔ ٨۔٩ دیکھئے .

گیارہویں حدیث : دشمن اہل بیت جہنم کی ہوا کھائے گا

اخرج الطبرانی ، والحاکم ،عن ابن عباس ؛قال:قال رسول اﷲۖ :((یا بنی عبد المطلب انی قد سأ لت اﷲ لکم ثلاثاً ، ان یثبّت قلوبکم و ان یُعلم جاہلکم، ویہدی ضالکم ، و سأ لتہ ان یجعلکم جوداء نجداء رحماء ، فلو ان رجلاً صفن بین الرکن والمقام فصلی و صام ثم مات وہو مبغض لاہل بیت محمد(ص) دخل النار ))

طبرانی اور حاکم ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا : اے بنی عبد المطلب !میں نے خدا سے تمھارے لئے تین چیزیں طلب کی ہیں ،(اول) یہ کہ وہ تمھارے دلوں کو ثابت قدم رکھے ،(دوم) یہ کہ تمھارے جاہلوں کو تحصیل علم کی توفیق عطاکرے ،(سوم یہ کہ)تم میں سے جو راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ان کی ہدایت فرمائے،اور میں نے خدا سے چاہا ہے کہ وہ تم کو سخی ،دلیر اور باہمی رحم و کرم کا خو گر بنائے،(کیونکہ یہ طے ہو چکا ہے کہ ) جو شخص رکن و مقام(١) کے درمیان نمازیں ادا کرے ،اور روزے رکھے (اور اپنی ساری عمر اسی طرح گزار دے ) لیکن اگر وہ بغض اہل بیت لے کر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا ۔(٢)

..............

 

اسناد و مدارک کی تحقیق : (١) یہ مسجد الحرام میں دو مقدس مقام کے نام ہیں .

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر ج ٣، ص ١٢١۔ حاکم ؛مستدرک الصحیحین ج٣، ص ١٤٨۔

حاکم اس حدیث کو ابن عباس سے مرفوع سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں :یہ حدیث بشرط مسلم صحیح ہے .

مجمع الزوائد ج٩، ص ١٧١۔ منتخب کنز العمال ج ٥ ، ص ٣٠٦۔ تاریخ بغداد ٣، ص ١٢٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٨۔

محب الدین طبری نے اس حدیث کو اپنی مذکورہ کتاب میں اختصار کے طور پر نقل کیا ہے ،اور کہتے ہیں : یہ حدیث ملا قاری نے اپنی کتاب '' السیرة '' میں نقل کیا ہے .

ملاقاری ؛ کتاب السیرة ۔ دیلمی ؛ مسند الفردوس ( قلمی نسخہ لالہ لی لائبریری )

دیلمی نے اس حدیث کو ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے :

(( لو ان رجلاً صفن قدمیہ بین الرکن والمقام و صام وصلی ثم لقی اﷲ مبغضاً لآل محمد دخل النار ))

پس جو شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑے کھڑے روزے اورنمازیں ادا کرے، (اور اپنی ساری عمر اسی طرح گزار دے ) لیکن اگر بغض اہل بیت لے کر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا .

 

 

بارہویں حدیث :

 

بارہویں حدیث : بنی ہاشم کا بغض باعث کفر ہے

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛قال:قال رسول اﷲ ۖ :((بغض بنی ہاشم والانصار کفر ، وبغض العرب نفاق))

طبرانی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖنے فرمایا : بنی ہاشم(١) اورانصارسے بغض رکھنا باعث کفر ہے ،اور عرب (لوگوں )سے دشمنی رکھنا موجب نفاق ہے۔(٢)

 

تیرھویں حدیث : اہل بیت سے بغض رکھنے والا منافق ہے

اخرج ابن عدی ، فی'' الاکلیل'' عن ابی سعید الخدری ؛ قال :قال رسول اﷲ ۖ :((من ابغضنا اہل البیت فہومنافق ))

ابن عدی (٣)کتاب اکلیل میں ابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتۖ نے فرمایا : جو اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھتا ہے وہ منافق ہے ۔(٤)

 

چودھویں حدیث: اہل بیت کا دشمن یقیناً جہنم میں جائے گا

اخرج ابن حبّان فی صحیحہ، والحاکم ، عن ابی سعید الخدری ؛ قال :قال رسول اﷲ ۖ :((والذی نفسی بیدہ لا یبغضنا اہلَ البیت رجل الا ادخلہ اﷲ النارَ))

ابن حبان(٥) (اپنی صحیح میں) اور حاکم، ابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا:قسم اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ،جو اہل بیت کو دشمن رکھے گا خدا یقیناً اسے جہنم میں داخل کرے گا ۔(٦)

..............

 

اسناد و مدارک کی تحقیق: (١)مذکورہ حدیث محل اشکال معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ نص قرآن سے متعارض ہے، اس لئے کہ انسان کی فضیلت تقوی اور اس کے کردار سے ہوتی ہے، علاوہ اس کے خو درسول اسلام نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ عرب کو عجم پر اور قرشی کو حبشی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، فضیلت صرف تقوی الٰہی سے ہوتی ہے ، احتمال قوی ہے کہ یہ حدیث اس زمانہ میں گڑھی گئی کہ جب ذات پات اور نژاد پرستی کا دور دورہ تھا ، ورنہ اس حدیث کے مطابق ابو لہب کو جو بنی ہاشم سے تھا دیگر مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہوجائیگی جبکہ اس کے بارے میں قرآن کی نص ہے کہ وہ جہنمی ہے !لیکن اہل بیت کی فضیلت خاندان پرستی کی بنا پر نہیں ہے، ان کی فضیلت ان کی ذاتی لیا قت، شرافت اور کرامت کی بناپر ہے .مترجم .

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی منقول ہے :

مجمع الزوائد ج ٢، ص ١٧٢ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢٠٤۔

(٣) ابو احمد عبد اﷲ بن عدی جرجانی مشہور بہ ابن قطان؛ موصوف کی پیدائش ٢٧٧ ھ میں جرجان میں ہوئی، اور ٣٦٥ ھ میں چل بسے ، آپ بہت بڑے محدث، فقیہ اور علم رجال کے ماہرعالم تھے ، آپ نے طلب علم میں مختلف شہروں کا سفر کیا ، آپ کی بعض کتابیںیہ ہیں :

الکامل ، المعجم ، الانتصار اوراسماء الصحابة .

موصوف کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ ج ٣ ص٩٤٠ لسان المیزان ج١،ص ٦۔ اللباب ج١،ص ٢١٩۔ شذرات الذہب ج٣،ص٥١۔

(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

ذخائر العقبی .

( اس حدیث کو اس کتاب میںمناقب احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے) .

مناوی؛ کنوز الحقائق ص١٣٤۔ ینابیع المودة ص ٤٧۔سیوطی در منثور ج٦، ص٧۔

مذکورہ حدیث بعض نسخوں میں اس طرح وارد ہوئی ہے :

من ابغض اہل البیت فہو منافق .

جوبھی اہل بیت سے د شمنی رکھے وہ منافق ہے .

(٥) ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبا ن تمیمی بستی؛ موصوف ٢٧٠ ھ میں متولد ہوئے ، اور سیستان میں ٣٥٤ ھ میں وفات پائی ، آپ علم فقہ، حدیث ، طب ،نجوم اور لغت میں کافی دست رس رکھتے تھے ، آپ سمر قند کے قاضی بھی تھے ، آ پ نے متعددکتابیں تالیف کی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں : ا لمسند الصحیح ، الضعفاء اور التاریخ . آپ شہر نیشاپور ، بخارہ ،نسا اور سیستان میں قیام پذیر رہے ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتاب میںدیکھئے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ،ص ٩٢٤، ٩٢٠.

(٦) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

ہیثمی ؛ الظمان الی زوائد ابن حبان ص ٥٥٥

( ہیثمی نے اس کتاب میں لفظ اہل البیت حذف کردیاہے )

ا لصواعق ا لمحرقة ص ٢٣٧، ابن حجر۔

حاکم؛ مستدرک ا لصحیحین ج٣، ص ١٥٠.

حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث بشرط صحیح مسلم صحیح ہے .

سیوطی ؛ ا لخصائص الکبری ج ٢،ص ٢٦٦۔ در منثور ج٦، ص ٢١٨۔

اورسیوطی کہتے ہیں: یہ حدیث احمد بن حنبل ، حاکم اور ابن حبان نے ابو سعید خدری سے نقل کی ہے .

 

پندرھویں حدیث:

 

پندرھویں حدیث: اہل بیت سے بغض و حسد رکھنے والا حوض کوثر سے دھتکارا جائے گا

اخرج الطبرانی ،عن الحسن بن علی رضی اﷲ عنہما انہ قال لمعاویة بن خدیج: یا معاویہ بن خدیج! ایاک و بغضنا ، فان رسول اﷲ ۖ قال: ((لا یبغضنا احد ، ولا یحسدنا احد الا ذید یوم القیامة عن الحوض بسیاط من نار ))

طبرانی حسن بن علی(١) سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن نے معاویہ بن خدیج کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا:اے معاویہ بن خدیج(٢) !ہمارے بغض سے اجتناب کر،کیونکہ رسول ۖنے ارشاد فرمایا ہے : جو بھی ہم سے بغض اور حسد کرے گا اسے روز قیامت آتشیں کوڑوں سے دھتکار کے بھگادیاجائے گا ۔ (٣)

 

سولھویںحدیث: عترت رسولۖکے حق کو اعتراف نہ کرنے والا منافق ، حرامی اور ولد الحیض ہوگا

اخرج ابن عدی، والبیہقی فی ''شعب الایمان ''عن علی ؛ قال: قال رسول ۖ :((من لم یعرف حق عترتی والانصار فہو لاحد ی ثلاث ، اما منافق ، واما لزنیة ، واما لغیر طہور۔یعنی حملتہ امہ علی غیر طہر.))

ابن عدی اور بیہقی(٤) ]اپنی کتاب شعب الایمان میں[ نے علی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتۖ نے فرمایا: جو میری عترت اور انصار کے حق کو نہ پہنچانے وہ تین حالتوں سے خالی نہیں :یا وہ منافق ہوگا ، یا زنا زادہ یا پھر اس کانطفہ ایام عادت میںاستقرار پایا ہوگا ( یعنی اس کی ماں کے رحم میں اس کا نطفہ اس وقت قائم ہوا ہو جب اس کی ماں حیض کی حالت میں ہو )۔ ( ٥)

..............

 

گزشتہ اسناد و مدارک کی تحقیق: (١)ابو محمد اما م حسن مجتبی ابن علی ابی طالب (ع) ہاشمی؛ آپ کی ولادت با سعادت١٥ رمضان ٢ ھ میں ہوئی، اور ٥٠ ھ میں معاویہ کے بہکانے پر آپ کی بیوی جعدہ نے آپ کو زہر دیدیا، جس کی بناپرآپ کی شہادت واقع ہوگئی ، آپ کی اور امام حسین ـ کی ہی شان میں رسول اسلام نے فرمایا :

''الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنة ''

حسن اور حسین جوانان حنت کے سردار ہیں ، بہر حال حضرت علی ـ کی شہادت کے بعد عراق کے لوگوں نے امام حسن ـ کی بیعت کی، بیعت کے بعد حضرت امام حسن ـ معاویہ بن ابی سفیان سے اس کی سر کشی کی بنا پر نبرد آزما ہوئے، لیکن آپ کے لشکر والوں نے آپ کے ساتھ دھوکہ دیا، اور معاویہ کی دولت کے چال میں آکر وہ حضرت ہی کے مقابلہ میں آگئے ، جسکی وجہ سے ناگز یر ہوکر امام حسن ـ نے معاویہ سے صلح کی ، اور مدینہ پلٹ آئے ، آپ کے حالات زندگی متعدد کتابوں نقل کئے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :

فی رحاب ائمة اہل البیت ج ٢ ، ص ٤٦۔ حلیة الاولیاء ج ٢ ، ص ٤٥ ، ٣٩۔ الاستیعاب ج١، ص ٣٩٤، ٣٨٣۔ الاصابة ج ٢، ص ١٣، ١١۔

(٢)معاویہ بن خدیج بن عقبہ سکونی کندی ؛ موصوف کا معاویہ بن ابو سفیان کے قریب مشاوروں میں شمار ہوتا ہے ، اور بغض اہل بیت میں بہت زیادہ شہر ت رکھتے تھے ، چنانچہ علامہ مدائنی ابو طفیل سے اس طرح نقل کرتے ہیں :

ایک مرتبہ امام حسن ـ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : کیا تم معاویہ بن خدیج کو پہنچانتے ہو ؟ اس نے کہا :ہاں ، تو امام نے کہا : اب جب بھی تم اسے دیکھو تو مجھے خبر کرنا ، پس اس صحابی نے معاویہ بن خدیج کو عمر وبن حریث کے گھر سے نکلتا ہوادیکھا، تو اس نے امام سے کہا : یہی معاویہ بن خدیج ہے ، حضرت نے اس کو بلایا اور کہا :

انت شاتم علیا ً عند ابن آکلة الاکباد ؟!

تو ہی ہندہ جگر خوار کے بیٹے کے نزدیک میرے باپ علی کو گالی دیتا ہے:

((واﷲ لئن وردت الحوض ولا تردہ لترینہ مشمرا عن ساقیہ حاسراً عن ذراعیہ یذود عنہ المنافقین ))

خدا کی قسم جب تو روز قیامت حوض کوثر کے کنارے پہنچے گا ، تو پتہ چلے گا کہ تو ہرگز وہاں سے نہیں گزر سکے گا، اور وہاں علی ـ کو دیکھے گا کہ وہ اپنی آستینوں اور پائجامہ کو سمیٹے منافقین کیلئے با لکل آمادہ کھڑے ہیں ،اور منافقوں کو پکڑ پکڑ کرحوض کوثر سے دور کررہے ہیں .

مزید معلومات کیلئے دیکھئے :

فی رحاب ائمہ اہل البیت جلد ٣، ص ٢٨۔ ٧٢.

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی منقول ہے :

طبرانی ؛ المعجم ا لکبیر جلد١، ص١٢٤،وص ١٣٢(قلمی نسخہ ،ظاہریہ لائبریری دمشق سوریہ) مجمع الزوائد جلد ٩،ص ١٧٢۔ کنزالعمال ج لد٦، ص ٢١٨۔ منتخب کنز العمال جلد٥، ص ٩٤۔ درمنثور جلد ٦،ص ٧۔

طبرانی نے مذکورہ حدیث کے ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

ابو مسلم عبد الٰہ بن عمر و واقفی کشی چند واسطے کے بعد معاویہ بن خدیج سے نقل کرتے ہیں: ایک مرتبہ یزید بن معاویہ نے مجھے(معاویہ بن خدیج) بلایا اور حضرت امام حسن کی بیٹی یا آپ کی بہن سے اپنا رشتہ طے کرنے کیلئے بھیجا ، جب اس چیز کو میں نے امام حسن سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا : '' انا قوم لا نزوج نسائنا حتی نستامرہن فاتہا '' ہم وہ لو گ ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی کسی سے نہیں کرتے مگر ان سے مشورہ کرنے کے بعد ، لہٰذا تو خود اس کے پاس جا اور اپنے مطلب کو بیان کر ،معاویہ بن خدیج امام کی بات کو سن کر آپ کی دختر کے پاس گیا ،اور اپنے مطلب کو بیان کیا ، تو اس باعفت دختر نے فرمایا : خدا کی قسم میں یہ کام ہرگز نہیں کر سکتی ، اس لئے کہ اگر یہ کام انجام پا گیا تو تیرا دوست (یزید ) فرعون ہو گا جو بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اور پھر ان کی لڑکیوں کو قیدی بنا لیتا تھا ، میں (معاویہ بن خدیج ) یہ سن کر بہت پشیمان ہوا ،اور امام کے پاس آکر عرض کیا : آپ نے ایسی لڑکی کے پاس بھیجا تھا جو نہایت زیرک اور لا جواب خطیب ہے ، وہ تو امیر المومنین معاویہ کے بیٹے کو فرعون کہہ رہی ہے! اس وقت امام نے فرمایا :

یا معاویہ بن خدیج! ایاک و بغضنا ، فان رسول اﷲ ۖ قال: ((لا یبغضنا احد ، ولا یحسدنا احد الا ذید یوم القیامة عن الحوض بسیاط من نار))

اے معاویہ بن خدیج !ہمارے بغض سے اجتناب کر،کیونکہ رسول ۖنے ارشاد فرمایا ہے :

جو بھی ہم سے بغض اور حسد کرے گا اسے روز قیامت آتشی ںنیزوں سے دھتکار کے بھکادیا جائیگا .

(٤)ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن موسی خسرو جردی بیہقی ؛ موصوف ٣٨٤ ھ میں متولد ہوئے، اور ٤٥٨ ھ میں وفات پائے ، آپ کی جملہ کتابوں میںسے حسب ذیل کتابیں یہ ہیں :

ا لسنن ، الآثار ، شعب الایمان اور دلا ئل النبوة .

موصوف کے حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے :

تذکرة الحفاظ ج٣، ١١٣٥، ١١٣٢۔ الاعلام ج ١، ص ١١٣۔

(٥) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی منقول ہے :

کنز العمال جلد ٦،ص ٢١٨۔ منتخب کنزالعمال ج ٥، ص٩٤۔ الفصول المہمة ص ٢٧۔ الصواعق المحرقة ص ٢٣١۔

سترھویں حدیث: رسولۖ کا آخری ارشاد : میرے اہل بیت کے بارے میں میرا پاس رکھنا

اخرج الطبرانی فی الاوسط ، عن ابن عمر ؛ قال: ((آخر ما تکلم بہ رسول ۖ : ((اخلفونی فی اہل بیتی )).

طبرانی کتاب'' المعجم الاوسط '' میں ابن عمر (١)سے نقل کرتے ہیں : رسول اکرم نے آخری وقت ( جب آپ دنیا سے رخصت ہورہے تھے ) جس جملہ کو ارشاد فرمایا وہ یہ تھا : اہل بیت کے بارے میں تم میرا لحاظ رکھنا ۔(٢)

 

اٹھارہویں حدیث: بے حب اہل بیت تمام اعمال بیکار ہیں

اخرج الطبرانی فی الاوسط،عن الحسن بن علی رضی اﷲ عنہما؛ ان رسول اﷲ ۖ قال: ((الزموامودتنا اہل البیت فانہ من لقی اﷲ وہو یودنا دخل الجنة بشفاعتنا،والذی نفسی بیدہ لاینفع عبداً عملہ الا بمعرفة حقنا ))

طبرانی کتاب'' المعجم الاوسط ''میں علی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول نے فرمایا:ہم اہل بیت کی محبت و مودت کی گرہ ( اپنے دلوں میں )مضبوط باندھ لو ،اور اسے اپنے اوپر لازم قرار دے لو، کیونکہ جو بھی ہماری محبت لے کر مرے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں داخل ہوگا ،( اور بلا شک جس کے دل میں ہماری محبت نہ ہوگی وہ جہنم میں جائے گا ) قسم اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ، کسی کا کوئی عمل فائدہ مند نہیں ہوگا مگر ہمارے حق کی معرفت کے ساتھ ۔ (٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) ابو عبد الرحمن عبد اﷲ بن عمر بن الخطاب ؛ موصوف ہجرت کے دس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے، اور ٧٣ ھ میں مکہ میں وفات پاگئے ، صاحبان کتب صحاح ستہ نے آپ سے اپنی کتابوں میں ٢٦٣٠ حدیثیںنقل فرمائی ہیں ، آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے :

الاصابة ج ٤،ص ١٠٩،١٠٧۔ تذکرة الحفاظ ج ١ ، ص ٤٠ ، ٣٧۔

(٢) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی ؛مجمع الزوائد ج ٩، ص ١٤٦۔

اس حدیث کو ہیثمی نے اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے .

الصواعق المحرقة ص ٩٠۔ نبہانی بیرونی؛ الشرف ا لمؤبد

(٣) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی ؛مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٢۔

اس حدیث کو ہیثمی نے طبرانی کی کتاب معجم اوسط سے اس کتاب میں نقل کیا ہے .

ا لصواعق المحرقةص ٢٣٠۔

 

 

انیسویں حدیث :

 

انیسویں حدیث : اہل بیت کا دشمن بروز قیامت یہودی محشور ہوگا

اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن جابر بن عبدا ﷲ رضی اﷲ عنہ؛ قال: خطبنا رسول ۖ فسمعتہ وہو یقول :(( ایہا الناس من ابغضنا اہل البیت حشرہ اﷲ تعالی یوم القیامة یہودیاً ))

طبرانی'' المعجم الاوسط ''میں جابر بن عبد اﷲ(١) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے ( ایک دن ) خطبہ دیا جس میں آپ کومیںنے یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! جس نے اہل بیت سے بغض رکھا خدا روز قیامت اسے یہودی محشور کرے گا ۔(٢)

 

بیسویں حدیث: جو بنی ہاشم کو دوست نہ رکھے وہ مؤمن نہیں

اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن عبداﷲ بن جعفر؛ قال:سمعت رسول اﷲ ۖ یقول:((یا بنی ہاشم ، انی قد سألت اﷲ لکم ان یجعلکم نجداء رحماء ، وسألتہ ان یہدی ضالکم ، و یؤمن خائفکم ، ویشبع جائعکم ، والذی نفسی بیدہ لا یؤمن احد حتی یحبکم بحبی ، اترجون ان تدخلوا الجنة بشفاعتی ولا یرجوہا بنو عبد المطلب))

طبرانی المعجم الاوسط میں عبد اﷲ بن جعفر (٣)سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام سے میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا : اے بنی ہاشم!میں نے خدا سے تمھارے لئے (چند چیزوں کو چاہا ہے): یہ کہ وہ تمھیں شجاع قرار دے ، اورباہمی رحم وکرم کا خوگر بنائے، یہ کہ جو تم میں بھٹک جائے اس کی راہنمائی فرمائے ،اور جو تم میں خائف اور کمزور ہوں ان کو امن و امان میں رکھے ، جو بھوکے ہوں انھیں شکم سیر کرے، اس ذات کی قسم جسکے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ،کوئی بھی شخص سچا مسلمان اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ میرے واسطے سے تم سے محبت نہ کرے ،اے لوگو! کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ تم میری شفاعت کے ذریعہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ، اور بنی عبد المطلب یہ امیدہ نہ رکھیں!(یہ ہرگز نہیں ہو سکتا بلکہ وہ میری شفاعت کے تمھاری بنسبت زیادہ حقدار ہیں ) (٤).

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)ابو عبد اﷲ جابر بن عبد اﷲ بن عمر انصاری سلمی ؛ آپ کا شما ر رسول کے جلیل القدر صحابیوں ، اور موثق راویوں میں ہوتا ہے ، آپ ہجرت سے بیس سال قبل پیدا ہوئے ، آپ عقبہ ٔ ثانیہ میں اپنے باپ کے ساتھ رسول کی خدمت میں مشرف ہوئے،حالانکہ اس وقت آپ بہت چھوٹے تھے ، امام بخاری نقل کرتے ہیں: جنگ بدر میں جناب جابر کے ذمہ پانی کا اٹھانا، اور اس کا بند و بست کرنا تھا ، اس کی بعد آپ نے ١٨ جنگوں میں رسول کے ساتھ شرکت کی ، اور کلبی کے نقل کے مطابق آپ نے جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت کی ،بہرحال آپ کا شمار بہت اچھے حفاظ احادیث میں سے ہوتا ہے،چنانچہ آپ کی طرف ایک صحیفہ بھی منسوب ہے جس کے سلسلہ ٔرواة میں پہلا فرد سلیمان بن قیس یشکری ہے ، آپ آخری عمر میںنابینا ہوگئے تھے ، اور آپ نے ٧٤ ھ میں ٩٤ سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی ، آپ کے حالات زندگی کے مطالعہ کیلئے مندرجہ کتابیں دیکھئے:

الاستیعاب ج ١،ص ٢٢٠، ٢١٩۔ طبقات ابن سعد ج٥، ص ٤٦٧۔ تہذیب التہذیب ج٤ ،ص ٢١٤۔اسد الغابة ج١ ص ٣٥٨، ٣٥٦۔

(٢)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٢۔

ہیثمی نے اس حدیث کو اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے)

ابن حجر عسقلانی ؛ لسان المیزان ،ج ٣،ص ١٠۔

(٣)عبد اﷲ بن جعفر بن ابی طالب ہاشمی قرشی ؛ آپ رسول اسلام کے خاص صحابی ، تھے ماں کانام اسماء بنت عمیس تھا ، ہجرت کے پہلے سال آپ کی ولادت حبشہ کی سر زمین پر ہوئی ،آپ ہی مسلمان کے پہلے وہ فرز ند تھے جس کی پیدائش حبشہ میں ہوئی ، اس کے بعد آپ اپنے باپ کی ساتھ مدینہ آئے ، اور حدیث رسول کو حفظ کرنے کے بعد نقل کرنے لگے ، اور بعد میں بصرہ ، کوفہ اور شام میں سکونت اختیار کی ، اور اپنے نہایت جود وسخاوت کی بناپر سخی و کریم جیسے القا ب سے مشہور ہوئے ، آپ نے جنگ صفین میں حضرت علی ـ کی طرف سے ایک ممتاز لشکری کی حیثیت سے جنگ میں شرکت کی ، اور ٩٠ سال کی عمر میں ٩٠ ھ میں شہر مدینہ میں وفات پائی .

(٤)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی؛مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٠۔

ہیثمی نے اس حدیث کو اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے.

کنز العمال ج٦،ص ٢٠٣۔حاکم؛ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٤٨۔

(حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث شرط مسلم کے اعتبار سے صحیح ہے .

الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔

اکیسویںحدیث: اہل بیت امت مسلمہ کے لئے امان ہیں

اخرج ابن ابی شیبة ،و مُسدَّد فی مسندیہما ،والحکیم الترمذی ،فی نوادر الاصول ،و ابو یعلی و الطبرانی ،عن سلمة بن اکوع ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ:((النجوم امان لاہل السماء و اہل بیتی امان لامتی ))

ترجمہ:۔ابن ابی شیبہ(١) اور مسدد (٢)نے اپنی اپنی '' مسندوں'' میں اور حکیم ترمذی (٣)نے اپنی کتاب'' نوادر الاصول ''میں نیز ابو یعلی و طبرانی نے سلمہ بن اکوع (٤)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : جیسے اہل آسمان کیلئے ستارے باعث امان ہیں اسی طرح میری امت کیلئے میرے اہل بیت امن و نجات کے مرکز ہیں ۔ (٥)

 

بائیسویں حدیث : دو چیزوں سے تمسک رکھنے والا کبھی گمراہ نہ ہوگا

اخرج البزار ، عن ابی ہریرة ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((انی خلفت فیکم اثنین لن تضلوا بعد ہما کتاب اﷲ و نسبتی و لن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض))

بزار (٦)نے ابو ہریرہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا : میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان کے ہو تے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ،اور وہ کتاب خدا اور میرا نسب ہے(یعنی میری نسل اور عترت) جو کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے ،یہاں تک کہ وہ باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوںگے ۔(٨)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)ابو بکر عبد ﷲبن محمد بن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان کوفی ؛ موصوف ١٥٩ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٥٣ ھ میں وفات پائی ، آپ مقام رصافہ میں استاذ تھے ، اور آپ کااپنے زمانہ کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ، آپ کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میںملاحظہ کریں :

طبقات ابن سعد ج ٦،ص ٢٧٧ ۔ فہرست ندیم ص٢٢٩۔ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ١٧ ، ٦٦۔ تذکرة الحفاظ ج ٢،ص ٤٣٣، ٤٣٢۔ شذارات الذہب ج٢،ص ٨٥۔

(٢) ابو الحسن مسدد بن مُسَرْ ہد اسدی بصری ؛ یہ وہ فرد ہیں جن سے ابوذرعہ ، بخاری ، ابودائود ، قاضی اسمعیل ، اور ابو حنیفہ وغیرہ نے حدیثیں نقل کی ہیں ، آپ پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے بصرہ میں مسند کی تالیف پر کام شروع کیا ، چنانچہ آپ کو اپنے زمانہ کا امام المصنفین اور حجت کہا جاتا ہے ، آپ کی امام احمد بن حنبل سے خط و کتابت جاری رہتی تھی ، آپ کی موت ٢٢٨ ھ میں واقع ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

طبقات حنابلہ ج١، ص ٤٥٣ ، ٣٤١ ۔ الاعلام ج ٨، ص ١٠٨۔ ابن سعد ج ٦،ص ٢٧٧ ۔

(٣) ابو عبد اﷲ محمد بن علی بن حسن بن شیر ملقب بہ حکیم ترمذی ؛ آپ کا خراسان کے بزرگ اساتذہ میں شمار ہوتا تھا ، آپ اپنے باپ اور قتیبہ بن سعید و دیگر لوگوںسے حدیث نقل کرتے تھے، آپ کی اہم ترین تالیف نوادر الاصول فی معرفةاخبار الرسول ، ختم الولایہ ، علل الشریعہ والفروق ہیں ،آپ کی موت ٢٨٥ ھ میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابو میںملاحظہ کریں:

طبقات الشا فعیہ حنابلہ ج٢، ص٢٠۔ الاعلام ج ٧، ص١٥٦۔ معجم المؤلفین ج١٠، ص ٣١٥۔

(٤)سلمہ بن عمرو بن اکوع ؛ آپ عرب کے مشہور شجاع لوگوں میں سے تھے ، آپ کی پیدائش ہجرت کے چھ سال قبل ہوئی ، اور بیعت الشجرہ میں رسول کے ہاتھوں پر جان نثاری کی غرض سے بیعت کی ، اور رسول کے ساتھ سات جنگوں میں شریک ہوئے ، اور ٧٤ ہجری میں وفات پائی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

الاصابة ج ٣، ص ١١٨۔ طبقات ابن سعد ج ٤،ص ٣٨ ۔

(٥)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

مستدرک الصحیحین ج ٣، ص ٤٥٧۔

جو حدیث اس کتاب میں نقل ہوئی ہے اس کے الفاظ میں تھوڑا سا فرق پایا جاتا ہے .

کنزالعمال ج ٦، ص٦١٢۔ ج٧، ص ٢١٧۔ مجمع الزوائد ج ٩،ص ١٧٤۔ ( نقل از طبرانی )

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٧۔

محب الدین طبری نے اس حدیث کوحضرت علی ـ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''النجوم امان لاہل السماء فاذا ذہبت النجوم ذہب اہل السماء و اہل بیتی امان لاہل الارض فاذا ذہب اہل بیتی ذہب اہل الارض''۔

ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہوتے ہیں لہٰذا جب بھی ستارے آ سمان سے ختم ہوجائیںتو آسمان والے بھی ختم اور نابود ہوجائینگے، اسی طرح میرے اہل بیت اہل زمین کیلئے امان ہیں لہٰذا اگر اہل بیت روئے زمین سے چلے جائیں تو اہل زمین کا بھی خاتمہ ہوجائیگا .

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد طبری کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے احمد بن حنبل کی کتاب المناقب سے نقل کی ہے .

(٦) ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بزار بصری مؤلف ِ'' المسند'' ؛ آپ نے بصرہ سے بغداد کی طرف ہجرت کی ، اور وہاں پر محدث جیسے عہدے پر فائز ہوگئے ، دوبار اصفہان سفر کیا ، اور سہلہ میں ٢٩١ ھ میں وفات پائی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

تذکرة الحفاظ ج٢ ، ص ٦٥٤، ٦٥٣۔ ذکر اخبار اصفہان ج ١، ص ١٠٤ ۔ لسان المیزان ج١، ص ٢٣٧۔ تاریخ بغداد ج٤، ص ٣٣٤۔

(٧)ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخر ( یا عمیر بن عامر ) دوسی ؛ دور جاہلیت میںموصوف کا نا م عبد الشمس تھا ، اور آپ فتح خیبر کے موقع پر مدینہ آئے، اور ٧ ھ میں اسلام قبول کیا ، انھوں نے اگر چہ رسول کی ساتھ بہت کم زما نہ گزارا ہے مگر آپ نے دیگر تمام صحابہ سے زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں !ابن حجر کہتے ہیں: اہل حدیث کے عقیدہ کے لحاظ سے ابوہریرہ سب سے زیادہ حدیث نقل کرنے والے فرد ہیں ، بہر حال آپ کی وفات ٥٨ ھ میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

الاصابة ج ٢، ص ٢٠٧ ، ١٩٩۔ تذکرة الحفاظ ج١، ص ٣٧، ٣٢ ۔

حضرت ابو ہریرہ کے مزید حالات معلوم کرنے کیلئے کتاب ابو ہریرہ مؤلفہ عبد الحسین شرف الدین دیکھئے .مترجم .

(٨) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٣۔

تیئیسویں حدیث: اہل بیت اور کتاب خدا سے تمسک رکھنے والا گمراہ نہ ہوگا

اخرج البزار ، عن علی رضی اﷲ عنہ ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((انی مقبوض، وانی قد ترکت فیکم الثقلین ،کتاب اﷲ و اہل بیتی ، وانکم لن تضلوا بعدہما))

بزار نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام ۖ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! اس حال میں کہ میری عنقریب روح قبض ہونے والی ہے تمھارے درمیان دو گرانقدر(١) چیزیں چھوڑ رہا ہوں : کتاب خدا اور میرے اہل بیت ، ان کے ہوتے ہو ئے تم ہرگز ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔(٢)

 

چوبیسویں حدیث: اہل بیت کی مثال سفینۂ نوح جیسی ہے

اخرج البزار ، عن عبد اﷲ بن الزبیر ؛ان النبی ۖ قال :((مثل اہل بیتی مثل سفینة نوح من رکب فیہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق ))

بزارعبد اﷲ بن زبیر(٣) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے، جو ا س پر سوار ہوا تھا اس نے نجات حاصل کی اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا تھا ۔(اسی طرح جو اہل بیت (ع) کا دامن تھامے گا وہ نجات حاصل کرے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ) (٤)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)عربی زبان کے مشہور لغوی جناب ابن منظور لفظ '' ثقل '' کے ذیل میں کہتے ہیں: عرب لوگ ہر اس چیز کونفیس کہتے ہیں جو ان کے نزدیک نفیس ، ارزشمند اور گران قیمت ہو کہ جس کی حفاظت میں نگہبانی کی ضرورت پڑے ، چنانچہ اس بات کی وجہ تسمیہ کہ رسول اسلام نے قرآن اور اہل بیت کو کیوں اس لفظ ( ثقلین)سے تعبیر کیا ؟ اس میں کیا وجہ تھی ؟تو کہتے ہیں چونکہ اہل بیت اور قرآن عظمت و فضیلت کے اعتبارسے بلند شان رکھتے تھے لہٰذا رسول نے ان دونوں چیزوں کو اس لفظ سے تعبیر کیا ،اور انھیں لفظ ثقل سے تشبیہ دی ،لیکن ثعلب لغوی کہتے ہیں: اہل بیت اور قرآن کی تشبیہ رسول نے اس لئے دی ہے کہ ان دو چیزوں کی پیروی بہت گران ، اور دشوار ہے ، (اور ثقل کے لغوی معنی بھی گران اور وزنی کے ہیں) .

دیکھئے : لسان المیزان ج١١، ص ٨٨۔

(٢)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٣۔

(٣)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٨۔ المعجم الکبیر ج١،ص ١٢٥۔ ذخائر العقبی ص ٢٠۔ منتخب کنزالعمال ج٥، ص ٩٢۔

(٤) ابو بکر عبد اﷲ بن زبیر بن عوام بن خویلد قرشی اسدی ؛ واحدی کے قول کے مطابق موصوف ٢ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٧٣ ھ میں وفات پائے ، موصوف فتح افریقہ میں عثمان کی جانب سے لشکر میں شریک تھے ، دوسری جانب حضرت علی ـ کے دور خلافت کے ابتداء میں حضرت علی ـ کے خلاف جنگ جمل بھڑکانے والوں میں سے تھے ، اور حضرت کی شہادت کے بعد انھوں نے معاویہ کی بیعت کرلی ، لیکن معاویہ اور یزید کے انتقال کے بعد انھوں نے چاہا اپنے لئے لوگوں سے بیعت اخذ کریں لیکن عبد الملک بن مروان نے حجاج بن ثقفی کی سپہ سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کیلئے بھیجا، چنانچہ ان کے درمیان جنگ ہوئی اور عبد اﷲ بن زبیر ٧٣ ھ میں مارے گئے ، آپ کے حالا ت زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:

الاصابة ج ٤،ص ٧١ ، ٦٧۔ الاعلام ج ٤،ص ٢١٨۔

 

 

 پچیسویں حدیث :

 

پچیسویں حدیث : حدیث سفینہ اخرج البزار ، عن بن عباس؛قال:قال رسول اﷲ ۖ :((مثل اہل بیتی مثل سفینة نوح ،من رکب فیہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق))۔

بزار ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : میرے اہل بیت کے مثال سفینۂ نوح جیسی ہے، ا س پرجو سوار ہوا تھااس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا تھا۔(اسی طرح جو اہل بیت (ع) کا دامن تھامے گا وہ نجات حاصل کرے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ) (١)

 

چھبیسویں حدیث:

حدیث سفینہ اور حدیث باب حطہ اخرج الطبرانی ، عن ابی ذر ؛ سمعت رسول اﷲ ۖ:((مثل اہل بیتی فیکم مثل سفینة نوح فی قوم نوح ،من رکبہا نجا ، ومن تخلف عنہا ہلک ، ومثل باب حطة فی بنی اسرائیل ))۔

طبرانی نے ابوذر (٢)سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تمھارے درمیان میرے اہل بیت کے مثال بالکل ویسی ہے جیسی قوم نوح میں کشتی نوح کی تھی، جو ا س پر سوار ہوا اس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ،اور میرے اہل بیت کی مثال تم میں باب حطہ (٣) جیسی ہے بنی اسرائیل میں ۔(٤)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٨٦٨۔ حلیة الاولیاء ج٤، ص ٣٠٦۔ کنزالعمال ج٦، ص١٦ ٢۔

(٢) ابوذر جندب بن جنادہ غفاری ؛ آ پ کا شمار سابق اسلام لانے میں ہوتا ہے ،اور آپ ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ، آپ نے بیعت کرنے کے فوراًبعد مسلمان ہونے کا اظہار کردیا تھا ، اور پھر اپنے قبیلہ کی طرف تبلیغ کرنے آئے، اور کچھ مدت کے بعد مدینہ چلے آئے ، آپ علم ، تقوی ، زہد ، جہاد ، اور صدق و اخلاص میں بے مثال تھے ، چنانچہ علامہ ذہبی کہتے ہیں: آپ کیلئے بہت فضائل اور مناقب ہیں منجملہ ان کے رسول کا یہ قول مشہور ہے :

''ما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء اصدق لہجة من ابی ذر''

اس نیلے آسمان نے سایہ نہیں کیا، اور اس زمین نے کسی کو اپنی پشت پر نہیں اٹھایا کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو .

آپ رسول کی وفات کی بعد شام چلے گئے ، اور حضرت عمر کی وفات تک یہیں رہے ، اور حضرت عثمان کے زمانے میں دمشق میں سکونت اختیار کی، آپ فقیروں کی طرفداری میں بولتے اور ان کی حق تلفی کے بارے میںان کی مدد کرنے پر لوگوں کوابھارتے اور اکسایا کرتے تھے ، اسی وجہ سے معاویہ نے ان کی عثمان کے پاس شکایت کی ، جس کی بناپر آپ کو عمر کے آخری ایام میں دمشق سے جلا وطن کرکے ربذہ بھیج د یا گیا !! پھرآپ کی یہیں وفات ہوگئی،علامہ مدائنی کے قول کے مطابق ابن مسعود نے آپ پر نماز میت ادا کی .

دیکھئے : الاعلام ج ٢،ص ١٣٦۔

(٣) حطہ کے لغوی معنی جھڑنے اور نیچے گرنے کے ہیں ، باب حطہ ایک دروازہ تھا جس کے لئے خداوند متعال نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ اس کے اندر سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا ہے تاکہ ان کے سارے گناہ ان سے جھڑ جائیں اور وہ بخش دئے جائیں ، اس سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٥٨ اور سورہ اعراف کی آیت نمبر ١٦١ دیکھئے .

علامہ سید شرف الدین باب حطہ سے اہل بیت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

خدا وند متعال نے اپنے حکم کے سامنے اس دروازے کو تواضع اور انکساری کا ایک مظہر قرار دیا تھا ، یعنی اس دروازے کو خدا نے تواضع اور انکساری کا مظہر قرار دیا تھا ،اور خدا کا یہی امر سبب قرار پایا کہ بنی اسرائیل کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہوا ، اسی طرح اہل بیت کے سامنے اسلامی امت کا سر تسلیم جھکانا، اور انکی صدق دل سے اطاعت کرنا : گویا اہل بیت کے سامنے اس فعل کا انجام دینا خدا کی تواضع و انکساری کا ایک مظہر ہے، اور ان کے سامنے سر جھکاناگویا حکم خدا کے سامنے سر جھکانا ہے،اور خدا کی نظروں میں یہی چیز تمام مسلمین کیلئے مغفرت کاسبب ہے . مزید اطلاع کیلئے کتاب '' المراجعات'' دیکھئے .مترجم .

(٤)اس حدیث کو طبرانی نے دو طرح نقل کیا ہے اگرچہ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی جیسی ہیں لیکن ایک میں کچھ لفظ زیادہ آئے ہیں جو اس طرح ہے :

((مثل اہل بیتی مثل سفینة نوح من رکبہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق ومن قاتلنا فی آخر الزمان فکانما قاتل مع الدجال ))

میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے ، جو ا س پر سوار ہوا تھا اس نے نجات حاصل کی تھی، اور جس نے روگردانی کی تھی وہ غرق ہوگیا تھا ،(اسی طرح ہم سے جو متمسک رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا) اورجس نے بھی ہم سے آخری زمانے میں جنگ کی گویا اس نے دجال کی طرف سے جنگ کی.

المعجم الکبیر ج ١، ص ١٢٥۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٢٦ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔

حلیة الاولیاء ج٤، ص ٣٠٦۔ مرقاة المصابیح ج ٥،ص ٦١٠۔ تاریخ بغداد ج ١٢،ص ١٩۔ کنوزالحقائق ص١٣٢۔ ذخائر العقبی ص ٢٠۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ ینابیع المودة ص ٢٨۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ میزان الاعتدال ج١،ص ٢٢٤۔ ا لخصائص الکبری ج ٢،ص ٢٦٦ ۔المعجم الصغیر ص٧٨ ۔ زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔

ستائیسویں حدیث : حدیث سفینہ اور حدیث باب حطہ بنی اسرائیل میں

اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن ابی سعید الخدری ؛ قال: سمعت رسول اﷲ ۖ یقول : ((انما مثل اہل بیتی کمثل سفینة نوح من رکبہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق ، و انما مثل اہل بیتی فیکم مثل باب حطة فی بنی اسرائیل من دخلہ غُفِر لہ ))

طبرانی ،''المعجم الاوسط ''میںابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ۖسے سنا کہ آ پ نے فرمایا: میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے ، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا ،اور میرے اہل بیت کی مثال تم میں ویسی ہے جیسے باب حطہ ہے بنی اسرائیل میں جو اس میں داخل ہو گیا تھا وہ بخش دیا گیا تھا ۔ (١)( اسی طرح میرے اہل بیت کے قلعہ محبت میں داخل ہوگا وہ بخش دیا جائے گا)

 

اٹھائیسویں حدیث : محمد و آل محمد کی محبت اسلام کی بنیاد ہے

اخرج البخاری فی تاریخہ ، عن الحسن بن علی؛ قال: قال سول اﷲ ۖ:((لکل شیء اساس و اساس الاسلام حب اصحاب رسول اﷲ وحب اہل بیتہ ))

ابن نجار(٢) اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسن مجتبی نے فرمایا : جس طرح ہر چیز کی ایک بنیاد اور اساس ہوتی ہے ،اسی طرح اسلام کی بنیاد رسول کے اصحاب کی دوستی اور آ پ ۖکے اہل بیت کی محبت ہے۔ (٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:

مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٨ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔ المعجم الصغیر للطبرانی ص ١٧٠ ۔ المعجم الاوسط للطبرانی ۔ فیض القدیر ج٤، ص ٣٥٦۔ جواہر العقدین سمہودی ج٢، ص ٧٢۔(قلمی نسخہ ، ظاہریہ کتاب خانہ دمشق ).

(٢) ابو عبد اﷲ محمد بن محمود بن حسن بن ہبة اﷲ بن محاسن بغدادی ؛ آپ ٥٧٨ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٦٤٣ ھ میں وفات پائی .

دیکھئے : تذکرة الحفاظ ج ٤ ،ص ١٤٢٨۔

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل میں کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

تفسیر در منثور ج ٦،ص ٧ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٨۔

انتیسویں حدیث: رسول اسلام اولاد فاطمہ زہرا ء کے باپ اور عصبہ ہیں

اخرج الطبرانی ،عن عمر ؛ قال: قال سول اﷲ ۖ : ((کل بنی انثی فان عصبتہم لابیہم ما خلا ولد فاطمة، فانی عصبتہم فاناابوہم))١

طبرانی نے عمر ابن خطاب (١)سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : ہر عورت کے بچوں کی نسل ان کے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے ،لیکن فاطمہ کی اولاد میری طرف منسوب ہے،بیشک میں ان کا باپ ہوں ۔(٢)

 

تیسویں حدیث : رسول خدا اولاد فاطمہ کے ولی اور عصبہ ہیں

اخرج الحاکم عن جابر ،عن فاطمة الزہرا(س)؛ قال: قال سول اﷲ ۖ:(( کل بنی ام ینتمون الی عصبة الاولد فاطمة فاناولیہم واناعصبتہم))

حاکم نے جابر سے ، انھوں نے حضرت فاطمہ زہرا سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : ہر ماں کی اولاد اپنے باب کے خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے ،لیکن فاطمہ کی اولاد میری طرف منسوب ہے، میں ان کا ولی اور منسوب الیہ ہوںہوں ۔(٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : ١ الْعَصَبَة (بالتحریک) یہ عاصب کی جمع ہے جیسے طالب کی جمع طلبة، باپ کی جانب سے رشتہ داروں کو عصبہ کہا جاتاہے .

(١) ابو حفص عمر بن الخطاب بن نفیل عدوی ؛ موصوف ہجرت کے چالیس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے ، اور آپ نے ہجرت کے پانچویں سال اسلام قبول کیا ، ا و ر ١١ ہجری میں خلیفۂ اول کی حیثیت سے مسند نشین ہوئے ، اور تیرہ سال حکومت کی جس میں بہت سے ممالک پر فتحیابی حاصل کی ، اور ٢٣ ھ میں ابو لولو فیروز پارسی شخص کے ہاتھوں زخمی ہوئے ، اور تین دن کے بعد زخموں کی تاب نہ لاکر دنیا سے چل بسے .

دیکھئے : صفوة ا لصفوة ج١، ص١٠١۔ تاریخ طبری ج٢،ص ١٨٧۔

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر جلد ١ ،ص ١٢٤۔ کنز العمال جلد ٦،ص ٢٢٢٠۔ الصواعق المحرقة ص١٨٥۔ ذخائر العقبی ص ١٢١۔

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر ج ١ ،ص ١٢٤۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢٢٢٠۔ تاریخ بغداد ج١٢١،ص ٢٨٥۔ مقتل الخوارزمی ج٢ ،ص٨٨۔ مجمع الزوائد ج٩،ص١٧٢۔

 

 

اکتیسویں حدیث:

 

اکتیسویں حدیث: حضرت فاطمہ زہرا ء کے دونو ں بیٹے رسولۖ کے فرزند ہیں

اخرج الحاکم ،عن جابر ؛ قال:قال سول اﷲ ۖ :(( کل بنی ام ینتمون الی عصبة ینتمون الیہم الاولدی فاطمة فاناولیہماوعصبتہما))

حاکم جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول نے فرمایا: ہر ماں کے بچے اپنے آبائی خاندان کی طرف منسوب ہوتے ہے ،لیکن میری بیٹی فاطمہ کے دو نوں بچے میری طرف منسوب ہیں، میں ان کا ولی اور رشتہ دار ہوں ۔(١)

 

بتیسویں حدیث: رسول خدا کے سببی اور نسبی رشتے بروز قیامت منقطع نہ ہوں گے

اخرج الطبرانی فی الاوسط ، عن جابر ؛ انہ سمع عمر بن الخطاب یقول الناس حین تزوج بنت علی :الا تہنئونی ، سمعت رسول اﷲ (ص) یقول :((ینقطع یوم القیامة کل سبب و نسب الا سببی و نسبی ))

طبرانی نے'' المعجم الاوسط ''میں جابر سے نقل کیا ہے کہ میں نے عمر کو لوگوں سے یہ کہتے ہوئے اس وقت سنا کہ جب ان کی بنت علی سے شادی برقرار ہوئی :تم مجھے مبارک باد کیوں نہیںپیش کرتے کیونکہ میں نے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: روز قیامت تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے سببی اور نسبی رشتوں کے ۔ (٢)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٦٤۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔ منتخب کنز العمال ج ٥،ص ٢١٦۔

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر ج ١ ،ص ١٢٤۔ حلیة الاولیاء ج٧،ص ٣١٤۔

تینتیسویں حدیث : رسول اسلامۖ کا سلسلۂ نسب و سبب کبھی نہ ٹوٹے گا

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((کل سبب و نسب منقطع یوم القیامة الا سببی و نسبی ))

طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے رسول نے ارشاد فرمایا :

میرے سببی اور نسبی رشتوں کے علاوہ روز قیامت تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے۔(١)

 

چونتیسویں حدیث : رسول خدا کا سببی اور دامادی رشتہ کبھی نہ ٹوٹے گا

اخرج ابن عساکر، فی تاریخہ ، عن ابن عمر ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( کل نسب و صہر منقطع یوم القیامة الا نسبی وصہری))

ابن عساکر(٢)نے اپنی تاریخ میں ابن عمر (عبداﷲ)سے نقل کیا ہے رسول نے ارشاد فرمایا :

میرے نسبی اور دامادی رشتوں کے علاوہ روز قیامت تمام نسبی اور دامادی رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ (٣)

 

پینتیوسویں حدیث: اہل بیت سے مخالفت کرنے والے شیطانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں

اخرج الحاکم ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((النجوم امان لاہل الارض من الغرق ، و اہل بیتی امان لامتی من الاختلاف ، فاذا خالفہا قبیلة اختلفوا فصاروا حزب ابلیس ))

حاکم ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا :جس طرح ستارے اہل زمین کو (پانی میں)غرق ہو نے سے محفوظ رکھتے ہیں اسی طرح میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف و تفرقہ سے بچانے والے ہیں ، لہٰذا اگر کسی گروہ اور قبیلہ نے ان کی مخالفت کی تو وہ شیطانی گروہ میں شامل ہوجائے گا ۔ (٤)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

طبرانی؛ المعجم الکبیر ج١، ص ١٢٩۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج٥،ص ٣٥،۔ تاریخ بغداد ج١،ص ٢٧١ ، رافعی؛ التدوین ج٢،ص ٩٨۔ ہیثمی؛ مجمع الزوائد ج٩ ،ص ١٧٣۔

ہیثمی کہتے ہیں : اس حدیث کے راوی موثق ہیں .

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٦۔

ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : جب بنت عبد المطلب جناب صفیہ کے بیٹے کا انتقال ہوا تو صفیہ اس پر رو رہی تھی ، اس وقت رسول نے صفیہ سے فرمایا :

''یا عمة ! من توفی لہ ولد فی الاسلام کان لہ بیت فی الجنة یسکنہ''

اے پھو پھی جان! آ پ رورہی ہیں جبکہ جس شخص کا ایک مسلمان بیٹا فوت ہوجائے تو گویا اس نے جنت میں ایک گھر بنایا ، جس میں وہ سکونت اختیار کریگا ، جب صفیہ رسول کے پاس سے رخصت ہوکر چلنے لگیں تو ایک شخص نے صفیہ سے کہا : اے صفیہ! محمد کی رشتہ داری تجھے کچھ فائدہ نہیں دے گی ، صفیہ یہ سنکر دوبارہ بلند آواز سے رونے لگیں ، جس کو رسول نے بھی سنا ، رسول یہ سنکر غمگین ہوئے، کیونکہ آپ صفیہ کا بہت احترام کرتے تھے ، اس لئے آپ نے صفیہ سے کہا:

''یا عمة ! تبکین وقد قلت لک ما قلت ''

اے پھو پھی جان! آپ کو جو بات کہنی تھی وہ کہہ چکا ہوں، اس کے باوجود آپ رورہی ہیں ؟

صفیہ نے کہا: میں اپنے بیٹے پر نہیں رو رہی ہوں بلکہ میرا رونا اس لئے ہے ،پھرآپ نے وہ سب بتا دیا جو اس مرد نے کہا تھا ، اس وقت رسول بہت ناراض ہوئے ، اور بلال سے اس طرح فرمایا :'' یا بلال ھجر بالصلاة '' اے بلال نماز کا اعلان کردو ، چنانچہ بلال نے اعلان کیا ، جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے فرمایا :

''ما بال اقوام یزعمون ان قرابتی لا تنفع ، ان کل سبب و نسب ینقطع یوم القیامة الا نسبی وان رحمی موصولة فی الدنیا والآخرة ''

ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ گمان کرتے ہیں کہ میری رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دے گی ؟ یقیناً ہر رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائیگا سوائے میرے رشتہ کے ،چاہے وہ سببی ہو یا نسبی ، پس میرا رشتہ دنیا وآخرت دونوں جگہ باقی رہے گا .

(٢)ابو القاسم علی بن حسن بن ہبة اﷲ بن عبد اﷲ بن حسین دمشقی محدث شام ؛

موصوف پایہ کے مؤرخ اور حافظ تھے ، آپ کی مشہور کتاب تاریخ مدینة دمشق ہے . آپ ٤٩٩ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٥٧١ ھ میں وفات پائی .

دیکھئے : الاعلام ج ٥،ص ٨٢۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

معجم کبیر ج ١،ص ١٢٤۔ کنز العمال ج ٦،ص١٠٢۔ فتح البیان ج٧،ص ٣٤۔ فیض القدیر ٥،ص ٣٥۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٥٨۔ الفصول المہمة ص ٢٨۔

(٤) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ منتخب کنز العمال ج٥،ص ٩٤۔ جمع الجوامع ج ١،ص ٤٥١۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٤٩۔

چھتیسویں حدیث : اولاد رسول ۖ عذاب میں مبتلا نہ ہوگی

اخرج الحاکم ،عن انس؛ قال:قال رسول اﷲ ۖ :(( وعدنی ربی فی اہل بیتی من اقر منہم بالتوحید ولی با لبلاغ انہ لا یعذبہم))

حاکم نے انس (١)سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : میر ے رب نے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جوبھی ان(میرے اہل بیت ) میں سے توحید کا اقرار اور میری رسالت کو تسلیم کرے گا اسے عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا ۔ (٢)

 

سینتیسویں حدیث : اہل بیت رسول میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا

اخرج ابن جریر فی تفسیرہ ،عن ابن عباس؛فی قولہ تعالی :( وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی)، قال:(( من رضی محمد ان لا یدخل احد من اہل بیتہ النار)).

ابن جریر طبری(٣)نے اپنی تفسیر میں آیہ ٔ ( وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی)]اور تمھارا پرورد گار عنقریب اس قدر عطا کرے گا کہ تم خوش ہوجاؤ [(٤) کی تفسیر کے ذیل میں ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے : رسول اسلام کی رضایت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اہل بیت میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔(٥)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)ابو حمزہ انس بن مالک بن نصر انصاری ؛ موصوف ہجرت کے دس سال قبل پیدا ہوئے ، او ر ٩٣ ھ میں وفات پائی ، ایک مدت تک رسول کے خادم رہے ، لیکن آنحضرت کی وفات کے بعد آپ دمشق پھر بصرہ چلے گئے ،بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

اسد الغابة ج ١،ص ١٢٧۔ تذکرة الحفاظ ج ١،ص ٤٥، ٤٤۔

(٢)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ منتخب کنز العمال ج٩،ص٩٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص١٥٠۔

(٣)ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر طبری ؛ ٢١٤ ھ میں شہر آمل ایران میں پیدا ہوئے ، ٢٨ شوال شام کو ٣١٠ ھ میں وفات پائی ، آپ مسلمانوں کے بہت بڑے عالم دین اور گرانبہا کتابوں کے مؤلف جانے جاتے ہیں ، ان کی مشہور کتابیں یہ ہیں :

''جامع البیان فی تفسیر القرآن''۔'' تاریخ الامم والملوک ( تاریخ طبری ) ''.

بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

الانساب ج ٩،ص ٤١۔ تذکرة الحفاظ ج٢،ص٧١٦، ٧١٠۔

(٤) سورة ضحی آیت نمبر پانچ (٥)

(٥) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

مناوی ؛ فیض القدیر ج٤،ص٧٧،۔تفسیر طبری ج ٣٠، ص ٢٣٢۔ فضائل الخمسة ج٢،ص ٦٥۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص١٩۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٥۔ منتخب کنز العمال ج٩،ص٩٢۔ الصواعق المحرقة ص٩٥۔ الدر المنثور ج ٦،ص ٣٦١۔

 

 

اڑتیسویں حدیث :

 

اڑتیسویں حدیث : اولاد فاطمہ جہنم میں نہیں جائے گی

اخرج البزار، و ابو یَعْلی،والعقیلی ، والطبرانی ،وابن شاہین ، عن ابن مسعود ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( ان فاطمة احصنت فرجہا فحرم اﷲ ذریتہا علی النار ))

بزار ، ابو یعلی(١) ،عقیلی(٢)، طبرانی اور ابن شاہین(٣) نے ابن مسعود(٤) سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :چونکہ فاطمہ زہرا نے اپنے ستر او رپردہ کو محفوظ رکھا تو خدا نے( اس کی پاداش میں) ان کی ذریت پر آتش کو حرام قرار دیا ۔ (٥)

 

انتالیسویں حدیث : فاطمہ اور ا ن کے دونوں بیٹے جہنم میں نہیں جائیں گے

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖلفاطمة : ((ان اﷲ غیر معذبک ولا ولدک ))

طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول نے فاطمہ سے فرمایا : خدا تجھے اور تیری اولاد کو عذاب نہیں کرے گا۔ (٦)

 

چالیسویں حدیث : کبھی گمراہ نہ ہونے کا آسان نسخہ

اخرج الترمذی وحسنہ ،عن جابر ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( یا ایہا الناس انی ترکت فیکم ما اخذتم بہ لن تضلوا :کتاب اﷲ و عترتی ))

ترمذی نے حسن سند کے ساتھ جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا :اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اس کے ہوتے ہوئے تم گمراہ نہ ہوگے ،وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے ۔ (٧)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) ابو یعلی احمد بن علی بن مثنی بن یحی بن ہلال تمیمی صاحب کتاب المسند الکبیر ؛ موصوف ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے اور ٣٠٨ ھ میں وفات پاگئے .

دیکھئے : تذکرة الحفاظ ج٢،ص ٧٠٩ ، ٧٠٧ .

(٢) ابو جعفر محمد بن عمر و بن موسی بن حماد عقیلی حجازی صاحب کتاب الضعفاء ؛ آپ مسلمانوں کے بہت بڑے محدث اور ایک زحمت کش عالم دین تھے ، مکہ اور مدینہ میں زندگی گزارتے تھے ٣٢٢ ھ، بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

الوافی بالوفیات ج ٤،ص٢٩١۔تذکرة ا لحفاظ ١، ص ٨٣٣۔

(٣) ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بن احمد بغدادی واعظ معروف بہ ابن شاہین ؛

موصوف نے تقریباً ٣٣٠ کتابیں تالیف کی ہیں ، ان میں سے ایک کتاب تفسیر کبیر ہے جو ١٥٠٠ جزء پر مشتمل ہے ، آپ ٢٩٧ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٣٨٥ ھ میں وفات پائی ، بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

المنتظم ج ٧،ص ١٨٢ ۔ غایة النہایة ج١،ص ٥٨٨۔ لسان المیزان ج٤،ص ٢٨٣۔ تذکرة الحفاظ ج ١،ص ٩٩٠، ٩٨٧۔

(٤) ابو عبد الرحمن عبد اﷲ بن مسعود بن غافل بن حبیب ہذلی ؛ موصوف کا شمار بزرگ و قدیم صحابہ میں ہوتا ہے ، اور ابو نعیم کی روایت کے مطابق آپ چھٹے فردہیں جو سب سے پہلے اسلا م لائے ، آپ ہی وہ پہلے فرد ہیں کہ قرآن کو جہر( بلند آواز )میں پڑھا ، آپ رسول کے خدمت گزار ، امین اور رسول کے ہمراز تھے ، آپ کی ماں کانام ام عبد بنت عبد ود تھا ،اس لئے آپ کو ابن مسعود کے بجائے ام ابن عبد بھی کہا گیا ہے ، آپ نے دو ہجرتیں کیں ، ایک بار حبشہ اور ایک بار مکہ سے مدینہ ہجرت کی ، رسو ل کی وفات کے بعد آپ کوفہ میں بیت المال کے سرپست ہوئے ، لیکن حضرت عثمان کی حکومت کے زمانہ میں خلیفہ صاحب کے غیظ و غضب کا شکار ہوئے ،اور ، ٣٢ ھ میں مدینہ میں انتقال کرگئے ، اور اسی شب جنت البقیع میں دفن کردیا گیا .

دیکھئے الاعلام ٤ ،ص ٢٨٠۔

(٥)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٨٠۔ حاکم؛المستدرک ج ٣،ص ١٥٢۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص٤٨۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٩۔ ج١٢،ص ١١۔ الصواعق ا لمحرقة ص٢٣٢۔ نزل الابرار ص ٧٨۔ میزان الاعتدال ج ٣ ،ص ٢١٦۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٢٠٢۔ تاریخ بغداد ج٣،ص ٥٤۔ طبرانی ؛المعجم الکبیر ج١،ص ٢٤۔

طبرانی نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

(( ان فاطمة احصنت فرجہا و ان اﷲ ادخلہا با حصان فرجہا و ذریتہا الجنة ))

حضرت فاطمہ زہرا نے اپنا دامن پاک رکھا ، پس خدا نے ان کو اس کی جزا یہ عطا کی کہ انھیں اور ان کی اولاد کو جنت میں داخل کرے گا .

(٦)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج ٣،ص١٦٥۔ منتخب کنزالعمال ج ٥،ص٩٧۔ الصواعق ا لمحرقة ص٢٢٣۔ نزل الابرار ص ٨٣۔ الدرة الیتیمة فی بعض فضائل السیدة العظیمة ص٢٨.

(٧)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج١،ص٤٨۔ طبرانی ؛المعجم الکبیر ج١،ص ١٢٩۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح (صحیح ترمذی شریف)

اکتالیسویں حدیث : رسول کی شفاعت محبان اہل بیت سے مخصوص ہے

اخرج الخطیب فی تاریخہ ،عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( شفاعتی لامتی من احب اہل بیتی))

خطیب بغدادی (١)اپنی تاریخ میں علی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول ۖنے فرمایا : میری امت میں جومیرے اہل بیت کو دوست رکھے گا میری شفاعت اسی کے نصیب ہوگی ۔(٢)

 

بیالیسویں حدیث : رسول خدا سب سے پہلے اپنے اہل بیت کی شفاعت کریں گے

اخرج الطبرانی ،عن ابن عمر ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( اول من اشفع لہ من امتی اہل بیتی ))

طبرانی نے عبد اﷲ ابن عمرسے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : سب سے پہلے جس کی میں شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہوں گے ۔ (٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بغدادی معروف بہ خطیب بغدادی ؛ موصوف ٣٩٢ ھ میں غزیة ( کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک دیہات ) میں پیدا ہوئے ،آپ ٤٦٣ ھ کو وفات پاگئے، آپ کی بغدا دمیں ہی پرورش ہوئی ، علم دین کی تلاش میں مکہ ، بصرہ ، دینور،کوفہ اور دیگر شہروں کی جانب سفر کئے ، آپ ایک بہت بڑے عالم ، ادیب ، شاعر اور بیحد مطالعہ کے شوقین تھے ، آپ نے متعددکتابیں تالیف فرمائی ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں :

تاریخ بغداد ، الجامع ، الکفایہ ، اور المتفق والمفترق ۔

(٢) مذکورہ حدیث کو خطیب بغدادی نے اس طرح نقل کیا ہے :

''شفاعتی لامتی من احب اہل بیتی وہم شیعتی ''

میری شفاعت میری امت کے ان افراد کو شامل ہوگی جو میرے اہل بیت سے محبت کریںگے وہ میرے شیعہ ہیں .

دیکھئے : کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ الجامع الصغیر ج٢،ص ٤٩۔ ینابیع المودة ص ١٨٥۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میںمیں بھی پائی جاتی ہے :

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص٢٠۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٥۔ الصواعق ا لمحرقة ص١١١۔ مجمع الزوائد ج١،ص٢٨٠۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج٢ص٩٠۔

 

۳

تینتالیسویں حدیث:

 

تینتالیسویں حدیث: رسول قیامت میں قرآن اور اہل بیت کے بارے میں باز پرس کریں گے

اخرج الطبرانی ،عن المطلب بن عبد اﷲ بن حنطب، عن ابیہ؛ قال: خطبنا رسول ﷲ ۖ بالجحفہ ، فقال: الست اولی بکم من انفسکم ؟ قالوا: بلی، یا رسول اﷲ ! قال: فانی سائلکم عن اثنین ، عن القرآن و عترتی ))

طبرانی نے عبد المطلب بن عبد اﷲ بن حنطب(١) سے انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے مقام جحفہ(٢) میں ہمارے درمیا ن خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ کہا: کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ !آپ ہمارے نفوس پر اولی بالتصرف ہیں، رسول اسلام نے اس وقت فرمایا : میں( روز قیامت ) تم سے دو چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا ( ایک ) قرآن اور (دوسری )میری عترت (٣) (کہ تم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا؟)

 

چوالیسویں حدیث : قیامت میں چار چیزوں کے بارے میں سوال ہوگا

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲ :(( لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتی یسأل عن اربع ، عن عمرہ فیما افناہ ، وعن جسدہ فیما ابلاہ، وعن مالہ فیما انفقہ ، ومن این اکتسبہ ، و عن محبتنا اہل البیت ))

طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ۖ نے فرمایا: روز قیامت کوئی بندۂ خدا ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکے گا جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا:

١۔اپنی ساری عمر کس طرح صرف کی؟

٢۔اپنا جسم وبدن کہاں نابود کیا ؟

٣۔ مال کس راستے سے کمایا اور کس کام میں خرچ کیا ؟

٤۔ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں، کہ تھی یا نہیں ؟(٤)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) مطلب بن عبد اﷲ بن حنطب بن حارث بن عبید بن عمر بن مخزوم مخزومی قرشی ؛

موصوف جنگ بدر میں اسیر ہوئے اور پھر اسلام لے آئے ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

الاصابة ج٦،ص ١٠٤ ۔ تہذیب التہذیب ج ١٠،ص١٧٨۔ میزان التعدال ج٤،ص ١٢٩۔

(٢) جحفہ؛ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

مجمع الزوائد ج٥،ص١٩٥۔ اسد الغابة ج ٣،ص ١٤٧۔ ابو نعیم ؛ حلیة الاولیاء ج ١،ص ٦٤۔

ابو نعیم نے اس حدیث کو حضرت علی ـ سے اس طرح نقل کیا ہے :

ایہا الناس ! الست اولی بکم من انفسکم ؟قالوا: بلی یا رسول اﷲ ، قال:فانی کائن لکم علی الحوض فرطاً وسائلکم عن اثنین ، عن القرآن و عترتی ))

اے لوگو ! کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ !آپ ہمارے نفوس پر اولی بالتصرف ہیں،تو رسول اسلام نے اس وقت فرمایا : میں تم سے پہلے حوض کوثر پر وارد ہوںگا او ر تم سے وہاں دو چیزوں کے بارے میں سوال کروںگا ،قرآن اور میری عترت .

(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج٧،ص٢١٢۔ کفایہ الطالب ص ١٨٣۔ ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج١٠،ص٣٤٦۔

ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس وقت لوگوں نے رسول سے کہا : آپ کی دوستی کی کیا شناخت ہے ؟ آپ نے اس وقت علی کے شانوں ہاتھ مارا ( یعنی اس کی دوستی میری دوستی کی علامت ہے )۔

پینتالیسویں حدیث : سب سے پہلے اہل بیت رسول حوض کوثر پر واردہوں گے

اخرج الدیلمی ،عن علی ؛ قال:سمعت رسول اﷲ ۖ یقول:(( اول من یرد علیّ الحوض اہل بیتی ))

دیلمی(١) نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : سب سے پہلے جو حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو گا وہ میرے اہل بیت ہوں گے۔ (٢)

 

چھیا لیسویں حدیث : اپنی اولاد کو تین باتوں کی تلقین کرو

اخرج الدیلمی ، عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( ادبوااولادکم علی ثلاث خصال: حب نبیکم ، حب اہل بیتہ ، وعلی قرائة القرآن ، فان حملة القرآن فی ظل اﷲ یوم لا ظل الا ظلہ مع انبیائہ و اصفیائہ ))

دیلمی نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : اپنی اولاد کی ان تین عادتوں کے ذریعہ پرورش کرو( یعنی انھیں تین باتوں کی عادت ڈالو):اپنے پیغمبرۖ سے محبت ، ان کے اہل بیت سے دوستی اور قرآن کریم کی تلاوت ،کیونکہ قرآن کے پڑھنے اور حفظ کرنے والے اس دن کہ جس دن سایہ الٰہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا لیکن یہ اس کے انبیاء اور اوصیا ء کے ساتھ(لطف الٰہی کے) سایہ تلے ہوںگے۔(٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)ابو شجاع شیر ویہ بن شہر دار بن فنا خسرو دیلمی ؛ آپ بہت بڑے حافظ اور محدث تھے ، آ پ کی تالیف کردہ کتابیں '' تاریخ ہمدان ، اور الفردوس '' ہیں ، آپ سے محمد بن فضل اسفرائنی اورشہر دار بن شیرویہ دیلمی نے روایات نقل کی ہیں ، ٥٠٩ ھ میں انتقال ہوا ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتاب میں ملاحظہ کریں:

تذکرة الحفاظ ج ٤،ص ١٢٥٩۔

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

کنوز الحقائق ص ١٨٨ ۔ مجمع الزوائد ج٩، ص ١٣١۔ الفتاوی الحدیثیة ص ١٨۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨۔ متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج ٦،ص ١٧۔

متقی ہندی نے اس حدیث کواس طرح نقل کیا ہے :

(( اول من یرد علیّ الحوض اہل بیتی ومن احبنی من امتی ))

سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس میرے اہل بیت اور میری امت کے وہ لوگ جومجھ سے محبت کرتے ہیں وارد ہوںگے.

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٨

محب الدین طبری نے اس طرح نقل کیا ہے :

''یرد الحوض اہل بیتی ومن احبہم من امتی کہاتین''

میرے اہل بیت اور میری امت میں سے جو ان سے محبت کرتے ہیں وہ ان دو انگلیوں کی مانند( جوکہ ایک دوسرے سے با لکل متصل ہیں) حوض کوثر کے کنارے وارد ہوںگے.

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٨،ص ٢٧٨۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج١ ص ٢٢٥۔ سیوطی ؛ الجامع الصغیر ج ١،ص ٢٤۔ نبہانی ؛ الفتح الکبیر جلد١ ، صفحہ ٥٩۔ الصواعق المحرقة صفحہ ، ١٠٣۔

سینتالیسویں حدیث : جو محب اہل بیت ہوگا وہی پل صراط پر ثابت قدم رہے گا

اخرج الدیلمی ، عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( اثبتکم علی الصراط اشدکم حباً لاہل بیتی و اصحابی ))

دیلمی نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : پل صراط پر تم لوگوں میں سے وہی زیادہ دیر تک ثابت قدم رہ سکتا ہے جو میرے اہل بیت اور(نیک کردار)اصحاب کو جتنا زیادہ چاہتا ہوگا۔ (١)

 

اڑتالیسویں حدیث : سادات کے خدمت کرنے والے بخش دئے جائیں گے

اخرج الدیلمی ، عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( اربعة انا لہم شفیع یوم القیامة ، المکرم لذریتی ، والقاضی لہم الحوائج ، والساعی لہم فی امورہم ، عندما اضطروا الیہ ، والمحب لہم بقلبہ و لسانہ )).

دیلمی نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : روز قیامت چار قسم کے لوگ ایسے ہوں گے جن کی میں شفاعت کروں گا:

١۔جس نے میری ذریت (اولاد) کا اکرام و احترام کیا ۔

٢۔جس نے میری ذریت(اولاد) کی حاجت روائی کی ۔

٣۔جو میری ذریت کے مشکلات پر اس وقت ان کی مدد کرے جب وہ ان مشکلات میں حیران و پریشان ہوں۔

٤۔وہ جو ان سے دل و زبان سے محبت کرتا ہو۔ (٢)

 

انچاسویں حدیث: آل محمد کو اذیت دینے والے سے خدا سخت غضبناک ہو تا ہے

اخرج الدیلمی ، عن ابی سعید ؛ قال:قال رسول اﷲ ۖ :((اشتد غضب اﷲ علی من آذانی فی عترتی ))

دیلمی نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :خدا وند متعال اس پرسخت غضبناک ہوتا ہے جو میری عترت پر اذیت کے ذریعہ مجھے ستائے۔ (٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔ الصواعق المحرقة صفحہ ، ١٨٥۔

کنوز الحقائق صفحہ٥ ۔

(٢)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٧ ،جلد ٨،صفحہ ١٥١۔ الصواعق المحرقة صفحہ ، ٢٣٧۔ مقتل الخوارزمی جلد ٢ صفحہ ٢٥۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی صفحہ ١٨۔

اس کتاب میں مذکورہ حدیث کوامام رضا سے نقل کیا گیاہے .

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

مناوی ؛ فیض القدیر ج١، ص ٥١٥۔ الصواعق المحرقة صفحہ ١٨٤۔

 

 

پچاسویں حدیث:

 

پچاسویں حدیث: چھ قسم کے لوگوں کو خدا برا جانتا ہے

اخرج الدیلمی ، عن ابی ہریرة ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( ان اﷲ یبغض الآکل فوق شبعہ ،والغافل عن طاعة ربہ، والتارک لسنة نبیہ ، والمخفر ذمتہ ، والمبغض عترة نبیہ ، والموذی جیرانہ ))

دیلمی نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلا م نے ان چھ قسم کے لوگوں کے بارے میں کہ جنھیں خدا بری نگاہ سے دیکھتا ہے ،ارشادفرمایا :

١۔ خدا اس شخص پر غضبناک ہوتا ہے جو شکم سیر ہونے کے باوجود کھانا کھائے ۔

٢۔اور جو اپنے پرور دگا ر کی اطاعت سے غافل رہے ۔

٣۔اور جو سنت رسول کو ترک کرے ۔

٤۔ اور جو عہد شکنی اور بیوفائی کرے ۔

٥۔ اورجوپنے نبی کی آل (عترت ) سے بغض رکھے۔

٦۔ اورجو اپنے پڑوسیوں کو ستائے ۔(١)

 

اکیاونویں حدیث : نیک سادات تعظیم اور برے سادات در گزر کے مستحق ہیں

اخرج الدیلمی ، عن ابی سعید الخدری ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( اہل بیتی والانصار کرشی و عیبتی ، و موضع سرتی و امانتی ، فاقبلوا من محسنہم ، وتجاوزوا عن مسیئہم ))

دیلمی نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :میرے اہل بیت(سادات) اور انصار میرے قلب و جگر اور میرا ظرف ہیں ،لہٰذا ان میں سے جو نیک ہوں ان کا خیر مقدم(تعظیم) کرو اور ان میں سے جو برے (٢)ہو ان کو درگزر کرو۔ (٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٩،ص١٩١۔

(٢) محترم قارئین! حدیث کا یہ جملہ کہ'' ان کے بروں سے دور رہو'' یہ انصار سے مربوط ہے ، ا ہل بیت(ع) سے نہیں، کیونکہ اہل بیت رسول ۖکے درمیان برے افراد کا پایا جانا محال ہے ، یا پھر اہل بیت کے معنی میں وسعت دی جائے یعنی اہل بیت میں وہ تمام لوگ شریک ہوں جو رسول کے کسی نہ کسی طرح رشتہ دار ہوں ، اس صورت میں اس جملہ کا مفہوم صحیح ہوجائیگا ، لیکن یہ توجیہ اور تاویل صحیح نہیں ہے ، کیونکہ رسو ل کے اہل بیت میں شیعوں کے یہاں متفقہ طور پر اور اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ اہل بیت میں صرف اور صرف فاطمہ الزہرا اور بقیہ ائمہ معصومین(ع) ہیں . مترجم .

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٩،ص١٩١۔الصواعق المحرقة ص ٢٢٥۔ الفصول المہمة ص ٢٧۔

باونویں حدیث : فرزندان عبد المطلب پر کئے گئے احسان کا بدلہ رسول خدا ۖدیں گے

اخرج ابو نعیم فی الحلیة ،عن عثمان بن عفان ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ:((من اولی رجلاً من بنی عبد المطلب معروفاً فی الدنیا فلم یقدرالمطلبی علی مکافأتہ، فانا اُکافئہ ،عنہ یوم القیامة))

ابو نعیم(٢) نے اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں عثمان بن عفان (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : جو عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس دنیا میں کوئی نیکی کرے گااور وہ (مطلبی)اس دنیا میں اس کا بدلہ ادا نہ کرسکا تو میں روز قیامت اس کا بدلا ادا کروں گا ۔ (٣)

 

تریپنویں حدیث : قیامت میں اولاد عبد المطلب پر نیکی کا بدلہ رسول ۖدیں گے

اخرج الخطیب ،عن عثمان بن عفان ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( من صنع صنیعة الی احد من خلف عبد المطلب فی الدنیافعلیَّ مکافأتُہ اذا لقینی ))

خطیب بغدادی نے عثمان بن عفان سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :

جس نے عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس دنیا میں کوئی نیکی کی ہے(اور وہ اس دنیا میں اس کا بدلہ ادا نہ کرسکا )توروز قیامت جب وہ مجھ سے ملاقات کر ے گا تو، اس کا بدلہ میرے اوپر واجب ہے۔ (٤)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١) ابو نعیم احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسی بن مہران اصفہانی ؛ آپ کی پیدائش ٣٣٦ ھ میں ہوئی ، اور ٤٣٠ ھ میں وفات ہوئی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں ملاحظہ کریں :

تذکرة الحفاظ ج٣،ص١٠٩٨،١٠٩٢۔ البدایہ والنہایہ ج١٢،ص ٤٥،۔ طبقات سبکی ج٤،ص ١٨۔ میزان الاعتدال ج١، ص١١١۔ لسان المیزان ج١١،ص ٢٥١۔ وفیات الاعیان ج٣ ، ٥٢

(٢) عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس قرشی ؛ آپ ہجرت سے ٣٧ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئے ، اور بعثت کے کچھ سال کے بعد ہی اسلام قبول کیا ، اور ٣٢ ھ میں خلیفہ دوم حضرت عمر کے قتل کے بعد شوری کے ذریعہ جس کے افراد خلیفۂ دوم نے معین کئے تھے ، تخت خلافت پرجائے گزیں ہوئے ، آپ کی حکومت ان تمام فتوحات اور ثروت سے مالا مال اور سرشار تھی جو حضرت عمر کے زمانہ میں حاصل ہوئے تھے ،ان کے دور میں بہت سے شہر فتح ہو کر اسلامی مملکت کے جز بنے ، بہر حال عثمان کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ آپ نے قرآن جمع کیا ، آپ کی حکومت میں بنی امیہ نے اسلامی حکومت پر غلبہ حاصل کر لیا جس کی بنا پر نظام حکومت درہم برہم ہونا شروع ہوا ، اور ہر طرف فساد برپا ہونے لگا ، عام لوگ یہ دیکھ کر حضرت عثمان سے ناراض ہوگئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ٣٥ ھ میں قتل کردئے گئے ، اور آپ کے دور حکومت کا خاتمہ ہوا ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میںملاحظہ کریں :

تذکرة الحفاظ ج١،ص١٠،٨۔الاصابة ج٤،ص ٢٧١، ٢٦٩۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنز العمال ج ٦، ص ٢٠٣۔ ذخائر العقبی ص ١٩۔الصواعق المحرقة ص ١١١۔ فیض القدیر ج٦، ص ١٧٢۔

(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنز العمال ج ٦، ص٢١٦۔الصواعق المحرقة ص١٨٥۔ینابیع المودة ص ٣٧٠.

چونویں حدیث : اہل بیت پر کئے گئے احسان کا بدلہ قیامت میں رسول خداۖ دیں گے

اخرج ابن عساکر ،عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( من صنع الی احد من اہل بیتی یداً کافأتہ یوم القیامة ))

ابن عساکر نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسولۖ نے فرمایا:جو میرے اہل بیت میں سے کسی ایک کے ساتھ کوئی نیکی کرے گا میں روز قیامت اس کا بدلہ ادا کروں گا ۔(١)

 

پچپنویں حدیث : اہل بیت سے تمسک ذریعۂ نجات ہے

اخرج الباوردی عن ابی سعید ؛قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا ، کتاب اﷲ سبب طرفہ بید اﷲ، وطرفہ بایدیکم ، وعترتی اہل بیتی ، وانہما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))

باوردی(٢) نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام ۖ نے فرمایا: تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ان سے اگر تم نے تمسک کیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے :وہ کتاب خدا ہے کہ جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں ہے، اور دوسری میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو ں گی۔(٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١ ) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

الصواعق المحرقة ص ١٨٥۔ فیض القدیر ج٦، ص ١٧٢۔ ذخائر العقبی ص ١٩۔متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔

(٢) ابو محمد عبد اﷲ بن محمد بن عقیل باوردی ؛ آپ اصفہان کے رہنے والے تھے ، اور ابو بکر احمد بن سلمان نجار بغدادی سے حدیث

نقل کرتے تھے .

دیکھئے : سمعانی ؛ الانساب ج ٢،ص ٦٥۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

حلیة الاولیاء ج١،ص ٣٥٥۔ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ١٧ ، ٦٦۔مجمع الزوائد ج ١٠، ص ٣٦٣۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔ ج٧، ص ٢٢٥۔

متقی ہندی نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

(( یا ایہا الناس ! انی تارک فیکم ما اخذتم بہ لن تضلوا بعدی ؛ امرین احدہما اکبر من الآخر ، کتاب اﷲ حبل ممدود ما بین السماء والارض ، وعترتی اہل بیتی ، وانہما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))

رسول اسلام ۖ نے فرمایا: اے لوگو! تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ان سے اگر تم نے تمسک کیا تو تم گمراہ نہ ہوگے : ان میں سے ایک امر دوسرے سے اکبر ہے اوروہ کتاب خدا ہے کہ جو رسی کی مانند زمین و آسمان کے درمین کھینچی ہوئی ہے،(یعنی جس کا ایک سرا آسمان تک پہنچا ہوا ہے جو خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا زمین تک پہونچا ہوا ہے جو تمھارے ہاتھ میں ہے) اور دوسرے میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوںگی .

 

چھپنویں حدیث :

 

چھپنویں حدیث : کتاب خدا اور اہل بیت رسول ۖنجات امت کا وسیلہ ہیں

اخرج احمد والطبرانی ، عن زید بن ثابت ؛قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( انی تارک فیکم خلیفتین ، کتاب اﷲ حبل ممدود ما بین السماء والارض ، و عترتی اہل بیتی ، وانہما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))

احمد اور طبرانی نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام ۖ نے فرمایا: تمھارے درمیان دوخلیفہ( جانشین) چھوڑ رہا ہوں ، ایک کتاب خدا ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان (رسی کی مانند) کھینچی ہوئی ہے(یعنی خدا کی کتاب رسی کی مانند ہے کہ جس کا ایک سرا آسمان میںہے جو خدا کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرا زمین میں ہے جوتمھارے ہاتھ میں ہے) اور دوسرے میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گی۔ (١)

 

ستاونویں حدیث : چھ قسم کے لوگوں پر خدا اور اس کے رسولۖ نے لعنت کی ہے

اخرج الترمذی و الحاکم ، والبیہقی فی'' شعب الایمان '' عن عائشة ؛ مرفوعاً: قال رسول اﷲ ۖ :(( ستة لعنتہم ولعنہم اﷲ و کل نبی مجاب : الزائد فی کتاب ﷲ ، والمکذب بقدر اﷲ ،والمتسلط بالجبروت ، فیعز بذالک من اذل اﷲ ، ویذل من اعز اﷲ ، والمستحل لحرام اﷲ، والمستحل من عترتی ما حرم اﷲ ، والتارک لسنتی ))

ترمذی ، حاکم اور بیہقی ( کتاب شعب الایمان میں مرفوع سند کے ساتھ)نے عائشہ (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : چھ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر میں نے ، خدا نے اور ہر مستجاب الدعوات نبی نے لعنت کی ہے، اور وہ یہ لوگ ہیں:

١۔ جو خدا کی کتاب میں زیادتی کرے ۔

٢۔ جوقضاء و قدر الٰہی کو جھٹلائے ۔

٣۔ جو حکومت پر جبراً قبضہ کرکے اس کے ذریعہ ان لوگوں کو کہ جن کو خدا نے ذلیل قرار دیا ہے عزت دے ، اور ان کو ذلیل کرے جنھیں خدا نے عزت بخشی ہے۔

٤۔ جو خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھے ۔

٥۔جو میری عترت کی اس عزت و حرمت کو( برباد کرنا ) حلال سمجھے جو انھیں خدا نے عطا کی ہے۔

٦۔جو میری سنت کو ترک کرے ۔(٣)

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج١،ص٤٤ ۔ا لمسند ج٥، ١٨١۔ ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج٩، ص ١٦٣۔

ہیثمی کہتے ہیں: اس حدیث کو احمد بن حنبل نے خوب اور جید سند کے سا تھ نقل کیا ہے .

ابن حجر ؛ الصواعق المحرقة ص ١٣٦۔

ابن حجر کہتے ہیں : اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابیوں نے نقل کیا ہے.

(٢) ام المومنین حضرت عائشہ زوجہ ٔ رسو ل بنت ابی بکر بن ابی قحافہ ؛

آپ ہجرت کے دس سال قبل دنیا میںآئیں ، اور جنگ بدر کے بعد آپ کی شادی رسو ل خدا سے ہوئی ، اور ٣٥ ھ میں طلحہ اور زبیر کے ورغلانے پر ان کے ساتھ حضرت علی ـ کے مقابلہ میں جنگ جمل میں تشریف لائیں ! ام المومنین عائشہ سے محدثین نے تقریباً ٢٢١٠ حدیثیں نقل کی ہیں ، آپ کی وفات ٥٥ سال کی عمر میں ٧٥ ھ کو ہوئی ،اور ابو ہریرہ نے آپ پر نماز جنازہ پڑھی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں :

الاصابة ج٨،ص ١٤١۔ تذکرة الحفاظ ج١،ص٢٩،٢٧۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

ینابیع المودة ص ٢٧٧ ۔کنز العمال ج٨، ص١٩١۔ خطیب تبریزی ؛ مشکاة المصابیح ص٥٧٣۔الجامع الصحیح ( ترمذی شریف )ج١،ص ٣٨۔حاکم؛ مستدرک الصحیحین ج١،ص ٣٦۔

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام اسناد صحیح ہیں ،میں تو اس کے راویوں کوکہیں سے ضعیف نہیں پاتا ہوں ، اگرچہ امام بخاری ور امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نہیں نقل کیا ہے ! مستدرک میں ایک دوسری جگہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :یہ حدیث شرط بخاری کے مطابق صحیح ہے .

اٹھاونویں حدیث: چھ قسم کے لوگ خدا و رسولۖ کی نظر میں ملعون ہیں

اخرج الدیلمی فی الافراد ،والخطیب فی المتفق ، عن علی ؛قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( ستة لعنہم اﷲ،ولعنتہم، وکل نبی مجاب : الزائد فی کتاب ﷲ، والمکذب بقدر اﷲ ، والراغب عن سنتی الی بدعة ،والمستحل من عترتی ما حرَّم اﷲ ، والمتسلط علی امتی بالجبروت ، لیعز من اذل اﷲ ، ویذل من اعز اﷲ ، والمرتد اعرابیاً بعد ہجرتہ)).

دار قطنی (١)نے کتاب'' الافراد ''میں اور خطیب بغدادی نے کتاب'' المتفق '' میں حضرت علی ـ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے ارشاد فرمایا: چھ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر میں نے ، خدا نے اور ہر مستجاب الدعوات نبی نے لعنت کی ہے، اور وہ یہ لوگ ہیں:

١۔ جو خدا کی کتاب میںاضافہ کرے .

٢۔ جو اﷲ کی قضاء وقدر کو جھٹلائے .

٣۔جو میری سنت کو ترک کرکے بد.عت کے روبراہ ہوجائے۔

٤۔ جو میرے اہل یت کے بارے میں ان امور کو حلال سمجھے جنھیں خدا نے حرام قرار دیا ہے ۔

٥ ۔جو میری امت پر قہر وغلبہ کے ذریعہ اس لئے مسلط ہو جائے کہ جن لوگوں کو خدا نے ذلیل قرار دیا ہے انھیں عزت دے ، اور ان کو ذلیل کرے جنھیں خدا نے عزت بخشی ہے۔

٦۔ وہ اعرابی ( لوگ)جوخدا و رسول کی طرف ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ دور جاہلیت کی طرف پلٹ جائیں ۔(٢)

 

انسٹھویں حدیث : تین چیزیں ایسی ہیں جن سے دین و دنیا سنورتے ہیں

اخرج الحاکم فی تاریخہ ،والدیلمی ،عن ابی سعید ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( ثلاث من حفظہن حفظہ اﷲ لہ دینہ و دنیاہ ،ومن ضیعہن لم یحفظ اﷲ لہ شیئًا، حرمة الاسلام ، وحرمتی ، وحرمة رحمی ))

حاکم (اپنی تاریخ میں) اور دیلمی نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ان کی حفاظت کرے تو خدا اس کے دین ودنیا کومحفوظ رکھتا ہے، اور جو شخص ان کی حفاظت کے بجائے ان کو ضائع کردے، خدا اس کے لئے کسی چیز کی حفاظت نہیں کرے گا ،اور وہ تین چیزیں یہ ہیں :

١۔اسلام کا احترام

٢۔ میرا احترام

٣۔ میرے اہل بیت کا احترام . (٣)

 

ساٹھویں حدیث : ساری دنیا میں سب سے بہتر بنی ہاشم ہیں

اخرج الدیلمی ،عن علی ؛قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( خیر الناس العرب ، وخیر العرب القریش ، وخیر قریش بنو ہاشم ))

دیلمی نے حضرت علی ـ سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامۖ نے فرمایا : تمام انسانوں میں سب سے بہتر انسان عرب ہیں،(٤)اور عرب میں سب سے بہتر قریش ہیں ، اور قریش میں سب سے بہتر بنی ہاشم ہیں ۔(٥) ((ھٰذا آخرہ والحمد ﷲ وحدہ))

..............

 

اسناد و مدار ک کی تحقیق : (١)ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی دار قطنی بغدادی ؛ آپ ٣٦ ٣ھ میں متولد ہوئے ، اور ٣٨٥ ھ میں وفا ت پائی ، آپ کی سب سے اہم کتاب سنن دار قطنی ہے، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتاب میں ملاحظہ کریں :

تذکرة الحفاظ ج ٤،ص ٩٩٥، ٩٩١۔

(٢)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

القول الفصل حضرمی؛ ج١،ص ٤٦٦۔ متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج١٦،ص٣٤١۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

مجمع الزوائد ج ٩، ص ٦٨۔الصواعق المحرقة ص٩٠۔

(٤)جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحوث میں کہا کہ اس طرح کی تمام حدیثیں جو قو م پرستی اور ذات پات کی برتری پر مشتمل ہوں وہ محل اشکال ہیں ،کیونکہ قرآن اور حدیث کی رو سے تقوی اور پرہیز گاری کی بنا پر برتری ہوتی ہے . مترجم .

(٥)مذکورہ حدیث دیلمی کی کتاب کے علاوہ حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج١٦،ص٣٤١۔الانساب ج ١،ص ١٥۔ دیلمی ؛جنت الفردوس ص ٥٧۔

البتہ مذکورہ حدیث کو دیلمی نے اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ اس طرح بھی نقل کیا ہے :

(( خیر الناس العرب ،وخیر العرب القریش ،وخیر قریش بنو ہاشم ،وخیر العجم فارس وخیر السودان النوبة وخیرالصبغ العصفروخیر الخضاب الحناوالکتم ،وخیر المال العقر))

رسول اسلامۖ نے فرمایا : تمام انسانوں میں سب سے بہتر عرب ہیں ، اور عرب میں سب سے بہتر قریش ہیں ، اور قریش میں سب سے بہتر بنی ہاشم ہیں ، اور عجمیوں میں سب سے بہتر فارس ہیں ، اور سیاہ فام لوگوں میں سب سے بہتر مقام نوبہ کے سیاہ فام ہیں ، اور رنگوں میں سب سے بہتر رنگ زرد ہے ، اور خضاب میں سب سے بہتر خضاب حنا اوروسمہ کا ہے ، اور مال میں سب سے بہتر مال نقد ہے.

محترم قارئین ! اس حدیث کے مضمون کا مطالعہ کرنے بعد کیا کسی طرح کا اس میں شک وشبہ باقی رہ جاتا ہے کہ یہ حدیث جعلی اور گڑھی ہو ئی نہیں ہے؟ ! میں تو نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی عاقل مسلمان اس حدیث کو صحیح سمجھتا ہوگا . مترجم .

آغاز ترجمہ : ١٠ ذی الحجہ بروز جمعہ ٤١٢٥ ھ . اختتام ترجمہ : ١٨ ذی الحجہ بروز شنبہ ١٤٢٥ ھ مطابق ٢٩ جنوری ٢٠٠٥ ء ٣١٨٣ ش ھ .تکمیل و تنظیم ٨ محرم الحرام ١٤٢٦ ھ .

 

 

کتاب کے مدارک و مآخذ احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

 

کتاب کے مدارک و مآخذ منہج النقد…………………………………………نورالدین عتر

علوم الحدیث ومصطلحة۔۔۔……………………… دکتر صبحی الصالح

نہایة الد رایة:……………………………سید حسن الصدر الکاظمی

مقباس الہدایة فی علم الدرایة…………………… ۔شیخ عبد اﷲ مامقانی

تاریخ البخاری…………………… …………………امام بخاری

مختصر تاریخ دمشق……………………………………ابن منظور

تہذیب التہذیب………………………………ابن حجر عسقلانی

تذکرةالحفاظ……………………………………………ذہبی

طبقات ابن سعد………………………………………ابن سعد

الجرح والتعدیل…………………………………ابن ابی حاتم رازی

تفسیردرمنثور…………………… ……………جلال الدین سیوطی

شواہد التنزیل……………… …………… …………حسکانی

مستدرک الصحیحین.…………………………………… حاکم

صواعق محرقة…… ………………………………… ابن حجر

ذخائر العقبی………………………………… محب الدین طبری

الطبقات الشافعیة الکبری……………تاج الدین سبکی عبد الوہاب بن علی

الاعلام………………………………… ……………زرکلی

شذرات الذہب………………………………… ابن عماد حنبلی

فوات الوفیات……………………محمد ابن شاکر کتبی دارانی دمشقی

طبقات الحنابلة……………………قاضی ابی الحسن محمد بن ابی یعلی

لسان المیزان…………………………………ابن حجر عسقلانی

مرآة الجنان……………………………… ……………یافعی

اخبار اصفہان…………………………………………ابی نعیم

المنتظم ……………………………………………ابن جوزی

میزان الاعتدال…………………………………شمس الدین ذہبی

النجوم الزاہرة فی……ابی الحسن جمال الدین اتابکی مشہور بہ ابن تغری بردی

وفیات الاعیان………………………………………ابن خلکان

الاصابة فی تمییز الصحابة…………………………ابن حجر عسقلانی

جوامع السیرة …………………………………………ابن حزم

العقد الثمین فی اثبات وصایة امیر المومنین ……………………شوکانی

نکت الہمیان………………………………………خلیل صفدی

حلیة الاولیائ………………… ……………حافظ ابونعیم اصفہانی

الاستیعاب………………………………ابن عبد البر نمری قرطبی

اسد الغابة فی معرفة الصحابة…………………………ابن اثیر جزری

کتاب اعیان الشیعہ …… ……………………سید محسن امین عاملی

معجم الکبیر…………………………… ……………طبرانی

مجمع الزوائد ……………………………………ابن حجرہیثمی

الفصول المہمة..………………………………… ابن صباغ مالکی

الجامع لاحکام القرآن……………………………………قرطبی

تفسیر کشاف……………………امام جاراﷲمحمود بن عمرزمخشری

اسعاف الراغبین………………………………………ابن صبان

ارشاد العقل السلیم………………………

مسند امام احمد بن حنبل.………………… ………… احمد بن حنبل

تفسیر طبری…………………………ابی جعفر محمد بن جریرطبری

تفسیر ابن کثیر………………………… ……………ابن کثیر

نزل الابرار بما صح من مناقب اہل البیت الاطہار..………محمد بدخشی حارثی

ینابیع المودة…………………… ……………سلیمان ابن قندوزی

بالغدیر……………………………… ……………علامہ امینی

فضائل الخمسہ من الصحاح الستة.………… …………سید فیروز آبادی

اعلام المحدثین…………………………………عبد الماجد غوری

الجامع الصحیح(ترمذی شریف) …………………………… ترمذی

کنزالعمال.………………………………… علاء الدین متقی ہندی

مشکاة المصابیح…………………… ……………خطیب تبریزی

تاریخ بغداد……………………… ……………خطیب بغدادی

بستان المحدثین……………………… عبدالعزیز بن احمد بن دھلوی

اکلیل.………………………………………………ابن عدی

القول الفصل…………………………………………حضرمی

عین المیزان …………………………

فتح البیان ………………………………صدیق حسن خان کنوجی

صحیح مسلم……………………… ……………امام محمد مسلم

فتح ا لباری فی شرح صحیح ا لبخاری.…………………ابن حجر عسقلانی

سنن بیہقی……………………………………………بیہقی

سنن دارمی……………………………… ……………دارمی

العقد الفرید…………………………………ابن عبد ربہ اندلسی

معجم البلدان………………………………………یاقوت حموی

مسند ابو یعلی.………………… ( قلمی نسخہ ، ظاہریہ لائبریری دمشق )

طبقات ابن سعد………………………………………ابن سعد

منتخب کنز العمال…………………… ……………متقی ہندی

جامع الاصول فی احادیث السول……………………… ابن اثیر جزری

صحیح بخاری.………………………………………امام بخاری

کتاب السیرة.…………………………… ……………ملاقاری

مسند الفردوس ……………………( قلمی نسخہ لالہ لی لائبریری )دیلمی

اللباب فی تہذیب الانساب……………………………ابن اثیر جزری

کنوز الحقائق…………………………… ……………مناوی

الظمان الی زوائد ابن حبان…………………… ……………ہیثمی

ا لخصائص الکبری………………………………………سیوطی

فی رحاب ائمة اہل البیت…………………

شعب الایمان……………………………………………بیہقی

الشرف ا لمؤبد.……………………………………نبہانی بیرونی

فہرست ندیم..……………………………………………ندیم

معجم المؤلفین..…………………………… ……عمر رضا کحالہ

زوائد مسند بزار…………… ……………ابو بکر احمد بن عمر بزار

مرقاة المصابیح …………………………

المعجم الصغیر…………………………………………طبرانی

المعجم الاوسط…………………………… …………طبرانی

جواہر العقدین (قلمی نسخہ ، ظاہریہ کتاب خانہ دمشق ).………… سمہودی

صفوة ا لصفوة………………………………………ابن الجوزی

تاریخ طبری…………… ……………ابی جعفر محمد بن جریرطبری

مقتل الخوارزمی……………………………………خوارزمی

التدوین………………………………… ……………رافعی

الانساب……………………………… ……………سمعانی

فیض القدیر………………………………… عبد الرؤوف مناوی

غایة النہایة ………………………………محمد بن محمدابن جزری

الدرة الیتیمة فی بعض فضائل السیدة العظیمة…………………………

الافراد………………………………… …………دارقطنی

المتفق…………………………………………خطیب بغدادی

کفایة الطالب………………………… ……………گنجی شافعی

الفتاوی الحدیثیة …………………………………ابن حجر ہیثمی

الفتح الکبیر……………………………… ……………نبہانی

البدایة والنہایة …………………………………ابن کثیر دمشقی

جنت الفردوس …………………………………………دیلمی

تاریخ مدینة دمشق.……………………………………ابن عساکر

مشکل الآثار………………………………امام ابی جعفر طحاوی

الریاض النضرة …………………………………محب الدین طبری

مصابیح السنة …………………………………………بغوی

المواہب اللدنیة…………………………………احمد قسطلانی

رجال قیسرانی…………………………………………قیسرانی

Comments powered by CComment