تألیف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
ترجمہ:عرفان حیدر
میں اپنی یہ ناچیز کاوش وارث علم کردگار، حامل علم رسول مختار، ناظر گردش لیل و نہار،
شیعیت کی محور و مدار، نور چشم صاحب ذوالفقار ، قائم آل محمد،
یوسف زہرا علیہا السلام، حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کی پاک بارگاہ
میں پیش کر کے قبولیت کا متمنی ہوں۔
بسم الله الرحمن الرحیم
تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیںکہ جن کی زندگی کا ہدف و مقصد انسان کو سعادت تک پہنچانا ہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو شیطان کی نیابت میں لوگوں کو ہلاک و گمراہ کرنے کا کام بطور احسن انجام دیتے ہیں۔
خدا وندعالم کی طرف سے معین کئے ہوئے الٰہی نمائندے، پیغمبر اوراہلبیت اطہار علیہم السلام وہی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی بے مثال سیرت اور بے نظیر کردار کے ذریعہ انسانی معاشرہ کی دنیاوی و اخروی سعادت کی طرف ہدایت و راہنمائی کی۔
بیشک پیغمبراکرم(ص) ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب ودماغ میں چمکیاور معاشرے کو تہذیب وتمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے بہترین ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے کہ اگر صرف مسلمان ہی رسول خاتم(ص) کی تعلیمات پر عمل کرتے اور اختلاف ، تفرقہ ، تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقینا چودہ سو سال گذرجانے کے بعد آج بھی اس تہذیب وتمدن کے مبارک درخت سے بہترین ثمر تناول کرتے،لیکن افسوس صد افسوس کہ پیغمبر (ص) کی جانسوز اور دردناک رحلت کے بعد ظاہراً اسلام قبول کرنے والے کچھ مسلمانوں پر خود غرضی اور مقام طلبیحاکم ہو گئی اور وہ رسول (ص) کے بتائے ہوئے خدا ساختہ راستہ کو چھوڑ کر خود سا ختہ راستہ پر نکل پڑے اور آجتک انسان اور بالخصوص مسلمان ان کے اس گناہ عظیم کی سزا بھگت رہے ہیں۔
لیکن خدائے عظیم نے ان کریم ہستیوں کے ذریعہ ہر دور کے انسان کے لئے ہدایت کا سامان فراہم کیا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان تعصب و تنگ نظری اور اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کو چھوڑ کرحقیقی معنوں میں منطقی طریقے سے تحقیق و جستجو کرے۔
ان معصوم ہستیوں کیسیرت و کردارصرف اسی دور کے مسلمانوں کے لئے ہی اسوہ نہیںتھی بلکہ ان کی احادیث اور پیشنگوئیاں ہر دور کے مسلمان کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہیں ۔ رسول اکرم(ص) اور امیر کائنات علی علیہ السلام نے اپنی پیشنگوئیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو آئندہ کے واقعات و حادثات اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نیست و نابود کرنے والے شیطان کے نائبین خاص سے آگاہ فرماتا کہ لوگ ان ظاہری مسلمانوں کے شرّ سے محفوظ رہیں۔
یہ کتاب بھی راہ حق سے بھٹکے ہوئے سادہ لوح افرادکے لئے نایاب تحفہ ہے جن کے لئے یہ چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن بنی امیہ اور بالخصوص معاویہ کے خبیث چہرے سے پیغمبر(ص) کی احادیث اور پیشنگوئیوں کے ذریعہ نقاب کشائی کی گئی ہیں تاکہ ہمارے اہلسنت بھائی یہ جان لیں کہ وہ جسے اپنا خلیفہ مانتے ہیں وہ اسلام کے نام پر اسلام کو ہی مٹانے کے لئے کس حد تک کوشاں رہا۔
اور یقینا اس کار خیر کو انجام دینا مجھ اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی لہذا میں اپنے والدین، اساتید، بھائیوں اور دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے اس کام میں میرے راہنمائی کی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔خداان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور وقت کے ہادی، راہنما، یوسف زہرا،امام زمانہ (عجل الله تعالى فرجه ) کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔
عرفان حیدر
قم المقدس ( ایران )
بسم الله الرحمن الرحیم
ایک اہم نکتہ
یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ
بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز
یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ
اس کتاب کے بارے میں
معاویہ بروز غدیر
ایک اہم نکتہ
محققین جس بارے میں بھی تحقیق کریں اور جس موضوع کے بارے میں تحقیق کا آغاز کریں انہیں اس نکتہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ اس موضوع سے مربوط بہت سے تاریخی ،تفسیری اور فقہی حقائق مطالب پر دقّت اور غور وفکرکرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔
مثال کے طور پر تاریخ اور تاریخ نگاری میں ہو سکتا ہے کہ بعض مؤرخین نے تاریخی حقائق کو واضح و آشکار طور پر بیان نہ کیا ہواور ممکن ہے کہ یہ ان حقائق سے لاعلمی کی دلیل ہو یا اس میںمؤرخین کے اغراض و مقاصدشامل ہوں ۔لیکن جو محققین اور اہل تحقیق تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق سب کے آشکار کرنا چاہتے ہیں ،انہیں چاہئے کہ ان مطالب کو عام سطحی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ جو کچھ پڑھیں اس پر دقّت اور مکمل فہم و فراست سے غور وفکر اور تأمل کریں تاکہ اس غور و فکر ور تدبّر کی وجہ سے تاریخ کے تاریک اور بیان نہ کئے گئے نکات کوواضح و روشن کرکے معاشرے کے لئے بیان کریں۔
اب ہم تاریخ کا ایک چھوٹا سا نکتہ بیان کرتے ہیں اور پھر ہم اس کی علت کے بارے میں جستجو کریں گے:
تاریخ میں ذکر ہواہے :اسلام کی طرف مائل ہونے والے یہودی اور عیسائی عثمان کے زمانے تک اسے خلیفہ مانتے تھے حتی کہ جب عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو ان میں سے کچھ نے تو جانفشانی کی حد تک عثمان کا دفاع کیا لیکن عثمان کے قتل کے بعد ان میں سے بہت سے معروف افراد نے نہ صرف امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی اطاعت نہ کی بلکہ مدینہ کو چھوڑ کر شام میں معاویہ کے گرد جمع ہو گئے!
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تاریخ نے بیان کیا ہے اور ایسے ہی کچھ نمونے ہم نے اس کتاب میں ذکر کئے ہیں۔اب اس بارے میں غور و فکر کریں کہ ظاہری طور پر مسلمان ہونے والے یہ یہودی و عیسائی کیوں عثمان کی حمایت کرنے کے لئے تیار تھے؟اورانہوں نے کیوں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حمایت نہ کی ؟اور کیوں انہوں نے شام جا کر معاویہ کی حمایت کی؟
کیا ان کے اس عمل کو اس چیز کی دلیل نہیں سمجھا جا سکتا کہ کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد کے پیش نظر ظاہری طور پر مسلمان ہوئے اور عثمان کے گرد جمع ہو گئے؟عثمان نے ان کے لئے ایسا کیا کیا کہ مسلمانوں نے اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا؟کیوں انہوں نے خاندان وحی علیہم السلام کا دامن نہ تھاما اور معاویہ کے پیچھے چل پڑے؟
ان امورپر غور کرنا اس حقیقت کو واضح کر دیتاہے کہ ظاہری طورپر مسلمان ہونے والے یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک گروہ نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے معاویہ کو طاقت دی؟حتی انہوں نے عثمان کے قتل ہونے سے پہلے ہی معاویہ کو خلیفہ کے عنوان سے واضح کر دیا تھا۔ان کے شام جانے کے بعد معاویہ نے انہیں قبول کر لیا اور ان میں سے بعض کو تو مسلمانوں کی سرپرستی کے لئے بھی منتخب کر لیا!!
ان کے مسلمان ہونے کے آثار میں سے ایک اسرائیلیات،خرافات اور جھوٹی حدیثیں گھڑنا تھا۔وہ ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان امور کی ترویج کرتے تھے اور اسلام کے لئے درد دل نہ رکھنے والے خلفاء نے انہیں کھلی چھوٹ دے دی۔یہ ایسے افراد کے مسلمان ہونے کے عامل میں سے ایک ہے۔
جی ہاں!انہوں نے اصحاب پیغمبر (ص) کے نام پر دین پیغمبرکو نقصان پہنچایا اوریہ نکتہ بہت ہی قابل غور ہے کہ عمر کے بہت سے رشتہ دار ایسے ہی افراد کے دوست اور ہم نشین تھے۔
کتاب''اسرائیلیات اور اس کے اثرات''میں لکھتے ہیں:
جو چیز اسرائیلیات اور اہل کتاب کے خرافاتی و جعلی قصوں کو پھیلانے میں مدد کرتی تھی وہ بعض یہودو نصارا علماء کا ظاہری اسلام لانا تھا کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اور حتی کہ اصحاب پیغمبر(ص) کا لبادہ اوڑھ کر وہ بڑی آسانی سے اپنے بہت سے خرافاتی عقائد اور فکری رسومات کو روایات اور احادیث کے قالب میں مسلمان کے سپرد کرسکتے تھے اور اسلام کی شفاف فرہنگ کو اپنے مجعولات و توہمات سے آلودہ کر سکتے تھے۔
اہل کتاب میں سے اس مسلمان نما گروہ کی اسرائیلیات کو قبول کرنے کے عوامل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اکثر مسلمان انہیں رسول خدا(ص) کے اصحاب کے برابر شان و مرتبہ دیتے تھے اور ان کے لئے عزت اور تقرب کے قائل تھے حلانکہ کے وہ ان کی پست نیتوں سے بے خبر تھے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام اس مسلمان نما گروہ سے جعل حدیث کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''پیغمبر خدا(ص) سے حدیث نقل کرنے والا ایک گروہ ایسے منافقوں کا ہے کہ جو ظاہری طور پر تو اسلام لائے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر پیغمبر اکرم (ص) کی طرف ججھوٹی نسبت دی ۔اگر لوگ جان لیتے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں تو ان کی حدیث کو قبول نہ کرتے، لیکن لوگ کہتے ہیں :یہ رسول خدا(ص) کے اصحاب ہیں ؛انہوں نے آنحضرت کو دیکھا ہے اور ان سے حدیث سنی ہے ،اس وجہ سے ان کی حدیث کو قبول کرتے ہیں ؛ حلانکہ خدا نے قرآن میں منافق صحابیوں کی صفات بیان کرکے ان کے جھوٹ کو بیان کیا ہے.....۔یہ جھوٹے منافقین پیغمبر اکرم(ص) کے بعد بھی زندہ رہے اور اپنے جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ گمراہ رہبروں کے مقرب بن گئے اور ان رہبروں نے انہیں حکومتی منصب عطا کئے اور انہیں لوگوں پر مسلّط کر دیا اور ان کے ذریعہ اپنی دنیا کو آباد کیا ۔ لوگ اپنے حاکموں کے فرمانروا اور دنیا کے ساتھ ہیں،مگر ان حضرات کے علاوہ کہ جنہیں خدا محفوظ رکھے''(1)حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کے لئے تاریخ اسلام میں متعدد اور واضح مثالیں موجود ہیں کہ جو مسلمان کے اصحاب کی صف میں بیٹھنے والے ایسے ہی اہل کتاب سے خوش بینی پر مبنی ہیں ؛حتی کہ بعض تاریخی منابع میں یہاں تک ذکر ہوا ہے:معاذ بن جبل نے حالت احتضار میں اپنے اطرافیوں کو تاکید کی کہ چار افراد سے علم حاصل کریں: سلمان،ابن مسعود ،ابو درداء اور عبداللہ بن سلاّم (جویہودی تھا اورپھر اس نے اسلام قبول کیاتھا)؛ کیونکہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ (یعنی عبداللہ بن سلاّم) ان دس افراد میں سے ہے جو بہشت الٰہی میں جائیں گے!(2) اس سے واضح اور صریح روایت ہے: ایک شخص نے کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ عمر سے پوچھا۔ جب کہ عبداللہ کے پاس یوسف نام کا ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا،عبداللہ نے اس سے کہا:
--------------
(1):- نہج البلاغہ، خطبہ:201،اصول کافی:ج 1ص۱۰6-(2):- التفسیر المفسرون:ج1ص۱۸6،الصحیح من سیرة النبی الأعظم: ج۱ص۱۰6
یوسف سے سوال پوچھوکہ خدا نے ان کے بارے میں فرمایاہے:(فَاسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ)(1)(2)اس واقعہ میں کچھ ایسے نکات ہیں جو قابل غور ہیں:
1۔ معاذ بن جبل(عمر کا دوست) نے کیوں عبداللہ بن سلاّم (جو یہودی سے مسلمان ہوا تھا) کا نام لیا لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا نام نہ لیا جب کہ آپ ہمیشہ پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ ہوتے تھے؟! کیا یہودی سے مسلمان ہونے والا عبد اللہ بن سلاّم دینی عقائد و مسائل امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نعوذ بالله)زیادہ جانتا تھا؟!یا اس کی وجہ یہ تھی کہ عبداللہ بن سلاّم دین کے نام پر دوسرے مطالب بھی نادان اور لا علم مسلمانوں کے حوالہ کرتا تھا؟!
2۔ جب کسی مسئلہ کے بارے میں عبداللہ بن عمر سے سوال کیا تو اس نے کیوں یوسف نام کے ایک یہودی کی طرف رجوع کرنے کو کہا؟
3۔ کیوں عبداللہ بن عمر نے آیۂ شریفہ (فَاسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ) کو یوسف اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر تطبیق دی؟! حلانکہ شیعہ اور سنّی تفاسیر میں ہے کہ یہ آیت اہلبیت اطہار علیہم السلام کی شان میں ہے۔
4۔ کیوں عبداللہ بن عمر ایک یہودی شخص کا ہم نشین تھا اور اس نے کیوں اسے اتنا سراہا؟!
5۔عبد اللہ بن عمر نے یہودی سے ہم نشینی اور اسے سراہنا کس سے سیکھا؟کیا خود ہی اس کی ایسی عادت تھی؟کیا عمرکو اس کے اس عمل اور رویہ کا علم تھا؟اگر وہ اس سے آگاہ تھا تو کیوں اسے اس کام سے منع نہ کیا؟ اگر عمر اس کے اس کام سے آگاہ نہیں تھا تو جو مدینہ میں اپنے بیٹے کے کاموں سے آگاہ نہ ہو تو وہ کس طرح پورے ملک میں مسلمانوں کے امور سے باخبر ہو سکتاہے؟!! یہ واضح ہے کہ ان امور میںغور و فکر اور دقّت کرنے سے جستجو کرنے والوں کے لئے اہم مطالب آشکار ہوں گے۔
قابل توجہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے تمام مسلمانوں کو اہل کتاب کی ہم نشینی سے منع فرمایا تھا۔
--------------
(1):- سورۂ انبیاء، آیت:7'' اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو''، الصحیح من سیرة النبی الأعظم سے منقول: ج۱ص۱۰6
(2):- اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:47
یہود و نصاریٰ پر فریفتہ ہونے کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا سخت رویّہ
پیغمبر اکرم(ص) نے مسلمانوں کو اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے ،ان سے سوال پوچھنے اور ان کی مسخ شدہ فرہنگ و ثقافت کے سامنےجھکنے سے منع فرمایاہے ۔اور جو لوگ اہل کتاب اور ان کی تحریف شدہ کتابوں کو احترام وتقدّس کی نظر سے دیکھتے تھے آپ انہیں خبردار کرتے تھےکہ ظہور اسلام کے زمانے میں اسلام کی حیات بخش اور شفّاف تعلیمات کے ہوتے ہوئے ایسے عقائد کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔درج ذیل چند مثالیں آنحضرت(ص) کے موقف کو بیان کرتی ہیں:
تفسیر ''در المنثور'' میں بیان ہوا ہے کہ رسول اکرم (ص) کے کچھ صحابی تورات میں سے کچھ چیزیں لکھتے تھے ،یہ خبر رسول اکرم(ص) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:
بیوقوفوں میں سب سے بڑے بیوقوف اور گمراہوں میں سب سے بڑیگمراہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبروں پر نازل کی گئی خدا کی کتاب سے روگردانی کریں اور ایسی کتابوں کی طرف مائل ہوں کہ جو خدا نے ان کے پیغمبر کے علاوہ کسی دوسرے پیغمبر پر نازل کی ہواور اس امت کے علاوہ کسی اور امت کے لئے بھیجی گئی ہو۔
اسی واقعہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
(أَوَلَمْ یَکْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْْهِمْ ِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَرَحْمَةً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ)(1)(2)
کیا ان کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے اور یقینا اس میںرحمت اور ایماندار قوم کے لئے یاددہانی کا سامان موجود ہے ۔
--------------
(1):- سورۂ عنکبوت، آیت:51
(2):- تفسیر الدر المنثور:ج 5ص148اور149۔ نیز ملاحظہ فرمائیں: تفسیر المیزان:ج16ص225
اکثر مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے گذشتہ کتابوں سے خرافات کے ساتھ ملے جلے مطالب لکھے اور ان پر اعتماد کیا لہذا خدا نے انہیں بتا دیاکہ ان کے لئے قرآن کافی ہے۔(1)
صاحب تفسیر ''کشف الأسرار''اس آیت کا شان نزول عمر بن خطاب کو قرار دیتے ہیں کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے سامنے تورات کے ایک حصہ کو پڑھنے میں مصروف تھا جس کی وجہ سے رسول خدا(ص) ناراض ہوئے اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔(3)(2)
--------------
(1):- دیکھئے: تفسیر التبیان:2188 اور تفسیر طبری:721
(2):- تفسیر کشف الأسرار: ج۷ص407 اور 408
(3):- اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:47
بے ایمانی، یہودیوں کے وحشی کردار کا راز
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے کیوں مسلمانوں کو یہودیوں سے تعلق و واسطہ رکھنے سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان سے دوری اختیارکی جائے؟
اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں:انسان کابرے اور ناپسندیدہ کاموں سے بچنے کے اہم عوامل میں سے ایک خداوند کریم پر ایمان اور قیامت پر اعتقاد رکھنا ہے۔
اگر انسان خدا اور روز قیامت پر اعتقاد رکھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ انسان کے تمام اعمال ،کردار بلکہ کے تمام سوچ و افکار کے اثرات ہیں جو آئندہ اس کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے لہذا وہ کوشش کرے گا کہ اس کے اعمال،افکار اور کردار ایسے ہوں کہ جواس کی ذاتی زندگی اور دوسروں کے لئے نقصان دہ اور منفی اثرات نہ رکھتے ہوں۔
گذشتہ لوگوں کی تاریخ کو ملاحظہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں سب سے بڑے مجرم وہ لوگ ہیں کہ جو خدا اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ۔اسی لئے انہوں نے تاریخ میں ایسے ایسیبرے اور وحشیانہ کام انجام دیئے ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کو تباہ کیا ہے بلکہ دنیا کے بے شمار لوگوں بھی تباہ و برباد کر دیا۔
یہودی اپنی مخفی چالوں کے ذریعہ تاریخ کے واقعات پر اثرانداز ہوتے آئے ہیں اور اپنی مکاریوں سے لوگوں کی خواہشات کو پامال کرتے آئے ہیں ،یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں کہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس سے مأیوس ہیں ۔
یہودی چونکہ صرف مادی دنیا پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ اپنی تمام تر توانائیاں مادی دنیا کے حصول پر ہی خرچ کرتے ہیں اور اپنی اصلی ذمہ داری سے غافل رہتے ہیں۔اسی لئے تاریخ میں ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی دنیاوی خواہشات کے حصول کے لئے وحشیانہ ترین اعمال انجام دیئے ہیں اور یہ بات مسلّم ہے کہ اگر وہ موت کے بعد کی دنیا پر ایمان رکھتے تو کبھی بھی ایسے ناپسندیدہ اور برے اعمال انجام نہ دیتے۔
قرآن کریم بھی ان کے آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی تائید کرتا ہوئے فرماتا ہے:
(یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْماً غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْْهِمْ قَدْ یَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ)(1)
اے ایمان والو! خبردار! اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے کہ وہ آخرت سے اسی طرح مایوس ہوں گے جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔
یعنی قوم یہود (جو عذاب کی مستحق ہے)کو دوست نہ رکھیں اور اس کی مدد نہ کریں کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت میں کسی ثواب کی خواہش نہیں رکھتے ،اوروہ کافروں اور بت پرستوں کی طرح عالم آخرت کے منکر ہیںاور یہ مطلب اعجاز قرآن کو بیان کر رہا ہے۔کیونکہ ان کی مذہبی تعلیمات میں بھی یہ بات مشہور ہے اور یہودیوں کے ہاتھوں میں موجود آج کی تورات میں بھی موت کے بعد کی زندگی کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔(2)
یہودیوں کا آخرت پر ایمان نہ رکھنا اس قدر مشہور ہے کہ اس بارے میںتحریر کرنے والے اکثر مصنّفین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ان میں سے ''ویل دورانت''لکھتے ہیں:
یہودی موت کے بعد کی دنیا پر ایمان نہیں رکھتے اور سزا و جزاء کو صرف اسی دنیا میں منحصر سمجھتے ہیں۔(3)
یہ واضح ہے کہ ایسے عقیدہ کا نتیجہ فساد ،بے راہ روی ، ظلم و ستم ، تباہی، گستاخی او ر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔اس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے :
بہت سی برائیاں اور خرابیاں قیامت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ہی وجود میں آتی ہیں۔
--------------
[1]۔ سورۂ ممتحنہ، آیت:13
[2]۔ عفیف عبد الفتاح، الیہود فی القرآن:7-36
[3]۔ ول وایریل دیورانت (منبع عربی):ج۲ص ۳۴۵
قیامت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے یہودیوں کااصلی ہدف ومقصد دنیا اور مال و دولت کو جمع کرنا ہے اور یہ اپنے مقصد تک رسائی کے لئے کوئی بھی کام انجام دے سکتے ہیںحتی کہ یہ مختلف چالوں کے ذریعہ ہزاروں بے گناہ لوگوں کوخطرے میں ڈال کر انہیں اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی طرف دھکیلتے ہیں اور اس طرح وہ نفسیات پر حاوی ہو کر انسان کی پاکیزہ فطرت،غیرت،مردانگی اور جوانمردی کو کمزور کرتے ہیں اور ان کے اپنے سامنے قیام کرنے کے احتمال کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔
مذکورہ بیان کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہودی سربراہ اپنی تمام تر حیوانی اور بری صفات کی وجہ سے روئے زمین پر سب سے زیادہ خطرناک مخلوق بن چکے ہیں!(1)
یہودیوں کا خطرہ اس قدر سنگین ہے کہجس سے اکثر صاحب نظر اور فن کے ماہرین کو خدشہہ لاحق ہے یہاں تک کہ انگلینڈ کے ایک اخبار میں لکھا تھا:
دنیا کی تمام سیاسی اور مالی مشکلات اور جنگوں کے اخراجات یہودیوں نے فراہم کئے ہیں۔(2)(3)
--------------
[1]۔ پرتکل ھای دانشروان صھیون ،دنیا بازیچۂ یہود، السیرة النبویہ و....۔
[2]۔ ژرژ لامبلن، اسرار سازمان یھود:7، روزنامہ''Morning Post'' سے اقتباس
[3]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی: 126
یہودیوں کے بارے میں ''ہٹلر'' کی رپورٹ
''آدولف ہٹلر''لکھتا ہے:
اپنی تحقیق کے دوران مجھے یہودیوں کے ایسے بہت سے ناموں کا پتہ چلا جو گندے اور آلودہ مواد بنانے کے کارخانوں میں عمل دخل رکھتے ہیں ۔اکثر نشہ آور گولیاں ،نقلی ادویات حتی کہ زہریلے کھانے بھی انہی کے ہاتھوں وجودمیں آتے ہیں۔
اس تحقیق کا نتیجہ توقع سے بڑھ کر پریشان کن تھا ۔ اس کے بعد جب میں مزید متوجہ ہوا تو پتہ چلا کہ یہودیوں سے کارخانوں سے بننے والی اکثر اجناس گندی،غلیظ یا کم سے کم نقلی اور نقصان دہ ہیں ۔ یقینی طور پر %95 ادبی گندگی (جو نوجوانوں میں اخلاقی برائیوں ، ہنری پستی اور غیر اخلاقی نمائش کا باعث ہے)کا نظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے چلایا جا رہا ہے کہ جو ملک کی 1فیصد آبادی پر مشتمل ہیں اور کوئی بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا۔
ہر دن میرے لئے ایک نیا مسئلہ کشف ہوتا تھا جسے لکھنے کا نہ تو میں عادی تھا اور نہ ہی میں انہیں برداشت کر سکتا تھا اس لئے میں اپنے سامنے کے ان ظاہری طور پر سادہ مسائل کو سمجھنے کیلئے انہیں کئی بار پڑھنے پر مجبور تھاتا کہ اصلی مقصد کو کشف کر سکوں حلانکہ بیان ہونے والے یہ اکثر مسائل جھوٹے تھے.....۔
''دکھاوے کی تنقید اور وسیع پیمانے پر تعریف غالباً یہودیوں اور اس مشینری کو چلانے والوں کے اد میں ہوتی تھی''(1)
یہودیوں کے کام واضح طور پر یہ بیان کر رہے تھے کہ تخریب کاری کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے ۔یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے وہ ایک مخصوص گروہ اورلوگوں کی طرف سے مخفی طور پر مأمور ہوئے ہوں کہ تمام سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں میں تخریب کاری کریں۔(2)(3)
--------------
[1]۔ آدولف ہٹلر، نبرد من: 41 -42
[2]۔ آدولف ہٹلر،نبرد من:43
[3]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی: 113
ہٹلر( جو کہ خود بھی دنیا کے خونخوار افراد میں سے تھا)یہودیوں کے ظلم و ستم اور فسا د سے اتنا تنگ آچکا تھا کہ اس نے کہا:تخریب کاری کے سوا یہودیوں کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے!
یہودیوں نے کرۂ زمین پر جو تمام فساد،تباہی و بربادی،ظلم و ستم اور انحرافات انجام دیئے ہیں ،وہ صرف یہودیوں کی خود غرضی اور خودبینی اور آخرت پر ایمان و یقین نہ رکھنے کی وجہ سے ہے!
یہ واضح ہے کہ جب یہودیوں کا سب سے بڑے جرائم اور برے سے برے اعمال کو انجام دینے کا معیار ان کی خود بینی اور خود غرضی کی حس ہو تو اس سے ان کا اخروی دنیا پرسے ایمان ختم ہو جائے گا۔صرف ہمارے زمانے میں ہی نہیں بلکہ گزشتہ صدیوں میں بھی وہ جو جرم بھی کر سکتے تھے انہوں نے وہ جرم کیا۔
انہوں نے ابتدائے اسلام سے ہی نہیں بلکہ رسول خدا(ص) کے مبعوث ہونے سے پہلے ہی اسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے تھے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا جس کے لئے بنی امیہ نے ان کی مدد اور خدمت کی۔نیز یہ بھی واضح ہے کہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی ان کی سازشوں میں وسعت آگئی اور اب جب کہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ اسلام کی عالمی حکومت سے ان کی بے شرم حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا ،اس لئے وہ کسی بھی نئے خائن اور سازشی حربہ کو انجام دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔
اس کتاب کے بارے میں
معاویہ اور بنی امیہ (جو ہزار مہینہ اقتدار کی کرسی پر قابض رہے) کے کارناموں کے تجزیہ و تحلیل اور ان کی تاریخ سے مکمل آشنائی کے لئے دسیوں جلد کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کی حکومت میں ملک کی وسعت اور ان کے طولانی اقتدار نے ان کے رفتار و کردار کی فائل کو بہت وزنی بنا دیا ہے ۔ اس لئے حقیقت کے متلاشی اور واقعیت تک پہنچنے کی جستجو کرنے والا ہر شخص بنی امیہ کے کارناموںسے بہت ہی اہم نکات اخذ کر سکتا ہے جس سے ان کے رفتار و کردار کی ماہیت و کیفیت بخوبی واضح ہو جائے گی۔
اب جب کہ معاویہ کی حکومت اور اموی خاندان کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں اور کروڑوں اہلسنت مسلمان اموی حاکموں کو رسول اکرم(ص) کے جانشین اور اسلام کے ولی کے طور پر پہچانتے ہیں !لیکن کیا حقیقت میں یہ لوگ امویوں کی سیاہ کاروایوں سے آگاہ ہیں؟!
کیاوہ جانتے ہیں کہ معاویہ اور اس کے جانشینوں کا تاریخ اسلام کو بدلنے میں کتنا اہم کردار ہے اور انہوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے کس قسم کی سازشیں کیں؟!
کیا وہ جانتے ہیں کہ امویوں کی ہزار مہینہ پر مشتمل حکومت میں اسلامی معارف و عقائد کے ساتھ کیس سلوک کیا گیا؟!
کیا وہ جانتے ہیں کہ ابوسفیان،معاویہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئی ہیں؟
کیا وہ جانتے ہیں کہ اہلسنت کے مشہور علماء و دانشوروں نے اپنی کتابوں میں ان کے بارے میں بہت سی اہم اور حقیقت کو واضح کرنے والی احادیث نقل کی ہیں؟!
کیا وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں بنی امیہ کے کیسے کیسے شرمناک کام درج کئے گئے ہیں؟!
کیا وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں بلکہ انسانیت کی تاریخ کے راستے کو کیسے بدل دیا اور اسے انحراف کی طرف لے گئے؟!
یہ واضح ہے کہ جواپنے لئے گذشتہ لوگوں کی تاریخ کے دریچہ کھول کر کسی تعصب کے بغیر ہشیار اور خبردار کرنے والے نکات سے آگاہ ہیں،وہ جانتے ہیں کہ امویوں نے اسلام کے نام پر خدا اور خاندان وحی علیہم السلام کے آئین کے خلاف کیسے جدوجہد کی۔
ہم نے یہ کتاب ایسے افراد کی مزید آگاہی اور جوحضرات ان واقعات سے مطلع نہیں ہیں ، انہیں ان سے آشنا کرنے کے لئے تألیف کی ہے اور اسے عام لوگوں کے لئے پیش کیا ہے تا کہ سب لوگ بنی امیہ کے شرمناک اہداف و مقاصد سے آشنا ہوں اور وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ کس طرح خلافت کی کرسی پر قابض ہوئے اور انہوں نے کس طرح امت کی رہبری حاصل کی !اور اسلام کی جڑوں پر کیسی کیسی کاری ضربیں لگائیں!
اب شیعہ عقائد کے حقائق کی نورانیت سے دنیا کے بے شمار لوگوں نے اسلام کا رخ کیا ہے اور اب وہ یہ جاننا چاہتے ہیں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے فرقوں میں کون سا فرقہ حقیقت پر مبنی ہے اور کون سا راستہ انحراف و گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔
یہ کتاب''معاویہ''مذہب حقہ کے انتخاب کے سلسلہ میں بخوبی ان کی راہنمائی کر سکتی ہے اور نہ صرف معاویہ بلکہ اہلسنت کا بھی تعارف کروائے گی کہ جو معاویہ کی پیروی کرتے ہیں اور اسے اپنا رہبر و پیشوا سمجھتے ہیں۔
اسی طرح یہ کتاب بہت سے اہلسنت حضرات کی رہنمائی کے لئے بھی اہم ہے جو شیعہ عقائد سے آشنا ہوئے ہیں لیکن ابھی تک شکو ک و شبہات کا شکار ہیں۔یہ کتاب باطل راستے کا تعارف کراتی ہے جس کے نتیجہ میں راہ حق کو آشکار کرتی ہے۔
دین کے انحراف میں معاویہ کے کردار اور رسول خدا(ص) کے ساتھ اس کی مخالفت کی کوششوں کو جاننے کے لئے ہم یہ اہم رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن اسے پوری توجہ سے مطالعہ کریں:
معاویہ بروز غدیر
غدیر کے دن ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی اور خداوند متعال کے حکم کی اطاعت کی حتی کہ امام علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے سب سے بڑے دشمن ابوبکر اور عمر نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اگرچہ انہوں نے ظاہری طورپر آنحضرت کی ولایت کو قبول کر لیا اور جیسا کہ اہلسنت علماء لکھتے ہیں:عمر نے کہا:''بخّ بخّ لک یا علی''۔عورتوں نے بھی بیعت کی اس تقریب میں شرکت کی اور پانی کے ایک ایسے برتن میں اپنا ہاتھ رکھکر آنحضرت کی بیعت کی جس میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا دست مبارک تھا اور یوں انہوں نے آپ کی ولایت کو قبول کیا۔
اپنے وطن لوٹنے کے بعد مسلمانوں نے اپنی اقوام اور دوستوں سے غدیر کے دن کی بیعت کا واقعہ بیان کیا اور سب نے آنحضرت کی ولایت کو قبول کیا۔ حتی کہ جو لوگ باطنی طور پرمخالفت تھے انہوں نے ظاہری طور پر رضا مندی کا اظہار کیا اور پوری امت نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنے (اگرچہ ظاہری طور پر ہی سہی) کے لئے شرکت کی۔
اس بناء پر غدیر کی جاودانہ عید کے دن تمام مسلمانوں اور حتی کے تمام منافقوں نے بھی رسول خدا(ص) کے بعد حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو امت کی سرپرستی کے لئے ضروری سمجھا اور اسے تسلیم کیا۔
اس دوران صرف ایک شخص مخالفت کے لئے اٹھا اور اس نے اسی دن اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام(ص) کو جھٹلانا شروع کر دیا اور پوری امت کے سامنے اپنے کفر و نفاق کو واضح و ثابت کر دیا اور وہ شخص معاویہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔
اہلسنت علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم میں معاویہ تنہا ہی خدا ،رسول خدا(ص) ، ولی خدا ،حکم خدا اور پوری امت کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور اس نے رسول خدا(ص)کے فرمان کو -نعوذ باللہ-جھٹلایا اور اسے رد ّکیا۔
اس حقیقت کو اہلسنت کے چند علماء نے لکھا ہے اور یوں اس کے کفر کو ثابت کیا ہے۔
اگرسقیفہ میں بیٹھنے والوں نے رسول خدا(ص) کی شہادت کے ستر دن بعد واضح طور پر حکمخدااور رسول (ص) کی وصیت کی مخالفت کی لیکن معاویہ نے پہلے دن ہی سے غدیر خم میں خدا،رسول خدا(ص)،ولی خدا اور حکم خدا کا انکار کیا۔
معاویہ نے اس پر اتنا زور دیا کہ اہلسنت مفسّرین کے مطابق اس کے برے عمل اور ناقابل معافی گناہ کے بارے میں کئی آیات نازل ہوئیں۔
اے کاش! دنیا کے مسلمان ابتدائے اسلام سے اب تک ان حقائق سے آشنا ہوتے جن کے نتیجہ میں انہیں معاویہ کی صحیح اور مکمل شناخت ہوتی۔لیکن افسوس کہ علم کی کمی اور اسلامی حقائق سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسلمان گمراہی میں مبتلا رہے ، جیسے انہیں ضروری اور واضح حقائق کی بھی خبر نہ ہوجس کی وجہ سے وہ آب اور سراب میں تشخیص نہ دے سکے۔
شیعہ اور اہلسنت مفسرین نے کہا ہے کہ سورۂ القیامة کی کچھ آیات معاویہ کے برے اعمال کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اس کے کفر کی واضح دلیل ہے۔خداوند کریم نے سورۂ القیامة میں ارشاد فرمایا ہے:
(فَلاَ صَدَّقَ وَلَا صَلَّی وَلَکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلَّی.ثُمَّ ذَهَبَ ِلَی أَهْلِهِ یَتَمَطَّی )(1)(2)
اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی،بلکہ تکذیب کی اور منہ پھیر لیا،پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا۔اس اہم نکتہ پر توجہ کریں: تصدیق نہ کرنا،نماز نہ پڑھنا، جھٹلانا اور روگردانی کرنا یہ سب کفار کے کام ہیں ۔ لیکن ان سب کے باوجود معاویہ اپنی ان کفر آمیز کرتوتوں پر نہ ہی توپشیمان اور شرمندہ تھا بلکہ وہ یہ کفر آمیز باتیں کہنے کے ساتھ ساتھ ان پر فخر بھی کرتا ۔اگرغدیر کے دن عمر،ابوبکر،مغیرہ وغیرہ میں رسول اکرم(ص) کی مخالفت و گستاخی کی طاقت نہیں تھی لیکن معاویہ نے نہ صرف آنحضرت(ص) کی مخالفت کی بلکہ اس کے علاوہ تکبرانہ انداز میں فخر کرتے ہوئے انتہائی نازیبا کلمات کہے اور رسول اکرم(ص) اور مسلمانوں کے سامنے اسے کسی قسم کی شرم و حیاء نہ آئی!!!جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور رویہ اس کی ذات اور باطن کی عکاسی کرتے ہیں ۔جس انسان کی ذات اور باطن پاک ہو گا وہ برے اور ناپسندیدہ کام انجام نہیں دے گا اور جس کی ذات اور باطن برا ہو،وہ برے اعمال و گفتار کا مرتکب ہو گا۔معاویہ کی بھی ذات اور باطن ناپاک تھا کیونکہ وہ جگر خور ہند کا بیٹا تھا اور اس کی ماں فاحشہ کے طور رپر مشہور تھی۔معاویہ نے برے اور نازیبا کلمات بھی کہے اور بڑے ناز سے فخر کرتے ہوئے خدا اور خدا کے رسول(ص) کو جھٹلایا۔یہ واضح سی بات ہے کہ ایسی گستاخ شخصیت کے مالک انسان-حتی کہ جو خدا اور رسول خدا(ص) کے سامنے بھی گستاخی کرے- کے چہرے کو چند صفحات پر مشتمل ابحاث سے بے نقاب نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ ایسے شخص کے کارناموں سے مکمل آگاہی کے لئے اس کے اجداد اور حسب و نسب سے بھی آگاہ ہونا ضروری ہے۔اسی لئے ہم نے اس کتاب میں خاندان بنی امیہ کے حسب و نسب کے بارے میں بھی بحث کی ہے تا کہ معاویہ کے ماضی اور اس کے بد کردار ہونے کے راز سے پردہ اٹھایا جا سکے۔ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کرام کسی بھی طرح کے تعصب کے بغیر اس کتاب کو غور و فکر اور دقّت کے ساتھ پڑھیں گے تا کہ بہت سے حقائق کو جاننے کے لئے راستہ کھلے اور انہیں اہم اور مؤثر نکات سے آشنا کرے۔
وما توفیق الّا باللّٰہ
سید مرتضیٰ مجتہدی سیتانی
--------------
[1]۔ سورۂ القیامہ، آیت:33-31
[2]۔ شواہد التنزیل:3902 اور 391 روایت 1040 اور 1041۔قرآن کریم میں معاویہ کے بارے میں نازل ہونے والی متعدد آیات ہیں جنہیں شیعہ و سنی مفسرین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ہم معاویہ کے بارے میں آیات کو''معاویہ، قرآن کی نظر میں''کی بحث میں بیان کریں گے۔
بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات
یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا
اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش
یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا
''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل
حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا
یہودیوں کی قوم پرستی
امویوں کی قوم پرستی
یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی
پیغمبر اکرم(ص) کو زہر دینا
یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوں اسلام کے کچھ بزرگوںکی شہادت
یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی
مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنے کے لئے یہودیوں کی سازش
بنی امیہ کے یہودیوں سے تعلقات
یہودیوں کی ایک اور اہم سازش جو انہوں نے غیر مسلمانوں کو مسلمان ہونے سے روکنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلافات ایجاد کرنے کے لئے کی، وہ مسلمانوں کے صحیح عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا۔
گذشتہ کئی صدیوں سے اب تک جتنا ممکن ہو سکا انہوں نے اسلامی عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرکے لوگوںکو عالمی دین اسلام کی طرف راغب ہونے سے روکا ہے۔یہ وہی سازشیں ہیں کہ دسیوں سالوں سے وہابیت نے اس پر عمل پیرا ہو کر اسلام میں نو سازی و ترمیم کے نام پرغیر مسلمانوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روکا ہوا ہے۔یہ واضح ہے کہ مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے یہودیوں نے نہ صرف کچھ مسلمانوں کو دین سے ناامید کیاہے بلکہ دوسروں کو اسلام کی طرف آنے سے روکا ہے جس کے نتیجہ میں انہوں نے اختلاف و تفرقہ پیدا کرکے اپنے ظالمانہ تسلّط کو جاری رکھا ہوا ہے اور لوگوں پر حکومت کررہے ہیں۔کتاب ''تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی''میں لکھتے ہیں:
یہودیوں کا مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار پھیلانا
یہودیوں کے جرائم کے بہت زیادہ اثرات و نتائج ہیں لیکن ان میں سے ایک اہم ترین اثر ثقافتی اور عقیدتی تخریب کاری ہے ۔ جس کا سبب مسلمانوں کے درمیان شبہات،بعض باطل افکار اور خرافات پھیلانا ہے۔
انہوں نے اس وقت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی بنیاد رکھی اورتورات میں تحریف کے ذریعہ شکوک وشبہات پیدا کئے اور بعض جھوٹی روایات نقل کیں،پھر انہیں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ترویج دیا ۔ان کا یہی ناپسندیدہ عمل یہودی عوام حتی کہ بعض مسلمانوں کی گمراہی کا بھی باعث بنا اور انہیں دوراہے پر کھڑا کر دیا۔ اس بناء پر یہودی سربراہوں کی طرف سے شبہات اور انحرافی افکار پھیلانے سے ذہنوں پر بہت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان شبہات کو لوگوں کے افکار سے اتنی آسانی سے مٹاناممکن نہیں ہے۔
یہودیوں کی مخالفانہ کاروائیوں میں سے روایات میں اسرائیلیات کو داخل کرنا ہے جب کہ ان میں سے اکثر جعلی اور جھوٹی تھیں اور اسلام کے خلاف ثقافتی اور عقیدتی سازشیں بھی اسی کا حصہ ہیں تا کہ اس کے ذریعہ اسلام کی عظمت کو کم کرسکیں اور اسے انسانی معاشرے میں غیر معقول شکل میں پیش کریں اور اس کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روک سکیں۔
مگر افسوس کہ وہ اس پس منظر میں دھوکہ اور فریب سے داخل ہو ئے اور جتنا ہو سکاانہوں نے کامیابی سے عمل کیا اور مخصوص افراد کے ذریعہ گمراہ کرنے والے افکار ،یہودی عوام حتی کہ مسلمانوں میں بھی پھیلائے اور انہیں شبہات کے سمندر میں غرق کیا۔
اس بناء پر اگر رسول اکرم(ص) مسلمانوں کو اہل کتاب کی طرف رجوع کرنے اور ان کی کتابوں سے استنادکرنے سے منع کریں(1) تو یقینا اس میں حکمت ہے اور یہودیوں کی طرف سے شامل کی گئی چیزیں اس کی واضح دلیل ہیں۔خاص طور پر جب عمر بن خطاب نے یہودیوں کی کتاب سے استفادہ کیا تو رسول اکرم (ص) کا اس کے ساتھ سخت رویہ اس بات کا شاہد ہے۔
--------------
[1]۔ تفسیر القرآن العظیم0ابن کثیر): ج۲ص۴6۷
عمربن خطاب کا اہل کتاب سے رشتہ اور اس کے ساتھ رسول اکرم(ص) کے روّیہ کے بارے میں روایت نقل کرتے ہیں۔وہ کہتا ہے:میں نے یہودیوں سے کچھ مطالب پوچھے اور لکھے اور انہیں ایک جلد میں رکھ کر لایاتو رسول اکرم(ص) نے پوچھا:اے عمر تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟
میں نے جواب دیا:اس میں ایک تحریر ہے جو میں نے یہودیوں سے اخذ کی ہے تا کہ اپنی معلومات میں اضافہ کر سکوں!!
پیغمبر اکرم(ص) اس طرح ناراض ہوئے کہ آپ کا چہرا سرخ ہو گیا ،پھر آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا:
اے لوگو!تمہیں زندگی میں جن مسائل،احکام اور اخلاق کی ضرورت تھی ،میں نے وہ سب خوبصورت اور مختصر شکل میں بغیر کسی آزردگی کے تمہارے لئے بیان کئے جو سب واضح و روشن ہیں۔پس گمراہ نہ ہوجاؤ اور گناہ و معصیت نہ کرو ،نیز کوئی پست اور گناہگار انسان بھی تمہیں دھوکہ نہ دے۔
پس میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا:میں راضی ہوں کہ خداوند متعال میرا ربّ،اسلام میرا دین اور آپ میرے نبی ہوں!!
افسوس کہ یہودیوں کے ساتھ اس کے اسی رشتہ نے اپنے اثرات دکھائے اور پیغمبر اکرم(ص) کی حیات کے آخری دنوں میں اسلام اور اسلامی سرزمین کی وسعت کے باوجود مسلمانوں کے درمیان یہودیوں کی خرافات نے انتشار پیدا کر دیا اور کعب الأحبار،عبداللہ بن عمرو بن عاص اور ابوہریرہ جیسے افراد نے اس میں حصہ دار تھے۔جیسا کہ عمر بن خطاب نے بھی اس زمانے میں ''تمیم بن اوس''کو اجازت دی کہ وہ مسجد نبوی میں لوگوں کے سامنے برملا اپنے قصہ اور نتائج بیان کرے ،جب کہ وہ خود کعب الأحبار کے قصہ سنا کرتاتھا۔(1)اس بناء پر عمر کی تائید سے مساجدمیں قصہ گوئی رائج ہو گئی اور انہی قصہ کہانیوں کے ذریعہ لوگوں کے درمیان خرافات اور جھوٹ عام ہوا ۔
چونکہ عوام الناس کو حیرت انگیز چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہے ،اس لئے وہ قصہ کہانیاں سنانے والوں کے اردگرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کی جھوٹی باتیں سنتے تھے ،اس طرح سے انہوں نے لوگوں میں اسرائیلیات کو عام کر دیا۔
ڈاکٹر ابو شبہہ کہتے ہیں:قصہ گوئی کی بدعت عمر بن خطاب کے آخری زمانے میں شروع ہوئی اور پھر اسے ایک فن کے طور پر پیش کیا جانے لگااور اس میں ایسی چیزیں داخل ہو گئیں جو علم و اخلاق کے شایان شان نہیں ہیں۔(2)
اس بناء پرلوگوں میں اسرائیلیات اور انحرافی افکار کو پھیلانے میں یہودیوں کی سازشیں اور عمر بن خطاب کا ان کی حمایت کرنا اور قصہ گوئی کو عام کرنا(جب کہ وہ قصہ کہانیاں بھی مکمل طور پر اسرائیلیات اور خرافات میں سے تھیں)مسلمانوں کے درمیان انحرافی افکار اور گمراہ کن شبہات کو پھیلانے کا باعث بنا۔جس کی بدولت بہت سے غیر مناسب اثرات سامنے آئے ۔انہی کاموں کی وجہ سے بہت سے اہل کتاب اپنی گمراہی و ضلالت پر باقی رہے اور کچھ کمزور ایمان والے مسلمان بھی راستہ سے بھٹک گئے۔اس روسے ہر زمانے میں نامناسب اور گمراہ کرنے والے افکار کی ترویج کے اثرات نقصان دہ ہی ہوتے ہیں اور اس زمانے میں یہودی اس مسئلہ
--------------
[1]۔ التفسیر المفسرون فی ثوبة القشیب:ج۲ص۱۲۲
[2]۔ اسرائیلیات والموضوعات فی کتب التفسیر:89 اور 123
سے آگاہ تھے لہذا انہوں نے لوگوں میں شبہات پھیلانا شروع کر دیئے ،ان کے اس ناجائز کام کے بہت مضر اثرات تھے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت ان شبہات کو رد ّکرنے میں صرف کیا۔(1)ایک انتہائی اہم نکتہ کہ جس کے بارے میں اہلسنت حضرات کومکمل طور پر سوچنا چاہئے -جیسا کہ ان کے مشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے -اوروہ نکتہ یہ ہے :عمر لوگوں کی پیغمبر اسلام(ص) کی احادیث لکھنے اور ان کے بارے میں گفتگو کرنے سے روکتا تھااور کہتا تھا:رسول خدا(ص) کی احادیث کو نقل کرنا،لوگوں کا خدا کی کتاب سے غفلت اور اسے اہمیت نہ دینے کا باعث بنے گا!
اگرعمر کا لوگوں کو احادیث نقل کرنے سے روکنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن کی طرف توجہ کریں تو پھر کیوں اس نے لوگوں کو قصہ گوئی اور اسرائیلیات بیان کرنے سے منع نہیں کیا؟بلکہ اس نے توتمیم بن اوس جیسے شخس کو اجازت دی کہ وہ مسجد نبوی میں لوگوں کے سامنے اپنے قصہ بیان کرے!اور یہ صورت حال ایسے ہی جاری رہی یہاں تک کہ ڈاکٹر ابو شبہہ کے مطابق عمر کے آخری زمانے میں قصہ گوئی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور پھر اسے بعض افراد نے ایک فن اور پیشہ کے طور پر اخذ کیا!
اگر رسول اکرم(ص) کے مطالب اور احادیث قرآن سے دوری کا باعث بنتی ہیں تو کیا عمر کا یہودیوں کے مطالب کو جمع کرنا ،قرآن کی طرف توجہ نہ کرنے یا کم توجہ کرنے کا باعث نہیں تھا؟!!!
جی ہاں!راہ حق ہمیشہ واضح و روشن تھی اور ہے لہذا اہلسنت کو چاہئے کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں اس پر غور کریں ،خاص طور پر ان کے جوانوں کوزیادہ تفکّر کرناچاہئے جو کہ زیادہ روشن فکر ہیں تا کہ مکمل ہوشیاری کے ساتھ جس چیز کا یقین ہو جائے ،اسے حاصل کریں۔
--------------
[1]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:148
اسلام کومٹانے کے لئے یہودیوں کی ایک اور سازش
افسوس کہ پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث کو تدوین کرنے سے منع کرنا اسی مرحلہ پر اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ یہودیوں نے اپنے ظاہری اور مخفی ہتھکنڈوں سے رسول خدا(ص) کی اب تک باقی بچنے والی حدیثوں کو جھٹلایا اور انہیں پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد کی صدیوں میں بناوٹی حدیثیں قرار دیا۔
یہودیوں کے کارندوں کا یہ دعویٰ مسلمانوں کا رسول اکرم(ص) کے فرموات سے روگردانی کرنے کا باعث بنا ۔
اب اس رپورٹ پرمکمل غور کریں:کچھ عرصہ پہلے ایک ہنگری نژادیہودی محقق ''ایگناز گلدزیہر''(Ignaz Gold Ziher ) نے Muhammedanische Studien کے نام سے اپنی کتاب کی دوسری جلد لکھی اور اس میںایسی اسلامی روایات و احادیث کا تجزیہ کیا جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کلام، عقائد اور پیغمبر اکرم(ص) کے شخصی کردار کے بارے میں ہیں۔وہ معتقد ہیں کہ مطلق طور پر ان احادیث کا پیغمبر (ص) کی حیات میں کوئی بنیادی کردار نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں وجود میں آئیں جواسلام کی وسعت کے زمانے میں پیش آنے والے مسائل کی عکاسی کرتی ہیں ،یعنی پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد کی ایک صدی یا اس سے کچھزیادہ مدت کے دوران۔
''گلدزیہر''کے نظریہ کی بناء پر جب بھی مسلمانوں کے درمیان کوئی سیاسی،مذہبی یا حقوقی اختلاف رونما ہوتا تو کئی حدیثیں وجود میں آجاتیں اور طرفین اپنے عقائد کا دفاع کرنے کے لئے پیغمبر اکرم(ص) سے نسبت دی گی احادیث کا دامن تھامتے۔انہوں نے اپنی مباحث میں کچھ اسناد کا تجزیہ کیا اور بنی امیہ کے طرفداروں اور ان کے مخالفوں کے نظریات کا جائزہ لیا۔
یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا
انہوں نے یہ کہا:اس زمانے میں دوسری تبدیلی مسلمانوں کی روائی سنت کے خلاف تنقیدی رویہ تھا جو امویوں کی کامیابی کا مثبت طور پر تعین کرتا تھا۔
ولہاوزن کے مطابق امویوں کی کامیابی ایک سلطنت کے قیام کے لئے تھی اور اسے انتظامیہ کی مدد سے چلانا لائق تحسین تھا۔''ہینری لامنز بلژکی'' کی تحریروں میں یہ تحسین اور زیادہ نکھر جاتی ہے۔
''لامنز''(Lammens) امویوں کو شام میں عرب کی ملّی حکومت کا بانی سمجھتے ہیں اور اسے اسلام کے زیر تسلّط نہ جانے کی وجہ سے ایک طاقتور اور کامیاب حکومت قرار دیتے ہیں۔ اپنے آبائی ملک سے عشق و محبت کی وجہ سے اس مہاجر مؤلف نے اپنے علم و دانش کو عربی منابع کے مطالعہ میں استعمال کیا اور اپنی چاہت کے مطابق اموی حکومت کا بہت ہی مناسب چہرا دکھایا۔(انہوں نے اپنی تحریروتألیف کا زمانہ لبنان میں گذاراجو تاریخی اعتبار سے شامِ کبیر کا ایک حصہ شمار کیا جاتا تھا)۔حقیقت میں ان کا کام یہ تھا کہ مختلف منابع میں امویوں کے دفاع میں مطالب جمع کریں اور اسے اسلام کی روائی سنت کے خلاف چھپے ہوئے عام تعصب کو حربہ کے طور پر استعمال کریں۔مجموعی طور پر تقریباً کچھ عرصہ پہلے تک غربی محققین اسی طرح ان دو رویوں پر ہی عمل پیرا رہے اور گلدزیہر،ولہاوزن،لامنزاور ان کے کچھ معاصرین جیسے ''ک.ھ بکر''اس سے آگے نہیں بڑے۔
1940ء کی دہائی کے آخر میں امریکی محقیق D.C Dennett نے طیارے کے حادثہ میں اپنی موت سے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ولہاوزن کے تجزیہ کے مطابق امویوں کے ٹیکس کے نظام پر اعتراض اور اشکال وارد ہوتاہے اور جو عباسی انقلاب کی اصطلاح کے بارے میں تجزیہ پر دلالت کرتا ہے۔دوسرے محققین نے امویوں کے زوال کے بارے میں ولہاوزن کے نتائج پر تنقید کی ہے اور وہ معتقد ہیں کہ اس نے حد سے زیادہ عربوں کی حیثیت اورہاشمی تحریک میں ایرانی سربراہوں کے کردار پر زور دیا ہے۔اور اسی تاکید سے ایک برعکس تاکید وجود میں آئی کہ جو اسلامی تاریخ میں عربوں کی اہمیت کا بیان کرتی ہے ۔اس کی تائید کے لئے ''م.آ.شبان'' کے آثاربطور نمونہ پیش کیا۔ان سب تنقیدوں کے باوجود ولہاوزن نے اموی تاریخ میں جو عمارت تعمیر کی وہ وسیع بنیادوں پر آج بھی قائم ہے ۔لیکن پھر بھی اس کے منابع میں تجزیاتی روش کو ناکارہ بلکہ شبہہ آمیز سمجھا گیا ہے اور اسے قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے۔کچھ دانشورکو اس بارے میں شک و شبہ ہے کہ کیا اموی دور کے بارے میں کوئی تفصیلی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔
اس سے پہلے 1950ء میں تاریخ صدر اسلام کے مرجع کے عنوان سے مسلمانوں کی روائی سنت پر کلی شکایت کی گئی جس پر گلدزیہر نے اپنے آثار میں مہر تائید ثبت کر دی اور بعد میں اس کے شاگرد ''جی.شاخت''نے زیادہ شدت کے ساتھ اپنے استاد کے فکری سفر کو جاری رکھا۔
''شاخت ''نے اسلامی شریعت کے مآخذکے بارے میں تاریخی تحقیقات کے بعد دعویٰ کیا کہ اسے اپنے استاد کے نظریات کی تائید میں بہت سے شواہد ملے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی روایات پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہیں اور ان سب سے بڑھ کران کی تشکیل پر قانونی تنازعہ اثرانداز ہوتا ہے۔!!
پھر کچھ ایسے لوگ بھی پائے گئے جنہوں نے ''شاخت''کی تحقیقات کی مدد سے سنت روائی میں تاریخ صدر اسلام کی تحقیقات پر حملہ کیا۔
1973ءمیں''آ.نت''نےUntersuchungen Quellenkritischeکے نام سے اپنی ایک کتاب شائع کی جس میں اس نے منابع کا تجزیہ کرنے والی ولہاوزن کی بنیاد پر اعتراض کئے۔اس نے اس بات پر زور دیا کہ تاریخی روایات کو جمع اور منتقل کرتے وقت انہیں پھر سے نئی طرز پر لکھا گیاحتی کہ ابتدائے اسلام کے اخباریوں کا ابتدائی سنت روائی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا جب کہ ان کی تحریروں کا خلاصہ ہمارے منابع میں موجود ہے۔بلکہ وہ بھی ایسی معلومات کو جمع و تدوین کرنے والے تھے کہ جن تک رسائی سے پہلے یہ ابتدائی تشکیل کے مرحلہ تک ہی تھا۔
وہ معتقد تھا کہ ہم تک پہنچنے والے منابع تک رسائی نہیں ہیں اور اسی طرح آٹھویں صدی عیسوی کے اخباریوں اور واضح و معین خصوصیات کے خاص مکاتب تک بھی رسائی ممکن نہیں ہے اور ان میں سے ہر کسی کی واقعیت اور جزوی حیثیت کو الگ الگ مشخص نہیں کر سکتے۔حقیقت میں ان میں سے ہر ایک کو متنوع معلومات اور نظریات سے منتقل کیا گیا ہے۔
پھر''نت''نے منابع پر اشکالات اور ان کی داخلی شکل کوعلیحدہ کیا تا کہ وہ یہ دکھا سکے کہ منابع صرف ''topoi''کا ایک مجموعہ ہے اور تاریخی اعتبار سے اس کی بنیاد پر سوال اٹھا ہے۔
مفصل صورت میںصدر اسلام کی تاریخ کی تعمیر نو کے لئے ان منابع سے استفادہ کرنا برا سمجھتا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ ''نت''یہ چاہتا تھا کہ اپنی کتاب کی تألیف سے ابتدائے اسلام کی تاریخ سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج اخذ کرے لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنانے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔تمام مؤرخین نے کم و بیش امویوں کی تاریخ لکھنے میںولہاوزن کی تقلید کی اور منابع پر تنقید کے ذریعہ ان کا خیال تھا کہ صحیح تنقید سے اموی تاریخ کی تعمیر نومیں مدد مل سکتی ہے۔
جرمنی میں ''ردوان سعید ''اور ''گرانٹ روٹر''جیسے د انشوروں کا نام لیا جا سکتا ہے جن کی کوشش تھی کہ ولہاوزن کے اسی طریقہ کار سے استفادہ کریں۔لیکن وہ جدید سماجی اور اقتصادی مفاہیم کے منابع سے زیادہ استفادہ کرتے تھے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں''ف.مک گراو دانر'' (F.Mcgraw Fonner)نے فتوحات عرب کی تاریخ کو جدید انداز میں لکھا اور اس نے اپنی کتاب کی تألیف میں اپنی روش شناسی کی توجیہ کا وعدہ کیا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثر ایسی بدعت آمیز تحقیقات میں پابندی اور تعطّل کا احساس ہوتا ہے۔ ''ورنراندہ''(Wener Ende) اور ''ا.ل پترسون''(E.L Peterssen)ایسے مؤلفین کا واضح نمونہ ہیں۔
حالیہ دنوںمیں'Slavesson Horsesesکےنام سے 'پیڑیسیاکرون' (Patricia Crone)کی تألیف میں کوشش کی گئی ہے کہگلدزیہر،شاخت اور نت کے طریقۂ کار کو قبول کرتے ہوئے اسلامی منابع میں ایک دوسری روش سے استفادہ کیا جائے۔ ''پیڑیسیاکرون''کے مطابق یہ طریقۂ کار زندگی نامہ یا انساب کے لئے موذوں ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی منابع میں بنیادی معلومات(اسماء ،تاریخ خلفاء اور سربراہ وغیرہ) کا مستقل منابع (جیسے سکّے،نوشتہ جات اور غیر اسلامی منابع)سے رجوع کرکے تجزیہ کیا جائے تو دو طرح کے یہ مناب ایک دوسرے کی باہمی تائیدسے ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
اسی طرح اس کا خیال ہے کہ اگر اسلامی معلومات میں پوشیدہ تمام معلومات کوبعد کے زمانے کی جعلی یا topoiکے نوشتہ جات کا اقتباس کہہ کر کم اہمیت دی جائے تو یہ انصاف نہیں ہوگا۔
واضح ضمنی موارد جیسے کسی شخص کاسماجی مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق، قبیلہ میں ازدواج،سماجی وسیاسی روابط سے بہتر انداز میں حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جزئی دکھائی دینے والی معلومات جیسے کسی شخص کا مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،ازدواجکے اعتبار سے کسی شخص کے تعلقات،سماجی و سیاسی روابط حقیقت سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں اور مؤرخ کوان معلومات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور اس کے بعد دوسرے مراحل( جیسے قیام کرنے کے اسباب اور تاریخ کے بڑے واقعات کے بارے میں تاریخی رپورٹ)کو طے کرے۔
اس نظرئے کی رو سے ''کرون''کی کتاب میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ مشترکہ یکجہتی اور مفہومی باریک بینی ہے۔اس نقطۂ نظر کے نتائج (کہ جنہیں اخذ کرنے میں کچھ دوسرے بھی حصہ دار ہیں یاپھر پیش پیش ہیں)میں سے یہ ہے کہ یہ سادہ روایت اور واضح سیاسی واقعات سے دور ہوگئے اور مختلف ادروں اور سماجی و مذہبی تاریخ میں زیادہ دلچسپی دکھانے لگے۔
''م.ج.مورنی''(M.G Morony)کی کتاب ایک دوسرا نمونہ ہے کہ جس میں اس نقطۂ نظر کی پیروی کی گئی ہے ۔ جدید اسلامی دنیا بالخصوص عربی دنیا میں اموی تاریخ بعض مواقع (مثل آئینہ) آج کے مذہبی اور سیاسی خدشات کی عکاسی کر سکتی ہے۔لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اموی تاریخ کے بارے میں لکھی گئی تمام نئی عربی و اسلامی کتابیںآج کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہیں یا اگر کسی مصنّف کے مذہبی یا سیاسی رویہ کو پہلے ہی سے یہ پیشنگوئی کر سکتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔بلکہ اموی دور کی اہمیت مشرق وسطی کو اسلامی و عربی بنانا ہے۔!
اس معنی میں یہ واضح ہے کہ عرب یا مسلمان (جو آج کی جدید دنیا میںاپنی شناخت کے پیچھے ہیں)اموی سلسلہ کی تاریخ میں اپنی شناخت کی تلاش کر رہے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور عربی قومیت کے درمیان کسی بھی طرح کی ممکنہ کشیدگی اموی تاریخ کے بارے میں نظریات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔
عربی قومیت کی نظر میں اموی سلسلہ کوپہلی عرب سلطنت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی روائی سنت میں امویوں کی عام طور پردشمنانہ تصویر پیش کی گئی ہے اور اگر شناخت کے مسئلہ میں اسلام کی طرف دیکھا جائے تو عرب اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
اگرشیعہ اپنی مخصوص شیعی نظر (یعنی تشیع کی روائی سنت سے اخذ کی جانے والی نظر) سے اموی تاریخ پر نگاہ کریں تویہ ایک کلی کشیدگی اور شاید پوشیدہ و مخفی کشیدگی بھی ہے اور اگرشامی قومیت اورعام عربی قومیت کو حاشیہ میں رکھیں تو دونوں صورتوں میں ممکن ہے کہ یہ کشیدگی ظاہر ہو کر حقیقت کوزیادہ واضح طور پر بیان کرسکے۔(1)
''گلدزیہر''وغیرہ کے نظریات کا تجزیہ و تحلیل
اس رپورٹمیں'' گلدزیہر''نے احادیث نبوی کا انکار کیا ہے اور انہیں پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد کی اختراع قرار دیاہے ۔ وہ ایک یہودی کے طور پر جانا جاتا ہے جو رسول خدا(ص) کی احادیث کوآنحضرت(ص) کے بعد سیاسی جھڑپوں کا نتیجہ سمجھتا ہے۔
اس کے بعد ''ولہاوزن ''نے نہ صرف آنحضرت(ص) کی احادیث کا انکار کیا بلکہ امویوں کی تعریف بھی کی اور اس کے بعد ''لامنز''نے امویوں کی اور زیادہ تعریف و تحسین کی۔
جرمنی اور امریکہ میں بھی مصنّفین نے ''ولہاوزن'' کی اسی راہ و روش کو جاری رکھا اور وہ بھی بنی امیہ کی تعریف کرتے رہے۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کا جواب بہت سے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے اور وہ سوال یہ ہے:یہودی اور ان کے طرفدار مصنّفین جیسے ''گلدزیہر'' اور''ولہاوزن''نے پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث کا انکارکیوں کیا
اور انہیں آنحضرت(ص) کی رحلت کے بعد تشکیل دی جانے والی اختراع قرار دیا؟!!
ہم اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں:اگرچہ عمر نے مسلمانوں کے درمیان حدیث کے عام ہونے اور تدوین حدیث کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن ان سب کے باوجود ابتدائے اسلام ہی سے کچھ مسلمانوں نے رسول اکرم(ص) کے آثاریعنی احادیث کو لکھنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے رسول اکرم (ص) کی بہت سی احادیث امت میں باقی رہیں۔
--------------
[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:146
فریقین کی کتابوں میں موجود پیغمبر اکرم(ص) کی حدیثیں مذہبی اور اعتقادی پہلو کے علاوہ سیاسی اعتبار سے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں جیسے وہ روایات کہ جن میں آنحضرت(ص) نے بنی امیہ کے بارے میں پیشنگوئیاں کی ہیں۔
ان پیشنگوئیوں(جو اس کتاب میں تفصیل سے ذکر ہوئی ہیں) میں رسول خدا(ص) نے مذہبی اور عقیدتی پہلو کے علاوہ سیاسی اعتبار سے بھی عام لوگوں اور پوری ملت کو بنی امیہ کی کالی کرتوتوں سے آگاہ کیاہے۔
چونکہ یہ پیشنگوئیاں تواتر کی حد تک ہیں اورعلمائے اہلسنت نے بھی انہیں اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے لہذا بنی امیہ کے جرائم اور مجرمانہ رویہ میںکسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔بعثت سے پہلے،زمانۂ رسول خدا(ص) اور آنحضرت کے بعد ان کی دین اورپیغمبر اکرم(ص) کے خاندان سے دشمنی واضح و آشکار ہے۔
تحقیق کرنے والے یہودی بنی امیہ کے بے شرم خاندان کے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونا چاہتے تھے لہذا ان کے پاس پیغمبراکرم(ص) کے فرمودات و ارشادات کا انکار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا!
یہ واضح سی بات ہے کہ جومختلف پہلوؤں سے تمام خاندان بنی امیہ یا ان کے مخصوص افراد کے بارے میں ان پیشنگوئیوں کو جانتا ہو ،وہ کبھی بھی امویوں کو دین کا طرفدار اور خدا کا خلیفہ نہیں سمجھ سکتا۔
یہودی اور ان کے طرفدار چاہے وہ امریکہ میں ہوں یا جرمنی میں یااس راہ میں یہودیوں کی حمایت کرنے والے دوسرے ممالک میں ہوں ،انہوں نے امویوں کے گمراہ کرنے والے عقائد( آج کل وہابیت جن کی ترویج کر رہی ہے)کو زندہ کرنے کے لئے احادیث کا انکار کیا تا کہ وہ بنی امیہ کے گمراہ کرنے والے عقائد کی تبلیغ و ترویج سے معاشرے میں وہابیوں کے پست عقائد کو عام کریں۔
بنی امیہ کی شکست اور امویوں کی حکومت کے زوال کے ساتھ ہی ان کا اقتدار بھی ختم ہو گیا اور آہستہ آہستہ ان کی ظالم حکومت کا نام و نشان مٹ گیا۔
یہودی مسلمان ممالک میں امویوں کی نئی حکومت کی تشکیل سے ناامید ہو چکے تھے لہذا انہوں نے ایک اور چال چلی اورمسلمانوں
میں امویوں کے عقائد و افکار کوزندہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے انہوں نے امت اسلامی میں اختلافات کی آگ بھڑکائی (جو یہودیوں کی ہمیشہ سے دیرینہ سازش رہی ہے)اور امویوں کے عقائد و افکار(یعنی جو رسول خدا (ص) اور خاندان وحی علیہم السلام کی دشمنی پر مبنی ہیں) بھی امت میں عام کئے۔
تاریخ سے آشنا اور تاریخ کو انصاف کی نظرسے دیکھنے کی کوشش و جستجو کرنے والے جانتے ہیں کہ بعثت سے پہلے ہی بنی امیہ کیبنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی تھی جسے انہوں نے اسلام کے بعد بھی منافقانہ صورت میں مخفیانہ طور پرباقی رکھااگرچہ کئی بار اس سے پردہ اٹھا جس سے ان کی حقیقت آشکار ہو گئی۔
ایسے محققین کو باآسانی پتہ چل جاتا ہے کہ امویوں کی راہ و روش کو زندہ کرنے والے وہابی ہی ہیں اور یہی مذہب کے خلاف ان کے عقائد و افکار کی ترویج کرنے والے ہیں۔
خدا سے دشمنی، خدا کے رسول اور آل رسول علیہم السلام سے دشمنی،قبروں کو برباد کرنا،رسول خدا(ص) کے آثار کو ختم کرنا، اسلام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ،یہودیوں اور عیسائیوں سے روابط قائم کرنا، خانۂ کعبہ سے دشمنی اور کعبہ کے مقابلہ میں بیت المقدس کو محترم شمار کرناامویوں کی اہم سازشوں اور ہتھکنڈوں میں سے ہیں اوراب وہابیت اس کی ترویج کر رہی ہے اور انہی کے نقش قدم پرچل رہی ہے۔
امویوں نے کس طرح یہودیوں کے مطالبات کو پورا کیا،یہ جاننے کے لئے حجّاج (جو بنی امیہ کے وحشی و خونخوار حاکموں میں ہے)کے افکار و کردارکا مختصر حصہ اور اسی طرح عبد الملک کے افکار کا کچھ حصہبیان کرتے ہیں تا کہ آپ یہ جان لیں کہ امویوں نے کس طرح یہودیوں کے مطالبات کو پوارا کیا:
حجّاج؛ یہودی افکارپھیلانے والا
جتنے سالحجّاج کی حکومت زیادہ ہوتی گئی، اسلام اور دین کے خلاف اس کی سرکشی اور گستاخی بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی گئی۔یہاں تک کہ اس نے اپنے ایک خطبہ میں پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں کہا:ان لوگوں کو موت آئے! کیوں یہ لوگ مٹی کے ڈھیر اور لکڑی کے گرد چکر لگا رہے ہیں؟! کیوں یہ امیر المؤمنین عبدالملک !! کے دربار کا طواف نہیں کرتے؟ کیاانہیں معلوم نہیں ہے کہ ہر شخص کا خلیفہ اس کے رسول سے بہتر ہے!(1)
چونکہ دوسرے حاکم خلیفہ کی نظر میں اس کی حرمت کو جانتے تھے لہذا وہ اس کی چاپلوسی کرتے اور اس کا تقرّب حاصل کرنا چاہتے تھے!حجّاج نے نئے سرے سے پورے عراق اور مشرقی علاقوں میں دہشت گردی کی حکومت کا آغاز کیا ۔اس نے کوفہ کے بہت سے بزرگ اور نیک افراد کو بے گناہ قتل کیا یہ وہی تھا جس نے خوارج کی بغاوت اور فسادات کی آگ کو بجھایا۔اس نے دلوں میں اتنا خوف ڈال دیا تھا کہ نہ صرف عراق بلکہ پورے خوزستان اور مشرق پر آسانی سے قبضہ میں کر لیا۔اگرچہ حجّاج اپنے ماتحت افراد پر بہت سختی کرتا لیکن حاکموں کے سامنے بہت خشوع و خضوع اور چاپلوسی سے پیش آتاتھا۔جیسا کہ اس نے عبدالملک کو خط لکھا: میں نے سنا ہے کہ امیر المؤمنین!!کو محفل میں چھینک آئی اور وہاں موجود لوگوں نے ''یَرْحَمُکَ اللّٰه''کہا ہے،''فَیٰا لَیْتَنِْ کُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوْزَ فَوْزاًعَظِیْماً''!(2)وہ اپنے کلام میں عبدالملک کا مقام و مرتبہ پیغمبر سے زیادہ سمجھتا اور کہتا: لوگو!کیا تمہاری طرف بھیجا گیا رسول زیادہ عزیز ہے یا تمہارا خلیفہ؟ پیغمبر خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور عبدالملک اس کا خلیفہ ہے۔(3)(4)
--------------
[1]۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:ج۱۵ص۲۴۲،عقد الفرید :ج۵ص۲۸۴، مروج الذہب:442
[2]۔ ابن عبد ربہ:ج۵ص۲۸6
[3]۔ ابن عبد ربہ:ج۵ص۲۸6
[4]۔ تاریخ تحلیلی اسلام:205
عبدالملک بھی لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف سے روکنے کی کوشش کرتا تھا اور لوگوں کومکہ و مدینہ کی بجائے شام کو حرم خدا کے طور پرپیش کرتا تھا۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:جب اسے رومیوں اور ابن زبیر کی طرف سے دھمکیاں ملیں تو اس نے پہلی بار رومیوں کے ساتھ چارہ سازی کے بارے میں سوچا اور سلطنت روم کے ساتھ معاہدہ کیا اور بہت زیادہ ٹیکس دینے کی ذمہ داری لی۔چونکہ اسے بیرونی دشمنوں سے راحت مل چکی تھی لہذا وہ ابن زبیر کوکچلنے کے لئے تیار ہو گیا ۔حجاز سے مقابلہ کے لئے اس نے فوجی اور سیاسی دونوں طریقوں سے کام لیا۔اس نے سب سےپہلے سفر حج کو اس لئے ممنوع کر دیا تاکہ کہیں شام کے حاجی ابن زبیر کی تبلیغات سے متاثر ہو کر اس کی دعوت کو شام میں نہ پھیلائیں۔
یعقوبی لکھتے ہیں:لوگوں نے شکایت کی کہ کیوں ہمیں واجب حج سے روک رہے ہو؟
عبدالملک نے کہا:پیغمبر سے ابن شہاب زُہری روایت کرتا ہے کہ تین مساجد کی زیارت کے لئے جانا چاہئے:مسجد الحرام،میری مسجد(مسجد نبوی) اور مسجد بیت المقدّس ۔ آج تمہارے لئے بیت المقدّس کا احترام مسجد الحرام کے برابر ہے!!یہی ابن شہاب کہتا ہے:یہ پتھر کہ جس پر یہودی قربانی کرتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر شب معراج پیغمبر(ص) نے قدم رکھاتھا!عبدالملک کے حکم پر اس پتھر پر ایک گنبد بنایا گیا جس پر ریشم کے پردے آویزاں کئے گئے ،اس کے لئے خادم معین کئے گئے اور لوگوں کو اس کا طواف کرنے پر مجبور کیا گیا۔بنی امیہ کے پورے دورۂ حکومت میں یہ رسم جاری رہی۔(1)عبدالملک یہ چاہتا تھا کہ مکہ و مدینہ کی رونق کو ختم کرکے مسلمانوں کی نظرمیں شام کو حرم خدا کے طور پر پیش کرے (اس کام کی کچھ حکمرانوں نے بھی تقلید کی ہے)۔(2) اب اس واقع پر بھی توجہ کریں:جب عبدالملک کے بیٹے سلیمان نے رسول خدا(ص) کے آثار میں سے ایک اثر کو نابود کیا تو عبدالملک نے اسے بہت سراہا: سلیمان بن عبدالملک ولی عہدی کے زمانے میں مدینہ آیا اور اس نے ابان بن عثمان بن عفّان سے سنا کہ اس نے ایک سیرت تحریر کی
--------------
[1] ۔ تاریخ یعقوبی:ج۳ص۸
[2]۔ تاریخ تحلیلی اسلام:202
ہے۔(1)
--------------
[1] ۔ سیرت کو لکھنے والا ابان بن عثمان بن عفان تھا یا کوئی دوسرا شخص؟اس کے لئے اس نکتہ کی طرف توجہ کریں:دوسری صدی ہجری میں سیرت لکھنے والوں میں سے ایک ''ابان بن عثمان بجلی''ہے اور اکثر و بیشتر حوالوں میں اسے ''ابان بن عثمان الأحمر البجلی''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔صرف یاقوت حموی نے ''ابان بن عثمان بن یحیی بن زکریا اللؤلؤی''کے نام سے ان کا تعارف کروایا ہے ۔اس کی یہ وجہ ہے کہ یاقوت نے حوالوں یعنی'الفہرست،تألیف شیخ طوسی''سے استفادہ کرنے میں دو زندگی ناموں کو آپس میں ملا دیا ہے۔شیعہ منابع میں جو کچھ ذکر ہوا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ بجیلہ نامی قبیلہ کے موالیوں میں سے تھا ۔یہ معلوم ہے کہ ''موالی ''ہونے سے عجمی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہاسلام سے پہلے اور شاید بعد میں بھی خود عربوں میں عقد ولاء موجود تھا۔اس کی مثال رسول اکرم(ص) کی نسبت سے زید بن حارثہ کا ولاء یا بنی مخزوم کی نسبت سے عمار بن یاسر کا ولاء ہے۔اس صورت میں ابان کے عجمی ہونے کا قوی احتمال ہے۔بجیلہ قبیلہ کو ایک قحطانی قبیلہ سمجھا گیا ہے۔یہ قبیلہ بھی حجاز یا یمن کے بہت سے دوسرے قبائل کی طرح فتوحات کے آغاز میں عراق کوچ کر گیا اور یہ قادسیہ میںموجود تھا۔اس جنگ میں کچھ ایرانیوں نے خود کو عربوں سے ملحق کیا اور ان کی ولاء کو قبول کیا۔ ان میں سے کافی لوگ قید کر لئے گئے اور پھر آہستہ آہستہ آزاد ہونے کے بعد موالی کے عنوان سے عربی قبائل سے ملحق ہو گئے ۔ قبیلۂ بجیلہ جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ تھا حتی انہوں نے مختار کے مخالفین کے خلاف مختار کابھی دفاع کیا ہے۔(معجم قبائل العرب:651-63).اس لحاظ سے اس قبیلہ میں تشیع کے آثار تلاش کرنے چاہئیں۔احمر کے علاوہ ان کے لئے محمد بن سلام(جو ان کے شاگردوں میں سے تھا)نے ایک اور لقب بھی ذکرکیاہے اور وہ ''الأعرج''ہے ۔ انہوں نے کچھ موارد میں انہیں ''أبان الأعرج''کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔(نک:طبقات فحول الشعراء:ج2ص482)أبان سے ان کی متعدد روایات (جو طبقات الشعراء میں مکرّر ذکر ہوئی ہیں) پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد ہمارامور نظر أبان ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اعرج ،أحمر سے تصحیف ہوا ہو۔اس نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے کہ ''أبان بن عثمان الأحمر''کے علاوہ ''أبان بن عثمان بن عفّان''کے نام سے کوئی دوسرا شخص بھی موجود تھا کہ جو عثمان کا بیٹا تھا اور اس کے علاوہ اس کے پاس کئی سال مدینہ کی حکومت بھی تھی اور جس کے بارے میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ سیرۂ نبوی کی روایات لکھنے میں بھی اس کا بڑا ہاتھ تھا۔نام میں تشابہ کی وجہ سے بعض لوگ غلطی سے عثمان بن عفان کے بیٹے کو ''أبان''کی بجائے امامی مذہب قرار دیتے ہیں۔ان میں سے ''فؤادد سزگین''نے زمانۂ اوّل کے سیرت نگاروں میں ابان بن عثمان بن عفان کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ''تاریخ یعقوبی''میں اس سے کچھ منقولات بھی ذکر ہوئے ہیں۔(تاریخ التراث العربی،التدوین التاریخی:٧٠)حلانکہ تاریخ یعقوبی میں جس شخص سے منقولات ذکر ہوئے ہیں ،وہ ابان بن عثمان الأحمر ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ خود یعقوبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ (ابان )حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات کا راوی ہے۔نیز یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ عثمان کے بیٹے ( جس نے جنگ جمل میں عائشہ کے ساتھ مل کر جنگ کی)کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایات کا راوی ہو۔اس کے علاہو شیعہ حدیث کے منابع پر مختصر سی نظر ڈالنے اور ابان کی احادیث سے تھوڑی سے آشنائی سے پتہ چلتا ہے کہ (بقیہ صفحہ بعد پر)
اور جب اس کےسامنے وہ سیرت پڑھی گئی تو اس نے دیکھاکہ اس میں انصار کے قبلۂ اوّل و دوّم اورجنگ بدر میں حاضر ہونے کا تذکرہ ہے ۔سلیمان نے کہا:''ما کنت أری لهولاء القوم هذا الفضل''میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس قبیلہ میں بھی کوئی فضیلت ہے۔اس کے بعد اس نے حکم دیا اور اس سیرت کو جلا دیا گیا۔جب وہ واپس دمشق پہنچا تو اس کے باپ نے اس کام کی وجہ سے اس کی تعریف کی اور کہا:''ما حاجتک أن تقدم بکتاب لیس لنا فیه فضل''(1)عبد الملک کے مطابق جس کتاب میں بنی امیہ کی فضیلت بیان نہ ہوئی ہو ،اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگرچہ وہ رسول خدا(ص) کے فرمودات کا مجموعہ ہی کیوں نہ ہوں۔کتاب''امویاں''میں لکھتے ہیں:طاقت کے زور پر انہوں نے ایسی سیاست اختیار کی کہ بہترین ممکن شکل میں بھی انہوں نے اسلام کے تقاضوں کا ذرہ برابر خیال نہیں کیا اور بدترین ممکن شکل میں قطعی طور پر اسلام کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ان کے سنگین ترین جرائم میں سے یہ ہے کہ انہوں نے خلافت کو اپنے خاندان کے لئے موروثی بنا لیا۔انہوں نے اسلام کے بہت سے پیروکاروں پر ظلم و ستم کئے حتی ان میں سے کئی افراد ،خاندان پیغمبر (ص) اورخاص طور پر پیغمبر اکرم(ص) کے نواسہ حضرت امام حسین علیہ السلام شہید کیا۔انہوں نے شہر مکہ و مدینہ پر حملہ کیااوریہاں تک کہ انہوں نے دو بار مکہ کو اپنے تیروں کا نشانہ بنایا۔
--------------
(بقیہ صفحہ قبل) اس میں دو ناموں کو آپس میں غلطی سے مخلوط کر دیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کوفی تھے کیونکہ قبیلۂ بجیلہ کوفہ میں تھا۔نجاشی ''أصلہ کوف''کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''کان یسکنها تارة و البصرة تارة''۔اسی وجہ سے بہت سے بصری جیسے ابو عبیدہ ،معمر بن مثنّی اور محمد بن سلام بصرہ میں ان کے شاگردوں میں سے تھے۔(رجال النجاش:13 رقم 8) قابل ذکر ہے کہ ''کشی''میں نقل ہونے والی عبارت میں آیا ہے:''و کان أبان من اہل البصرة''(رجال الکشی:352 رقم660)یہ جان لیں کہ أبان اصحاب اجماع میں سے تھے؛ ''أجمعت العصابة علی تصحیح ما یصحّ عنهم''یعنی جن سے انتساب دینا صحیح ہو اس میں کوئی شک نہیں کرنا چاہئے ۔یہ ابان بن عثمان کی علمی وثاقت کا بلند مرتبہ کی واضح دلیل ہے۔وہ فقہ میں بے شمار ابواب کی روایات کے راوی ہیں جو کتب اربعہ اور دوسرے فقہی آثار میں روایت ہوئی ہیں۔علامہ تستری نے ''قاموس الرجال''میں ان سے ایک فہرست ہمارے لئے ذکر کی ہیں۔کتاب' 'الفروع کافی''میںابان بن عثمان سے نقل ہونے والے موارد دوسرے محققین نے فراہم کئے ہیں۔(الشیخ الکلینی و کتابہ الکافی:263-299)۔''منابع تاریخ اسلام:63''
[1] ۔ مقالات تاریخی:263
روایات بنی امیہ کی یہ بھیانک تصویر ہمارے لئے بخوبی آشکار کرتی ہیں۔حتی کہ امویوں نے دوسروں کو اسلام قبول کرنے سے بھی اور طاقت کے زار پر زبردستی حکومت کرتے رہے۔اس دور میں ایسے ادبی آثار لکھے گئے ہیں جن میں بنی امیہ کے جرائم اور ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہے ، ان کے حریفوں اور دشمنوں کی منظوم ستائش کی گئی ہے اور خدا کو گواہ قرار دیاہے کہ کیوں اسلامی معاشرہ ان خدا سے بے خبر ظالموں کے ہاتھوں گرفتار رہا۔ان آثار میں سے ایک عام نام جاحظ کی لکھی گئی کتاب ہے جو نویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اور مقریزی کی کتاب جو پانچویں صدی عیسوی میں لکھی گئی۔(1)
یہودیوں کی قوم پرستی
''بریٹانیکا'' انسائیکلوپیڈیامیں ذکر ہوا ہے: خود کو منتخب کردہ امت سمجھنے میں یہودیوں کے عقائد کے اصل عامل کوکتاب تلمودسے نسبت دیتے ہیں اور اس پر شدت پسندانہ طور پر عمل کرتے ہیں خود کو ہی محترم اور زندہ قوم سمجھتے ہیں۔(3)(2)
جاہل عربوں میں یہودیت کے نہ پھیلنے کے بارے میں محمد جواد مغنیہ لکھتے ہیں:
یہودی اس بات پر تیار نہیں تھے کہ ان کے آئین دوسری اقوام و ملل میں پھیلے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ایسا کرنے سے وہ دوسرے تمام انسانوں کی سطح پر آ جائیں گے اس لئے وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہوئے۔کیونکہ وہ معتقد تھے کہ خدا نے انہیں
--------------
[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:۲۷
[2]۔ نقدو نگرشی بر تلمود سے اقتباس:133
[3]۔۔ تلمود کی تصریح کے مطابق:خدا کے نزدیک اسرائیلیوں کا ملائکہ سے زیادہ مقام ہے اور ان کے خلاف جنگ شوکت الٰہی کے خلاف جنگ ہو گی کیونکہ ہر یہودی خدا کا ایک مادی جزء ہے جس طرح بیٹا باپ کا جزء ہوتا ہے۔یہودی اور غیر یہودی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا انسان اور حیوان میں فرق ہے۔(تلمود،سنہدرین:582،الکنز المرصود فی قواعد التلموذ سے اقتباس:60،نیز ملاحظہ کریں:''الأسفار المقدسة قبل الاسلام:165 اور 166،الکتاب المقدّس فی المیزان:23،مقارنة الادیان (الیہود): 272 تا 274،العرب و الیہود فی التاریخ:174)
پوری کائنات پر برتری دی ہے اور انہیں منتخب کردہ قوم اور دوسری تمام اقوام کو ان کا غلام قراردیا ہے۔اسی وجہ سے یہودی غیر یہود افراد کو''جوییم''یعنی انسان کی شکل میں حیوان کہتے ہیں۔(2)(1)یہودی قوم پرستی اور بنی اسرائیل کو دنیا کے تمام لوگوں پر افضل سمجھنے میں مشہور ہیں۔انہوںنے اپنے عقیدہ پر اس قدر اصرار کیا کہ ان کا کہنا ہے:بنی اسرائیل کے علاوہ کسی میں یہودی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے! اور صرف بنی اسرائیل ہی دین یہود کے معتقد ہو سکتے ہیں۔اسی بناء پر دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکاروں میں سے کسی ایک نے بھی یہودی مذہب کا رخ نہ کیا لیکن کبھی یہودی دوسرے مذاہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
یہودیوں کے اس عقیدے (یعنی بنی اسرائیل سب سے افضل قوم ہیں اوردین یہود انہی سے مخصوص ہے)کی وجہ سے دنیا کے لوگ ان کی مذہبی تبلیغات کے شرّ اور دوسرے مذاہب والے ان کے تحریف شدہ مذہب کی طرف مائل ہونے سے محفوظ رہے۔
یہودی یہ سوچتے ہیں کہ وہ پوری دنیا پر حاکم ہو کر اپنے مخالفین کو ختم کر دیں گے کیونکہ ساری زمین انہی کی ہے ، اورصرف اسی وقت اہل دنیا یا تو یہودی مذہب اختیار کر سکیں گے یا پھر تمام کے تمام مار دیئے جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں: جب ہماری شہنشاہی حکومت کا آغاز ہو گا توہمارے دین کے علاوہ تمام ادیان ختم ہونے چاہئیں اور ہمارا دین خدائے واحد پر اعتقاد رکھنے کا نامہے۔بیشک ہماری قوم کی تقدیر برگزیدہ قوم کے عنوان سے خدا کے وجود سے بندھی ہوئی ہے اور اسی نے دنیا والوں کے مقدر کو ہماری تقدیر سے وابستہ کیا ہے۔لہذا ہر قسم کے عقیدے کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں حتی اگر کام کا انجام خدا کے وججود کا انکار ہی ک یوں نہ ہو کہ آج ہم جس کے شاہد ہیں۔
یہ کام نہ صرف حکومت کے انتقال کے زمانہ میں مفید ہے بلکہ ایسے جوانوں کے لئے بھی مفید ہے جو آئندہ مذہب موسیٰ کی تبلیغات کو سنیں گے ۔ایسا دین جس کے احکامات پائیدار اور ترقی یافتہ ہیں اور تمام دنیا والوں کو ہماری اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔
--------------
[1]۔ اسرائیلیات القرآن:16 اور 17
[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:37
ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی تبلیغات تعلیم ، دین کے اسرار آمیز اور اعجاز آمیز پہلوؤں پر زور دیتی ہیںاور ضرورت پڑنے پر مضامین و مقالات بھی شائع کرتے ہیں،ہم اپنی خدائی حکومت کا گذشتہ حکومتوں سے تقابل کرتے ہیں اور غیر یہود ی حکومتوں کی غلطیوں کو بہت واضح طور پر بیان کرتے ہیں اور کچھ حکّام کی سفّاکانہ و ظالمانہ حرکات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے انسانوں پر تشدد کیا اور انسانیت کو پامال کیااور اس سے انسانوں کی نفرت کو بھڑکاتے ہیں جس سے انسان غلامی کے دور کی آسائش و سہولت کو غلامی کے بعد کے زمانے کی سہولیات پر ترجیح دیتا ہے۔
ہمارے ذریعہ سے غیر یہودی حکومتوں میں رونما ہونے والی بے فائدہ تبدیلیوں سے ان کی حکومتوں کا اعتبار کم ہو جاتا ہے اور لوگ اپنی حکومتوں کی غیر یقینی صورت حال سے تھک کر ہمارے دورحکومت میں ہر طرح کی خفّت و ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور ہمارے تسلط سے نکل کر ماضی کی مصیبتوں کو پھر سے برداشت کرنے کے لئے رضامند نہیں ہوتے۔
اسی دوران ہم غیر یہودی حکمرانوںسے لاعلمی اور مسائل کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے سرزد ہونے والی تاریخی غلطیوں پر بھی بہت تاکید کرتے ہیں اوران حکمرانوں کے ہاتھوں انسان کو پیش آنے والی مشکلات اور مصیبتیں یاد دلاتے ہیں۔
ہمارے کاموں کا طریقہ واصول اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم جو کچھ پیش کریں اورجو تفسیر کریں وہ سب بہترین اور عیب و نقص سے پاک ہے لیکن جو کچھ ماضی میں موجود تھا وہ سب بیہودہ اور بیکار تھا۔
ہمارے فلاسفہ دوسرے عقائد و مذاہب کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور ان کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں لیکن کوئی اور ہمارے مذہب کے حقیقی عقائد کا تجزیہ و تحلیل نہ کرے۔کیونکہ ہمارے علاوہ کوئی دوسرا ہمارے دین کے امور کو نہ سمجھنے پائے ۔اور تو اور ہماری اپنی قوم کے افراد کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہمارے دین کے اسرار کوبرملا کریں۔
ترقی و پیشرفت اور روشن فکری کے نام سے مشہور صدیوں میں ہم نے پست ،بیہودہ اور ذلت آمیز ادبیات کو رواج دیا اور ہمیں قدرت و طاقت مل جانے کے بعد تک ہم چاہیں گے کہ ادبیات کا یہ طریقۂ کار اسی طرح چلتا رہے۔(1)
--------------
[1]۔ پروتکل ھای رہبران یہود برای تسخیر جھان:97
امویوں کی قوم پرستی
بنی امیہ بھی خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے؛حلانکہ ان کی کچھ عورتوں کے گھروں کی چھتوں پر آزادی کے پرچم نصب تھے اور بہت سے مرد ان کی عورتوں کے ساتھ مباشرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم سمجھتے تھے!!
وہ خود کو تمام قریش حتی کہ بنی ہاشم سے بھی افضل سمجھتے تھے اور غیر عرب کو حیوان سمجھتے تھے چاہئے وہ ایرانی ہوں جنہوں نے اسلام قبول کیا ہو یا اسلام قبول نہ کیا ہو۔
بنی امیہ عربوں کو عجمیوں سے برتر سمجھتے تھے اور عرب ،غیر عرب کو علوج (یعنی موٹی گائے یا موٹا انسان اور سرخ و سفید)کہتے تھے،بلکہ جریر کہتا ہے:
قالوا نَبیعکه بیعاً فقلت لهم بیعوا الموالی واستغنوا عن العرب
انہوں نے کہا ہے:تمہیں ان کے پاس فروخت کردیتے ہیں،میں نے کہا:غیر عربوںکو فروخت کرو اور عربوں کو فروخت کرنے سے بے نیاز ہو جاؤ۔
مبرّد کہتا ہے:غیر عربوں کو جس چیز نے زیادہ پریشان کیا ہے وہ یہی شعرہے کیونکہ اس میں انہیں خوار اور پست قرار دیا گیا ہے۔
ایک غیر عرب نےعربوں میں سے قبیلۂ بنی سلیم کی عورت سے شادی کی۔ ایک محتسب نے عبدالملک مروان کے داماداورمدینہ کے حاکم ابراہیم بن ہشام سے شکایت کر دی۔حاکم نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور شوہر کو سزا دی کیونکہ اس سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا تھا!اس کی سزا یہ تھی کہ اسے دوسو کوڑے مارے گئے اور اس کی ڈاڑھی مونچھ منڈوا دی گئی۔
اس حاکم کے بارے میں کہا گیا ہے:
قضیت بسنّة وحکمت عدلاً و لم ترث الحکومة من بعید
تم نے سنت کے مطابق فیصلہ کیا اور عادلانہ حکم جاری کیا اور تم نے حکومت کسی بیگانہ سے ارث میں نہیں لی۔
اب اس پرکشش اور پڑھنے کے قابل واقعہ کی طرف توجہ کریں:
دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام نے اپنے ایک درباری سے ملک کے مختلف شہروں کے فقہا کے بارے میں پوچھا اور پوچھا کہ مدینہ کا فقیہ کون ہے؟
اس نے کہا:عمر کا زاد کیا ہوا۔
پوچھا:مکہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:عطاء بن ابی ریاح
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:یمن کا فقیہ کون ہے؟کہا:طاووس بن کیسان
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:یمامہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:یحیی بن کثیر
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:شام کا فقیہ کون ہے؟کہا:مکحول
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:جزیرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:میمون بن مہران
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:جزیرہ کا فقیہ کون ہے؟ کہا:ضحأک بن مزاحم
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:بصرہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:حسن اور ابن سیرین
پوچھا:کیا وہ عرب ہیں یا غیر عرب؟کہا:غیر عرب۔
پوچھا:کوفہ کا فقیہ کون ہے؟کہا:ابراہیم نخعی
پوچھا:کیا وہ عرب ہے یا غیر عرب؟کہا: عرب۔
ہشام نے کہا:میری جان پہ بنی ہوئی تھی ،تم نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ عرب ہے۔(1)
اس واقعہ کی بناء پر عرب، غیر عربوں کو ''علوج''کے نام سے پکارتے تھے اور یہودی بھی غیر یہود کو ''جویم''یعنی انسان کی شکل میں حیوان کہتے تھے۔
کتاب''حکومت امویان''میں لکھتے ہیں:اموی حاکموں کی محفلوں میں عرب پرستی واضح طور پر نظر آتی تھی ۔اموی عربوں کی طرف مائل تھے اور انہیں برتری دیتے تھے جس کے اثرات سیاسی، اقتصای اور سماجی تینوںلحاظ سے رونما ہوتے تھے۔
لیکن سیاسی صورت کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بہت سے عجممذہبی ،سماجی یا مادّی وجوہات کی وجہ سے اسلام کی طرف مائل ہوئے لیکن ان کے ساتھ اسلامی امتیازات(جیسے عرب اور عجم کا برابر ہونا) کے مطابق سلوک نہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اہم حکومتی(2) عہدوں اور دوسری سہولیات سے محروم رہے کہ جس کے وہ اہل تھے جیسے فوج میں آنا،اور مسلمان ہونے کے باوجود وہ لوگ جزیہ دینے پر مجبور تھے۔
--------------
[1]۔ پیشوای علم و معرفت:430
[2]۔ حکومت کو ملازمین کی ضرورت تھی لیکن حکمران اپنے کسی بھی من پسند شخص کو کوئی سا بھی عوامی عہدہ بالخصوص خزانہ کے امور کی ذمہ داری سونپ دیتا تھا۔
یہ واضح سی بات ہے کہ اس سیاسی تفرقہ کی وجہ امویوں کا عربی نسل پرستی میں دلچسپی رکھنا تھا اور ان کے اس رویے نے ان میں تشدد اور جنگ طلبی کا مزاج پیدا کر دیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ کوئی چیز بھی امویوں کی اس دلچسپی کو نہیں روک سکتی تھی کیونکہ حقیقت میں وہ قریشی اور اس سے بھی وسیع طور پر دیکھیں تو وہ قیسی تھے۔ اسلام کی فتوحات اور بہت سے غیر عربوں کی اسلام کی طرف آنے سے پیدا ہونے والی نئی تبدیلی سے انہوں نے اپنی غیر استعمال شدہ مقامی اور قبائلی نوعیت کو محفوظ رکھا۔
انہوںنے اسلام کے عقائد اور اسلامی علاقوں کی تاریخ میں بنیادی فتوحات سے وجود میں آنے والی تبدیلیوں کودرک نہیں کیا تھا۔
اموی حکومت کے دور میں اس طریقۂ کار سے موالی تحریک کے دلوں میں عربی حکام کے خلاف نفرت و کینہ تھا جس کے نتیجہ میں جدید تفرقہ وجود میں آیاجن کی بنیادقومی مسائل تھے۔
انہوں نے ایک سیاسی دباؤ کے لئے ایک لشکر بنایا جن کا اموی خلافت کے زوال میں بھی ہاتھ تھا کیونکہایہ گروہ ایسا تھا جوکام تو بہت زیادہ کرتا تھا لیکن اجرت بہت کم پاتے تھے اوروہ حکومت و معاشرے میںسخت ذمہ داری کی وجہ سے خود کو عربوں سے برابری کی بنا ء پر خود کو ان کا ہم نوالہ ہونے کے لائق سمجھتے تھے۔
اموی دور کے آغاز میں(جب مشرق اور بالخصوص ایران میں اسلامی تحریک اپنے قدم آگے بڑھا رہی تھی)سن۴۳/66۳میں کوفہ میں سب سے پہلی اسلامی تحریک کا آغاز کیا۔معاویہ نے اس تحریک کا مقابلہ کیا اور ان میں سے کچھ کو کوچ کروا کر شام میں بھیج دیا
دور یزید کے بعد یہ موالی تحریک واضح و شفاف ہو گئی کیونکہ فتح کی گئی سر زمینوں میں مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اور نئے مسلمانوں نے دیکھا کہ عربوںاور خاص کر ان کے حکمرانوں کے امتیازات میں اضافہ ہوا رہا ہے۔لہذا انہوں نے ایک لشکر بنایا جس کا اس دور کے اسلامی معاشرے میں مقام تھا۔موالیوں نے اموی حکومت کے خلاف اس تحریک سے الگ پالیسی اپنائی اور یہ
اپنے جن حقوق سے محروم تھے ،ان کی دستیابی کے لئے انہوں نے اموی حکومت میں ابن زبیر کی تحریک کی حمایت کی۔ان کی فوج مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کی تحریک کی بدولت میں آشکار ہوئی اورتحریک شیعوں اور ایرانی عوام میں اتحادکے آغاز کا باعث بنی۔ان تحریکوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مساوات کے حق کا قانون چاہتے تھے اگرچہ وہ اپنے تمام اہداف حاصل نہ کر سکے۔
موالیوں کے مقابلہ میں عمر بن عبد العزید کے ددور خلافت میں امویوں کی سیاست بدل گئی ۔ اسے قطب اسلامی! اور بنی امیہ کے درمیان مصالحتی سیاست کہا جا سکتا ہے جس سے وہ افراتفری اور بے سکونی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔یہ سیاست عمر کی موت کے بعد پھر بدل گئی اور امویوں نے ایک بار پھر عربوں اور موالیوں میں فرق کرنا شروع کر دیا۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ موالیوں کے ذریعہ وجود میں آنے والا سیاسی گروہ عباسیوں کا آلہ کار بن گیا ۔ کیونکہ انہیںاس تحریک سے عربوں کے ساتھمساوات کی امید تھی اسی لئے عباسی ایرانی عوام اور سرزمین کے مرہون منت ہیں کیونکہ ان کے لئے امویوں کے سامنے خراسان ہی مقابلہ کاپہلا میدان قرار پایا۔لیکن اقتصادی لحاظ سے یہ کہنا ضروری ہے کہ امویوں نے مشخص اقتصادی سیاست نافذ کی جو موالیوں کو اقتصادی امتیازات سے محروم رکھنے پر مبنی تھی۔جس نے ان کے لئے بہت سے مسائل پیدا کئے اور آخر کار یہ بد امنی پیدا کرنے پر اختتام پذیر ہوا جو ان کی حکومت کی نابودی کا باعث بنا۔
موالی ہر جگہ اقتصادی حالات کی شکایت کرتے ۔وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے ہر شخص کے ساتھ ملحق ہو جاتے ۔خراسان کے موالی دوسروں کی بنسبت زیادہ شکایت کرتے تھے، وہ دوسرے اسلامی شہروں سے پہلے اسلام کی طرف آئے اور انہوں نے عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے ساتھ سرزمین ماوراء النہر میں اور ہندیوں سے سندھ میں جہاد میں شرکت کی ۔ان خدمات کے باوجود حکومت نے انہیں اقتصادی امتیازات سے محروم رکھا۔(1)
--------------
[1]۔ دولت امویان:240
یہودیوں کی بے راہ روی اور ان کی اسلام سے دشمنی
یہودیوں کی اسلام سے دشمنی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ان کی اقتصادی شکست تھی۔ سب جانتے ہیں کہ یہودی کس حد تک اقتصای امور اورمال و دولت جمع کرنے کو اہمیت دیتے ہیں۔ چونکہ وہ خود کو انسانوں کی سب سے افضل قوم سمجھتے ہیں!جس کے لئے وہ اس قدر کوشش کرتے ہیں کہ وہ مالی اعتبار سے سب لوگوں سے برتر ہوں ۔ اقتصادی برتری حاصل کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا غیر اخلاقی اور غیر انسانی کام انجام دیتے ہیں۔ وہ فساد، فحاشی،شراب ،جوّا اور بربادی کے کسی بھی طرح کے ایسے وسیلہ سے دستبردار نہیں ہوتے جس سے ان کے مال و ددولت میں اضافہ ہو۔جوانوں اور پورے انسانی معاشرے میں ظہور اسلام اور اسلامی اخلاقیات کے عام ہونے سے بے راہ روی،فحاشی اور شراب نوشی کا خاتمہ ہو گیا اور پیغمبر اکرم(ص) کے وجودکی وجہ سے لوگ ناپسندیدہ اور خلاف شریعت کام ترک کر دیتے تھے اور انسانی اخلاقیات کی طرف مائل ہوتے تھے اور اسلامی بازارتشکیل دیتے تھے۔اس وجہ سے یہودیوں کے بازاروں کی رونق ختم ہو گئی اور بہت سے حرام کاروبار یا تو ختم ہو گئے یا ان میں پہلے جیسی بات نہ رہی ؛اور خاص طور پر رسول اکرم(ص) نے حکم دیا تھا کہ مدینہ میں اسلامی قوانین کے مطابق ایک بازار بنایا جائے۔ اسی لئے پیغمبر اکرم(ص) کے مدینہ ہجرت کرجانے کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں (جو تین قبائل''بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر''پر مشتمل تھے) کو اقتصادی منافع خطرے میں نظر آ رہا تھا؛ کیونکہ انہوں نے مدینہ میں مشروب سازی کے کارخانے، فحاشی کے اڈے اور خنزیروں کی پرورش کے لئے مراکز قائم کئے ہوئے تھے۔اسی طرح سونے چاندی کی ذخیرہ اندوزی،سودی معاملات اور اسلحہ سازی بھی انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔المختصر یہ کہ مدینہ کی اقتصای نبض یہودیوں کے ہاتھوں میں تھی۔لیکن مدینہ میں اسلام آنے اور اسلامی حکومت کے قیام سے یہودیوں کے اقتصادی امتیازات اور منافع کو خطرات لاحق تھے اور یہودیوں کے بازار کی رونق بھی ماند پڑ گئی تھی۔یہ اس وجہ سے تھا کہ مدینہ کے جوان ان کے میکدوں کا رخ نہیں کرتے تھے ،مدینہ کے لوگ سور کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور اس سے یہودیوں کے اقتصاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔(1)
--------------
[1]۔ اسرائیلیات القرآن:42، ملاحظہ کریں: المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ج6ص۵۴۳
کتاب''محمد(ص) رسول الحرّیة''میں نقل ہوا ہے :رسول خدا(ص) نے مدینہ کے تاجروں کو حکم دیا کہ وہ مدینہ میں ایک مستقل بازار کھولیں۔مدینہ میں ایسے بازار کے قیام کا مقصد اسلامی قوانین اور تجارتی معاملات میں عدل و انصاف کی رعایت کرنا تھا۔اردگرد کے بہت سے تاجروں نے اس بازار کا رخ کیا جو یہودیوں کے بازار کی رونقمیں کمی کاباعث بنا۔(2)(1)یہودیوں کی اقتصادی شکست ، آمدنی اور کاروبار کے بہت سے ذرائع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے یہودی مسلمانوںسے بغض رکھنے والے سخت دشمن بن گئے اسی وجہ سے جہاں تک ہو سکاانہوں نے زمانۂ جاہلیت میں اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مسلمانوں کو نابود کرنے کی کوشش کی۔اس بناء پریہودیوں کی اقتصای شکست اور ان کے بازارکی رونق میں کمی یہودیوں کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا باعث ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) کو زہر دینا
یہودیوں کی اقتصادی شکست اس بات کاایک اہم سبب ہے کہ جس کی بناء پر انہوں نے رسول اکرم(ص) کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔یہودیوں کے ہاتھو ں رسول اکرم(ص) کے مسموم ہونے کا موضوع تاریخی منابع میں اس حد تک مشہور ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں:زینب بنت حارث، سلّام بن مشکم کی بیوی (جس کے کچھ رشتہ دار جنگ خیبر میں مارے گئےتھے(3)نے بھیڑکے ایسے حصہ کو زہر آلود کیا جسے پیغمبر اکرم(ص) کھانا پسند کرتے تھے اوراس نے وہ گوشت پیغمبر (ص)کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت(ص) نے اپنے اصحاب کے ساتھ کھانا شروع کیا لیکن ابھی ایک لقمہ بھی تناول نہیں کیاتھا کہ آپ (ص) نے فرمایا:یہ غذا مجھے بتا رہی ہے کہ یہ زہرآلود ہے ۔ بشر بن براء کہ جنہوں نے اس کا ایک لقمہ کھا لیا تھا وہ شہید ہو گئے۔ پیغمبر اکرم(ص)نے اپنی رحلت کے وقت بشر کی ماں سے فرمایا تھا:
--------------
[1]۔ اسرائیلیات القرآن:43
[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:54
[3]۔ المغازی:6792
یہ بیماری اسی لقمہ کا اثر ہے جو تمہارے بیٹے کے ساتھ خیبر میں کھایا تھا۔(1)
جب آنحضرت نے اس کام کی وجہ پوچھی تو زینب نے کہا:کیونکہ تم نے میرے رشتہ داروں کو قتل کیا تھا لہذا میں نے سوچا کہ اگر تم پیغمبر ہو تو آپ زہر کسے آگاہ ہو جائیں گے ورنہ ہمیں تم سے نجات مل جائے گی۔
اس مسئلہ میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا رسول اکرم(ص) نے اس یہودی عورت کو قتل کر دیاتھا یااسے آزاد کر دیا؟ سہیلی کہتے ہیں: دو طرح کی روایات میں جمع اس طرح سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ پہغمبر اکرم(ص) نے پہلے اپنا انتقام نہیں لیا اور اسے آزاد کر دیا اورجب بشر بن براء دنیا سے چلے گئے تو اس یہودی عورت سے قصاص لیاگیا۔(2)
تاریخ میں کچھ دوسرے واقعات بھی موجود ہیں کہ کچھ اور افراد نے بھی رسول اکرم(ص) کو زہر دیا اور آنحضرت(ص) کو شہید کیا۔
--------------
[1] ۔ پیغمبر اکرم(ص) کو زہر دینے کے واقععہ کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن احاق کہتے ہیں:پیغمبر اکرم(ص) نے اس غذا کا لقمہ نہیں کھایا تھا ۔ لیکن واقدی کہتے ہیں: آنحضرت(ص) نے وہ غذاکھائی ۔ اسی طرح یہ موضوع بھی واضح نہیں ہے کہ بشر اسی وقت یا ایک سال کے بعد فوت ہوئے ۔ لیکن اصل واقعہ کو اور اس کی وجہ سے تین سال کے بعد پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کو مؤرخین قبول کرتے ہیں۔اس کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے : سیرۂ ہشام:ج2ص337، المغازی:ج2ص677، الطبقات الکبری:ج2ص82 اور 154،تاریخ الیعقوبی:ج1ص375 ، التنبیہ الاشراف:224، جامع السیرة:169،الروض الأنف: ج6ص571
[2]۔ الروض الأنف:ج6ص571
یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوںاسلام کے کچھ بزرگوں کی شہادت
اموی حکام، عیسائیوں اور یہودیوں کے طرفدار گورنر مسلمانوں کو اس قدر سخت تکالیف پہنچاتے تھے کہ بعض اوقات انہی یہودی و عیسائی زادوں کے ہاتھوں مسلمان شہید ہو جاتے تھے۔
وہ اموی حکمرانوں کا نام سے استعمال کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اسلام کے پیشواؤں اور مسلمانوں کو شہید کرتے اور بے انتہاقتل و غارت کرتے تھے۔ تاریخ انسانیت میں نقل ہونے والا ایک نہایت شرمناک اور وحشیانہ قتل محمد بن ابی بکر کی شہادت ہیجو معاویہ بن حدیج کندی کے نام سے ایک یہودی زادہ نے انجام دیا۔
محمد بن ابی بکر اگرچہ ابو بکر کے بیٹا تھے لیکن چونکہ وہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے طرفدار اور مصر میں آنحضرت کے گورنر تھے اسی لئے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا اور ایک یہودی زادہ نے انہیں شہید کرنے کے بعد ان کے بدن کو گدھے کی کھالمیں رکھ کر آگ لگا دی۔اس واقعہ کو جاننے کے لئے ہم عمر و عاص اور معاویہ بن حدیج سے ان کی جنگ کو ذکر کرتے ہیں:
عمروعاص مصر نے مصر کا قصد کیا ۔ محمد بن ابی بکر لوگوںکے درمیان کھڑے ہوئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد یوںفرمایا:
امّا بعد؛اے مسلمانو اور مومنو!بیشک جو لوگ بے حرمتی کرتے ہیں اور گمراہی میں پڑے ہیں اور ظلم و وجور کے ساتھ سرکشی کرتے ہیں،اب وہ تمہارے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور لشکروں کے ساتھ تمہاری طرف روانہ ہو چکے ہیں ۔ جو بھی جنت اور بخشش کا طلبگار ہے وہ ان سے جنگ کے لئے تیار ہو جائے اور خدا کی راہ میں جہاد کرے، خدا تم پر رحمت کرے؛کنانہ بن بشر کے ساتھ فوراً روانہ ہو جاؤ۔
تقریباً دوہزار افراد کنانہ کے ساتھروانہ ہو گئے اور محمد بن ابی بکر دوہزار افراد کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ ہوئے اور انہوں نے کچھ دیر اپنی لشکر گاہ میں قیام کیا۔ عمر وبن عاص، محمد بن ابی بکر کے پہلے لشکرکے سپہ سالار کنانہ کے مقابلہ میں لڑنے کے لئے
آیااور عمرو جونہی کنانہ کے قریب پہنچاتو اس نے کنانہ سے مقابلہ کے لئے ایک کے بعد ایک گروہ بھیجالیکن شامیوں کا جو بھی گروہ آتا کنانہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس پر حملہ کرتے اور ان پر ایسے وار کرتے کہ وہ انہیں عمرو عاص کی طرف الٹے پاؤں بھگا دیتے تھے اور انہوں نے اس کام کو متعدد بار انجام دیا۔
عمروعاص نے جب یہ دیکھا تو معاویہ بن حدیج کو پیغام بھیجا اور وہ بہت بڑے لشکر کے ساتھ اس کی مدد کے لئے آیا ۔کنانہ نے جب وہ لشکر دیکھا تووہ اور ان کے ساتھی اپنے گھوڑوں سے اتر آئے اور انہوں نے ان پر تلوار سے وار کرنا شروع کئے جب کہ وہ اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے:''کوئی نفس بھی اذنِ پروردگار کے بغیر نہیں مرسکتا ہے سب کی ایک اجل اور مدت معین ہے''(1)اور تلوار کے ذریعے ان پر اسی طرح وار ر رہے تھے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔خدا ان پر رحمت کرے۔
ابراہیم ثقفی کہتے ہیں:محمد بن عبداللہ نے مدائنی سے اور وہ محمد بن یوسف سے نقل کرتے ہیں کہ جب کنانہ قتل ہو گئے تو عمرو عاص نے محمد بن ابی بکر کو اپنا ہدف بنایا اور چونکہ محمد کے ساتھی ان سے منتشر ہو گئے تھے،وہ آرام سے باہر آئے اور اپنی راہ کو جاری رکھا یہاں تک کہ ایک ویرانہ پر پہنچے اور وہاں پناہ لی۔عمرو عاص آیا اور شہر فسطاط(2)میں داخل ہوا اور معاویہ بن حدیج ،محمد بن ابی بکرکا تعاقب اور ان کی تلاش میں باہر آیا۔راستے میں اسے کچھ غیر مسلمان افرادملے اس نے ان سے پوچھا:کیا تمہارے پاس سے کوئی اجنبی شخص گذرا ہے؟پہلے انہوں نے کہا:نہیں ۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا:میں اس خرابہ میں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔معاویہ بن حدیج نے کہا:ربّ کعبہ کی قسم! یہ وہی ہے۔اور سب دوڑتے ہوئے وہاں گئے اور محمد تک پہنچ گئے،وہ لوگ انہیں باہر لائے اور نزدیک تھا کہ وہ پیاس سے جان بحق ہوجاتے،وہ انہیں فسطاط لے کر آئے ۔اسی وقت محمد بن ابی بکر کا بھائی عبدالرحمن-جو عمرو عاص کے لشکر میں تھا-کھڑا ہوا اور اس نے عمرو سے کہا:خدا کی قسم! میرے بھائی کوپھانسی نہ دی جائے،معاویہ بن حدیج کو پیغام دو اور اسے اس کام سے منع کرو۔
--------------
[1]۔ سورۂ آل عمران، آیت:145
[2] ۔ فسطاط وہ پہلا شہر تھا مصر میں عربوں نے دریائے نیل کے مشرق میں بنا اور یہ شہر عمرو عاص کے توسط سے بنایا گیا اور اس میں ایک مسجد بھی بنائی !(المنجد الأعلام)
عمرو بن عاص نے معاویہ بن حدیج کو پیغام بھیجا کہ محمد کو میرے پاس بھیج دو۔
معاویہ نے کہا:تم نے میرے چچا زاد بھائی کنانہ بن بشر کو قتل کیا ہے اور اب میں محمد بن ابی بکر کو چھوڑ دوں؟کبھی نہیں؛''اور کیا تمہارے کفار ان سب سے بہتر ہیںیا ان کے لئے کتابوں میں کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے''(1)
محمد نے کہا:مجھے ایک بوند پانی پلا دو۔
معاویہ نے کہا:اگر تمہیں پانی کی ایک بوند بھی دوں توخدا مجھے سیراب نہ کرے،تم عثمان کو پانی پلانے کی راہ میں رکاوٹ تھے اور اسے حالت روزہ میں اس کت گھر میں قتل کیا تھا ،خدا نے اسے جنت کا ٹھنڈا شربت پلایا!خدا کی قسم؛اے ابوبکر کے بیٹے! میں تمہیںپیاسا ہی قتل کروں گااور خدا تمہیں گرم پانی اور جہنم کے کھولتے ہوئے اورناپاک پانی سے سیراب کرے گا۔!
محمد بن ابی بکر نے اس سے کہا:اے کاتنے والی یہودی عورت کے بیٹے!یہ خدا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو سیراب کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو پیاسا رکھتا ہے،تم اور تمہاری طرح کے افراد وہ لوگ ہیںکہ جنہیں تم پسند کرتے ہو اور وہ تمیں پسند کرتے ہیں اور خدا کی قسم! اگر میرے ہاتھوں میں تلوار ہوتی تو تم مجھے اس طرح نہ پکڑ سکتے۔
معاویہ بن حدیج نے ان سے کہا:کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟تمہیں اس مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کے جلا دوں گا۔
محمد نے کہا:فرض کرو کہ تم میرے ساتھ ایسا کرو گے تو کیاہوا کیونکہ بہت سے اولیاء خدا کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا۔خدا کی قسم!مجھے امیدہے کہ تم مجھے جس آگ سے ڈرا رہے ہو ،خدا میرے لئے وہ آگ ٹھنڈی کردے گا اور مجھے سلامت رکھے گا جس طرح خدا نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے کیا اور مجھے امید ہے کہ خدا یہ آگ تمہارے اور تمہارے دوستوں کے لئے
-------------
[1]۔ سورۂ قمر،آیت:43
قرار دے جس طرح نمرود اور اس کے دوستوں کے لئے قرار دی اور مجھے امید ہے کہ خدا تجھے،تیرے پیشوا اور اس شخص( عمرو عاص کی طرف اشارہ کیا)کو جلنے والی آگ میں جلائے گا۔''کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواپ بننے کے لئے خدا کافی ہے کہ وہی اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور ان کی کیفیات کا دیکھنے والا ہے''(1)
معاویہ بن حدیج نے ان سے کہا:میں تمہیں ظلم و ستم سے قتل نہیں کر رہا بلکہ تمہیں عثمان بن عفان کے خون کے بدلےقتل کررہا ہوں۔
محمد نے کہا:تمہیں عثمان سے کیا سروکار؟جس شخص نے ظلم کیا ،خدا اور قرآن کے حکم کو تبدیل کر دیا اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''اور جو ہمارے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے''۔''وہ ظالموں میں شمار ہو گا''۔''وہ فاسقوں میں شمار ہو گا''(2)
اس کے کئے گئے ناروا کاموں کی وجہ سے ہم غضبناک ہوگئے اور ہم اسے واضح طور پر خلافت سے الگ کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے قبول نہ کیا اور لوگوں کے ایک گروہ نے اسے قتل کر دیا۔
معاویہ بن حدیج غصہ میں آگیا اور انہیں اپنے سامنے لا کر ان کی گردن اڑا دی اور پھر ان کے بدن کومردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کر جلا دیا۔
جب عائشہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ ا س پر بہت روئی۔وہ ہر نماز کے بعد قنوت پڑھتی تھی جس میں معاویہ بن ابی سفیان،عمرو عاص اور معاویہ بن حدیج پر لعنت کرتی تھی۔اس نے اپنے بھائی کے اہل وعیال اور بیٹوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا جن میں قاسم بن محمد بھی شامل تھے۔
--------------
[1]۔ سورۂ بنی اسرائیل،آیت:96
[2]۔ سورۂ مائدہ،آیات:44،45 اور 47
کہتے ہیں:معاویہ بن حدیج ایک پلید اور لعنتی شخص تھا جو حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کو دشنام دیتا تھا۔
ابراہیم ثقفی کہتے ہیں:عمرو بن حماد بن طلحہ قناد نے علی بن ہاشم سے انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے داؤد بن ابی عوف سے ہمار ے لئے روایت نقل کی ہے کہ معاویہ بن حدیج مسجد نبوی میں امام حسن بن علی علیہما السلام کی خدمت میں آیا۔
امام حسن علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
اے معاویہ! لعنت ہو تم پر؛تم وہی ہو جو امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کو دشنام دیتا تھا ؟! خدا کی قسم!اگر تم انہیں قیامت کے دن دیکھو - اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم انہیں دیکھو گے-تو تم انہیں اس حال میں دیکھو گے کہ وہ اپنے پا برہنہ تم جیسے لوگوں کے چہروں کو کچلیں گے اور انہیں حوض کوثر کے پاس سے بھگادیںگے جس طرح بیگانے اونٹوں اجنبیوں کو بھگا دیا جاتا ہے۔(1)
یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی
یہودی اسلام اور مسلمانوں کے اس حد تک دشمن تھے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنا بغض بھرا ہوا تھا کہ وہ اسلام کے نام اور اسلام کے نام پر کسی بھی حکومت سے راضی نہیں تھے۔ لیکن اسلام کا نام استعمال کئے بغیروہ اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔اس لئے انہوں نے بنی امیہ کی مدد کرنا شروع کی جن کے پاس اسلام اور مسلمانوں کا نام تھا تاکہ ان کے ذریعہ اصل اسلام کو کچل سکیں۔
اس بارے میں بنی امیہ بھی یہودیوں کے ہمدرد تھے چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اسلام کے نام اور مسلمانوں سے استفادہ کرنا چاہئے لہذا انہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور ظاہری طور پر مسلمان ہو گئے اور خلافت کا لبادہ اوڑھ کرخدا ،پیغمبر ،کعبہ اور دین کے تمام مقدسات کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔
--------------
[1]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:2253
اموی خلیفہ اپنے باطنی خواہشات کو بخوبی جانتے تھے بلکہ وہ یہودیوں کی شیطانی مکاریوں اور سازشوں سے بھی باخبر تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان کی اسلام اور مسلمانوں سے درینہ دشمنی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود کچھ موارد میں انہوں نے یہودیوں سے اس طرح دھوکا کھایا کہ جس کی شرمندگی ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو گئی اور جس سے ان کی بے شرمی میں مزید اضافہ ہوا۔
ان کا ایک منصوبہ اسکندریہ کے مینار کو برباد کرنا تھاجو دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک تھا۔
بہت سے مفکر دنیاکے سات عجوبوں سے کم وبیش آشنا ہیں اوروہ جانتے ہیںکہ ایک روایت کے مطابق اسکندریہ کا مینار اسکندر مقدونی نے بنایا تھا جو دنیا کی حیرت انگیز تعمیرات میں سے ایک ہے۔اس عجیب عمارت اور اسے تباہ کرنے کے لئے یہودیوں کی سازششوں کو جاننے کے لئے ان مطالب پر غور کریں:
حیرت انگیز عمارتوں میں سے ایک اسکندریہ کا مینارہے جوتراشے ہوئے پتھروںاور سیسہ سے بنایا گیا ہے ۔اس کے تین سو کمرے ہیں جن میں سے ہر ایک کمرے میں سے مینار کے اوپر جایا جا سکتا ہے اور ان کمروں میںسے دریاکو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
کہتے ہیں:اسے بنانے والا سکندر مقدونی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں:اسے مصر کی ملکہ''دلوکا'' نے بنایا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مینار کے مشرقی کنارے میں لکھا ہوا ہے کہ طوفان نوح کے ایک ہزار دوسو سال بعدستاروں کے معائنہ کے لئے مربیوش یونانی کی بیٹی کے حکم پر یہ مینار بنا گیا۔
کہتے ہیں:اس مینار کی لمبائی ہزار ذراع ہے اور اب اس کے اوپر کچھ مجسمے ہیں جن میں سے ایک مجسمہ ایک مرد کاہے جو اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے سورج کی طرف اشارہ کرتا ہیچاہے وہ آسمان میں جس جگہ بھی ہو اورجس طرف سورج پلٹتا ہے وہ بھی اسی طرف پلٹ جاتا ہے۔
ایک دوسرا بدن ہے جو سمندرکی طرف دیکھ رہا ہے اور جب دشمن اس شہر سے ایک میل کی دوری پر ہو وہ خوفناک آواز نکالتا ہے تا کہ شہر کے لوگوں کو دشمن کے آنے کی خبر ہو جائے۔
ایک اور مجسمہ بھی ہے جو راتمیں ہر گھنٹے کے بعد دلنشین آواز نکالتا ہے۔کہتے ہیںکہ اس مینار کے اوپر ایک آئینہ ہے جس کا رخ سمندر کی طرف ہے اور جس طرف سے بھی کشتیاں آئیں وہ رستے میں تین دن تک اس آئینہ میں دکھائی دیتی ہیں تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ تاجر ہیں یا دشمن۔یہ مینارولید بن عبدالملک کے زمانے تک عروج پر تھا۔(1)
کتاب''تحفةالدھر''میں اسکندر کو اس مینار کے بنانے والا قرار دیا گیا ہے اور لکھتے ہیں:اس مینار کو بنانے سے پہلے اس نے مختلف پتھروں کو پانچ سال تک پانی میں رکھا تا کہ اس سے یہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کون سا پتھر پانی کے مقابلہ میں زیادہ مزاحمت کر سکتا ہے۔پانچ سال کے بعد پتہ چلا کہ آبگینہ(شیشہ)میں زیادہ استحکام و مزاحمت ہے۔اس لئے اس نے حکم دیا کہ پانی میںمینار کی بنیادوں کو آبگینہ سے بنایا جائے۔مشہور تاریخ نویس مسعودی نے یوں لکھا ہے:ولید بن عبدالملک کے زمانۂ خلافت میں روم کے بادشاہ نے اپنے ایک خاص ذہین اورفہیم شخص کو مہاجر کی شکل میں کچھ اشیاء کے ساتھ ایک اسلامی ملک کی حدود میں بھیجا۔وہ شخص ولید کے پاس آیا اور اس سے کہا:میں روم کے بادشاہ کے قریبی افراد میں سے تھاوہ مجھ سے ناراض ہوگیاہے اور اس نے مجھے قتل کرنے کا ارادہ کیاہے ۔میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ آیا اوراب میں اسلام کی طرف مائل ہو چکا ہوں۔وہ ولید کے ہاتھوں مسلمان ہو گیا اور اس کے نزدیکی افراد میں سے ہو گیا۔ اس نے روم سے نکالے جانے والے ذخائر اور خزانوں کی بات کی ۔اس نے ان کی تفصیل اپنے پاس لکھی ہوئی تھی اور اس نے ان میں سے کچھ چیزیں ولید کو پیش کیں جس سے ولید لالچ میں پڑ گیا۔
اس شخص نے ولید سے کہا:آپ کے ملک میں اموال، جواہر اورخزانے بہت زیادہ ہیں۔
ولید نے کہا: کہاں ہیں؟
اس نے کہا:اسکندریہ کے مینار کے نیچے اموال بھرے پڑے ہیں کیونکہ جب اسکندر دنیا کے جواہرات اکھٹیکئے تو انہیں زمین کے نیچے رکھ دیا اور اس کے اوپر مینار بنا دیا۔
--------------
[1]۔ ترجمۂ نخیة الدھر ف عجائب البرّ و البحر:53
ولید جو کہ لالچ میں آچکا تھا،اس نے اس شخص کے ساتھ اسکندریہ کے مسمار کو برباد کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجا۔جب آدھے مینار کو مسمار کر دیا تو وہ مینار زمین پر گر گیاتو اسکندریہ کے لوگوں کا نالا بلند ہوا اور تب جاکروہ لوگ سمجھے کہ دشمن نے کس مکر و حیلہ سے کام لیا ہے۔جب وہ شخص بھی جان گیا کہ اس کی مکاری کو لوگ بھانپ گئے یں تو وہ رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا اور ہمارے زمانے یعنی سن 1432ھ میں بھی وہ مینار اسی حالت میں باقی ہے۔(1)
دو وجوہات کی بناء پر ہم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے:ایک، اسکندریہ کے مینار کی وضاحت اور یہ کہ گذشتہ زمانے میں دنیا میں کیسے کیسے عجوبے پائے جاتے تھے۔اور اس سے بھی اہم نکتہ مسلمانوں کے دشمنوں کی بیداری،ہوشیاری اور ان کے مکرو فریب کو بیان کرنا ہے ۔ یہودی دشمن،جاہل عیسائی اور تمام مسالک و عقائد نے پوری تاریخ میں اسلام کی شان و شوکت ، جاہ و جلال اور مسلمانوں کی معنوی و باطنی رفعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کے مقابلہ میں مسلمان ہمیشہ بے حس رہے اور انہوں نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔لہذا آپ عزیزجوانوں کو میری یہی تاکید اور سفارش ہے کہ دشمن کی طرف سے جو کچھ آئے اسے ہمیشہ اچھا نہ سمجھو بلکہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ خدمت کے نام پر کیسی کیسی خیانتیں کی جاتی ہیں،ترقی و تمدن کے نام پر کیسا کیسا نقصان پہنچاتے ہیں،نئی ایجادات کے نام پر کیسے کیسے اصل گوہر ہم سے لے لئے جاتے ہیں اورکیسے ہمارا ظاہری و باطنی اور مادی و معنوی سرمایہ لوٹ لیا جاتا ہے؟
میرے عزیزو!جان لو کہ دشمن دوست نہیں بن سکتا ،کفر کبھی اسلام کے ساتھ یکجا نہیں ہو سکتا۔ یہودی،عیسائی،کفار اور منافقین ہماری مدد کے لئےکبھی بھی حاضر نہیں ہوں گے ۔ وہ تمہیں جتنا دینا چاہتے ہیںوہ اس سے کہیں زیادہ تم سے لے چکے ہیں۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اوراتنا بھی دھوکا نہ کھائیں اور سادہ لوح نہ رہیں۔ ہم ان کے دیئے گئے نقصانات اور ان کی خیانتوں سے واقف تھے اور واقف ہیں لیکن پھر بھی وہ جو کچھ لاتے ہیں ہم باہیں پھیلا کر ان کے افکار و رفتار کا استقبال کرتے ہیں؟
--------------
[1]۔ مروج الذھب:4171
خدا کو اس کی عزت و جلال کا واسطہ دیتے ہیںکہ پروردگارا!جلد از جلد اسلام اور مسلمانوں کی عزت کو پہنچا دے: ''این معزّ الأولیاء و مذّل الأعداء''(1)
مسلمانوں میں اختلاف ایجادکرنےکے لئے یہودیوں کی سازش
پیغمبر اکرم(ص)کے خلاف یہودیوں کی سازشیں صرف غیر مسلمانوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکنے میں ہی منحصر نہیں تھیں بلکہ جہاں تک ہو سکتا تھا وہ مسلمانوں میں تخریب کاری اور سازشیں کرتے تھے تا کہ فتنہ و فساد اور افراتفری پیدا کرکے مسلمانوں کو کمزور کر سکیں۔
یہودیوں نے مسلمانوں میں اختلاف ایجادا کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور اب بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں۔ان میں سے ایک راہ قومی تعصب سے استفادہ کرکے قبائلی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔
اوس اور خزرج عرب کے دو بہت ہی مشہور قبیلے ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودیوں کی سازش کی وہ سے جنگ و جدال میں مشغول تھے۔
کتاب ''تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی''میں لکھتے ہیں: مدینہ میں داخل ہوتے وقت پیغمبر اکرم(ص) کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک اوس اور خزرج دو قبیلوں کے درمیان اختلاف تھا۔اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے ایسی دشمنی اور تفرقہ اندازی کو ختم کرنا آنحضرت کے لئے ضروری تھا ۔ لہذا آپ نے پہلی فرصت میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ قائم کیا اور آنحضرت(ص) کے اسی اقدام کی وجہ سے ان دو قبائل کے درمیان کئی سال کی دشمنی ختم ہو گئی۔اوس و خزرج میں اتفاق و اتحاد ہو جانے کی وجہ سے یہودی اپنے اقتصادی مقاصد اور دوسرے منافع حاصل نہیں کر سکتے تھے،اس لئے انہوں نے اسلام کی روزمرہ کی ترقی سے مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالنے کی کوشش کی۔
--------------
[1]۔ جامعہ در حرم:364
یہودیوں نے اپنے اس مشہور قاعدہ''تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو''پر عمل کرتے ہوئے دو قبائل اوس اور خزرج میں اختلافات پیدا کئے تھے اور ان سے قدرت کو یکجا کرنے کا وسیلہ سلب کر لیا تھا۔ اقتصادی،سیاسی اور دوسرے مختلف شعبوں میں یہودیوں کی ترقی کا یہی راز تھا۔چونکہ اسلام کے آنے سے انہیں اپنے یہ منہوس منصوبہ خاک میں ملتے دکھائی دے رہے تھے اس لئے انہوں نے مختلف کاروائیاں کرنا شروع کیںتا کہ ان کے درمیان روابط ختم کرکے انہیں دوبارہ زمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹا دیں اور یوںتیزی سے ترقی کرتے ہوئے اسلام کا راستہ روکا جا سکے۔اس مقصد کی خاطر یہودی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ جس میں اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں اور اس اہم امر کے لئے اپنی سازش پر عمل کریں۔
ایک دن شاس بن قیس (جو ایک دولتمند یہودی تھا) ایک جگہ سے گذر رہا تھا ،جب اس نے دیکھا کہ وہاں اوس اور خزرج قبیلوں کے افراد پیار و محبت سے اکٹھے ہیں تو وہ اپنے حس اور رشک پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے اپنے منہوس منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے اس موقع کو غنیمت جانا۔وہ کسی یہودی جوان کو اس مجمع میں بھیجنا چاہتا تھا جو ان کے درمیان زمانۂ جاہلیت کے درینہ بغض کو پھر سے تازہ کر دے اور اس اتحاد و دوستی کو تفرقہ و دشمنی میں بدل دے۔(1)
جونہی اس جوان نے ان کے درمیان ماضی کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کو یاد کیا اور ایک دوسرے کے بارے میں توہین آمیز اشعار پڑھ کر ان کی پیار محبت کی محفل کو لڑائی جھگڑے میںتبدیل کر دیادتوونوں قبیلوں نے ایک دوسرے پرتلواریں اٹھا لیں اور دوسرے افراد بھی ان کی مدد کو پہنچ آئے۔
جب یہ خبر رسول اکرم(ص) تک پہنچی تو آپ فوراً اس مجمع میں پہنچے اور فرمایا:خدا کی پناہ میں آجاؤ،کیا تم پھر سے جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہو اور جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟! خدا نے اسلام کی طرف تمہاری ہدایت کی،تمہیں عزیز بنایا،جاہلیت کے رشتہ کو ختم کر دیا ،تمہیں کفر سے نجات دی اور تمہارے دلوں کو متحد کیا۔(2)
--------------
[1]۔ السیرة النبویة: ج۲ص۲۰۴، فروغ ابدیت: 91-468
[2] ۔''یا معشر المسلمین؛ اللّٰه اللّٰه أبدعوی الجاهلیة و أنا بین أظهرکم بعد أن هداکم للاسلام، و أکرمکم به و قطع به عنکم أمر الجاهلیّة و استنقذکم من الکفر و ألّف بین قلوبکم'' منشور جاوید:306-299، السیرة النبویة: ج۲ص۲۰۵
پیغمبر اکرم(ص) کی باتیں ایک ایسے طمانچہ کی طرح تھیںجو بے ہوش افراد کے منہ پر پڑا اور س کے پڑتے ہی سب ہوش میں آگئے اور سب کو یہ پتہ چل گیا کہ اس یہودی جوان کے اس شیطانی کام کا منصوبہ پہلے ہی سے بنایا گیا تھا اور یہ دشمن کی مکاری تھی ۔اس بناء پر انہوں نے ندامت و شرمندگی سے روتے ہوئے اپنے اسلحہ زمین پر رکھ دیئے اور استغفار کی اور ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر الفت و بھائی چارے کی تجدید کی۔(1)
خداوند کریم نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے:
(یٰاأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوَاْ ِن تُطِیْعُواْ فَرِیْقاً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ یَرُدُّوکُم بَعْدَ ِیْمَانِکُمْ کَافِرِیْنَ)(2)
اے ایمان والو!اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کی اطاعت کر لی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹا دیں گے۔(3)اس دنیا میں یہودیوں کا بنیادی ہدف دنیاوی آرائش وخوبصورتی اور اسی میں دلچسپی ہے۔ اور چونکہ ان کا آخری مقصد ہی دنیا ہے اس لئے وہ اس تک پہنچنے کے لئے انسانی اقدار کو پامال کر دیتے ہیں اور سب انسانوں کے درمیان تفرقہ و نفاق کا سبب بنتے ہیں اور اس طرح وہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور یہودی اپنی مکاریوں کو جاری رکھتے ہیں۔اسی لئے خداوند متعال نے بھی قرآن مجید میں دنیا کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش اور مذمت کی ہے اور فرمایا ہے:
(أُولَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاْ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ یُنصَرُونَ)(4)
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخر ت کو دے کر دنیا خریدلی ہے اب نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
--------------
[1]۔ منشور جاوید:300،الصافی فی تفسیر القرآن:ج 1ص۳۳6
[2]۔ سورۂ آل عمران، آیت:100
[3]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:49
[4]۔ سورۂ بقرہ،آیت:86
پس جب ہم ابتدائے اسلام سے اب تک کی برائیوں اور تخریب کاریوںکی بنیاد کا تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کا اصلی سبب یہودی تھے یا وہ اس میں حصہ دار تھے؛جیسا کہ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:بشریت کو نابود کرنے کے لئے یہودیوں کے بچھائے ہوئے جالوں سے دنیا کو شدید جنگی خطرات لاحق ہیں۔(1)ابتداء سے ہی یہودیوں کی سیاست ایسی ہی رہی ہے کہ جو چیز بھی دنیاوی امور تک رسائی کی راہ میں حائل ہواسے کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے،چاہے اس کے لئے وحشیانہ ترین اور غیر انسانی کام ہی کیوں نہ کرنے پڑیں جیسے انسانوں کو برائیوں اور فحاشی کی طرف دھکیلنا،ان کے درمیان تفرقہ و نفاق ایجاد کرنا یا ضرورت پڑنے پر انہیں اجتماعی صورت میں قتل کر دینا۔اس رو سے یہ کہاجا سکتا ہے کہ روئے زمین پر اکثر خرابیوں کی بنیادصرف یہودی ہی ہیں۔حتی کہ تورات میں تحریف و تبدیلی کے لئےیہودی علماء رضاکارنہ طور پر سامنے آئے اور اس کام کے لئے وہ یہودی حکمرانوں اور سلطانوں سے رشوت لیتے تھے اور ان کی خوشامد اور اپنی دنیا کے حصول کے لئے دین یہود کو اس کے اصلی راہ سے منحرف کرتے تھے اور رسول اکرم(ص) کی صفات کو الگ انداز سے نقل کرتے تھے۔(2)خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
(أَلَمْ تَرَ ِلَی الَّذِیْنَ أُوتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَةَ وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْلَ)(3)کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصہ دے دیا گیا ہے اور وہ( اس سے اپنی اور دوسروں کی ہدایت کے لئے استفادہ کرنے کی بجائے اپنے لئے) گمراہی کا سودا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ سے بہک جا ؤ۔؟!مرحوم طبرسی ذکر کرتے ہیں:یہودی علماء خود بھی بہت زیادہ مال دیتے تھے تا کہ توریت کے ایسے مطالب میں تحریف کریںجو یہودیوں کے لئے مادّی نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ درحقییقت یہودی علماء توریت کے یہ تحریف شدہ مطالب دنیاوی اموال کے مقابلہ میں بیچتے تھے۔(4)
--------------
[1]۔ اسرار سازمان مخفی ہود:8
[2]۔ ابوالفتوح رازی:ج۴ص۳۹6
[3]۔ سورۂ نساء،آیت:44
[4]۔ مجمع البیان ف تفسیر القرآن:ج3ص96
جب یہودیوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو اپنے ناجائز اقتصادی مقاصد کے حصول کی راہ میں حائل دیکھا اور یہ مختلف حربوں سے بھی اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کا بھی منصوبہ بنایالیکن پیغمبر(ص) وحی کے ذریعہ ان کے منصوبے سے آگاہ ہو گئے اور اس جگہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے جہاں وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انہیں اس ناپسندیدہ کام کی وجہ سے تنبیہ کی گئی اور انہیں شہر بدر کر دیا گیا۔(1)
یہودیوں میں آج بھی حب دنیا اور مال پرستی پائی جاتی ہے اور آج ہم اس کے شاہد ہیں کہ وہ دنیاوی مقاصدکے حصول کے لئے ہر قسم کے غیر انسانی اور ناجائزفعل انجام دیتے ہیں چاہے یہ ان کے اپنے دین کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں۔اگراس دن وہ معاشرے میں فساد برپا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو آج بھی استعماری ممالک - جن میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہے-اہم کیمیائی و معدنی موادلوٹ رہے ہیں اور اس کے مقابلہ میں منشیات اور بوسیدہ اسلحہ فروخت کرتے ہیں جو سالوں سے اسٹور میں بے کار پڑا ہوتاہے۔ (2)
....اگر اس دن یہودی دولت حاصل کرنے کے لئے اوس و خزرج میں تفرقہ ڈالتے تھے تا کہ غالب طرف کی حمایت کرنے سے مغلوب کے مال پر قبضہ کیا جا سکے تو آج اس روش کا نیا نمونہ سامنے آیا ہے اور اقوام کے ذخائر تک رسائی کے لئے ہر قسم کی مکاری اور ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں کیونکہ یہودیوں کی نظر میں حق صرف طاقت کا نام ہے اور آزادی خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور صرف طاقت کے ذریعہ ہی سیاست میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔(3)
یہودی ''پروتکل''اور اپنی کمیٹی کی گذارشات میں یوں اعتراف کرتے ہیں:ہم داخلی جنگوں کے ذریعہ اقوام کو کمزور کرتے ہیں جو بعد میں سماجی جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
--------------
[1]۔ السیرة النبویةج: 3ص199-200
[2]۔ چہرۂ یہود در قرآن:6
[3]۔ چہرہ یہود در قرآن:9-8
جو ملک بھی ہماری مخالفت میں کھڑا ہو ہم اس ملک اور اس کے پڑوسی ملک کے درمیان جنگ چھیڑ دیتے ہیں تا کہ وہ اسلحہ کے مقابلہ میں مال دیں ،اسلحہ کی افزائش اور جنگیں ہمارے فائدے میں ہیں۔کیونکہ ایک طرف سے ہم اقوام و ملل کے درمیان اپنے لئے احترام پیدا کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہم نظم اور بے نظمی کے عواملہیں اور دوسری طرح سے ہم ان پر اقتصادی قراردادوں اور مالی عہدو پیمان کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔(2)(1)پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کے بعد کے زمانے میں یہودیوں کی تخریب کاری کا ایک اور سبب ان کے مقام و منصب کو درپیش آنے والا خطرہ تھا۔اس بناء پر یہودیوں نے مختلف زمانوں میں حکومتوں کو اپنے قابومیں کرنے کی کوشش کی ہے۔ان موارد میں سے ایک ان کے ثقافتی اور مطبوعاتی تہوار ہیں جن کے ذریعہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتے ہیں اور اپنے مقام کو مستحکم کرتے ہیں۔اس بارے میں ''آدولف ہٹلر''لکھتا ہے:''.....زہریلے افکار کو پھیلانے والے یہودیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہیں۔ گفتگو کرنے کے لئے ان کے کچھ خاص لہجہ ہوتے ہیں جو ذہنی و فکری مغالطہ پیدا کرنے میں بہت ماہر ہوتے تھے۔سیاسی بحث کے دوران وہ کئی دھوکا دینے والے کلمات جیسے ملت،آزادی،امن و امان کا قیام وغیرہ سے اپنے مقابل کوخارج کر دیتے۔لیکن چونکہ یہ جنگ میں شکست کھانے والے ان افراد کی طرح عاجز و بے بس ہوجاتے تھے جن کے پاس بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہ ہو۔اس لئے یہ خود ہی حماقت وبے وقوفی کرتے۔اگر ان کا کوئی منصوبہ ناکام ہو جاتا تو وہ فوراً نئی منصوبہ بندی میں لگ جاتے ۔ان کے دلائل اتنے بے بنیاد تھے کہ یہ خود بھی اس سے واقف تھے لیکن پھر بھی اس کا خیال نہ کرتے۔یہودی ایک خودغرض،لاپرواہ ،اپنے ملک اور خاندان کی غدارمخلوق ہے۔اگر کسی روز کسی ملک کی زمام ان کے ہاتھوں میں آجاتے اور وہ اسے اپنا مال سمجھنے لگیں تو اس ملک کو دوسرے ملک میں تخریب کاری پھیلانے کا مرکز بنا دیں''(4)(3)
--------------
[1]۔ اسرار سازمان مخفی یہود:68-67
[2]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:110
[3]۔ نبرد من:45
[4]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی :118
یہود یوں کے کچھ کارکن اور ایجنٹ یایہودیوں کے رنگ میں رنگنے والے
۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو
2- ایک دوسرا گروہ
3- ابوہریرہ
4- عبداللہ بن عمرو عاص
5- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی
6- کعب الأحبار
کعب الأحبار اور عمر
کعب الأحبارکے توسط سے معاویہ کے یہودیوں سے تعلقات
یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار
کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف
7- وہب بن منبّہ
وہب بن منبّہ کے عقائد
۱- سلّام بن مشکم وغیرہ یہو
تاریخ اسلام کے منابع میں یہودی سربراہوں میں سے کچھ نام دوسروں سے نمایاںدکھائی دیتے ہیں ۔ جیسے کعب بن اشرف، ابو رافع (سلّام1 بن ابی حقیق) اور ابو حقیق کا خاندان کہ جن میں کعب بن اسد،حیی بن اخطب اور اس کا خاندان، مخیریق، سلّام (1)بن مشکم، عبداللہ بن سلّام، محمد بن کعب قرظی اور کعب الأحبار۔
کعب بن اشرف بنی نضیر کے شاعروں میں سے تھا جو اسلام، مسلمانوں اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف اپنے پروپیگنڈوں اور کوششوں کی وجہ سے آنحضرت کے اصحاب کے ہاتھوں مارا گیا۔حکومت مدینہ کے خلاف تحریکوں میں ابو رافع کا بھی بہت اہم کردار تھا اور آخر میں اسے اسی کی سزا ملی۔ کنانہ بن ربعی بن حُقیق کہ جسے کبھی کنانہ بن ابی حقیق کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جوخیبر کے بزرگوں میں سے تھا اور ان کاصاحب کنز تھا۔(2)وہ خیبرکی جنگ میں مارا گیا۔اس سے پہلے مدینہ کے خلاف جماعتوں کی تحریکوں میں بھی اس کا نام نظر آتا ہے۔حیی بن اخطب، جو پیغمبر اکرم (ص) سے معاہدے پر دستخط لینے کے لئے بنی نضیر کا نمائندہ تھا اور اسلام کے سخت دشمنوں میں سے تھا۔وہ اس قبیلہ کا بزرگ شمار کیا جاتا تھا،عہد وپیمان توڑنے کی وجہ سے اسے مدینہ سے نکال دیا گیا اور وہ خیبر چلا گیا۔جنگ احزاب میں اس نے کعب بن اسد(جو بنی قریظہ کا بزرگ اور رسول اکرم(ص) سے معاہدہ میں مدّ مقابل تھا) سے بہت اصرار کیا اور اسے پیغمبر (ص) سے کئے گئے معاہدے کو توڑنے اور پیغمبر(ص) کے دشمنوں سے مل جانے پر مجبور کیا۔ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ یہ دونوں بنی قریظہ کے واقعہ میں قتل ہو گئے۔
----------------
[1] ۔ منابع میں ان یہودیوں کا نام تشدید کے نقل ہوا ہے اور اگر مؤرخین نے اس کی طرف توجہ نہ بھی کی ہو تو پھر بھی محققین نے اس کی تاکید کی ہے۔ سہیلی''عبداللہ بن سلّام'' کے نام کے ذیل میں کہتے ہیں:چونکہ سلام(تشدید کے بغیر)خدا کے اسماء میں سے ہے اس لئے مسلمانوں میں یہ نام نہیں ہے بلکہ یہودی اس طرح(سلام ، تشدید کے بغیر) نام رکھتے تھے۔ لیکن سہیلی کے قول پر بہت سے اعتراضات ہوئے کہ جن میں سے ایک یہی مورد ہے۔
[2] ۔ آل ابی حقیق کا کنز یہودیوں کے مال کا خزانہ تھا ۔اونٹ کی کھال میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، جو اس خاندان کے بزرگ کے پاس ہوتا تھا۔ مکہ کی شادیوں کے لئے یہ خزانہ کرائے پر دیا جاتا تھا اور کبھی ایک مہینہ کے لئے یہ مکہ والوں کے پاس ہوتا۔''المغازی:ج۲ص6۷۱'
مخیریق وہ تنہا یہودی تھا جسنے اسلام قبول کیا اور اس پر ثابت قدم رہا۔ان کا شماربنی قینقاع کے بزرگوں اور عالموں میں ہوتا تھاجو پیغمبر(ص) سے معاہدے میں یہودیوں کے تیسرے گروہ کے نمائندہ تھے۔جب رسول اکرم(ص) جنگ احد کے لئے مدینہ سے باہر گئے تو مخیریق نے اپنی قوم سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اس لئے ان کی مدد کرنی چاہئے ۔یہودیوں نے کہا:آج ہفتہ کا دن ہے اور وہ ان کے ساتھ نہ گئے۔مخیریق نے اسلحہ اٹھایااور احد پہنچ گئے اور مسلمانوں سے مل کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے:یہودیوں میں سے مخیریق بہترین تھے۔(1) سلّام بن مشکم اگرچہ اسلام کے دشمنوں میں سے تھا لیکن اس کے باوجود اپنے یہودی کیش و علماء کورسول خدا(ص) سے جنگ کرنے اور عہد و پیمان توڑنے سے ہوشیار کرتاتھا اور آنحضرت کی رسالت کا اعتراف کرتا تھا۔(2)غزوۂ سویق میں بھی اس یہودی کا نام ملتا ہے۔بدر کی شکست کے بعد ابو سفیان نے رسول اکرم(ص) سے جنگ کرنے کی نذر کی تھی جس کے لئے وہ مشرکین کے ایک گروہ کے ساتھ چھپ کر مدینہ آیا اور بنی نضیر کے پاس گیا ۔ سلّام بن مشکم نے (جواس وقت بنی نضیر کا بزرگ اور ان کاصاحب کنز تھا )ابوسفیان کی بات مان کر اسے مسلمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مشرکوں نے مدینہ کے اطراف میں انتشار پھیلایا اور وہ ستّوؤںکووہیں چھوڑ کراس جگہ سے چلے گئے۔جب مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا تو انہیں یہی ستّو ملے جو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا زاد راہ تھا اس وجہ سے اسے غزوۂ سویق کہا جاتا ہے۔(3)سلّام بن مشکم مدینہ سے نکل جانے کے بعد خیبر میں زندگی گزارتا تھا۔بنی قریظہ کے واقعہ اور حیی بن اخطب کے مارے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر یہودیوں کی قیادت سنبھالی اور جنگ خیبر میں قتل ہو گیا جب کہ وہ بستر مرگ پر تھا۔(4)
---------------
[1]۔ سیرۂ ابن ہشام:5181،المغازی:ج۱ص۲6۲
[2]۔ المغازی:ج1ص365،368 اور 373
[3]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج2ص44،المغازی:ج1ص181
[4]۔ المغازی:ج1ص530 اورج2ص679
جنگ خیبر کے بعد جس عورت نے رسول اکرم(ص) کو زہر دیا تھا وہ اسی سلّام کی بیوی تھی کہ جس کاباپ اور چچا بھی جنگ میں مارے گئے تھے۔(1)عبداللہ بن سلّام دوسرا یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا لیکن مخیریق کے برعکس آخر میں یہ امویوں کا آلۂ کار اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کا مخالف بن گیا۔یہی موضوع اور اس کا اسرائیلیات سے آگاہ ہونا باعث بنا کہ اس سے نقل ہونے والی روایات یااس کے بارے میں نقل ہونے والی گذارشات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔مثلاً اس کے اسلام لانے کے زمانے کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اس نے ہجرت کے پہلے سال اسلام قبول کیا۔(2)ابن اسحاق نے خود عبداللہ سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے مدینہ میں داخل ہوتے وقت اس نے اسلام قبول کیا کہ جب آنحضرت قبا میں رہتے تھے۔(3)لیکن اس کے اسلام لانے کے بارے میں ایک دوسری خبر یہ ہے کہ اس نے سن آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا۔(4)معاصر مؤرخ جعفر مرتضی عاملی دوسرے قول کو قبول کرتے ہیںاور کہتے ہیں:اس روایت کی طر ف توجہ نہ کرنے کی وجہ اس کے راویوں میں سے ایک کا شیعہ ہونا ہے۔(5)
دوسرا مورد اختلاف موضوع اس کے بارے میں نازل ہونے والی کچھ آیات کا شان نزول ہے ۔ انہیں آیات میں سے ایک سورۂ احقاف میں ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے:'کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا جب کہ بنی اسرائیل کاایک گواہ ایسی ہی بات کی گواہی دے چکا ہے اور وہ ایمان بھی لایا ہے اور پھر بھی تم نے غرور سے کام لیا ہے بیشک اللہ ظالمین کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے ''(6)
--------------
[1]۔ سیرۂ ابن ہشام:ج2ص337 اور 679
[2] ۔ تاریخ خلیفہ:19، دلائل النبوة:ج2ص526۔ بیہقی نے اس کتاب میں ایک مخصوص باب کھولا ہے جس میں عبداللہ کے اسلام قبول کرنے کی روایت کو ذکر کیاہے۔
[3]۔۔سیرۂ ابن ہشام:ج1ص51[4]۔ الأصابہ: ج4ص118[5]۔ الصحیح:ج4ص145
[6]۔ سورۂ احقاف،آیت:10
بہت سی کتابوں میں ہے کہ یہ آیت عبداللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(1)لیکن بعض کہتے ہیں چونکہ سورۂ احقاف مکی ہے اور عبداللہ مدینہ میں اسلام لایا اس لئے اس آیت سے عبداللہ مراد نہیں ہو سکتا۔(2)
علامہ طباطبائی سورہ کے مکی اور آیت کے مدنی ہونے کے اشکال کو ردّ کرتے ہوئے متعدد روایات کی بنیاد پر عبداللہ کو ہی اس آیت کا مصداق سمجھتے ہیں۔نیز وہ ان روایات کو بھی اشکال سے خالی نہیں سمجھتے۔(3)
دوسری آیات جن کا مصداق عبداللہ کو شمار کیا جاتا ہے وہ یہ ہیں:سورۂ آل عمران آیت199، سورۂ رعد آیت43 اور سورۂ شعراء آیت197۔(4) ایسا لگتا ہے کہ اہل کتاب میں سے اسلام لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی(5) اس لئے راویوں اور مفسروں نے اہل کتاب کے ایمان لانے کی طرف اشارہ کرنے والی آیات عبداللہ بن سلّام پر منطبق کی ہیں۔البتہ ان تین آیتوں کے بارے میں دوسروں کے نام بھی لئے گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود شعبی نے کہا ہے:''کوئی آیت بھی عبد اللہ کی شأن میں نازل نہیں ہوئی ہے۔(6) دلچسپ تو یہ ہے کہ ایک رپورٹ میں ان شأن نزول کا راوی بھی خود عبداللہ ہے!
عسقلانی کہتا ہے:جب ابن سلّام عثمان کا دفاع کرنے کے لئے لوگوں سے بات کر رہا تھا تو اس نے اشارہ کیا کہ میرے بارے میں آیۂ''شهد شاهد''اور 'من عنده علم الکتاب'' نازل ہوئی ہے۔(7)
--------------
[1]۔ صحیح البخاری:ج4ص229،الطبقات الکبری:ج2ص269،مجمع البیان:ج5ص126[2]۔ الدر المنثور:ج7ص380
[3]۔ المیزان:ج18ص199 اور 203[4] ۔ ان تین آیتوں کے بارے میں بالترتیب :المغازی:3291،مجمع البیان:4623،الطبقات الکبری:2692
[5] ۔ ابن اسحاق نے صرف مخیریق اور عبداللہ بن سلّام کا نام لیا ہے کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا(سیرۂ ابن ہشام: ج۱ص۵۱6) البتہ کہا جاتا ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ دوسرے افراد نے بھی اسلام قبول کیا۔(سبل الہدی:ج۳ ص۳۷۸) لیکن بہ ہر حال ان کی تعداد کم ہے۔
[6] ۔ الدر المنثور:ج۷ص۳۸۰۔جعفر مرتضی بھی ان قرآنی آیتوں کو عبداللہ پر منطبق کرنے کی مخالفت اور اس روایت کو تقویت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بعید نہیں کہ معاویہ نے ابن سلّام کے لئے فضیلت گھڑی ہو ،بالخصوص آیۂ رعد کے مصداق امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں ۔ وہ کتاب سلیم کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں قیس بن سعد آیت کو حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ اسے عبداللہ سے تفسیر کرتا ہے۔(الصحیح :ج۴ص۱۴۸ اور 150)
[7]۔ الأصابة:ج۴ص۱۲۰
ابن سلّام کے بارے دوسرا قابل توجہ موضوع کچھ روایات ہیں جن میں اسے ''عشرۂ مبشرہ'' (1)میں سے قرار دیا گیا ہے۔(2)
ان متعددروایتوں(جنہیں نقل کرنے کے سلسلہ میں عبداللہ بن سلّام بھی ہے) کے علاوہ جس مورد میں اس کا نام منابع میں نقل ہوا ہے وہ عثمان کے محاصرہ کا واقعہ ہے۔ اس بارے میں مؤرخین کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سلّام نیعثمان کا محاصرہ کرنے والوں کو دور کرنے اور انہیں خلیفہ کا خون بہانے سے روکنے کی کوشش کی۔
عبداللہ کے جواب میں مخاطبین نے کہا:
''اے یہودی زادہ!ان امور سے تمہارا کیا سروکار؟''(3)
ابن شبّہ اپنی کتاب میں عبداللہ کے عثمان سے دفاع کرنے کے بارے میں ایک باب لکھا ہے(4) اور ابن سعد نے عثمان کی حمایت میں اس سے روایات نقل کی ہیں اور لکھا ہے:
عبداللہ بن سلّام نے عثمان کے قتل کے دن کہا:''آج عرب نابود ہوگئے''(5)
یہنومسلمان یہودی ان لوگوں میں ہے جنہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی!(6) اور جو 43 ھ میں اس دنیا سے چلا گیا۔(7)
-------------
[1]۔ وہ دس افراجن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے!
[2]۔ صحیح البخاری: ج۴ص۲۲۹، الطبقات الکبری:ج۲ص۲6۹
[3]۔ انساب الأشراف: ج6ص192 اور 221، تاریخ الطبری:ج3ص452
[4]۔ تاریخ المدینہ:ج2ص1175
[5]۔ الطبقات الکبری:ج3ص59
[6]۔ مروج الذہب:ج2ص361، شرح نہج البلاغہ:94،تاریخ الطبری:ج3ص452
[7]۔ تاریخ خلیفہ:126
2- ایک دوسرا گروہ
ایک دوسرا گروہ کہ رسول اکرم(ص) کو جن کا سامنا تھاور جنہوں نے مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ مشکلات کھڑی کیں، وہ لوگ تھے جنہوں نے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کیا تھا لیکن ان کے دلوں میں اسلام نہیں تھا حتی کہ وہ اسے ختم کرنے کی تاک میں رہتے تھے۔خداوند کریم نے قرآن کی بہت سی آیتوں میں ان کی سختی سے سرزنش کی ہے اور ان کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔
اگر تاریخی شواہد سے استفادہ کیا جائے تو ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے کی اکثریت پہلے یہودی تھی۔ابن اسحاق نے اپنی کتاب کے ایک باب میں یہودیوں کے کچھ علماء کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے ظاہراً تو اسلام کیا لیکن وہ منافقین کا حصہ تھے۔ان افراد میں رفاعة بن زید بن تابوت، زید بن لصیت،عثمان اور نعمان جو اوفی کے بیٹے تھے،رافع بن حریملہ،سعید بن حنیف، سلسلة بن براھام اور کنانة بن صوریا۔(1)
بلاذری نے سوید،داعس، مالک بن ابی نوفل(نوقل) اور لبید بن اعصم کا نام بھی ذکر کیا ہے۔(2)
ان ناموں میں سے زید بن لصیت (لصیب) کا نام سیرت کی اکثر و بیشتر کتابوں میں نظر آتا ہے۔مؤرخین نے کہا ہے:جنگ تبوک میں جب پیغمبراکرم(ص) کا اونٹ گم ہو گیا تو زید نے کہا:محمد(ص) کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور آسمان کی خبر دیتا ہے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ ان کی سواری کہاں ہے۔ رسول خدا (ص)کو اس کی ان باتوں کی خبر ہوئی تو فرمایا:خدا نے جو کچھ مجھے تعلیم دیا میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اب خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اونٹ فلاں جگہ ہے۔مسلمان اسی جگہ گئے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے بتایا تھااور وہاں سے اونٹ لے آئے۔(3)
--------------
[1]۔ سیرۂ ابن ہشام: ج1ص527
[2]۔ انساب الاشراف: ج1ص339 اور 340
[3]۔ تاریخ الطبری: ج3ص370
واقدی نے یہ واقعہ دو جگہ غزوۂ بنی مصطلق اور جنگ تبوک میں ذکر کیا ہے۔(1) جس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ ملتا جلتا واقعہ دوبار پیش آیا ہو۔لیکن اس میں شک نہیں ہے اصل واقعہ ایک ہی بارپیش آیا تھالیکن جب مختلف راویوں نے اسے نقل کیا تو غزوہ کو معین کرنے میں(جس میں یہ واقعہ پیش آیا) ان میں اختلاف اور اشتباہ ہوا۔رفاعة بن زید بن تابوت ( واقدی نے جس کا نام''زید بن رفاعة بن تابوت ''لکھا ہے)کے بارے میںذکرہواہے:غزوۂ مریسیع (بنی مصطلق) سے واپسی پر تند و تیز ہوا چلی جس سے مسلمان خوفزدہ ہو گئے۔رسول خدا(ص) نے فرمایا:ڈرو نہیں۔یہ ہوا مدینہ میں منافقوں کے ایک بزرگ کی موت کی وجہ سے چلی ہے۔جابر بن عبداللہ نے کہا:جب ہم مدینہ پہنچے تو میں نے گھر جانے سے پہلے پوچھا کہ آج کس کی موت واقع ہوئی ہے؟کہا:زید بن رفاعہ۔(2)طبری نے بھی یہ واقعہ غزوۂ مریسیع میں ذکر کیا ہے (3)لیکن جنگ تبوک کا واقعہ بیان کرتے وقت بھی اس کے نام کو دوہرایا ہے۔(4) ابن اسحاق نے اسی سے ملتا جلتا جملہ رسول اکرم(ص) سے رافع بن حریملہ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ جب تند و تیز ہوا چلنا شروع ہوئی تو فرمایا:آج منافقوں کا ایک بڑا مر گیا ہے۔لیکن سیرت کے ایک دوسرے مقام پر اس کا نام ذکر کرکے اسے یہودیوں میں سے شمار کیا ہے جس میں اس کے اسلام لانے اور نفاق کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔(5)
بلاذی نے یہودیوں کے کنیسہ میں منافقین کے آمد ورفت کی خبر دی ہے اور ایک ددوسری جگہ کہا ہے:مالک بن نوفل (جو یہودی عالم تھا) نے اسلام تو قبول کیا لیکن وہ یہودیوں کو رسول خدا(ص) کی خبریں پہنچاتا تھا۔(6)
--------------
[1]۔ المغازی: ج1ص24 اور ج2ص1010
[2]۔ المغازی: ج1ص423، سیرۂ اب ہشام:ج2ص292(کچھ فرق کے ساتھ)
[3]۔ تاریخ الطبری: ج2ص262
[4]۔ تاریخ الطبری: ج2ص367
[5]۔ سیرۂ ابن ہشام: ج1ص527، انساب الأشراف: ج1ص340
[6]۔ انساب الأشراف: ج1ص329 اور 339
گذشتہ ابحاث سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میںیہودی ہونے کی وجہ سے کچھ منافقین کے ان دو گروہوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے۔ بنی قینقاع اور بنی نضیر کے دو حادثوں میں عبداللہ بن ابی(منافقین کا بڑا)کا یہودی دوستوں کو چھڑانے کی کوششوں کو اس مطلب کی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ابن ابی کے ساتھی اور ہم فکریہودیوںمیں سےتھے جن کے نام مؤرخین نے اسی کے ساتھ ذکر کئے ہیں اور جن کے نام پہلے ذکر کئے گئے ہیں۔(1)
3- ابوہریرہ
صحیح بخاری میں ایک طولانی حدیث کے ضمن میں آیا ہے:ابوہریرہ نے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا (ص) کی ملازمت کی۔(2)اسی جگہ ابن مسبب اور ابو مسلمہ کے سلسلہ سے ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا:''میں اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا(ص) کے ہمراہ تھا!''(3)اسی طرح بخاری نے ابوہریرہ تک اپنی سند سے خود اسی سے نقل کیا ہے:لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثوں کی رسول خدا(ص) کی طرف نسبت دیتا ہے حلانکہ میں ہمیشہ آنحضرت کے ساتھ ہوتا تھا کہ شاید میرا پیٹ بھر جائے۔(4)یا خود ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے :میں نے خود کو دیکھا کہ میں بھوک کے مارے رسول خدا(ص) کے منبر اور عائشہ کے حجرے کے درمیان نڈھال گرا پڑا تھا ،جو کوئی بھی آتا میری گردن پہ پاؤں رکھتا اور سوچتا کہ میں پاگل ہوں جب کہ میں پاگل نہیں تھا بلکہ یہ سخت بھوک کی وجہ سے تھا۔(5)
--------------
[1]۔پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:5۲۔
[2]۔ صحیح بخاری:ج1ص24، کتاب العلم، باب حفظ علم
[3] ۔ صحیح بخاری:ج3ص1،کتاب البیوع
[4]۔ صحیح بخاری:ج2 ص197، باب مناقب جعفر بن ابی طالب
[5] ۔ صحیح بخاری:ج4ص175،کتاب اعتصام بہ کتاب و سنت،نیز ملاحظہ کریں: تذکرة الحفّاظ:ج1ص35اور الاصابة: ج4 ص202
گویا اس نے پیغمبر(ص) کے ساتھ اپنی ساری زندگی راستہ میں بیٹھ کر اپنی بھوک کا اظہارکرتے ہوئے اور تھوڑے سے کھانے کی درخواست کرتے ہوئے گزار دی جب کہ اس کا کوئی اور کام نہیں تھا۔اس کا نام نہ تو کسی جنگ میں ملتا ہے اور نہ ہی صلح میں۔البتہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ موتہ میں دشمن کے لشکر سے ڈر کر بھاگ گیا تھا(1)اس کے علاوہ اس کی کوئی اور بہادری نہیں ہے۔!جب معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا اور ناجائز اموی حکومت نے اسلامی معاشرے کی ذمہ داری سنبھالی تو ابوہریرہ کو دوبارہ نئی زندگی ملی اور اس کی معمولی زندگی ایک شاہانہ زندگی میں بدل گئی۔
ابوریّہ لکھتے ہیں:جب حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان یا دوسرے لفظوں میں بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکی اور مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے تو ابوہریرہ بھی اپنے نفس اور اپنی ہواو ہوس کے پیروی کرتے ہوئے معاویہ کے ساتھ مل گیا؛کیونکہ معاویہ کی طرف اسے طاقت،دنیا کا مال،عیش و عشرت اور دنیاوی زندگی کی تمام سہولتیں مہیا تھیں اورحضرت علی علیہ السلام کی طرف تقوی و پرہیزگاری کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
یہ واضح سی بات ہے کہ ابوہریرہ ایسے امور سے بیزار تھا ۔اس بناء پر ابوہریرہ نے اپنا راستہ معاویہ کے دربار کی طرف موڑ دیا تا کہ وہ اس کے رنگ برنگے دسترخوان،تحائف اور قیمتی انعامات سے مستفید ہو سکے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کر سکے۔
وہ ابوہریرہ جو کبھی بھوک کی وجہ سے غش کھا کر دروازے پہ گر جاتا تھا-جیسا کہ اس نے خود کہا ہے-وہ کس طرح بنی امیہ کی دولت،طاقت اور خوش ذائقہ و لذیذ کھانوں کو ہاتھ سے جانے دیتا اور کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جو کی روٹی پرگزارا کر سکتا تھا؟یہ ایسی چیز ہے جو انسانی طبیعت اور نفسانی غرائز کے ساتھ سازگار نہیں ہے سوائے چند گنے چنے افراد کے کہ جنہیں خدا نے لغزشوں سے محفوظ رکھا ہو۔(2)
--------------
[1] ۔ المستدرک:423
[2] ۔ شیخ المضیرة:207 اور 208،و أضواء علی السنّة المحمدیّة:213
بنی امیہ کے برسرکار آنے سے ابوہریرہ ان کے دوستوں اور مبلّغوں کے دائرہ میں آگیا جس نے اپنی زبان اور روایات سے ان کی مدد کی اور اس طرح اسے ان کا لطف،عنایات،تحائف اورلذیذ غذائیں مہیا ہوئیں۔(1) بالخصوص ''مضیرة''(2) جو معاویہ کی بہترین غذا شمار کی جاتی تھی اور ابوہریرہ کووہ غذا اتنی پسند تھی کہ اسے اس نام کا لقب دے دیا گیا اور یہ لقب اس کا لازمہ بن گیا اور ہر زمانے میں اسے ''شیخ المضیرة'' کے نام سے پہچانا جانے لگا۔
محمد عبدہ کہتے ہیں: جب لوگوں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی بیعت کی تو اس کے بعد معاویہ نے خلافت کا دعوی کیا لیکن حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں لذت و شہوت کے پیروکاروں اور مضیرة (جو معاویہ کے کھانوں میں سے ایک تھا) میں دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ کسی نے معاویہ کی طرفداری نہیں کی۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہی وجہ تھی کہ مضیرة کھانے والے معاویہ کی خلافت کی گواہی دیں۔(3)
کہتے ہیں:ابوہریرہ مضیرة کو بہت پسند کرتا تھا اور اسے معاویہ کے دسترخوان پر کھاتا تھا اور جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھتا تھا اور جب بھی اس سے اس بارے میں بات کی جاتی تو اس کے جواب میں کہتا:
''معاویہ کا مضیرة زیادہ لذیذہے اورحضرت علی علیہ السلام کے پیچھےنماز افضل ہے''(4)
--------------
[1] ۔ سید شرف الدین عاملی لکھتے ہیں:امویوں کے خلافت پر آنے کے بعد انہوں ے ابوہریرہ کو زمین سے اٹھا کر اس سے غربت وتنگدستی اور بیچارگی کی خاک جھاڑ دی اور اسے ریشم کا بہترین لباس پہنا دیا۔انہوں نے اسے ریشم اور لیلن کے کپڑے پہنائے اور محلہ عقیق میں اس کے لئے محل بنوایا اور اس طرح انہوں نے اس کے گلے میں نوکری کا طوق ڈال دیااور اس کے نام کو بلند کیا اور اسے مدینہ کی حکومت دے دی۔(ابوہریرہ اور جعلی حدیثیں:50)
[2] ۔ مضیرة گوشت کی ایک قسم ہے کہ جسے کبھی لسّی اور کبھی تازہ دودھ کے ساتھ ملا کر پکاتے ہیں اور پھر اس میں مصالحہ اور دوسری چیزیں ڈالتے ہیں جس سے وہ مزید لذیذ ہو جاتی ہے۔ (شیخ المضیرة:55)
[3]، شیخ المضیرة:57
[4]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:127
4-عبداللہ بن عمرو عاص
اسے مصر میں سونے کے خزانے اپنے باپ عمروعاص سے ارث میں ملے تھے اسی لئے اسے اصحاب پیغمبر(ص) میں سے بادشاہوں میں سے شمار کیا جاتاہے۔(1)
بعض آثار اور تاریخی روایات اس کی حکایت کرتی ہیں کہ وہ رسول خدا(ص) کی احادیث بھی لکھتا تھاحتی کہ ''صادقہ''کے نام سے ایک صحیفہ کو بھی اس سے نسبت دی جاتی ہے کہ جس میں اس نے پیغمبر اکرم(ص) کی حدیثوں کو جمع کیا ۔(2)
بخاری نے بھی کتاب علم میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی نے بھی مجھ سے زیادہ پیغمبر اکرم(ص) سے حدیثیں نقل نہیں کی ہیں مگر عبداللہ بن عمرو کہ وہ جو کچھ بھی سنتا اسے لکھ لیتا لیکن میں لکھتا نہیں تھا۔اسی طرح کہتے ہیں: اس نے سریانی زبان بھی سیکھی تھی جو تورات کی اصلی زبان ہے۔طبقات ابن سعد میں شریک بن خلیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:میں نے عبداللہ کو سریانی زبان کی کتابوں کا مطالعہ کر تے ہوئے دیکھا۔(3)
عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت
مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ سن تیرہ ہجری میں ابوبکر نے شام کو فتح کرنے کے لئے ایک لشکر کو اس کی طرف بھیجا اور فوج کے ایک گروہ کی کمانڈ عمرو بن عاص کو دی۔
کہتے ہیں:عمرو کا بیٹا یعنی عبداللہ بھی اس جنگ میں شامل تھا اور ''یرموک''کی سرزمین پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو شدید جنگ ہوئی اس میں عبدااللہ اسی لشکر کا علمدار تھا جس کی کمانڈ اس کے باپ کے پاس تھی۔(4)
--------------
[1] ۔ تذکرة الحفّاظ: ج1ص4۲
[2] ۔ طبقات ابن سعد: ج4ص261 اورج 5 ص189 ''اسرائیلیات و أثرھا ف کتب التفسیر''سے اقتباس:145
[3] ۔ طبقات ابن سعد: ج4ص261''اسرائیلیات و أثرھا ف کتب التفسیر''سے اقتباس:146
[4] ۔ اسد الغابة: ج3ص243
عبداللہ کے لئے جنگ ''یرموک''کے دوران پیش آنے والے واقعات میں ایک اسے دوبار اہل کتاب کی کتابوں سے لدے اونٹوں کا ملنا تھا۔(جو اہل کتاب کے معارف سے اس کی آشنائی پر بہت اہم اثر رکھتا ہے)وہ ان غنائم کا بہت خیال رکھتا تھا اور مسلمان کے لئے ان کے بہت سے مطالب نقل کرتا تھااسی وجہ سے تابعین سے پہلے کے افراد عبداللہ سے احادیث نقل کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔(1)
وہ مسلمانوں کے لئے ان کتابوں کے مطالب بیان کرنے میں اتناافراط کرتا تھا کہ بعض اسے واضح الفاظ میں کہتے تھے کہ ان دوکتابوں کے مطالب بیان کرنے سے پرہیز کرے۔
احمد بن حنبل کا اپنا قول اس کی اپنی مسند میں اس مدّعا پر بہترین شاہد ہے:اس نے نقل کیا ہے کہ ایک دن کوئی شخص عبداللہ کے پاس آیا اور اس سے کہا:تم نے رسول خدا(ص) سے جو سنا اس میں سے کچھ میرے لئے نقل کرو ،نہ کہ اونٹوں کے اس وزن سے کہ جوفتح ''یرموک''میں تمہارے ہاتھ لگا''(2)
ابی سعد سے ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ میں عبداللہ عمرو کے پاس گیا اور اس سے کہا: ''تم نے رسول خدا(ص) کی احادیث سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے نقل کرو نہ کہ تورورات و انجیل سے''(3)(4)
--------------
[1] ۔ فتح الباری: ج1ص167'' أضواء علی السنّة المحمدیّة'' سے اقتباس:164،نیز دیکھیں: تذکرة الحطّاظ: ج1ص42
[2]۔ مسند احمد بن حنبل: ج2ص195،202،203،209.نیز ملاحظہ کریں:تفسیر ابن کثیر: ج3 ص102
[3] ۔ مسند احمد بن حنبل: ج11ص78،79،173
[4] ۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:138
5- مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی
اموی قاضیوں میں سے ایکمسروق بن اجدع کوفی ہے۔وہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا اور آنحضرت پر سبّ و شتم کرنے میں افراط اور زیادہ روی کرتا تھا۔جب بھی شریح کوفہ میں نہ ہوتا تو وہ کوفہ میں قضاوت کا منصب سنبھالتا تھا۔کتاب'' بازتاب تفکر عثمانی''میں اس کے بارے میں بہت اہم مطالب بیان کئے گئے ہیں:
''مسروق بن اجدع ہمدانی کوفی(م63):(1)
اجدع یعنی کٹی ناک والا اور یہ شیطان کا نام بھی ہے۔عمر نے اسے عبدالرحمن سے بدل دیا تھا۔(2) یہ عبداللہ بن مسعود کے خاص پانچ صحابیوں میں سے ہے اور بعض کے مطابق ان پانچ افراد میں سے یہ پہلا ہے۔(3)وہ فقہا و مفسّرین تابعی،آٹھ زاہدوں اور کوفہ کے عابدوں میں سے ہے۔(4)وہ اپنے گھر والوں کے کھانے کا انتظام نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا:خدا رزق و روزی دینے والا ہے۔(5)اس کا شاگرد شعبی کہتا ہے:مسروق فتویٰ کے لحاظ سے شریح قاضی سے اعلم تھا اور شریح مسروق کے ساتھ مشورہ کرتا تھا لیکن مسروق شریح سے بے نیاز تھا۔علقمہ کے بعد کوفہ میں امام المفسّرین تھا۔(6) ذہبی نے بھی اسے تفسیر میں امام اور قرآن کے مفاہیم کا علم رکھنے والا عالم قرار دیا ہے!۔(7)
--------------
[1] ۔ اس کے تفصیلی حالات زندگی الطبقات الکبری: ج6ص76،تہذیب التہذیب:ج10ص100 اور ارموی کی کتاب الغارات:ج2ص702 ح909 میں ذکر ہوئے ہیں۔کہا گیا ہے کہ وہ بچپن میں گم ہو گیا تھا اور جب ملا تو اس کانام مسروق رکھ دیا گیا۔ (قاموس الرجال:ج10ص53)
[2]۔ الطبقات الکبری:ج6ص76
[3] ۔ الطبقات الکبری:ج6ص76،تاریخ بغداد:ج13ص233-234،تہذیب التہذیب:ج10ص100-101
[4] ۔ کتاب الثقات:ج5ص456،اختیار معرفة الرجال:ج1ص315۔البتہ ابو مسلم خولانی شامی کی طرح اس کے زہد و تقوی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ریا اور لوگوں میں مقام حاصل کرنے لئے تھا۔(ر.ک:رجال ابن داود:278)
[5]۔ الطبقات الکبری:ج6ص79-[6]۔ الطبقات الکبری:82
[7]۔ التفسیرو المفسرون(ذہبی):ج1ص120
قادسیہ میں وہ ابطال میں سے تھا(1) اور عثمانی تھا،(2) جو کوفہ کے لوگوں کو عثمان کی مدد کرنے کی دعوت دیتا تھا(3)۔ان کے علاوہ مسروق اپنی تبلیغ اور باتوں سے ابووائل کو بھی عثمانی مذہب کی طرف لے گیا جس کا تعلق پہلے علوی مذہب سے تھا۔(4)وہ اور اسود نخعی عائشہ کے پاس جاتے تھے اور آنحضرت کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہو جاتے تھے۔(5)مرّۂ ہمدانی اور وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے اپنی عطا لینے کے بعد قزوین کی طرف بھاگ گئے۔(6)مسروق ،امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا تھا اور آنحضرت کے مدّ مقابل آجاتاحتی اس کی بیوی کہتی تھی کہ مسروق ،امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے میںزیادہ روی کرتا ہے۔اس کاان تین افراد(مسروق،مرّہ اور شریح)میں شمارہوناہے جن کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر اعتقاد نہیں تھا۔(7)اس بناء پر اس نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کی اور جب اس سے پوچھا گیا:اے مسروق!تم نے علی علیہ السلام کی جنگوں میں شرکت نہیں کی؟
اس نے کہا:اگر دو صفوں کو ایک دوسرے کے برابر میں دیکھو تو اس وقت فرشتہ نازل ہو گا اور کہے گا:(وَلاٰتَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰهَ کٰانَ بِکُمْ رَحِیْماً)(8)کیا یہ تمہارے لئے مانع نہیں ہو گا؟!کہا:کیوں ؟مسروق نے کہا:خدا کی قسم ایسا فرشتہ(جبرئیل)نازل ہو ا اور ایسی آیت پیغمبر پر نازل کی اور یہ آیت محکمات میں سے بھی ہے کہ جو نسخ بھی نہیں ہوئی!۔(9)
--------------
[1]۔ الطبقات الکبری:ج6ص76[2]۔ تاریخ الثقات:ج1ص460[3]۔ تاریخ الطبری:ج3ص388
[4]۔ تاریخ الثقات:ج1ص461[5]۔ الغارات:ج2ص563
[6]۔ المسترشد:157
[7]۔ شرح نہج البلاغہ:ج4ص98۔شعبی کو چوتھا شخص شمار کیا گیا ہے۔
[8]۔ سورۂ نساء،آیت:29
[9] ۔ الطبقات الکبری:ج6ص78۔اس بناء پر مسروق کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جنگوں میں شریک ہونے والی روایت صحیح نہیں ہو سکتی کہ جس کی طرف ابن حجر نے (تہذیب التہذیب:ج10ص101میں) اشارہ کیا ہے۔
ایک روایت جو یہ بیان کر رہی ہے کہ اس نے یہ بات صفین میں دو لشکروں کے درمیان میں کہی اور یہ بات کہہ کر بھاگ گیا۔(1)اس رو سے علامہ شوستری نے اس روایت کو ردّ کیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ مسروق نے نہروان میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا ساتھ دیا اور فرض کریں کہ اگر اسے مان بھی لیا جائے تو اس میں کہا گیا ہے کہ حتی اموی بھی خوارج سے جنگ کو صحیح سمجھتے تھے۔اور مسروق کے ماضی اور اس کے مقام کو دیکھتے ہوئے اس موضوع میںاس کے لئے کوئی مثبت نکتہ نہیں ہے۔اس روایت میں مزیدکہا گیا ہے کہ عائشہ اسے اپنا منہ بولا بیٹا کہتی تھی ،یہ اس کی خباثت کی دلیل ہے۔(2)
امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی نسبتاس کا ایسا مقام تھااور وہ کچھ زمانے تک معاویہ کے لئے کام(ٹیکس وصول کرنے والا)کرتا رہا اور اور کچھ زمانے تک قاضی رہا اور اسی منصب پر اس دنیا سے چلا گیا۔(3)
وہ کہتا تھا:زیاد ،شریح اور شیطان نے مجھے اس طرف آنے پر مجبور کیا ہے(4) اوراگر کبھی زیاد ، شریح قاضی کو اپنے ساتھ بصرہ لے جاتا تھا تو مسروق کوفہ میں قضاوت کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔(5)
یہ واضح سی بات ہے کہ ایسی سیاسی سوچ کے ہوتے ہوئے ایسے شخص کی قیام کربلا کے بارے میں کیا رائے ہو گی؛اسی وجہ سے وہ عبداللہ بن زیاد کا کارندہ تھا۔(6)مسروق 63ھ میں کوفہ میں دنیا سے چلا گیا (7)اور اس نے وصیت کی تھی کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے!۔(8)(9)
--------------
[1]۔ الطبقات الکبری:ج6ص78
[2] ۔ قاموس الرجال:ج10ص52البتہ علامہ شوستری نے یہ روایت مسروق بن اجدع ابو عائشہ کوفی کے ذیل میں بیان کی ہے اور یہ وضاحت کی ہے کہ جو یہ نام دو اشخاص کے لئے سمجھتے ہیں انہوں نے مکمل طور پر غلطی کی ہے۔
[3] ۔ الطبقات الکبری:ج6ص83-84۔اختیار معرفة الرجال:ج1ص315اس کی قبر دریائے دجلہ کے کنارے رصافہ کے مقام پر ہے۔
[4]۔ الطبقات الکبری:836،تاریخ الاسلام:ج5ص240-[5]۔ تاریخ خلیفة بن خیّاط:173-[6]۔ المسترشد:157
[7] ۔ الطبقات الکبری:ج6ص84، تاریخ الثقات:ج1ص461،تاریخ یحیی بن معین:233،کتاب الثقات:ج5ص456، تہذیب التہذیب: ج10ص101
[8]۔ المسترشد:157-[9]۔ بازتاب تفکر عثمانی در واقعۂ کربلا:218
جو لوگ حقیقت کی جستجو کر ہے ہیں اور تاریخ کے صفحات میں سے حقائق جانناچاہتے ہیں ،انہیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔
جو شخص پہلے یا دوسرے مقام پر پورے ملک میں قضاوت کے فرائض انجام دے رہا ہو ،وہ کس طرح یہ وصیت کر سکتا ہے کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے؟!
کیا اس سے بلند منصب کے لوگوں کے یہودیوں سے تعلقات نہیں تھے؟!کیا یہودیوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت کرنا کسی ایسے شخص کی طرف سے نہیں تھی کہ جس کا ظاہراً تو قضاوت کے لئے مذہبی چہرہ تھا لیکن اس کی آڑ میں وہ یہودیوں کی تبلیغ و ترویج کررہاتھا؟!
کیوں بنی امیہ کی حکومت کے بزرگوں سے ایسے شرمناک کام سرزد ہواکرتے تھے؟
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ جب لوگوں کو ان کی کالی کرتوتوں کا علم ہونا چاہئے اور کیا انہیں یہ نہیں جاننا چاہئے کہ وہ خلافت کو غصب کرنے والے تھے نہ کہ دیانتدار راہنما؟!
مسروق نے اپنی اس وصیت کے علاوہ کہ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے،اپنی وصیت کی توجیہ میں ایسی بات جو اس کی وصیت سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔اس نے کہا:وہ اس حال میں اپنی قبر سے نکلے گا کہ وہاں اس کے علاوہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔!
مسروق ابن زیاد کے لشکر کا لیڈر تھا۔(1)
مسروق ان کوفیوں میں سے تھا جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو طعنہ دیتے تھے۔(2)
--------------
[1]۔ المسترشد:
[2]۔ المسترشد:207
جب کہ مسروق نے عائشہ سے نقل کیا ہے:یا رسول اللّٰه؛ من الخلیفة من بعدک
قال:خاصف النعل قالت:من خاصف النعل قال:انظر ،فنظرت فاذا علی بن ابی طالب علیهما السلام
قالت :یا رسول اللّٰه؛ذاک علی بن ابی طالب قال :هو ذاک
عائشہ نے رسول خدا(ص) سے پوچھا:آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا؟
فرمایا:جو اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے۔
عائشہ نے پوچھا:کون اپنے جوتے کو ٹانکا لگا رہاہے؟
فرمایا:دیکھو،جب میں نے دیکھا تو علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔
میں نے کہا:اے رسول خدا!وہ علی بن ابی طالب ہیں!
فرمایا:وہ میرا خلیفہ ہے۔(1)
ابن مغازی نے کتاب''المناقب:55'' پر نقل کیا ہے کہ عائشہ مسروق کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتی تھی اور اسے کہتی تھی:تم میرے بیٹے ہو اور ان میں سب سے زیادہ عزیز ہو.۔ مسروق نے عائشہ سے کہا:ماں میرا تم سے ایک سوال ہے تمہیں خدا ،رسول خدا(ص) اور میرے حق (کیونکہ میں تمہارے بیٹوںجیساہوں) کی قسم !تم نے رسول خدا(ص) سے مخدج کے بارے میں کیا سنا کہ جو جنگ نہروان میں مارا گیا تھا؟عائشہ نے کہا:میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:
هم شرّالخلق والخلیقة، یقتلهم خیرالخلق والخلیقة، وأقربهم عند اللّٰه وسیلة۔(2)
وہ بدترین انسان اور دنیائے خلقت کی بدترین مخلوق ہے،انہیں بہترین انسان اور دنیائے خلقت کی بہترین مخلوق قتل کرے گی۔
--------------
[1]۔ المسترشد:622
[2] ۔ المسترشد:281
6- کعب الأحبار
یہودیوں نے دین اسلام کو نابود کرنے اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام سے مقام خلافت کو چھیننے کے لئے نہ صرف معاویہ کے دور حکومت میں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی معاویہ کی حمایت میں کھڑے ہوئے اورانہوں نے معاویہ کو عثمان کے بعد خلیفہ کے طور پرپہچنوایا۔معاویہ کو برسر اقتدار لانے کے لئے یہ منصوبہ بندی و حمایت اس وقت کی جارہی تھی۔اگر لوگوں میں عثمان کے بعد خلافت کے بارے میں بات ہوتی تو لوگ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت و حکومت کی حمایت کرتے اور اسی لئے عثمان کے قتل ہونے کے بعد لوگوں نے آنحضرت کی خلافت کا انتخاب کیا۔لیکن کچھ عوامل اور یہودی کٹھپتلیاں اسی وقت سے ہی معاویہ کی حکومت کا دم بھرتے تھے اور اس کام سے لوگوں کے افکار بنی امیہ(جو دین اسلام کے دیرینہ دشمن تھے) میں سے معاویہ کی طرف موڑنا چاہتے تھے تا کہ خاندان پیغمبر علیہم السلام کو حکومت نہ ملے اور کسی ایسے کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ دوڑ ہو جس کی اسلام سے دیرینہ دشمنی ہو۔جن افرادنے ایسے افکار کو پھیلانے کی بہت زیادہ کوشش کی ان میں سے ایک کعب الأحبار تھا۔محمود ابوریّہ کعب اور اس کی سازشوں کے بارے میں لکھتے ہیں :عثمان کے زمانے میں فتنہ کی آگ بھڑکنے کے بعد عثمان بھی آگ کے ان شعلوں کی لپیٹ میں آگیا اور اسے اسی کے گھر میں قتل کر دیا گیا،اس چالاک کاہن نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پوری طاقت سے فتنہ کی آگکوبھڑکایا اور جس قدر ہو سکا اس نے اپنی مختلف سازشوں سے استفادہ کیا۔ اس واقعہ میں جس مکروفریب سے استفادہ کیا اورکھل کر یہودی مزاج گری کا اظہار کیا وہ یہ تھا کہ اس نے یہ دعوی کیا کہ عثمان کے بعد معاویہ ہی خلافت کے لائق ہے۔(1)وکیع نے اعمش اور اس نے ابو صالح سے روایت کی ہے(2)کچھ لوگوں کے درمیان عثمان کے بعد خلیفہ کی بات چلی تو ''الحادی''نام کے شخص نے اپنے شعر کے ضمن میں اس بارے میں یوں کہا:
-----------------
[1]۔ أضواء علی السنة المحمدیّة:180
[2] ۔ رسالة النّزاع والتّخاصم فیما بین بن امیّة و بنی هاشم(مقریزی):51،أضواء علی السنة المحمدیّة سے اقتباس:180،نیز ملاحظہ فرمائیں:تاریخ طبری:ج4ص342 اور الکامل: ج3ص123
انَّ الأمیر بعده علّی و فی الزّبیر خلق رضّی
بیشک اس کے بعد علی امیر ہیں اور زبیر بھی اچھے اخلاق کامالک ہے۔
کعب الأحبار (جو اس جلسہ میں موجود تھا) نے کہا:''بل هو صاحب البغلة الشهباء'' یعنی اس کے بعد خلیفہ وہ ہے جو خاکی رنگ کی سواری کا مالک ہے (یعنی معاویہ)۔ کیونکہ معاویہ کو بعض اوقات اس طرح کی سواری پر سوار دیکھا جاتا تھا۔
یہ خبر معاویہ تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا اور کہا:اے بو اسحاق!علی علیہ السلام،زبیر اور اصحاب محمد(ص) کے ہوتے ہوئے تم یہ کیا بات کر رہے ہو؟کعب نے کہا:بلکہ تم خلافت کے مالک ہو!اور شاید اس نے مزید یہ کہا ہو کہ میں نے یہ پہلی کتاب(تورات ) میں پڑھا ہے۔!(1)
کعب الأحبار اور عمر
کعب الأحبارکہ جس کا نام کعب بن ماتع تھا اور جس کا تعلق یمن اور قبیلۂ حمیر سے تھا۔ اس نے عمر کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور مدینہ آ گیا۔ عمر کے نزدیک اس کا صحابہ بلکہ صحابہ سے بڑھ کر مقام تھا۔(2)عمر کو اہل کتاب سے علم حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے پیغمبر(ص) اس پر ناراض ہوئے تھے۔(3)لیکن اپنی خلافت کے زمانے میںاس نے اپنی یہ خواہش پوری کی اور نئے مسلمان ہونے والے اہل کتاب حضرات سے زیادہ استفادہ کیا۔ اسی وجہ سے وہ کعب کو اپنے پاس لے گیااوروہ مختلف موضوعات کے بارے میں اس سے سوال پوچھتا تھا۔ابن ابی الحدید نے کعب کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منحرفین میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت کعب کو جھوٹا کہتے تھے۔(4) (کعب الأحبار)جو 32ھ میں شہرحمص میں ہلاک ہو ا(5)
--------------
[1]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:92
[2] ۔ کعب الأحبار اور دوسرے خلیفہ کے قریبی تعلقات کے بارے میں تاریخ سیاسی اسلام: ج2ص89 کے مابعد ملاحظہ کریں۔
[3]۔ المصنف:ج6ص112
[4]۔ شرح نہج البلاغہ: ج 4ص77، کعب پر ابوذر کے اعتراض کے بارے میں بھی وہی منبع: ج3ص54
[5]۔ الطبقات الکبری:ج7ص309
صدیوں سے مورد وثوق اور قابل اطمینان تھا اور تفسیری و تاریخی کتابیں اس کی روایات سے بھری پڑی ہیں ،لیکن دور حاضر میں جدید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابہامات و اشکالات کے ضخیم پردے کے پیچھے کعب الأحبار کا چہرہ ہے جس نے اہلسنت کی دین شناس اور علماء رجال کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(1) چاند اور سورج کی خلقت کے موضوع میں طبری نے کعب سے منقول اسرائیلیات کے کچھ نمونے بیان کئے ہیں۔اس رپورٹ میں ابن عباس کعب کی باتوں پر نارض ہوئے اور تین مرتبہ کہا: کعب نے جھوٹ بولا ہے، اور اس کے بعد مزیدیہ کہا:یہ بات یہودیوں کی ہے جسے کعب اسلام میں داخل کرنا چاہتا ہے۔(3)(2)
عمر کا کعب سے مشوہ لینا صرف دینی واعتقادی امور میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ کچھ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے سیاسی و حکومتی نقطۂ نظر کے پیچھے بھی جناب کعب کے مشورے شامل تھے۔! امالی میں ابوجعفر محمد بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:عمر نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں جب اس پر ناتوانی حاکم ہو گئی اور وہ لوگوں کے امور چلانے سے عاجز ہو گیا تو وہ خدا سے موت کی دعا کرتا تھا۔ایک دن جب میں اس کے پاس موجود تھا ، اس نے کعب الأحبار سے کہا:مجھے میری موت نزدیک دکھائی دے رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے بعد خلافت کسی ایسے کو سونپ کر جاؤں جو اس مقام کے لائق ہو۔علی علیہ السلام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟اس بارے میں تمہیں اپنی کتابوں میں کیا کچھ ملا ہے کیونکہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے تمام واقعات تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہے!
کعب نے کہا:میرے خیال میں علی علیہ السلام اس کام کے لائق نہیں ہیں!کیونکہ وہ شخص دین پر استوار ہے اور کسی بھی غلطی سے چشم پوشی نہیں کرتا اور اپنے اجتہاد پر بھی عمل نہیں کرتا،اس طریقۂ کار سے وہ لوگوں پر حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن مجھے اپنی کتابوں میں جو کچھ ملا وہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے بیٹوں کو حکومت نہیں ملے گی اور اگر انہیں حکومت مل بھی گئی تو شدید افراتفری پھیلے گی!
--------------
[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام:ج2ص89
[2]۔ تاریخ الطبری:ج1ص44اور 51
[3]۔ پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:45
عمر نے پوچھا:کیوں؟
کعب نے کہا:چونکہ اس نے خون بہایا ہے!اور خدا نے ایسے افراد پر حکومت کو حرام قرار دیاہے! جس طرح داؤد نے جب بیت المقدس کو بنانے کا ارادہ کیا تو خدانے اس سے فرمایا:تم اس کام کے لائق نہیں ہو کیونکہ تم نے خون بہایا ہے؛بلکہ یہ کام سلیمان کے ذریعہ انجام پائے گا!
عمر نے کہا:لیکن کیا علی علیہ السلام نے یہ خون حق پر نہیں بہایا؟
کعب نے جواب دیا:اے امیرالمؤمنین!لیکن کیا داؤدنے بھی وہ خون حق پر نہیں بہایا تھا؟!
عمر نے کہا:پس مجھے یہ بتاؤ کہ حکومت کسے ملے گی؟کعب نے کہا:ہمیں یہ ملتا ہے کہ صاحب شریعت اور ان کے دو صحابیوں کے بعد حکومت انہیں ملے گی جن کے ساتھ پیغمبر(ص) نے اصل دین پر جنگ کی ہے (یعنی اموی)۔ یہ سننے کے بعد عمر نے کئی بار آیت استرجاع پڑھی اور ابن عباس کی طرف دیکھ کر کہا:میں نے اسی سے ملتے جلتے مطالب رسول خدا(ص) سے سنے ہیں کہ آپ نے فرمایا:بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیںگے،میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے منبر پر بندر بیٹھے ہیں اور ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:(وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ)۔(2)(1)
یہ واقعہ کئی اعتبار سے قابل غور ہے: اس واقعہ سے کعب کی امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے شدید دشمنی اور بغض کا پتہ چلتا ہے اور اس کی دلیل بھی بہت ہی واضح ہے کیونکہ جزیرة العرب میں آنحضرت ہی کے طاقتوار ہاتھوں سے یہود کی شان و شوکت خاک میں ملی اور کعب یہ جانتا تھا کہ اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت و رہبری ملی تو ہمیشہ کے لئے یہودیوں کانام ونشان مٹ جائے گا۔اسی وجہ سے کعب کی یہ شدید خواہش تھی کہ خلافت امویوں کو ملے کیونکہ ان کے لئے اسلام کی تقدیر کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ان کا ہدف و مقصد صرف دنیا ہے۔(4)(3)
-------------
[1]۔ سورۂ اسراء،آیت:60-[2]۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج12ص81
[3]۔ شیعہ و تہمت ھای ناروا:67-[4]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:90
کعب الأحبارکے توسط سےمعاویہ کے یہودیوں سے تعلقات
ایک روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے کعب سے کہا:مجھے توریت کے سب سے بڑے علماء کے بارے میں بتاؤتا کہ میں تمہارے مطالب کے ساتھ ان کے مطالب بھی سنوں۔
کعب نے یمن کے ایک شخص کا نام لیا ۔ معاویہ نے اسے بلایا اور پھر دونوں کو حاضر کیا۔کعب نے اس شخص سے کہا: تمہیں اس کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی کے لئے دریامیں شگاف کر دیا؛کیا تم نے آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھ کر کہا:
پروردگارا!میں محبت کی جانے والی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جو بہترین امت ہے اور جو لوگوں میں سے لوگوں کے لئے ہی آئی ہے،وہ ملت نیک کاموں کی دعوت دے گی اور برے کاموں سے روکے گی، اس کا پہلی کتاب (توریت) اور آخری کتاب(قرآن) پر ایمان ہے(1) اور وہ گمراہوں سے جنگ کرے گی اور اعور کذاب کے ساتھ بھی اس کا تنازع ہو گا ۔ خدایا! انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔ اس دانشور نے کہا:کیوں نہیں ؛ میں نے یہ موضوع دیکھا ہے۔
کعب نے اس سے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی کی آسمانی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:
پروردگارا! میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں کہ جب وہ بلند جگہ پہنچے تو تکبیر کہے گی اور جب صحرا میں پہنچے تو خدا کی عبادت کرے گی،زمین کو اس کے لئے مطہر قراد دیا کہ اگر پانی نہ ملے تو جنابت سے تیمم کے ذریعہ پاک ہو سکتے ہیں،وہ جہاں بھی ہوں ان کی مسجد وہیں ہوگی ،وضو سے ان کے چہرے منور ہوں گے، خدایا!انہیں میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔
--------------
[1]۔ سیرة الحلبیّہ کی پہلی جلد کے صفحہ 217 کی طرف رجوع فرمائیں۔
اس نے کہا:جی ہاں ؛میں نے یہ دیکھا ہے۔
کعب نے کہا:تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:
پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوںکہ جب ان میں سے کوئی ایک کسی نیک کام کرنے کا ارادہ کرے اگرچہ اس پر عمل نہ بھی کرے تو اسے دس سے سات سو تک اجر دیا جائے گا اور اگر کوئی برا کام کرنے کا ارادہ کرے تو جب تک اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے انجام دے تو اس کے لئے صرف ایک گناہ لکھا جائے گا ۔ خدایا! اسے میری امت قرار دے اور خدا نے فرمایا:وہ محمد کی امت ہے۔
مذکورہ دانشور نے کہا: ہاں؛ میں نے یہ دیکھا ہے۔
کعب نے کہا: تمہیں اس خدا کی قسم دیتا ہوںجس نے موسی کے لئے دریا میں شگاف کر دیا ؛کیا تم نے موسی پر نازل ہونے والی کتاب میں یہ نہیں دیکھا کہ موسی نے توریت کی طرف دیکھا اور کہا:
پروردگارا!میں ایسی امت کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے صدقات اور کفّارہ کھاتی ہے اور انہیں اپنے فقراء کو دیتی ہے ، اور جیسا کہ دوسری امتیں انہیں جلا دیتی تھیںوہ ایسا نہیں کرتے؟
دوسری حدیث کے اس حصہ میںذکر ہواہے کہ :جو اپنی قربانی کو کھا سکتے ہیں اور قربانی کے گوشت سے مراد عید قربان وغیرہ ہیں۔(1)
--------------
[1]۔ نهایة الأرب:ج1ص126
یہودی اور تغییر قبلہ اور کعب الأحبار کا کردار
قبلہ کابیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہونایہودیوں کے غضبناک کا بہت اہم سبب تھا۔ یہودی بیت المقدس کا بڑا احترام کرتے تھے اور وہ کسی بھی سرزمین کو اس کے مقابلہ میں لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔قبلہ کا تبدیل ہونا ان کے لئے بہت ہی اہم اور انہیں غضبناک کرنے والا امر تھا۔
اس واقعہ سے ان کو اتنی شدید نفرت تھی کہ وہ بعد کی صدیوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں اپنے غصہ کا اظہار کرتے رہے۔
اسی وجہ سے بعض غاصب اموی خلفاء یہودیوں کا دل خوش کرنے اور اسلام و مسلمین کو شکست دینے کے لئے کوشاں رہے کہ بیت المقدس کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت دے دی جائے اور وہ معنوی اعتبار سے مسجد الحرام کے برابر یااس سے بھی افضل و برتر ہو جائے۔
اس بارے میں غاصب اموی خلفاء میں سے جس نے سب سے زیادہ کوشش کی وہ عبدالملک تھا۔عبدالملک نے اس راہ میں جن عوامل کی وجہ سے کوشش کی ان میں سے ایک یہ ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے اس کے دورحکومت میں قیام کیا تھا اور اموی خلیفہ سے مکہکو چھینلیا تھا ۔عبدالملک لوگوں کو خانۂ خدا کی طرف جانے سے روکنے کے لئے یہ کوششیں کر رہا تھا کہ ان کے لئے بیت المقدس کی عظمت کو زندہ کرے تا کہ لوگ مکہ میں جانے اور وہاں خانۂ خدا کی زیارت کرنے سے گریز کریں اور انہیں بیت المقدس کی طرف کھینچا جا سکے۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء سیاست کی وجہ سے مذہبی حقائق کو تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔اس بناء پر اگر وہ اسلام اور دین کے نام پر حکومت کا دم بھرتے تھے تو اس کی وجہ دینی اعتقادات نہیں بلکہ سیاست اور طاقت کا حصول تھا۔
کتاب''پیغمبر(ص)و یہود و حجاز''میں لکھتے ہیں:
تغییر قبلہ سے یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو استقلال ملنے کے علاوہ عربوںکے اسلام کی طرف آنے میں بھی مدد ملی ۔ چونکہ وہ کعبہ کی بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے۔ اگرچہ مسلمان تغییر قبلہ سے پہلے بھی کعبہ کو اہمیت دیتے تھے اوراس بارے میں قرآن کی کچھ آیات بھی موجود ہیں ۔ یہ واقعہ یہودیوں اور مسلمانوں میںجدائی کا پہلا مرحلہ شمار کیا جاتا ہے جس سے اس قوم (جو اسلام اور پیغمبر(ص) کی برتری کا اعتراف کرتی تھی) کے بغض میں مزید اضافہ ہوا۔
تاریخ اسلام میں یہودیت سے اسلام لانے والے مسلمان بیت المقدس کو کعبہ پر برتری دینے کی کوشش کرتے رہے کہ جن کی کتابیں اسرائیلیات سے بھری پڑی ہیں۔کعب الأحبار نے ایک حدیث گھڑی کہ جس میں آیا ہے: کعبہ ہر صبح بیت المقدس پر سجدہ کرتا ہے۔
امام باقر علیہ السلام نے اس بات کوجھوٹ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:خدا کے نزدیک روئے زمین پر کعبہ سے زیادہ محبوب کوئی جگہ نہیں ہے۔(1)
غاصب اموی حکمران اپنے سیاسی اہداف سے استفادہ کرنے کے لئے ایسی ہی روایات سے استفادہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب مکہ عبداللہ بن زبیر کے پاس تھا عبدالملک نے لوگوں کو حج پر جانے سے روکنے کے لئے زہری سے ایک حدیث کو ترویج دیا جس میں پیغمبر(ص) کی طرف یہ بات منسوب کی گئی:
تین مساجد کے علاوہ کسی کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا: مسجد الحرام۔مسجد النبی اور مسجد بیت المقدس کہ جس کا مقام و مرتبہ کعبہ کی طرح ہے۔(3)(2)
--------------
[1]۔ الکافی:ج 4ص240
[2] ۔ حدیث ''لا تشدّ الرجال'' کے بارے میں: صحیح مسلم: ج1ص636، صحیح البخاری: ج2ص56۔ البتہ اس کتاب میں یہ جملہ''وهو یقوم مقام الکعبة'' نہیں ہے ۔اس حدیث سے عبدلملک کے استفادہ کرنے کے بارے میں ۔تاریخ سیاسی اسلام: ج2ص746 (سیرۂ خلفائ) اور تاریخ طبری سے منقول۔
[3]۔ پیغمبر(ص) و یہود و حجاز:56
کعب الأحبار اور اسرائیلات کے خلاف امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا موقف
کتاب ''اسرائیلیات اور....'' میں لکھتے ہیں:
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے واقعات اور انحرافی تحریکوں کا سامنا کیا جن میں مسلمان نما اہل کتاب اور ان کے قصہ کہانیوں سامنا کرنا تھا کہ جن میں سے ہر ایک نے اپنے حصہ کے مطابق دین کے چہرے کو غبار آلود کیا۔
آنحضرت بھی مختلف راستوں سے ان کے ہاتھ قلم کرتے اور ان کا مقابلہ کرتے۔
ہم یہاں اسرائیلیات اور انہیں پھیلانے والوں سے حضرت علی علیہ السلام کیمقابلہ کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:
1۔ نقل کیا گیا ہے: عمر بن خطاب کے دور خلافت میں ایک دن خلیفہ کے سامنے ایک مجلس تشکیل دی گئی جس میں حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے۔اور حاضرین میں سے ایک کعب بھی تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا:اے کعب!کیا تمہیں پوری تورات حفظ ہے؟
کعب نے جواب دیا:نہیں؛لیکن مجھے اس میں سے کافی حفظ ہے!
کسی شخص نے خلیفہ سے کہا:یا امیرالمؤمنین!اس سے پوچھیں کہ خدا اپنے عرش کو خلق کرنے سے پہلے کہاں تھا؟اور نیز پانی کو کس سے خلق کیا کہ جس پر بعد میںاپنا عرش بنایا؟
عمر نے کہا:اے کعب !کیا تمہیں ان کا جواب معلوم ہے؟
کعب نے جواب دیا:جی ہاں ؛یا امیر المؤمنین!حقیقت میں مجھے حکیم(توریت)ملا کہ خداوند کریم عرش کی خلقت سے پہلے قدیم و ازلی تھا اور بیت المقدس کی چٹان پر تھا اور یہ چٹان ہوا پر بنی ہوئی تھی اور جب خدا نے عرش کو بناے کا ارادہ کیا تو اس پراپنالعاب دہن گرایا اور جس سے گہرے سمندر اور ان کی موجیں خلق ہوگئیں ۔ اس موقع پر خدا نے بیت المقدس کی چٹان کے کچھ حصہ پر اپنا عرشخلق کر لیا اور اس پر بیٹھ گیااور چٹان کے بقیہ حصہ پر بیت المقدس کو خلق کیا۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس وقت اپنے لباس کو ہلارہے تھے اورآپ کی زبان پر خدا کی عظمت و بزرگی پر دلالت کرنے والے کلمات جاری تھے جیسے''جل الخالق یا جلّ اللّٰه یا اللّٰه اکبر''اسی حال میں آپ کھڑے ہوئے اور اعتراض کیطور پر مجلس سے چلے گئے!(1)
جب خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی تو امام کو قسم دی کہ اپنی جگہ واپس آ جائیں اور مورد بحث مسئلہ میں ا پنا نظریہ بیان کریں۔امام اپنی جگہ واپس آگئے اور کعب کی طرف دیکھ کر فرمایا:
تمہارے اصحاب غلط ہیں اور انہوں نے خدا کی کتابوں میں تحریف کی ہے اور خدا کی طرف ھوٹی نسبت دیہے۔
اے کعب !وای ہو تم پر؛اگر ایسا ہو کہ چٹان ا ور ہوا بھی خدا کے ساتھ ہوں تو اس صورت میں وہ بھی خدا کی طرح قدیم و ازلی ہوں جائیں گے پس پھر تین قدیم موجودات ہوں گی۔
اس کے علاوہ خداوند متعال اس سے بے نیاز ہے کہ اس کا کوئی مکان ہو کہ جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور جیسے ملحد کہتے اور جاہل خیال کرتے ہیں خداو ویسا نہیں ہے۔وای ہو تم پر اے کعب!تمہارے قول کے مطابق جس لعاب دہن سے یہ عظیم دریا و سمند وجود میں آئیں وہ بیت المقدس کی چٹان پربیٹھنے سے بے نیاز ہے اور ....۔(2)
2۔ آنحضرت سے نقل ہوا ہے کہ آپ کعب الأحبار کے بارے میں فرما رہے تھے:
وہ جھوٹا و کذّاب شخص ہے۔(3)یہی وجہ تھی کہ کعب،حضرت علی علیہ السلام سے روگرداں تھا۔(4)
--------------
[1] ـ یہ ایک عربی رسم ہے کہ جب کسی چیز سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو اپنا لباس ہلاتے ہیںگویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ان باتوں کو قبول نہیں کرتا۔
[2] ۔ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر(المعروف بہ مجموعۂ وراّم): ج2ص 5 اور6،نقش ائمہ در احیاء دین (چھٹا شمارہ):114 اور 115
[3]۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):774 ، أضواء علی السنّة المحمدیة:165
[4] ۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):774، أضواء علی السنّة المحمدیة:165
3۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کعب کے شاگرد یعنی ابوہریرہ کو بھی جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا شخص کہا ہے اور فرمایا ہے:
انّ أکذب النّاس علی رسول اللّٰه (ص)لأبی هریرة الدُّوس۔(1)بیشک جس نے سب سے زیادہ رسول خدا(ص) کی طرف ھوٹی نسبت دی،وہ ابوہریرہ دوسی ہے۔(2)اس واقعہ سے چند اہم نکات سیکھنے کو ملتے ہیں:
1۔ اسرائیلیات کو پھیلانے میں خلفاء کا بہت اہم کردار تھا اس کے علاوہ اسرائیلیات کی جھوٹی ثقافت کو پھیلانے میں ان کی دینی اورتاریخی واقعات سے جہالت و نادانی کا بھی بہت اہم کردار ہے۔اس واقعہ میں کعب الأحبارنے جھوٹ بولااوراس نے دین کو خرافات اور بیت المقدس اور اس کے نتیجہ میں یہودیت کو عظیم اوربڑا دکھانے کے لئے کچھ جھوٹے مطالب بیان کئے۔
2۔ اس واقعہ میں نہ صرف عمر نے بلکہ اس نے اور اس کے کسی بھی طرفدار اور پیروکار نے کعب پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ عمر اور اس کے پیروکارکعب الأحبارکی کہی گئی باتوں سے جاہل تھے یایہ کہ وہ اس طرح کی خرافات اور اسرائیلیات کو پھیلانے کی حمایت اور پشت پناہی کر رہے تھے۔ اور ان میں سے دونوں صورتوں میں ایسا شخص کس طرح رسول(ص) کا خلیفہ و جانشین ہو سکتا ہے؟!
3۔ کعب الأحبار کے قول کے مطابق خدا بیت المقدس کی چٹان پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنا لعاب دہن پھینکا اور..... ۔ یہ عاقل اور متفکر افراد کو منحرف کے لئے بہت ہی مؤثر چال تھی کیونکہ کوئی بھی عقل مند اور متفکر انسان یہ قبول نہیں کر سکتا کہ خدا بیت المقدس کے پتھر پر بیٹھا تھا- اور وہ بھی ان کی خلقت سے پہلے - اور اس نے اپنے لعاب دہن سے گہرے دریا خلق کئے!
جس دین میں ایسی اسرائیلیات اور خرافات موجود ہوںکیااس دین کی پیروی کی جاسکتی ہے اور کیااس دین پر اعتقاد رکھا جا سکتا ہے؟!یہ واضح سی بات ہے کہ دانشور اور متفکر اس طرح کی من گھڑت باتوں کی پیروی نہیں کریں گے ۔ بلکہ وہ حقائق جاننے کے لئے کعب الأحبار کی بجائے خاندان وحی اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی طرف رجوع کریں گے۔
--------------
[5]۔ شیخ المضیرة: 135
[6]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:153
7- وہب بن منبّہ
ابوعبداللہ وہب بن منبّہ اہل صنعاء میں سے تھا جو یمن کے شہروں میں سے ہے۔ اس کا باپ ایرانی اور ہرات کے لوگوں میں سے تھا اور وہ اس فوج کا ایک سپاہی تھا جسے انوشیروان نے یمن کو فتح کرنے کے لئے بھیجا تھا اور اس کا بیٹا وہب بھی اسی جگہ (یمن) پیدا ہوا۔کہتے ہیں کہ کے وہب کے باپ نے رسول اکرم(ص) کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔
ذہبی ''تذکرة الحفّاظ'' میںوہب بن منبّہ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وہ یمن کا ایک دانشور تھا جو سن 34 ہجری - یعنی عثمان کی خلافت کے زمانے میں- میں پیدا ہوا۔جسے اہل کتاب کے علوم کے بارے میں بہت زیادہ معلومات تھیں اور اس کی ساری توجہ انہی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پرمرکوز تھی۔
صحیح بخاری اوراور مسلم میں اس کے بھائی''ہمام'' کے سلسلہ سے اس سے حدیث نقل ہوئی ہے''(1)
ڈاکٹر جوا دعلی نے بھی اس کے بارے میں کہاہے:وہب بن منبّہ کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے اور اسرائیلی کہانیوں کو نقل کرنے میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔اس کے اکثر اقوال گذشتہ آسمانی کتابوں سے ہی اخذ شدہ ہوتے تھے۔اس کے بھائی نے شام کے اپنے تجارتی سفر میں اس کے لئے یہ کتابیں خریدیں اور وہ ان کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس متقدمین کی تاریخ پر تسلط تھا اور اسے مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔(2)وہب کا خاندان یمن میں رہتا تھاجو یہودیوں کے آداب و رسومات اور ان کی روایات سے متأثر تھااور دوسری طرف سے وہ حبشہ کے ذریعہ عیسائیوں کے عقائد اور ثقافت سے بھی آشنا تھے۔ وہب خود یونانی زبانی سے بھی آشنا تھا جس کی وجہ سے اسے ان دوثقافتوں یعنی یہود و نصاریٰ کی کافی معلومات تھیں۔ (3)وہ گذشتہ آسمانی کتابوں کے مطالب اور گذشتہ اقوام و ملل کی روایات اور قصہ کہانیوں کو بیان کرنے میں اتنی توجہ دیتا تھا کہ اس اعتبار سے اسے ''کعب الأحبار''سے تشبیہ دی جاتی ہے۔(4)
--------------
[1]۔ تذکرة الحفّاظ:ج 1ص۱۰۰اور 101،الأعلام: ج۹ص۱۵۰-[2] ۔ المفصّل فی تاریخ العرب قبل الاسلام: ج6ص565
[3]۔ الأدب العربی: ج1ص381-[4]۔ تذکرة الحفّاظ: ج1ص101
وہ بنی امیہ اور ان کے حکمرانوں سے بھی غافل نہیں تھا یہاں تک کہ وہ بعض اوقات ان کی تائید میں من گھڑت مطالب بیان کرتا تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کو مہدی موعود سمجھتا تھا!(1) اور اسی کے خلافت کے دوران یہ قضاوت کے عہدے پر فائز تھا(2)،وہ 110ھ میں شہر صنعاء میں ہلاک ہوا۔(3)(4)
وہب بن منبّہ کے عقائد
قابل ذکر ہے کہ اس جدید مسلمان یہودی کے ذریعہ اسلامی معاشرے میں پھیلنے والے عقائد میں سے یہ ہے کہ اس نے جبر اور نفی مشیت و اختیار جیسے عقائد کو فروغ دیا۔
حماد بن سلمہ نے ابو سنان سے نقل کیاہے کہ میں نے وہب بن منبّہ سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا: میں ایک مدت تک انسان کی قدرت و مشیت کا قائل تھا یہاںتک کہ میں نے پیغمبروں کی ستّر سے زائد کتابوں کامطالعہ کیااور ان سب میں یہی تھا کہ جو بھی اپنے لئے اختیار کا قائل ہو وہ کافر ہو جائے گا۔اس لئے میں نے اپنے پہلے والے عقیدہ کو چھوڑ دیا۔(5)
جبر اور نفی مشیت و اختیار کی حمایت اور ہر طرح کی قدرت و مشیت کا انکار کرناانسان کے لئے ایک ایسی آگ تھی کہ جو پہلی صدی ہجری کے آخر میں مسلمانوں میں بھڑکائی گئی جس نے انہیں دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ۔جب کہ جبر کا عقیدہ بنی امیہ کی حکومت کی بنیادوں سے سازگار تھا۔ اسی وجہ سے وہب ایسے نظرئے کو پھیلانے کی بہت زیادہ کوشش کرتا تھا۔(7)(6)
--------------
[1]۔ تاریخ الخلفاء:263
[2]۔ الأعلام:ج9ص150
[3]۔ فجرالاسلام:161
[4]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:116
[5]۔ میزان الاعتدال: ج4 ص353
[6]۔ ملاحظہ کریں: بحوث فی ملل و النحل:911،فرہنگ عقائد و مزاہب اسلامی: ج1ص102 اور 103
[7]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:121
بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات
بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات
اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات
عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج
تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج
عمر کے دور حکومت میں تمیم داری
بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا
اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی
بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات
بنی امیہ کے عیسائیوں سے بھی تعلقات تھے اور وہ اپنے امور میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بنی امیہ کے عیسائیوں سے تعلقات کی بہترین مثال معاویہ کے ان سے تعلقات ہیں۔
معاویہ کےعیسائیوں سے تعلقات اتنے گہرے تھے کہ نہ صرف اس کے دربار میں ان کی آمد و رفت تھی بلکہ معاویہ عیسائیوں سے مشورہ بھی کرتا تھا اور انہیں حکومتی ذمہ داریاں سونپنے کے علاوہ ہ عیسائیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ کرتا اور ان کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتا تھا۔ آپ یہ نکتہ یعنی معاویہ کے عیسائیوں سے تعلقات اور معاویہ کا عیسائیوں سے مشورہ کرنا،تاریخ کے صفحات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یہ واضح سی بات ہے کہ ایسے افکار و نظریات رسول اکرم(ص) کے حکومتی طریقۂ کار کے افکار و نظریات سے متضاد ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کا عیسائیوں اور کسی بھی اہل کتاب سے مشورہ کرنا اور ان کے دین مخالف افکار و نظریات کولوگوں پر مسلّط کرنا تو دور کی بات بلکہ آپ نے کبھی انہیں اپنا ہمنشین قرار نہیں دیا۔لیکن معاویہ نے چونکہ بزردستی اور طاقت کے بل بوتے پر حکومت حاصل کی تھی اور وہ رسول خدا(ص) کے منصب خلافت کا غاصب تھا،اس لئے اس کے اعمال رسول اکرم(ص)کے اعمال کی طرح نہیں تھے بلکہ دین پر کاری ضرب لگانے اور دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے وہ دین کے مخالفوں سے مشورہ کرتا تھااور ان کے نظریات کو اہمیت دیتاتھا۔
کتاب''امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام''میں لکھتے ہیں:روایات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاویہ عیسائیوں کی سیرت و روایات کے لئے احترام کا قائل تھا کہ جو اب تک شام کے شہروں میں مقیم تھے اور وہاں کی اکثر آبادی انہیں پر مشتمل تھی۔ اس کے مشیروں میں سے ایک سرجون(سرگیوس) تھا جویونانی Orthodox خاندان کا ایک فرد تھا اور جو شام میں رومن انتظامیہ کے لئے کام کرتا تھااور اس کا باپ'سنت جون''(وفات: 748ء) شام میں Orthodoxکے متکلمین میں سے تھا۔(1)
--------------
[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:57
اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات
اموی دور میں اسلامی معاشرے کے افسوسناک حالات کے بارے میں یہی کافی ہے کہ ہم ''جرجی زیدان''کے اس قول پر غور کریں، جو کہتے ہیں: بنی امیہ کے زمانے میں عیسائی مسجدمیں آتے تھے اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔ اخطل(عرب کا عیسائی شاعر)بغیرا جازت کے نشے کی حالت میں گردن میں صلیب ڈال کر عبدالملک بن مروان کے پاس آیا اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا؛کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کے اصحاب و انصار کی مذمت میں بہتر طور پر شعر کہتا تھا!(1)
تاریخ میں ہے کہ:''بطریق یوحنا دمشقی''نام کا شخص اپنے باپ کے ساتھ عبدالملک بن مروان کے دربار میں رہتا تھا۔جو اسلامی ثقافت سے مبارزہ کرنے والوں میں نمایاں شمار کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے درمیان شہبات اور جھوٹ شامل کرنے میں دریغ نہیں کرتا تھا۔اس نے عیسائیوں کے لئے ایک کتاب تألیف کی جس نے انہیں مسلمانوں کی تبلیغات کے مقابلہ میں مسلح کیا۔(2)
یہی شخص پیغمبر اکرم(ص) کی اپنی پھوپھی زاد زینب بن جحش سے عشق و محبت کی جعلی کہانی کو رائج کرنے والا تھا!
کچھ اموی خلفاء کی کوشش تھی کہ اہل کتاب جو کچھ کہتے ہیں یا پیش آنے والی مصالحت کی بنیاد پر یہ بات ان کے منہ میں ڈال دیں کہ ان کا نام گذشتہ آسمانی کتابوں میں آیا ہے۔کیونکہ ان کی حکومت کی مشروعیت ظاہر کرنے کے لئے اس مسئلہ کے بہت اہم اثرات تھے اور یہ فلاں خلیفہ کے لئے ایک طرح سے قضاء الٰہی کو بیان کرنا چاہتے تھے۔(3)
یہودی سے مسلمان ہونے والے یوسف نامی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے عبدالملک کی خلافت کی پیشنگوئی کی تھی ۔(4) وہب بن منبّہ نے بھی عمر بن عبدالعزیز کو امت کا مہدی شمار کیا تھا۔(5)
--------------
[1]۔ تاریخ تمدن اسلامی:745
[2]۔ تراث الاسلام:ج1ص275،''الاسرائیلیات و أثرھا فی کتب التفسیر''سے اقتباس:429
[3]۔ تاریخ سیاسی اسلام:ج2ص735 اور 736
[4]۔ تاریخ الخلفاء:243
[5]۔ تاریخ الخلفاء:263
عیسائیت کے اشعار و تبلیغ کی ترویج
اہلسنت علماء نے اپنی کتابوں میں جو مطالب ذکر کئے ہیں،ان کی بناء پر یہ قابل غور نکتہ سمجھ میں آتا ہے:شعر و شاعری نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث سے دورکیا اورنہ یہ کہ صرف شراب نوشی،فساد،فحاشی اور لوگوں کودین سے دور کرنے کا باعث بنی بلکہ انہیں عیسائیت کی طرف راغب کرنے اور مسلمانوں کوعیسائی بنانے کا بھی باعث بنی۔(1)
اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معاویہ اور بنی امیہ کے دوسرے حکمرانوں کے دربار میں عیسائی شاعروں کا اتنا احترام کیوں تھا اور انہیں کیوں اتنی اہمیت دی جاتی تھی؟!مسلمانوں کے خلیفہ کے دربار میں کیوں ان کا اتنا بلند مرتبہ تھا؟!یہاں تک کہ کبھی مسلمانوں کی ملکی سیاست میں بھی ان کا بہت عمل دخل ہوتا تھا!
سب سے پہلے عمر نے عیسائیوں کوحکومتی ذمہ داریاں سونپیں۔
ابوزبید(جو ایک شراب خور اور ولید کا ہم پیالہ تھا)عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پرمأمور تھا۔حلانکہ ابوزبیدعیسائی تھااور''الاستیعاب''کے مطابق یہ عمر کی طرف سے اپنے قبیلہ کی زکاةجمع کرنے کے لئے مأمور تھا۔
اس کام سے عمر نے آنے والے افراد کے لئے راستہ کھول دیاتا کہ وہ عیسائیوں اور دین سے خارج افراد سے کام لیں یہاں تک کہ عثمان کے زمانے میں عیسائیوں کے کئی افراد حکومتی منصب پر فائز تھے۔جب حکومتی باگ دوڑ اور حکومتی عہدوں میں عیسائیوں کو بلند مقام ملا تو وہ اشعار کی ترویج میں لگ گئے تا کہ اس کے ذریعہ قرآن پر سے لوگوں کی توجہ کو کم کیا جا سکے اور یہ وہی چیز تھی کہ رسول اکرم(ص) نے جس کی پیشنگوئی کی تھی۔
انہوں نے شعر کی ترویج کو دستاویز قراردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو شراب نوشی اور دین سے روگردانی کی طرف راغب کرتے تھے اور یہ نہ صرف لوگوںکے عقائد کمزور کرنے کا باعث بن رہا تھا بلکہ دوسروں کے اسلام کی طرف آنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
--------------
[1]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:81
جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے کہ ابن شہاب کی روایت کے مطابق عمر نے ابو موسی کو خط لکھا جس میں لکھا تھا:انہیں حکم دو کہ شعر روایت کریں کہ یہ اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں!۔(1) اس لحاظ سے شعر کی طرف رغبت دلانانا عمر کی زبان سے شروع ہوا اور معاویہ کے زمانے میں رائج ہوا اور اس کے بعد بنی امیہ نے شعر کی ترویج میں مبالغہ سے کام لیا۔
''الاستیعاب''کے مصنف ولیدکے بارے میں لکھتے ہیں:اہل عمل کے درمیان کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ''(2)ولیدکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(3) اسی طرح ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیۂ شریفہ''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کی مثل ہو جائے گا جو فاسق ہے،ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے''(4)حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے ایمان اور ولید کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اورہم اس بارے میں ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں۔(5)'الاصابة''کے مصنف ابوزبید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ زمانۂ جاہلیت میں اپنے ماموں کے پاس بنی تغلب میں زندگی گذارتا تھا اور اسلام کے دوران جب ولید کو جزیرہ اور پھر کوفہ کی حکمرانی ملی تو یہ اسی کے ساتھ تھا۔(6)ابن قتیبہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابوزبید ہرگز مسلمان نہیں ہوا تھااور وہ اسی طرح عیسائیت پر باقی رہا اور دنیا سے چلا گیا۔مرزبانی کہتے ہیں کہ اسے طویل عمر ملی اور وہ ایک سو پچاس سال زندہ رہا ۔ اس نے اسلام کو تو درک کیا لیکن مسلمان نہیں ہوا اور وہ معاویہ کی حکومت کے زمانے تک زندہ تھا۔(7)
--------------
[1]۔ کنزالعمال:ج10ص330
[2]۔ سورۂ حجرات،آیت:6
[3]۔ الاستیعاب:ج3ص632
[4]۔ سورۂ سجدہ،آیت:18
[5]۔ الاستیعاب:ج3ص633
[6]۔ الاصابہ:ج4ص80
[7]۔ الاصابہ:ج4ص80
اگرچہ قرآن وحدیث کی رو سے ولید فاسق اور اکثر مؤرخین کے مطابق ابوزبید عیسائی تھا۔لیکن عمر نے اس میں عوامی مفاد کو دیکھا اور ولید کو جزیرہ کا حاکم بنا دیا اور ابن حجر کے مطابق''ابوزبید کو اسی کے قبیلہ کی زکاة جمع کرنے پر مأمور کر دیا اور اس کے علاوہ کسی اور عیسائی کوئی ذمہ داری نہیں دی''(1)۔اسی دوران عمر نے حکم جاری کیا اور ابن شہاب کی روایت کی رو سے اس نے ابو موسی اشعری کو خط لکھاکہ'' اپنے اطرافیوں کو حکم دو کہ وہ عربی قواعد سیکھیں جو صحیح گفتگو کے لئے راہنما ہیں اور انہیں حکم
دو کہ وہ شعر روایت کریں جو اعلیٰ اخلاقیات کے لئے راہنما ہیں''(2)
شعرکو روایت کرنا ایک عربی سنت و روایت تھی جس کی طرف اسلام نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نہ ہی خدا کی کتاب میں شعر اور شاعروں کی کوئی تعریف کی ہے اور نہ ہی سنت میں انہیں کوئی خاص اہمیت دی گئی ہے۔
منقول ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھمبعوث کیا ،میرے بعد میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب مال ناجائز طریقہ سے لیا جائے گا اور خون بہایا جائے گا اور قرآن کی جگہ اشعار لے لیں گے۔(3)
یہ کہ شعر روایت کرنے کی طرف دعوت دینا،غیب کی خبر دینا اور حجت قائم کرنا ،اس وقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب شعر قرآن کی جگہ لے لیں گے۔اشعار روایت کرنے کی دعوت دینے کے بہانے قبیلۂ بنی تغلب ( رسول خدا(ص) نے جن کی سرزنش کی ہے)،حیرہ کے عیسائیوں(جو عباسیوں کی خلافت کے زمانے تک عیسائیت پر باقی تھے)قیساریہ کے اسیروں کے قافلوں(انہیں معاویہ نے اپنی خلافت میں دالخلافہ کی طرف بھیجا)نے راہ خدا کو بند کرنا چاہا۔
--------------
[1] ۔ الاصابہ:ج4ص80
[2]۔ کنزالعمّال:10ص300ابن الأنباری کی روایت کے مطابق
[3]۔ کنزالعمال:ج11ص187 دیلی کی روایت کے مطابق
عثمان کے دور میں کچھ رکاوٹوں کے برطرف ہو جانے اور کوفہ پر ولید کی حکمرانی سے عیسائیت کو پھیلانے کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اسی دور میں حیرہ کے عیسائیوں سے تعلقات قائم کئے گئے اور اس علاقہ کے قافلوں کو کچلا گیا اوردَیر کے شعروں کو رائج کیا گیاجو مخفیانہطور پر عقلی ثقافت پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اس کے بعد شراب کے شعروں کی باری آئی جو واضح طور پر اسلام کا خیال دل سے نکالنے اور اسے ترک کرنے کا خواہاں تھے۔
ان میں سے کچھ موارد ہم نے اپنی دوسری کتاب''الانحرافات الکبری''میں ذکر کئے ہیں لہذا اس کی اصل بنیادوں کو جاننے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں۔
دیر اور شراب کے اشعار کی فضا میں کوفہ کا حاکم ولید بن عقبہ اور اس کا درباری ابوزبید اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے تھے۔
'الاستیعاب''کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ولید اور اس کے ہم پیالہ ابوزبید کی شراب نوشی کی خبریں بہت مشہور ہیں۔(1) بہت سے مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے کہ ولید نے نشہکی حالت میں صبح کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھی اور چار رکعت پڑھنے کے بعد مأمومین سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے دوبارہ سے نماز پڑھوں؟(2)
عثمان بن عفان کے خلاف قیام کا پہلا سبب یہی مسئلہ تھاکہ خلیفہ نے ولید کو معزول کرکے اور اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنی جان چھڑائی۔لیکن شعر اسی طرح باقی رہے بلکہ ان میں وسعت آتی گئی،شراب کے شعر عاشقانہ شعروں میں اور پھرعیاشی کے اشعار میں تبدیل ہو گئے۔ معاویہ کے دور میں ادبیات عرب اپنے عروج پر تھی اور حزب حاکم کی سیاست کے دامن میں پلنے والے فحاش شعر نمودار ہوئے جو قبائلی اختلافات اور عربی تعصب کو ترویج دے رہے تھے۔بنی امیہ اشعار کی ترویج میں مبالغہ کرتے تھے اور کبھی شعر کے ایک مصرع یا ایک ادبی نکتہ پر ہزاروں دینار سے نوازتے تھے۔لوگ بھی اشعار کہنے اور عرب کی جنگوں کے احوال بیان کرنے میں لگ گئے اور انہوں نے بہت سا مال حاصل کیا۔
--------------
[1]۔ الاستیعاب:ج3ص633
[2]۔ الاستیعاب:ج3ص633
شعر اور ادبیات اس حد تک نفوذ کر چکے تھے کہ حتی بہت سے علماء علمی محافل میں عقلی مسائل سے بحث کرتے وقت اپنانظریہ ثابت کرنے کے لئے کسی شعر یا ضرب المثل کو بطور نمونہ پیش کرتے تھے۔اسی دوران منفی شعر اور راہ خدا سے روکنے والوں نے فتنہ کی تاریک راتوں میں اپنے لئے راستہ بنا رہے تھے اور شعراء تیزی سے رہبر کے مرکز کے نزدیک ہو رہے تھے۔ان شاعروں میں سے اخطل کا نام لیا جا سکتا ہے جو حیرہ میں پیدا ہوا جس کا تعلق بنی تغلب سے تھا اور جو اپنے اکثر قبیلہ والوں کی طرح عیسائی تھا۔جب یزید بن معاویہ خلیفہ بنا تو اسے اپنے پاس بلالیا اور وہ اس کا بہت احترام کرتا تھا۔یزید کے بعد دوسرے خلیفہ بھی اس کا بہت احترام کرتے تھے اور اسے بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نوازتے تھے بالخصوص عبدالملک مروان اسے دوسرے شعراء پر ترجیح دیتا تھااور اسے اس کا بہت زیادہ صلہ دیتا تھا۔(1)ان شاعروں میں سے اعشی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عیسائی تھا اور وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کے اشعار کو بہت سراہا جاتا تھا۔(2)
فتنہ کی ثقافت اتنی پھیل چکی تھی اور اموی دور میں عیسائیوں کو ایسا مقام مل چکا تھا کہ ان کے بغیر سیاسی تدبیرمیں مشکل ہوتی تھی۔ان میں سے ایک گروہ کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری تھی اور ان میں سے اکثر کو خلفاء کے نزدیک بلند مقام حاصل تھا۔(3)
شعر،شراب اور فحاشی کی مدد سے وجود میں آنے والے فتنہ کے اس لبادہ میں سے زندیقی اور عیسائیوں کے نظریات سامنے آ رہے تھے(4)،اور یحییٰ دمشقی کی زبان پر مرجئہ کے آراء و نظریات جاری تھے
--------------
[1]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص۲۰۵
[2]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص238
[3]۔ تاریخ الأدب العربی:ج1ص256
[4]۔ الحضارة الاسلامیة:ج2ص65
جس کا باپ عبدالملک بن مروان کا یار ومددگار تھا۔اسی یحییٰ نے خود عیسائیت کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی۔یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ یحییٰ دمشقی کے آراء مرجئہ اور شام کے قدریّہ کے پاس پھیلے۔ اس طوفان میں پرانے حالات اور قدیم دنیا پھر سے آہستہ آہستہ آشکارہو گئی ،دولت کو بے مثال طاقت ملی جس نے تمام اقدار کو پامال کیا،ہر چیز مال پر قربان ہونے لگی اور اسے حاصل کرنے کے لئے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہرغلط حربہ اختیار کیااور ایک دوسرے پر سبقت لینے میں مگن ہو گئے۔
اس تحریک کے آخر میں کچھ ایسے شعرا پیدا ہوئے جو ہر مذہبی چیز کی تحقیر و توہین کرتے تھے جو واضح اور گستاخانہ انداز میں اپنے نظریات پیش کرتے تھے کہ جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شام میں ابوالعلای معری شاعر(363-449)عقلی نظریات کی آڑ میںہر مذہبی چیز پر حملہ کرتا تھااور یوں کہتا تھا:اے گمراہو!ہوش میں آؤ،ہوش میں آؤ کہ تمہاری ایمانداری گذرے ہوئے لوگوں کے دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے کہ جو اس کے ذریعے سے دنیا کے مال و منال کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے،وہ اس دنیا سے چلے گئے اوبخیلوںکی سنت دم توڑ گئی۔(!)
وہی کہتا تھا:لوگ پے در پے فساد کے قریب ہو گئے اورسب مذہب گمراہی کے لحاظ سے یکساں ہیں۔(1)پھر ابن راوندی(متوفی 293ھ)کی نوبت آئی جس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اکثم بن صیفی کے کلمات میں قرآن سے بھی خوبصورت کلمات ملتے ہیں۔(2)اسی طرح ابولعلاء معری کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے مقابلے کے لے کھڑا ہوا اور اس نے''الفصول والغایات فی محاذاة السور ولآیات''کے نام سے ایک کتاب لکھی اور جب اس سے کہا گیا کہ تم نے اچھا لکھا ہے لیکن ان میں قرآنی آیات کی مٹھاس نہیں ہے تو اس نے جواب دیا:اسے چار سو سال تک محرابوں سے زبان پر جاری رہنے تو تا کہ یہ چمک جائے ،پھر اسے ددیکھو کہ یہ کیسی ہے۔(3)
--------------
[1]۔ الحضارة الاسلامیة:137
[2]۔ الحضارة الاسلامیة:139
[3]۔ الحضارة الاسلامیة:140
اس طرح اشعار کو قوت ملنے کے بارے میںرسول خدا(ص)کی غیبی پیشنگوئی اس وقت متحقق ہوگئی جب ولید نے اپنا قصر کھولا اور حیرہ کے عیسائیوں نے جزیرہ پر قدم رکھے تا کہ وہ تغلب کے عیسائیوں کو گود میں لے لیں۔پھر دیراس کے بعد شراب اور پھر فحاش شعار رائج ہوئے اور عرب کی قدیم جنگوں ،امویوں کے فضائل کا تذکرہ کرکے اور زمانۂ جاہلیت کی اقدار کو ترویج دے کر وہ خود کو خلافت کی کرسی کے قریب لے آئے۔اور جس میدان میں حدیث نہیں تھی وہاں اس کے نتیجہ میں سیاسی دباؤ اور تصوف نے اپنے پاؤںجما لئے اور ان واقعات کے مقابلہ میں زندقہ ،مرجئہ کی تعلیمات اور دوسرے واقعات رونما ہوئے۔اس تمام کشمکش کے دوران عیسائی ٹیکس اکٹھا کرنے کی نگرانی کر رہے تھے اور جو بھی وزارت کا خواہشمند ہوتا ،وہ ان کے نزدیک ہو جاتا۔(1)کیونکہ خاردار جھاڑی سے اموال حاصل کرنے کے لئے سب ایک دوسرے کے پیچھے لگے تھے اور شاعروں نے راہ خدا کو بند کرکے دین اور قرآن کے خلاف اس طرح سے اعلان جنگ کیا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔(2)
تمیم داری کی قصہ گوئی اور عیسائیت کی ترویج
یہودی اور عیسائی دانشور مساجد میںقصہ گوئی کرتے تھے اور عیسائی علماء ان کہانیوں کے ضمن میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے۔اہل کتاب کے علماء حکومتی وسرکاری ہدایات کے زیرسایہ یہ کام انجام دیتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی مساجد اور ان میں سے بھی اہم ترین یعنی مدینہ میں مسجد نبوی پر اپنا قبضہ جما لیا تھا تا کہ لوگوں کوبنی اسرائیل کے حالات کی کہانیاںسنانے میں اور جو کچھ لوگوں کی طبیعت اوران کے اپنے مقاصد سے سازگار ہو،اسی میں مشغول رکھیں۔(3) تمیم داری(تازہ مسلمان ہونے والا عیسائی)دوسرے خلیفہ کی نظر میں مدینہ کے بہترین لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا(4)!اس نے عمر سے تقاضا کیاکہ وہ قصہ گوئی کرنا چاہتا ہے۔عمر نے اسے اجازت دے دی اور وہ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں لوگوں کے لئے قصہ گوئی کرتا تھا۔(5)عمر خود بھی تمیم کی مجلس میں بیٹھتا اور اس کے قصے سنتا تھا!(6)
--------------
[1]۔ الحضارة الاسلامیة:ج1ص127-[2]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج1ص418-[3]۔ الصحیح من سیرة النبی الأعظم:ج1ص122-124(تلخیص)
[4]۔ الاصابة فی تمییز الصحابة:ج1ص215-[5] ۔ الاصابة فی تمییز الصحابہ:ج1ص183،184 اور 186۔نیز الصحیح من سیرة النبی الأعظم:کی پاورقی کے تمام حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔[6]۔ القصاص و المذکرین:29
حقیقت میں اسرائیلیات سے قصہ کہانیوں کے جوڑ کی یہی سب سے اہم دلیل ہے کہ تمیم داری (مسلمان ،جو پہلے عیسائی تھے)نے سب سے پہلے قصہگوئی کی اور کعب الأحبار(تازہ مسلمان ہونے والا یہودی)کابھی شامات میں یہی کام تھا؛حتی کہ اس کا سوتیلا بیٹا (یعنی تبیع بن عامر جس کی پرورش کعب الأحبار کے ذمہ تھی اور جس نے آسمانی کتابیں پڑھیں تھیں)بھی اصحاب کے لئے قصہگوئی کرتا تھا!
محققین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ابتدائے اسلام میں قصہ گوئی کرنے کے واقعات اہل کتاب کی ثقافت سے متأثرہ تحریک کا نتیجہ تھے اورصدیوں سے ان کی اصل بنیاد ایسے قصے تھے جنہیں اہل کتاب انبیاء اورددوسروں سے روایت کرتے تھے۔
قصہ گوئی کی تحریک کو اسلامی ثقافت کے ساتھ برابرقرار دیا گیااور کچھ علماء کی مخالفت کے باوجود بعض خلفاء و محدثین کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ معاشرے میں پوری طرح نفوذ کر گئے جس نے اسلامی ثقافت پر بڑے تباہ کن اثرات چھوڑے۔(1)
ڈاکٹر مصطفی حسین لکھتے ہیں: اسلامی فتوحات کے بعد شام کا ماحول اسلامی ثقافت میں اسرائیلیات کو پھیلانے میں بہت اثر انداز ہوا اور تمیم داری جیسے افراد - جو تازہ مسلمان ہونے والی عیسائیوں میں سے تھا-کا اس تحریک (اسرائیلیات کی ترویج) میںبہت اہم کردار تھا کیونکہ اصل میں عیسائی ہونے کے باوجود اس کی شخصیت اور روایات پر اسرائیلی ثقافت کے اثرات کسی بھی محقق سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں؛بالخصوص ''جسّاسہ''کی کہانی کہ ججسے اس کے راویوں نے رسول اکرم(ص) کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔(2)
ڈاکٹر احمد امین بھی ظہور اسلام کے بعد شام کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں:
--------------
[1]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:63
[2]۔ اسرائیلیات فی الفتاث الاسلامی:79 اور 80
شام میں اکثر عیسائی تھے جنہوں نے اپنا مذہب نہ چھوڑا اور وہ جزیہ دیتے تھے۔ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے اپنا علمی سرمایہ اسلام میں داخل کر دیا کہ جو انہوں نے کیش عیسوی سے لیا تھا۔مساجد کلیسا کے ساتھ برابر ہو گئیں تھیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے میل جول تیزی سے بڑھ رہے تھے۔(1)
اس لحاظ سے شام کو ''اسرائیلیات کے لئے سرسبز زمین''کا نام دیا جا سکتاہے۔ معاویہ نے طاقت کے بل بوتے پر کچھ عیسائیوں کو اپنا مقرب اور مشیر منتخب کیا۔ان میں سے ''سرجون''وزیراور دربار کا خاص مصنف،''ابن آثال''دربار کامخصوص طبیب اوراموی دربار کے خصوصی شاعر ''اخطل'' کے نام کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں تھے کہ جو اپنے مسیحی اعتقادات و افکار سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ وہ اموی دربار میں اتنانفوذ کر چکے تھے کہ ان پر اپنے نظریا ت مسلّط کرتے تھے۔(2) مؤرخین نے ان عیسائیوں کے معاویہ سے باہمی میل جول کو بیان کرکے بہت سے نکات درج کئے ہیں۔ہم ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔ سرجون بن منصور رومی:اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مصنف اور معاویہ کامحرم راز یا اس کے اسرار کا محافظ تھاجو معاویہ کی موت کے بعد یزید کی خدمت میں تھا۔
کتاب''الأغانی''میںوارد ہواہے کہ وہ یزید کے ساتھ مل کر شراب خوری کرتا تھا اورجب مسلم بن عقیل علیہ السلام کے کوفہ پہنچنے کی خبر آئی تو اسی نے یزید سے سفارش کی تھی کہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا جائے۔(3)اس کا بیٹا بھی عبدالملک بن مروان کے لئے کتابت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔(4)
--------------
[1]۔ فجر الاسلام:189
[2]۔ معالم المدرستین:ج1ص50 اور 51
[3] ۔ الاغانی:ج16ص68 ،''معالم المدرستین ''سے اقتباس:ج2ص50،نیز رجوع کریں''تاریخ طبری: ج3ص228 اور 239،الکامل فی التاریخ :ج 4 ص 17''
[4]۔ التنبیہ الاشراف:261،معالم :سے اقتباس:ج2ص50
2۔ ابن آثال: مؤرخین کے مطابق یہ عیسائی معاویہ کا درباری طبیب تھا اور دمشق میں اس کا خصوصی ڈاکٹر تھا۔
احمد امین کہتے ہیں:معاویہ کو اس سے بڑی ہمدردی و عقیدت تھی اور ہمیشہ اس سے گفتگو کرتا تھا۔(1)
یعقوبی بھی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:سب سے پہلے معاویہ نے ابن آثال کو سر زمین''حمص'' سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے مأمور کیا تھا جب کہ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے عیسائیوں کو ایسی ذمہ داری نہیں سونپی تھی۔(2)
3۔ اخطل:یہ معاویہ کے دربار کا عیسائی شاعر تھا۔جاحظ اموی حکومت کے ساتھ اس کے تقرب کے سبب کے بارے میں لکھتے ہیں: معاویہ انصار کوذلیل و خوار کرنا چاہتا تھاکیونکہ ان میں سے اکثر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے صحابی تھے اور معاویہ کی خلافت کے مخالف تھے۔اس کے بیٹے یزید نے کعب بن جعیل سے کہا کہ وہ انصار کی برائی کرے لیکن اس نے منع کر دیا اور کہا:میں ایک نصرانی غلام کے بارے میں بتاتا ہوں جس کی زبان بہت لمبی ہے اور وہ ان کی برائی کرنے میں گریز نہیں کرے گا ،پس اس نے اخطل کے بارے میں بتایا۔(3)
''الأغانی''میں بھی اسذیل میں وارد ہوا ہے:وہ عیسائی کافر تھا جو مسلمانوں کی توہین کرتا تھااور جب وہ آتاتھا تو ریشم کا لباس اور گردن میں سونے کی بنی ہوئی صلیب پہنے ہوتے تھا اور اس کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہوتی تھی اور اسی حالت میں اجازت کے بغیر عبدالملک بن مروان کے پاس جاتا اور وہ یزید کاہمدم و ہمنشین تھااور اسی کے ساتھ جام سے جام ٹکراتا۔اسی طرح اس نے ایک شعر کہا تھا جسے
انہوں نے مسجد کوفہ کے دروازے پرآویزاں کر دیا تھا۔(4)
--------------
[1]۔ فجر الاسلام:162
[2]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص۲۲۳
[3]۔ البیان والتبیین:ج1ص86،معالم المدرستینسے اقتباس:ج2ص50
[4]۔ الأغانی:ج8ص229 ،321اور ج16ص68معالم المدرستین سے اقتباس:ج2ص50 اور 51
اس کے بارے میں دوسرے محققین لکھتے ہیں:اس کے اشعار میں ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے اموی دور میں بھی عربوں کی بت پرستی کی کچھ رسومات باقی تھیں۔نیز ان اشعار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلسلے کے افراد میں کس حد تک مذہبی رواداری تھی۔ اخطل ان لوگوں کی سخت سرزنش کرتا تھاجنہوں نے طاقتور لوگوں کی قربت کی خاظر، اپنے باپ دادا کا بت پرستی اور عیسائیت کا دین چھوڑ دیا تھا۔اس کے بہترین اشعار بھی وہی ہیں جو اس نے امویوں کی شان میں لکھے ہیں۔مسلمانوں کا مذاق اور تمسخر کرنے کے باوجود عبدالملک اس کی حمایت کرتا تھا۔(1) یہ شواہد واضح و روش دلائل ہیں کہ شام اور معاویہ کا دربارتمام قبیلوں اورقطب کے اکٹھے ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو چکا تھاکہ جن کاہدف و مقصد ایک تھااور وہ ہدف اسلام کے تن آور درخت کی جڑوں کو کھوکھلاکر نے کی کوشش کرنااور اسلامی اقدار کے خلاف جنگ کرناتھا۔معاویہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر ذریعہ کو استعمال کرنا جائز سمجھتا تھا۔اس نے تازہ مسلمان ہونے والے یہودی اور عیسائی علماء (جو ظاہراً مسلمان ہوئے تھے)اور تما م ہوس پرست اور نقلی حدیثیں گھڑنے والوں کی جعلی اور من گھڑت روایات سے بہت استفادہ کیا اور یہ سب معاویہ کی سرپرستی میں ہو رہا تھا۔(2)
عمر کے دور حکومت میں تمیم داری
ابوریہ لکھتے ہیں: عمر بن خطاب بھی تمیم کا بہت احترام کرتا تھااور اسے''خیر أهل المدینة''(3)(یعنی مدینے کا بہترین فرد ) کے الفاظ سے یاد کرتا تھا۔اور یہ سب بالکل اسی وقت ہو رہا تھا جب حضرت علی علیہ السلام اور بزرگ صحابی بھی موجود تھے ۔ جب بعد میں دوسرے خلیفہ کے حکم پرلوگ مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تو تمیم اہل بدر کے ساتھ تھا جن کا شمار پیغمبراکرم(ص) کے سب سے محترم اصحاب میں سے ہوتا تھا اور وہ سب سے زیادہ حقوق لیتا تھا۔
--------------
[1]۔ انتقال علوم یونانی بہ عالم اسلام(دلیس اولیری):216-[2]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:74
[3] ۔ الاصابة: ج3ص473، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس، چھٹا شمارہ: 87 ۔ ذہبی کی روایت میں تمیم کو ''خیر المؤمنین''کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔''سیر أعلام النبلاء''کی طرف رجوع کریں: ج2ص446
اسی طرح جب اس نے حکم دیا کہ ماہ رمضان کی مستحب نمازوں اور نافلہ کو جماعت کے ساتھ پڑھا جائے (سن 14 ہجری)تو اس نے دو افراد کو امام جماعت نامزد کیا تھا جن میں سے ایک تمیم داری تھا جو کہ راہب اور نصرانی عالم تھا اور جو تازہ مسلمان ہوا تھا۔
وہ ہزار درہم کی مالیت کا لباس پہن کر بڑے جلال اور مزیّن ہو کر نماز جماعت میں آتا اور مسلمانوں کی امامت کرتا تھا۔(1)عثمان کی خلافت کے اختتام تک تمیم مدینہ میں تھا لیکن اس کے قتل ہو جانے کے بعد وہ شام چلا گیا اورر 40ھ کو وہیں اس دنیا سے چلا گیا۔(2)
ابوریہ لکھتے ہیں:قابل توجہ نکات میں سے یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل ہو جانے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد تازہ مسلمان ہونے والے تمام یہودی کاہن ،عیسائی اورسب ہوس پرست مسلمان شام چلے گئے۔
یہ واضح ہے کہ یہ کام خدا کے لئے نہیں بلکہ فتنہ پھیلانے اور مسلمانوں میں نفرت و بغض کی آگ بھڑکانے کے لئے تھا تا کہ اس کے ذریعے اموی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوں اور ان کے کشکول بھی اموی حکمرانوں کے دین سے بھر جائیں۔!(4)(3)
--------------
[1] ۔ تاریخ ابن عساکر:ج10ص479، تہذیب ابن عساکر:ج3ص360، سیر اعلام النبلاء:ج2س447، نقش ائمہ در احیاء دین''سے اقتباس :ج6ص87
[2]۔ الاعلام(زرکلی):ج2ص71،اسد الغابہ: ج1ص25
[3]۔ اضواء علی السنّة المحمدیة:182(حوالہ)
[4]۔ اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:103
بنی امیہ کی حکومت کا عیسائیت کی حمایت کرنا
یہ اموی حکمرانوں کا غیر اسلامی کردار و رفتاراور ان کے عیسایوں سے تعلقات صرف ولید تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اس سے قبل وبعد بھی اسی کی طرح ہی تھے جنہوں نے ان کی مدد سے غصب کی گئی حکومت کا طوق اپنے گردن میں ڈال لیا۔
ولید سے پہلے ہشام نے بھی عیسائیوں کو اتنی اہمیت دی اور ان کو اتنا بلند مقام دیاکہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کا حاکم بنا دیا ۔ جو کہ عیسائی زادہ تھا اور وہ نہ صرف عیسائیوں بلکہ یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کی بھی حمایت اور طرفداری کرتا تھا۔
کتاب ''امویاں....''میں لکھتے ہیں: ہشام کی خلافت کے کچھ عرصہ بعد خالد بن عبداللہ قسری 724 سے 738 م تک عراق کا حاکم رہا ۔ بعض موقعوں پر وہ مشرقی ریاستوںکی بھی مکمل نگرانی کرتا تھا لیکن کہتے ہیںکہ بعض دوسرے مواقع میں خراسان اس کی حکومت سے خارج ہوگیا تھااور خلیفہ بذات خود وہاں کا حاکم مقرر کرتا تھا۔تقریباً اموی دور کے آغاز سے ہیشام میں خالد کا خاندان اثر و رسوخ رکھتا تھا اور ولید کی خلافت کے زمانے میں خالد کچھ عرصے تک مکہ کا حاکم تھا۔ہشام کی طرح عراق میں مال پر قبضہ جمانے اور مال و دولت کے حصول کی خاطر چونچیں مارنے میںاس کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ سنت روائی میں اس کے بارے میں بھی دشمنانہ نظر کا احساس ہوتا ہے کہ کبھی اسے اسلام کا دشمن تو کبھی عیسائیوں،یہودیوں حتی کہ زرتشتیوں کا طرفدار بیان کیا گیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک بار اس نے عیسائیت کو اسلام پر برتری دی اور اپنی عیسائی ماں کے لئے کوفہ میں مسجد کے پیچھے ایک کلیسا بنوایا۔بعض کتابوں میں اسے زندیق شمار کیا گیا۔یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ جس میں اکثر تردید و تنازع رہاہے نیز اسے مانوی حتی کہ ملحدانی افکار میں بھی دلچسپی تھی۔ کہتے ہیں:اسے اپنے خاندان سے اتنی محبت تھی کہ حتی اگر خلیفہ اسے کعبہ کو تباہ کرنے کا حکم دیتا تو یہ اس کے بھی تیار تھا۔لکھتے ہیں کہ جب یہ مکہ کا حاکم تھا تو اس نے زائرین کے لئے الگ سے پانی فراہم کیا تا کہ اس اقدام سے زمزم کے مقدس کنویں کی اہمیت کو کم کر سکے اور یہ بتائے کہ اس کا پانی کڑوا ہے،اور اس نے یہ اعلان کیا جو پانی اس نے فراہم کیا ہے وہ خدا کے نمائندے(خلیفہ) کے حکم سے ہے!(1)
--------------
[1]۔ امویان؛ نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:99
''نہایت الأدب''میں لکھتے ہیں:خالد کی ماں عیسائی کنیزتھی(جس کا تعلق روم سے تھا اور خالد کے باپ نے اسے اسیر بنا لیا اوپھر خالد بھی اسی سے پیدا ہوا)خالد کا بھائی اسد بھی اسی عورت سے پیدا ہوا لیکن وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور جب وہ مرا تو خالد نے اس کے لئے اس کی قبر پر کلیسا بنوایا جس پر لوگوں نے اس کی مذمت کی اور فرزدق نے یہ اشعار کہے:''اے خدائے رحمن!اس سواری کی پشت شکستہ کردے جو خالد کو سوار کروا کرہمارے لئے دمشق سے لائی،کس طرح وہ لوگوں کی امامت کرنا چاہتا ہے جس کی ماں کا ایسا دین ہے کہ جوخدا کو یکتا نہیں مانتی؟ وہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنواتا ہے جس میں عیسائی ہیں اور جو کفر سے مساجد کے مینار تباہ کر رہا ہے''
خالد نے حکم دیا تھا کہ مسجدوں کے مینار تباہ کر دیئے جائیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی شاعر نے اس بارے میں شعر کہے تھے:
''اے کاش!میری زندگی مؤذنوں کے ساتھ ہوتی کہ وہ کسی بھی شخص کوگھر کی چھت پر دیکھ سکتے ہیں ،یا ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا دلکش نازنین ان کی طرف اشارہ کرتیںہیں''جب خالد کو اس شعر کی خبر ہوئی تو اس نے اسے بہانہ بنا کر مساجد کے مینار تباہ کرنے کا حکم دیا اور جب خالد تک یہ خبر پہنچی کہ اپنی ماں کے لئے کلیسا بنوانے کی وجہ سے لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں تو اس نے کہا:خداوند ان کے دین و آئین (اگر تمہارے دین و آئین سے بدتر ہے)پرلعنت کرے اوروہ معذرت کے طور پر یہ بات کہتا تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ کہتا تھا:کسی بھی شخص کا خلیفہ و جانشین اس کے خاندان میں اس کے رسول سے محترم ہے۔اور اس کی مراد یہ تھی کہ ہشام رسول خدا(ص) سے محترم ہے!ہم ان خرافات سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔(1) حجاج بن یوسف سے بھی یہی بات عبدالملک اور رسول خدا(ص)کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔خالد بن عبداللہ قسری (جو عراق اور مشرقی علاوے میں حکومت کرتا تھا) حجاج کی سیاست پر عمل کرتا تھا۔
--------------
[1]۔ نہایت الأدب: ج6 ص۳۷۰
خالد ایک عام انسان تھااور جس طرح لکھا ہے کہ حتی وہ قرآن کو بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا تھا! ایک دن خطبہ پڑھتے وقت اس نے ایک آیت غلط پڑھی اور منہ دیکھتا رہ گیا۔ اس کے دوستوں میں سے قبیلہ تغلب کا ایک شخص اٹھا اور اس سے کہا:امیر؛اپنے لئے کام آسان کرو ،میں نے کوئی عاقل انسان نہیں دیکھا جو قرآن کوحفظ کرکے پڑھے۔حفظ کرکے قرآن پڑھنااحمقوں کا کام ہے۔! خالد نے کہا:تم نے ٹھیک کہا ہے۔(2)(1)عراق میں خالد کے مظالم اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ ہشام نے مجبوراً اسے برطرف کردیا۔(3)
اہلبیت اطہار علیہم السلام اور عراق کے لوگوں سے خالد کی دشمنی
''الکامل''میں مبرد نے نقل کیا ہے:خالد بن عبداللہ قسری جب عراق کا حاکم بنا تو وہ منبر سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرتا تھا اور کہتاتھا: ''أللّٰهم علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن هاشم، صهر رسول الله علی ابنته و أبا الحسن و الحسین'' اس کے بعد وہ لوگوں کی طرف دیکھ کر کہتا تھا: کیا یہ محترمانہ انداز نہیں ہے!(4)
یہ کلام رسول اور آل رسول علیہم السلام سے اس کی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔
--------------
[1]۔ ابولفرج اصفہانی: ج19ص60، تاریخ تمدن اسلامی سے اقتباس: ج4 ص80
[2] ۔ نہ صرف خالد بلکہ بنی امیہ کے کچھ خلفاء صحیح سے بات کرنی بھی نہیں آتی تھی۔
اس بارے میں نقل ہونے والے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ ولید بن عبدالملک مروان اپنی گفتگو اور محاوروں کے دوران بہت غلطیاں کرتا تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دوران ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی توہین کی اور کہا: ''انه لصّ ابن لصّ'' اور کلمہ'' لص''ّ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ۔ لوگ اس پر بہت حیران ہوئے اور انہوں نے اس سے کہا:ہمیں نہیں پتہ کہ ہم ان دو باتوں میں سے کس پر ہنسیں؛اس نسبت پر جو تم نے علی بن ابی طالب علیہما السلام سے دی ہے یا کلمہ لصّ پر جسے تم نے مجرور پڑھا ہے۔ (معاویہ و تاریخ: 147)
[3] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:218
[4]۔ معاویہ و تاریخ: 147
ولید اور اس کے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو عراق کے مسلمانوں سے خاص دشمنی تھی۔یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:ولید نے ایک خط میں حجاز پر اپنے کارندہ خالد بن عبداللہ قسری کو حکم دیا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی حجاز میں ہیں انہیں وہاں سے نکال کر حجاج بن یوسف کے پاس بھیج دو۔پس خالد نے عثمان بن حیّان مرّی کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ عراق کے لوگوں میں سے جو بھی مدینہ میں موجود ہیں انہیں نکال دے اور اس نے بھی ان تمام لوگوںکو ان کے اہل و عیال ہمراہ حجاج کے پاس بھیج دیا ،تاجروں اور غیرتاجروں میںسے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اعلان کیا کہ جو بھی کسی عراقی کوپناہ دے گا وہ امان میں نہیں ہے۔ اسے جیسے ہی خبر ملتی کہ مدینہ والوں میں سے کسی کے گھر میں کوئی عراقی ہے تو وہ اسے فوراً نکال دیتا تھا۔(1)
بنی امیہ کے کارندے کلیسا بناتے تھے،قرآن کو حفظ کرکے پڑھنا احمقوں کا کام سمجھتے تھے اور فرزدق شاعر کے قول کے مطابق مساجد کے میناراپنے کفر کی وجہ سے تباہ کر دیتے تھے، خانۂ خدا کو آگ لگاتے تھے، پیغمبراکرم(ص) کے آثار نیست و نابود کرتے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا وہ دین کے احکامات کو تبدیل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود خود کو خدا کا خلیفہ سمجھتے تھے اوروہ جو کچھ کہتے تھے قوم بھی بغیر سوچے سمجھے اسے مان لیتی تھی!!
کیا ایسے لوگ مذہبی شعور رکھتے ہیں؟!
--------------
[1]۔ تاریخ یعقوبی: ج2ص246
1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی- اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک- جہمیّہ-
اموی دور میں معتزلہ- مرجئہ ، اموی دور میں- بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ
مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی- معاشرے میں مرجئہ کا کردار- بہشتی کافر!-
مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی- مرجئہ کے فرقے- ابو حنیفہ اور مرجئہ-
مرجئہ اور شیعہ- مرجئہ اور شیعہ روایات- امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار
عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ
اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور. خارجی کتابوں کا ترجمہ
مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ
2- پیشنگوئیوں کوچھپانا
الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا
ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا
برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا
نتیجۂ بحث
1- مسلمانوں میں تفرقہ سازی
جوافراد یہودیوں کی تاریخ سے آشنا ہیں اور انہیں اسلام کے آئین سے ان کی دشمنی کا علم ہے ،وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اسلام کے خلاف مبارزہ آرائی کی ۔ ان کے پاس جو وسیلہ بھی تھاانہوں نے اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کیا تاکہ نہ صرف یہودی اور دوسرے تمام مذاہب کے درمیان ان کی ترقی کا راستہ روک سکیں بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنی ہاری ہوئی سیاسی وفوجی طاقت کا کچھ سامان کر سکیں تا کہ غیر یہودی اقوام پر بھی اپنا حکم چلا سکیں!
اس قدرت طلبی کی بنیاد پر وہ مختلف مکر و فریب اور چال بازیوں کے مرتکب ہوئے تا کہ شاید ان کی دیرینہ خواہشات پوری ہوجائیں اور ان کے سینے میں موجود دشمنی کی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔
ان کی ایک سازش (جسے وہ مناسب منصوبوں کے ساتھ انجام دیتے تھے) مسلمانوں کے درمیان عقیدتی تفرقہ پیدا کرنا تھا ۔
مسلمانوں میں مختلف فرقے بنانے میں عیسائیوں کا بھی ہاتھ تھا جو ان میں تفرقہ بازی اور عقیدتی اختلاف پیدا کرتے تھے۔
ان منصوبوںسے یہودیوں کے دو اہم مقاصد تھے:
1۔ اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور مختلف گروہ بنانے سے نہ صرف ان کے ہاتھوں سے طاقت چلی جائے گی بلکہ اس عملسے مسلمان اصل دین اور اسلام کی بنیادمیں شک کرنے لگیں۔
لوگوں میں شک و شبہ پیدا کرنا ایک ایسا حربہ تھا کہ جسے یہودی صرف ابتدائے اسلام ہی سے نہیں بلکہ ظہوراسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت سے پہلے بھی استعمال کرتے تھے تا کہ ظہور اسلام کے بعد لوگ اس میں شک و شبہ کریں بلکہ اسے منکرانہ نگاہوں سے دیکھیں۔
2۔ اعتقادات میں اتحاد و یگانگت کو ختم کرکے انہوں نے نہصرف مسلمانوں کے اتحاد کو برہم کر دیا بلکہ ان پر اپناغلبہ پانے کا راستہ بھی ہموار کر لیا۔
اموی اور عباسی دور میں زندیقی تحریک
کتاب''دولت عباسیان''میں لکھتے ہیں:زندیق اموی دور میں وجود میں آئے اور عباسیوں کے پہلے دور میں ان کی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئیں۔
.....حقیقت میں زندقہ منظم مذہبی افکار کے قالب میں ایک سیاسی تحریک تھی جو اپنے پیروکاروں کو مانوی مذہب ،دینی اعتقاد کے محتویٰ اور ان کی فکری میراث کی طرف دعوت دیتی تھی۔اس اعتبار سے کہ اسلامی میراث کی جاگزین عربی ہے۔اور کبھی فلسفی دعوت کے پیچھے سیاست چھپی ہوتی تھی کیونکہ زندقہ نے فلسفہ کا لبادہ اوڑھ کرخود کو چھوپایا ہوا تھا اوردر حقیقت بعض انقلابی پہلوؤں سے مجوس تھے کہ جن کا مقصد اسلامی حکومت کو نابود کرنا اور اس کی جگہ ایرانی حکومت کو لانا تھا۔
یہ واضح ہے کہ زندقہ ایک مانوی تحریک تھی جس نے اسلامی فتوحات کے بعد دوبارہ سے عراق اور ایران کے کچھ علاقوں میں جگہ بنا لی۔اس رجحان کے انتشار کی وجہ مذہبی آزادی تھی کہ فتوحات کے بعد مختلف مذاہب کے پیروکار وں کو اس کا سامنا تھا
اورجو معاشرے میں ایک طرح کے فکری و نظری اختلافات اختتام پذیر ہوا۔(1)
اس بناء پر کہ زندیقی ایک فرقہ کے عنوان سے اموی دور میں وجود میں آئے،اب چاہے اسے مانوی تحریک سمجھیں یا مانوی و غیر مانوی تحریک سے اعم سمجھیں۔
جہمیّہ
اہل سنت علماء نے ''جہم بن صفوان'' کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،اس پر غور کرنے سے انسان حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ'' جہم'' کے فاسد اور دین مخالف افکار کے باوجود یہ اسے کس طرح مسلمان سمجھتے ہیں اورکس طرح اس کے فرقے کو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھتے ہیں؟! یہ کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دین کی بنیادوں کو ہلا دینے والے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے افکار اور فاسد عقائد کس طرح مذہبی افکار و عقائدہو سکتے ہیں؟!
--------------
[1] ۔ دولت عباسیان:75
''جہم''واضح الفاظ میں کہتا تھا:ہر مسلمان باطنی طور پر مسلمان ہو سکتا ہے لیکن ظاہرمیں عیسائیت و یہودیت کااظہار کرے اور عیسائی یا یہودی کے عنوان سے اپنا تعارف کروائے!اور اس کا ایسا عمل اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا!
اس قول کی بنا پر ہر مسلمان اسلام سے دستبردار ہو کر ظاہری طور پر عیسائی یا یہودی ہو سکتا ہے اور صرف دل میں اسلام قبول کرنا ہی کافی ہے!
اس طری''جہم''نے دوسرے باطل فرقوں میں اپنے عقائد کے پیروکاروں کا اضافہ کیا اور بہت سے افراد کو اپنے منحرف عقائد کی طرف جذب کیا۔
وہ کہتا تھا:ایمان کے لحاظ سے سب مؤمنین کا ایک ہی درجہ ہے حتی کہ پیغمبر اور ان کی امت بھی یکساں ہے۔انسان کوئی بھی عمل انجام دے چاہئے وہ کوئی برا کام یا گناہ ہو پھر بھی اس کے ایمان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی چاہے سب مؤمنین کے اعمال مختلفہوں لیکن ایمان کے لحاظ سے سب یکساں ہیں!
اس نے اپنے اس انحرافی عقیدے کے ذریعے لوگوں میں آزادی و گناہ کو فروغ دیا اور اس قول سے مسلمانوں کو گناہ،بے پردگی اور نیک کاموں سے دستبردار ہو جانے کی طرف راغب کیا!حقیقت میں اس نے دین کے نام پر دین کی جڑوں پر وار کیا۔
شہرستانی کہتے ہیں:(1)اپنے اس قول سے '' جہم'' معتزلہ پر بھی بازی لے گیاجو یہ کہتے ہیں: جسے معرفت حاصل ہو گئی اور پھر اس نے زبان کے ذریعے انکار کردیا تو اس نے اس انکار سے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ انکار کے ذریعے معرفت و شناخت ختم نہیں جائے گی اور وہ پہلے کی طرح مؤمن ہے۔ اس کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کی تعریف میں بہت زیادہ خرافات کہتا تھا اور اسی پر ہی اکتفاء نہیں کرتا تھاکہ ایمان صرف باطنی تصدیق کا نام ہے بلکہ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی دل میں ایمان لائے اور بعد میںشرک کرے یا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے تویہ عمل اسے دائرۂ ایمان سے خارج نہیں کرتا!
--------------
[1] ۔ الملل و النحل:801، ملاحظہ کریں''مقالات الاسلامیّین'': ج1ص198
وہ کہتا تھا:(1)ایمان ایک قلبی معاہدہ ہے اور اگر مؤمن کسی تقیہ کے بغیر اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے ،بت پرستی کرے ، اسلامی سرزمین پر یہودیت وعیسائیت کا اقرار کرے،صلیب کی عبادت کرے اور اسلامی شہروں میں تثلیث کاپرچار کرے اور اسی حالت میں مر جائے تو وہ اسی طرح مؤمن ہے اور ایمان کامل کے ساتھ خداوند عزوجل کے پاس گیا اور وہ خدا کا دوست اور اہل جنت میں سےہے!
اس نے مرجئۂ ناب کو ان باتوں سے اپنی طرف کھینچ لیا کہ ایمان میں نہ تو کوئی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اضافہ اور ایمان کے لحاظ سے سب مؤمن یکساں ہیں۔
وہ کہتا تھا:(2)ایمان پارہ پارہ نہیں ہو سکتا یعنی ایمان عہد و پیمان اور گفتار و کردار میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور ایمان رکھنے میں مؤمنوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں ہے ،پیغمبروں اور امتوں کا ایمان یکساں ہے کیونکہ معارف کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
وہ انسان کے مجبور و بے اختیار ہونے میں جبریہناب کی پیروی کرتا تھا۔
اشعری کہتا ہے:(3)یہ اعتقادات صرف ایک شخص ''جہم'' تک ہی منحصر نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں کوئی انسان بھی کوئی عمل انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک ہی اس کا فاعل ہے اور لوگوں کے افعال کومجازی طور پر اسی کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔جیسا کہ کہا جاتاہے:درخت نے حرکت کی،آسمان نے گردش کی، سورج غروب ہو گیا،اور درحقیقت یہ خداوند سبحان ہے جو درخت، آسمان اور سورج کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہاہے۔
--------------
[1]۔ الفصل فی الملل و الأھواء و انحل:ج4 ص204
[2]۔ الملل و النحل:ج1ص80، مقالات الاسلامیّین: ج1ص198
[3]۔ مقالات الاسلامیّین: ج1 ص312، الفرق بین الفرق:128 ، الملل و النحل: ج1ص80
خدا نے صرف انسان کو قوت دی ہے کہ جس کی وجہ سے فعل انجام پا سکے اور اس کے لئے فعل کو انجام دینے کا ارادہ و اختیار الگ سے خلق کیا ہے۔جیسا کہ خدا نے طول کو خلق کیاہے اور آدمی اسی کے مطابق لمبا ہوتا ہے، رنگ کو خلق کیا ہے اور انسان اسی کے مطابق رنگ کو قبول کرتا ہے اور رنگین ہوتا ہے۔
وہ کہتا تھا:(1) ثواب وعذاب جبر ہے ۔جس طرح تمام افعال جبر کی وجہ سے ہیں اور جہاں بھی جبر ثابت ہو جائے وہاں تکلیف بھی جبر ہو گی۔ (2)
اموی دور میں معتزلہ
بغدادی کتاب''الفرق بین الفرق ''میں لکھتے ہیں: ایک دفعہ حسن بصری اور واصل بن عطای غزال کے درمیان تقدیر اور دومنزلوں کے درمیان منزلت یعنی ایمان و کفر کے درمیان واسطے کے بارے میں اختلاف ہو گیا اور عمرو بن عبید بھی اس بدعت میں اس کے ساتھ تھا۔
حسن نے اسے اپنی مجلس سے نکال دیا اور وہ بھی مسجد بصرہ کے ایک ستوں کے ساتھ گوشہ نشین ہو کیا ،اور پھر انہیںاور ان کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دے دیا کیونکہ انہوں نے دوسروں کے عقیدے سے عُزلت اختیار کر لی تھی (یعنی وہ دوسروں کے عقائد سے گوشہ نشین ہو چکے تھے) اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں میں سے جو بھی فاسق ہو جائے ، وہ نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔
''برون''معتزلہ کی پیدائش کے بارے میں کہتے ہیں:معتزلہ کی پیدائش اور ان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جوہم تک جو معلومات پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ واصل بن عطا غزال (جو پارسی نژاد تھا) کا اپنے استاد کے ساتھ گناہگار مؤمن کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کیا پھر بھی وہ مؤمن ہے یا نہیں؟
--------------
[1]۔ الملل والنحل: ج1ص80
[2]۔ مرجئہ و جھمیّہ در خراسان اموی:79
واصل کہتا تھا: ایسے کسی شخص کومؤمن یا کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ایمان و کفر کی درمیانی منزل میں قرار دینا چاہئے۔
واصل نے مسجد کے ایک گوشہ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں وہ کچھ لوگوں کے لئے اپنے عقیدے کی تشریح و وضاحت کرتا تھا اور حسن بصری اپنے اطرافیوں سے کہتا تھا:واصل نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اس وجہ سے واصل کے دشمنوں نے اسے اور اس کے پیروکاروں کو معتزلہ کا نام دیا۔
''دوزی''کے قول کے مطابق حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہیہ گروہ عراق یا قدیم بابل میں وجود میں آیاکہ جہاں سامی اور ایرانی نژاد کا آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کے ساتھ ملحق گئے اور کچھ مدت کے بعد علوم کا قبلہ بن کیا اور اور کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ عباسی حکومت کا مرکز شمار کیا جانے لگا۔
''فون کریمر''کے مطابق معتزلہ مذہب دمشق میں رومی مذہبی پیشواؤں کے نفوذ اور بالخصوص یحییٰ دمشقی اور اس کے شاگر''تئودور ابو قرّہ'' کی ذریعے وجود میں آیا۔اس گروہ کا دوسرا نام قدریہ ہے جو ان کے عقیدے پر واضح دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ارادے کو آزاد سمجھتے ہیں اور نیز یہ اس حدیث سے بھی مربوط ہے جو انہوں نے قول پیغمبر(ص) سے اخذ کی ہے کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ-جیسا کہ ''ستننر''کہتاہے کہ شرّ کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرا قاعدہ وضع کیا کہ جو انسان اور خدا کے ارادے کے درمیان ضدّیت پر مبنی تھا۔(1)
مرجئہ ، اموی دور میں
مرجعہ کی تبلیغ کرنا مسلمانوں کو اسلام سے دستبردا کرنے اور انہیں واپس پلٹانے اور انہیں یہودیت و عیسائیت کی طرف لے جانے کے لئے بہت مؤثر سازش تھی۔
لوگوں کی مکتب مرجئہ کی طرف دلچسپی سے اموی اپنی حکومت کو جاری رکھ سکے کیونکہ مرجئہ کے عقیدے کی رو سے بنی امیہ کسی بھی غلطی اور گناہ کے مرتکب ہو سکتے تھے اور کوئی ان سے مقابلے کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔
--------------
[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج۱ص۴۱۳
دوسرا بہت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ عقیدۂ مرجئہ کے رواج پانے سے بنی امیہ نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے علاوہ ابوسفیان اور معاویہ سے وراثت میں ملنے والے اسلام کے خلاف بغض و کینہ سے بھی استفادہ کیا اور اسلام کے نام پر مرجئہ گری کے لباس میں لوگوں کو اسلام سے دور کیا اور یہودیت و عیسائیت اور کفر کی کھینچا۔
ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے یہ حقائق اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔وہ ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:
اسلام کی پہلی صدی کے دوسرے حصہ میں فرقۂ مرجئہ بنی امیہ کے دالحکومت دمشق میںکچھ مسیحی عوامل کے نفوذ سے وجود میں آیا۔
مرجئہ کی وجہ تسمیہ:کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں تأخیر ۔اس گروہ کا نام مرجئہ اس وجہ سے پڑھ گیا کہ مسلمان گناہگاروں کے بارے میں ان کا کوئی حکم نہیں تھا اور وہ ان کے حکم کو روز حساب پر موقوف کرتے تھے اور کسی بھی مسلمان کو اس کے کئے گئے گناہ کی وجہ سے محکوم نہیں کرتے تھے۔لیکن''فاب فلوتن''کے بقول مرجئہ کا نام اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے:
(وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَییْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم)(1)
اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔
اس بناء پر کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے مشتق ہوا ہے جس کے معنی امید پیدا ہونا ہیں۔(2) کیونکہ مرجئہ کہتے تھے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتاجس طرح کفر کے ہوتے ہوئے اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
--------------
[1]۔ سورۂ توبہ، آیت:106
[2] ۔ مرجئہ کا معنی امیدپیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ ''گناہگاروں کے بارے میں حکم کرنے میں تأخیر''کی وجہ سے ہے۔
مرجئہ کا اصلی و بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اسلام قبول کرتا ہے خدا کی وحدنیت اور پیغمبر(ص) کی نبوت کی گواہی د یتا ہے،وہ جس گناہ کا بھی مرتکب ہو اسے کافر قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کا انجام خدا پر چھوڑ دیں۔ ''جہم بن صوفان''مرجئہ کے ان پیشواؤں میں سے ایک ہے جو اس بارے میں افراط کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ایمان ،قلبی عقیدہ ہے اور جو بھی اس کا معتقد ہو وہ مؤمن ہے؛اگرچہ وہ بغیر کسی تقیہ کے اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے بت پرستی کرے ،اسلامی شہروں میںیہودی و عیسائی دین کا پرچار کرے،صلیب کی عبادت کرے اورتثلیث کی باتیں کرے اور اسی حالت میںمر جائے توایسا شخص خدا کے نزدیک مؤمن اور خدا کا دوست ہے اور اہل جنت میں سے ہے! '' جہم''معتقد تھا کہ صحیح اسلام و ایمان ایک ہی ہے۔یہ طبیعی ہے کہ اس عقیدہ کے پیروکار اسلام کے عملی واجبات کی تحقیر کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں کو قرآن کے مقرر کردہ واجبات سے برتر سمجھتے تھے۔ حقیقت میں یہ گروہ بنی امیہ کی حکومت سے راضی اور شیعوں اور خوارج کے مخالف تھے۔اس کے باوجود اپنے عقائد میں اہلسنت کے ساتھ ایک حد تک موافق تھے ۔لیکن جیسا کہ ''فون کریمر''کا کہنا ہے کہ ان کے عقائدمیں اس حد تک نرمی تھی کیونکہ وہ کہتے تھے مؤمن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔کلی طور پر مرجئہ عمل سے زیادہ عقیدے کو اہمیت دیتے تھے۔ مرجئہ کے عقائد اموی درباریوں اور ان کے طرفداروں کے عقائد سے موافق تھے ،اس طرح کہ کوئی شیعہ اور خوارج ان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔عیسائی اور دوسرے غیرمسلم لوگوں کی ان کے نزدیک اہمیت تھی اوراسے اہم منصب سونپنے لگے۔یہ عیسائی اپنے مقاصد و منافع کے پابند ، زمانے کے تقاضوں سے ہماہنگ اور ہوا کے رخ پر چلنے والے تھے۔ (1)
بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ
کتاب 'تاریخ تحلیلی اسلام''میں لکھتے ہیں: اموی حکومت کے دور میںصدی کے دوسرے نصف حصے میںدین کے اعتقادی مسائل سے متعلق فکری تحریکیں وجود میںآئیں جن کا مرکز غالباً عراق تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق کے کچھ شہر وں (جن میں سے ایک کوفہ ہے) میں مختلف فلسفی اور دینی عقائد و افکار تھے۔ان میں جو پہلی بحث ہوئی وہ یہ تھی کہ کیا لوگ اپنے اعمال میں مختار ہیں یا مجبور؟ان دو طرح کے افکار کے طرفداروں کو قدریہ و جبریہ کا نام دیا گیا۔
--------------
[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج ۱ص۴۰۹
جنگ صفین کے بعد مسلمانوں میں اس کے آغاز کے آثار ملتے ہیں کہ کسی نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے پوچھا:کیا ہم اپنے ارادہ و اختیار سے اس جنگ میں گئے یا ہم مجبور تھے؟
اس کے بعد ہر گروہ نے اپنے عقائد کی تائید اور دوسرے کے عقائد کی مخالفت میں احادیث سے استناد کیا۔
امویوں کے دور حکومت میں ایک دوسرے مکتب کی تأسیس ہوئی جسے ''مرجئہ'' کا نام دیا گیا۔ امویوں نے اس گروہ سے اپنے مظالم کی توجیہات کے لئے استفادہ کیا ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خوارج کا ایک گروہ گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کو ہمیشہ کے لئے جہنمی سمجھتا تھا اور ان کے مقابلے میں ''مرجئہ'' کہتے تھے:ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ان کا عذر یہ تھا کہ اگر اس بارے میں سختی کی جائے تو مسلمان تفرقہ کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے طرز تفکر سے انہوں نے معاویہ اور دوسرے اموی خلفاء کی تائید کی کہ جو کوفہ و بصرہ اور دوسرے شہروں میں مختلف نیک و پارسا افراد کو قتل کر رہے تھے۔ مرجئہ نے اپنی فکر کی بنیاد اس آیت کو قرار دیا: (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم)(1)
جبریہ، قدریہ اور مرجئہ کے تفکرات کی جنگ سے''معتزلہ'' کے نام سے ایک معتدل فکری مکتب وجود میں آیا۔کہتے ہیں: اس طرز تفکر کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ حسن بصری گناہان کبیرہ انجام دینے والے شخص کو کافر سمجھتا تھا ۔ لیکن اس کے شاگردوں میں سے ''واصل بن عطا''کا اس سے مختلف نظریہ تھا اور وہ کہتا تھا: ایسا شخص کفر و ایمان کی درمیانی منزل پر ہو گا۔
کہتے ہیں:جب واصل بن عطا اپنے استاد سے الگ ہو گیا تو حسن نے کہا:''اعتزلَ منّا''اس نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ دوسرے نظریات بھی ہیں۔(2)
--------------
[1] ۔ سورۂ توبہ، آیت :106''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ''۔
[2] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:228
مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی
پیغمبر اکرم(ص) جومستقبل اور مستقبل کے لوگوں سے باخبر تھے انہوں نے خیانت کاروں (جو آنحضرت کے بعد لوگوں میں تفرقہ پیدا کرتے)کی مکارانہ سازشوںکو روکنے کے لئے لوگوں کوان پر نازل ہونے والی بلاؤں سے آگاہ کر دیااور اپنے ہدایت کرنے والے ارشادات سے لوگوں آئندہ کے شوم ،خطرناک، مختلف مکاتب فکر اور گمراہ کرنے والے فرقوں سے باخبر کیا تا کہ لوگ ان فرقوں سے دھوکا کھا کر نہ صرف قرآن و عترت سے جدا نہ ہوں بلکہ ظالم حکومت کے طغیان کو لگام ڈال سکیں اور ان پر قابو پا سکیں۔لیکن افسوس کہ لوگوں نے پیغمبر اکرم(ص) کی رہنمائی کو ان دیکھا کر دیا اور ہر ایک گروہ الگ سمت میں بھاگنے لگا اور بنی امیہ کے حاکم اپنے من پسند طریقے سے حکومت کرنے لگے۔
اب ہم یہاں رسول خدا(ص) کی راہنمائی کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:
جس طرح رسول خدا(ص) نے لوگوں کو امویوں سے خبردار کیا تھا اور ولید کو ظالموں کے پلڑے میں قرار دیا اور اسے انہی کا ساتھی شمار کیاتھا، اس سے پہلے کہ لوگ قدریہ اور مرجئہ کے بارے میں کوئی چیز جانتے آپ نے ان کی مذمت کی اور آئندہ صدیوں اور بالخصوص پہلی صدی کے لئے حجت تمام کر دی اور فرمایا:میری امت میں سے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے:مرجئہ اور قدریہ۔(1) نیزفرمایا:'قدر(یعنی قدری گری)سے ڈرو کہ جو عیسائیت کی ایک شاخ ہے۔(2)
اسی طرح فرمایا:خدا نے ستر پیغمبروں کی زبان سے میری امت کے دو گروہوں پر لعنت کی ہے: قدریہ اور مرجئہ کہ جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف اقرار ہے اور اس میں عمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔(3)
--------------
[1]۔ کنزالعمّال:ج1ص188، بخاری کی اپنی تاریخ میں، نسائی، ابن ماجہ، خطیب اور طبرانی کی روایت ۔
[2]۔ کنزالعمّال: ج1ص119، ابن عاصم،طبرانی اور ابن عدی کی روایت۔
[3]۔ کنزالعمّال:ج4ص135، دیلمی کی حزیفہ اور حاکم کی ابوامامہ کی روایت۔
اسی طرح ایمان و اسلام کے بارے میں فرمایا:ایمان دل اور زبان سے جب کہ ہجرت جان اور مال سے ہے۔(1)
نیز فرمایا:ایمان خواہش اور وہ خود خواہی نہیں ہے بلکہ یہ ایسی چیز ہے جودل میں قرار پاتی ہے اور عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔(2)
6۔اسی طرح فرمایا:ایمان اور عمل دو ایسے شریک بھائی ہیں کہ جو ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں اور خدا ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔(3)
نیز فرمایا:تم میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا مگر یہ کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد،اس کے والدین اورتمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہوں۔(4)
نیز آپ نے فرمایا:ایمان کے بغیر کوئی عمل اور عمل کے بغیر کوئی ایمان قبول نہیں ہو گا۔(5)
اسی طرح فرمایا:ایمان سے بندہ استوار نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس کا دل استوار ہو اور اس کا دل استوار نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کی زبان استوارہو اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کا پڑوسی اس کے نقصان سے محفوظ رہے۔(7)،(6)
--------------
[1]۔ کنزالعمّال: ج1ص24، عبدالخالق بن زاہر کی اپنی اربعین میں روایت۔
[2]۔ کنزالعمّال:25، ابن نجّار کی روایت۔
[3]۔ کنزالعمّال:36، ابن شاہین کی روایت۔
[4]۔ کنزالعمّال:37، احمد، بیہقی، نسائی اور ابن ماجہ کی روایت۔
[5]۔ کنزالعمّال:68 ، طبرانی کی روایت۔
[6]۔ مجمع الزوائد:ج 1ص53، احمد کی روایت۔
[7]۔ ازژرفای فتنہ ھا: ج 2ص484
معاشرے میں مرجئہ کا کردار
گمراہ کرنے والے اشعار،شراب نوشی اورجنسی برائیاںکچھ ایسے امور تھے جوفکر کو گمراہ کرنے والے مرجئہ جیسے فرقے کے رواج پانے کے نتیجے میں لوگوں میں پھیلے۔
نوجوان بلند اہداف و مقاصد کی جستجو کرنے کی بجائے عشق و عاشقی کی طرف مائل ہو گئے اور دین و دینداری سے دور ہو گئے۔زندقہ اور بے دینی رواج پا گئی اور لوگ خدا اور رسول(ص) کو بھول گئے۔
مرجئہ کے پیشواؤں کا اس میں بنیادی کردار ہے اور انہوں نے دین کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی طرف دعوت دی اور ان سے حیا و غیرت سلب کر لی اور اس کی جگہ بے شرمی تھما دی۔
مرجئہ کے عقیدے کی وجہ سے لوگ شرم کا احسان نہیں کرتے تھے اور ولید بھی عقیدۂ جبر کی برکت سے شرم محسوس نہیں کرتا تھا۔بہت سے جوان موسیقی، بیہودہ اشعاراور عیاشی میں لگ گئے اور انہوں نے اپنا سارا مال اسی عیش و عشرت کی زندگی میں تباہ کر دیاتھا۔
ڈاکٹر خلیف لکھتے ہیں:اوباش لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئے تھے، موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں کہ جس میں بہت سی اداکارائیںشرکت کرتی تھیں،جس میں متعدد عیاش اور بے شرم گروہ برہنہ رقص کرتے تھے ور جس میں اموی و عباسی بھی شرکت کرتے تھے تا کہ دوسروں کو ذلت محسوس ہو۔
ایسی ذلت جس نے ان کی طرف ہاتھ پھیلائے اور نئے آنے والوں اور اس کی طلب کرنے والوںکو آغوش میں لے لیا اور انہیں تاریک کھائی میں پھینک دیااور پروانوں کی طرح آگ کی طرف بڑھنے والے جوانوں کو نگل لیا ۔ جس قدر اس کھائی کا اندھیرا زیادہ ہوتاگیا اتنا ہی اس میں گرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا۔ اس طرح ان کی مستی اور لہو و لعب کو ایک دوسرے سے پیوست کرنے اور ان کی عیاشی کو ان سے جوڑنے والے شاعروں نے گمراہی کا انتظام کیا؛جو سب کے سب فاسق،عیاش اور شراب سے مست تھے۔اس لہو لعب اور عیاش مکتب نے عورتوں اور مردوں کی صفوں میں عاشقانہ اشعار پڑھنے کی راہ بھی ہموار کی۔
اس مکتب میں رومانوی افسانے پڑھنا ،عشق و عاشقی کے نغمہ گانا عام تھا۔ اس مکتب کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں کنیزوں اور گانے والی عورتوں میں اضافہ ہوا اور اس مکتب کے کندھوں پر ہی زندقیت پھیلی جس نے اپنی بنیادوں کو مضبوط بنایا اور دیر کے اشعار رائج ہو گئے۔(1) ولید بن عقبہ (اپنے عیسائی دوست ابوزبید نصرانی کے ساتھ)وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے عثمان بن عفان کے زمانے میں اس کام کے لئے زمین ہموار کی اور ان کے لئے وسائل فراہم کئے۔دیر کے اشعار اور گانے والی کنیزوں کے ساتھ اموی حکومت نے اپنے آخری دن گزارے اور پھر یہ سماجی آفت عباسی حکومت کے سپرد کر دی۔اس حکومت میں بھی غلاموں کی تعداد بڑھی۔ مختلف اقوام، ثقافت، تمدن اور مختلف مذاہب سے کنیزیں اور غلام بچے فراہم ہوئے اور یہ نکتہ حاکموں اور ان کے بیٹوں پر اثرانداز ہوایہاں تک کے ان کے محلوں کی اکثر کنیزیں ایسی تھیں جنہوں نے گلے میں صلیب آویزاں کی ہوتی تھی۔ (3)(2)
بہشتی کافر!
کچھ مصنفین نے وضاحت کی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان اسلام کی شرط ہے۔اگرچہ انسان ظاہری طور پر کفرگوئی کرییا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے۔ کچھ نے (جیسے ''ابن حزم'')مرجئہ کے عقیدے کے بارے میں مزید یہ کہا ہے:اگر کوئی اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کا معتقد ہو اگرچہ ظاہراً یہودی یا عیسائی ہو تو وہ نہ صرف حقیقت میں مسلمان ہے بلکہ خدا کے اولیاء اور اہل بہشت میں سے ہے! اس عقیدے کی بنا پر تمام اموی حاکم بھی خدا کے اولیاء اور جنتی ہیں!کیونکہ وہ کچھ لوگوں کو اجرت دیتے تھے کہ فرقۂ مرجئہ کی تبلیغ کریں تا کہ لوگ ان کا شمار اولیاء خدا میں سے کریں،چاہے وہ سب سے شرمناک کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔
--------------
[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة: 633 اور 634
[2]۔ العصر العباسی الأوّل:21
[3]۔ ازژرفای فتنہ ھا:ج 2 ص 494
کتاب''شیعہ در مقابل معتزلہ و اشاعرہ ''میں لکھتے ہیں: اس میں شک نہیں ہے کہ مرجئہ اموی دور حکومت کے وسطی زمانے میں وجود میں آئے اور انہوں نے اسلامی محافل میں ان افکار کو پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اموی حکمرانوں نے بھی ان افکار کو پھیلانے میں ان کی مددکی۔چونکہ مرجئہ انہیں مومن لکھتے تھے اور انہیں ہر چیز سے زیادہ اسی صفت کی ضرورت تھی خصوصاً ان حالات میں کہ جب خوارج امویوں اور تمام صحابیوں کے کافر ہونے پرزور دیتے تھے اور معتزلہ یہ نظریہ پیش کرتے تھے کہ اسلام عقیدے،تمام واجبات اور احکام پر عمل کرنے پر مبنی ہے اور جو بھی ان پر عمل نہ کرے تو وہ جہنم کا حقدار ہو گا اگرچہ وہ اسلام کے تمام اصول و ارکان کا معتقد ہی کیوں نہ ہو۔ اس بنا پر خوارج کے مطابق اموی کافر تھے یا معتزلہ جس چیز کا دعویٰ کر رہے تھے اس کی رو سے ان کا ٹھکانا جہنم تھالیکن مرجئہ کی نظر میں یہ مؤمن تھے اورکثرت سے گناہ و منکرات انجام دینے کے باوجود وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوئے بلکہ بعض مرجئہ اس چیز کے قائل تھے کہ ایمان کے متحقق ہونے کے لئے صرف خدا اور پیغمبر (ص) پر ایمان لانے کی شرط ہے۔اگرچہ انسان زبان سے کفر کا اظہار کرے اور بتوں کی پوجا کر ے اور اسلامی شہروں میں یہودیت اور عیسائیت کا پرچار کرے اور اس سے بڑھ کر ان کایہ کہنا تھا کہ اگر وہ اس حال میں مر جائے تو وہ اولیاء خدا اور اہل بہشت میں سے ہے!(1) یہ طبیعی امر ہے کہ ہم ایسے حکمرانوں کامشاہدہ کریں جنہوں نے اس تفکر کو ہوا دی اور اس کی حمایت کیونکہ وہ اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے کو قبول نہیں کرتے تھے کہ جو انہیں ایسی صفات عطا کرے کہ یہ قدّیسیوں کی صف میں آجائیں۔جو ان کی حکومت اورمسلمانوں پر ان کے تسلّط کو جائز اور ان کے گناہوں کی انجام دہی میں زیادہ روی اور اسلامی تعلیمات و مقدسات کی بے احترامی کو صحیح قرار دے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں کہ جب عقائد کے سلسلے میں فکری کشمکش کی آگ بھڑک رہی تھی ، گناہگاروں اور گناہان کبیرہ کو انجام دینے کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کے آراء عام ہو چکے تھے تو یہی حکمران اس تفّکر کے فاتح تھے۔اور جب اس زمانے میں ان کے کفر اور ان کے جہنم کی آگ میں دائمی طور پر رہنے کے بارے میں فتویٰ دیا گیا تو ان کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اعمال کی مشروعیت کے لئے دانشور اور اصحاب و مبلغین حاصل کریں اور خریدیں۔(2)
--------------
[1]۔ فجر الاسلام:633 اورابن حزم سے منقول: ج4 ص204
[2]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:149
مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی
مرجئہ کے افکار کو پروان چڑھانے اور انہیں پھیلانے والوں میں سے یوحنا دمشقی کا نام لے سکتے ہیں جسے امویوں کے دارالحکومت میں بڑی شہرت حاصل تھی۔جس زمانے میں لوگ ارجاء کی باتیں کرتے تھے وہ اس سے مربوط دینی ابحاث میں مصروف رہتا تھا۔(1) بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مرجئہ کے اصول اور مشرقی کلیسا کی تعلیمات(یوحنا ان کی طرف منسوب ہے)میں ہماہنگی موجود تھی۔(2)یہ تو تھا مرجئہ کے پس پردہ ہاتھوں کا واقعہ۔اس واقعہ کی شرائط اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے کے بارے میں ڈاکٹر خلیف کہتے ہیں:
امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے عمر بن عبدالعزیزکی خلافت تک کے دور میں مرجئہ گری کے رجحان میں شدت آ گئی۔اس میں یزید،مروان،عبدالملک ،ولید اور سلیمان بن عبدالملک کا دور شامل ہے۔اسی دور میں اس رجحان میں شدت آنا طبیعی تھا کیونکہ یہ اضطراب اور روحانی بے سکونی کا زمانہ تھا جس میں چھوٹے سے شبہ اور تہمت کی وجہ سے لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جاتی اور انہیں سزا دی جاتی تھی۔(3)
مشہور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ میں حالات کافی سنگین ہو گئے تھے ، طاقتور قیام سامنے آئے اور اموی حکومت کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ بغاوت کرنے والوں کا سخت خشونت اور سنگدلی سے مقابلہ نہ کرے تو یہ شہر اس کے ہاتھوں سے نکل جاے گا۔لہذا انہوں نے عبداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف ثقفی جیسے اپنے ظالم ترین اور سرکش ترین افراد کو اسن پر مسلّط کر دیا جس کی وجہ سے کوفہ ہولناک ڈکٹیٹرشپ کے زیر سایہ آ گیا۔(5)،(4)
--------------
[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312
[2]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312
[3]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:313
[4]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:314
[5]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج2ص479
یہ واضح ہے کہ اموی حکمرانوں میں سے یزید سب سے زیادہ خیانت کار تھا اور جو ظلم و ستم اس نے کئے وہ بنی امیہ میں سے کسی اور نے نہیں کئے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ،کعبہ کو آگ لگانا اور واقعہ حرّہ کے بعد بہت سے مسلمانوں پر یہ واضح ہو گیا کہ بنی امیہ نہ صرف رسول اکرم(ص) کے جانشین نہیں ہیں بلکہ دین اور آل رسول علیہم السلام کے دشمن ہیں۔
لوگوں میں ہونے والی باتوں اور سراٹھانے والی تحریکوں نے بنی امیہ کی حکومت کو خبردار کردیا اور انہیں خوف میں مبتلا کر دیا تھا اس لئے انہوں نے کچھ ایسے منصوبے بنائے تھے تا کہ لوگوں کوقابو میں کیا جا سکے۔کوفہ اس طرح کی تبدیلیوں اور تحریکوں کا مرکز تھا۔کوفہ میں ان تبدیلیوں کو کچلنے کے لئے ابن زیاد اور حجاج جیسے ظالموں کو کوفہ کا گورنر بنا دیاگیا۔اسی طرح لوگوں کے اعتراضات کو خاموش کرنے کے لئے مرجئہ گری کو ترویج دی گئی تا کہ مختلف مناطق میں اس کی تبلیغ کرکے لوگوں کو مرجئہ عقائد کا معتقد بنایا جائے۔
مرجئہ کے فرقے
جس طرح امویوں کی مدد سے فرقۂ مرجئہ کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اسی طرح خود ساختہ اختلافات کی وجہ سے یہ چند فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ان فرقوں میں سے ہر فرقہ عقیدے کے لحاظ سے دوسرے فرقہ سے مختلف تھا اور ان میں سے امویوں اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے لئے سب سے مناسب اور سازگار فرقہ ''کرّامیہ ''تھا۔
فرقۂ کرامیّہ مسلمان ہونے کے لئے نہ دین کے احکام پر عمل کرناضروری سمجھتا تھا اور نہ ہی قلبی اعتقاد کو ضروری سمجھتا تھا!اس بناء پرمسلمان شخص بھی یہود و نصاریٰ کے اعمال انجام دے سکتا تھا چاہے باطنی طور پر مسلمان ہو یا نہ ہو۔مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ زبان سے اسلام کے احکامات اور دستورات کا اقرار کرے پھر چاہے دل میں ان کی مخالفت کرے اور چاہے عمل کے اعتبار سے اپنی زبان کے اقرار کے بر خلاف ہی عمل کرے۔یہ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے مسلمان اموی حکمرانوں کے لئے بہت سازگار تھے۔
مرجئہ کے دوسرے فرقے بھی تھے ۔ممکن ہے کہ ان میں تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کسی ایک فرقے میں طاقت کے تمرکز کی روک تھام کے لئے ہو اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ اگر طاقت و قدرت کسی ایک گروہ ہی میں جمع ہو جائے اور وہ دوسرے کئی گروہوںمیں تقسیم نہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم قدرت کے لئے سرددرد کا باعث بنے۔پس ہر گروہ میں تفرقہ حکّام کے فائدے میں ہے۔
ابولحسن اشعری نے مرجعہ کے بارہ فرقے ذکر کئے ہیں اور وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایمان ، عقیدے و یقین کا نام ہے اور عمل حقیقتِ ایمان سے خارج ہے۔اس بارے میں صرف فرقۂ کرامیّہ (محمد بن کرام کے پیروکار)نے ان کی مخالفت کی ہے اگرچہ ان کا عقیدہ ہے کہ ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے اور باطنی و قلبی تصدیق ضروری نہیں ہے۔
اسبنیادپر کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے منافقین حقیقت میں مؤمن تھے اگرچہوہ دلسے ایمان نہیں لائے تھے !اسی طرح وہ زبان سے انکار کرنے کو کفر قرار دیتے ہیں(!)(1)
لیکن اسفراینی کی کتاب''التبصیر''میں ارجاء کے پیروکاراس تفصیل سے پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ہیں:
1۔ یونسیہ فرقہ:یہ یونس بن عون کے پیروکار ہیں۔یہ معتقد ہیں کہ ایمان کا تعلق دل اور زبان سے ہوتا ہے اور ان کی حقیقت خدا کی معرفت و محبت اور اس کے پیغمبروں اور کتابوں کی تصدیق کرنا ہے۔
2۔ غسّانیہ:جو غسّان مرجئی کے پیروکار ہیں اور جن کا اعتقاد ہے کہ ایمان صرف خدا کے وجود اور اس کی محبت کا اقرار کرنا ہے لیکن اس میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔
3۔ ثنویّہ: ابو معاذ کے پیروکارا ور ان کا عقیدہ تھاکہ ایمان ایسی چیز ہے جو تمہیں کفر سے محفوظ رکھے۔
4۔ ثوبانیّہ:یہ ابو ثوبان مرجئی کے پیروکار تھے۔انہوں نے عقلی واجبات کو وجود خدا اور اس کے پیغمبروں سے بڑھا دیا اور جس چیز کو بھی عقل صحیح قرار دے اسے ایمان کے ارکان شمار کرتے ہیں۔
-------------
[1] ۔ التعلیقة علی التبصیر فی الدین،اسفراینی:91،التعلیقة علی مقالات الاسلامیّین:203
5۔ مریسیّہ:یہ بشیر مریسی کے پیروکار ہیں ۔ہم نے جوکچھ ذکر کیا اس کے علاوہ یہ تخلیق قرآن کا معتقد تھا۔
جو کچھ ذکر کیا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مرجئہ اس پر متفق تھے کہ عمل،ایمان کے ارکان میں سے نہیں ہے۔اس طرح سے ان کی یہ کوشش تھی کہ خوارج کے سامنے ایمان کے معنی کو محدود و مشخص کریں کیونکہ خوارج گناہان کبیرہ انجام دینے والوں کو تو دور کی بات بلکہ یہ اپنے تمام مخالفین کوبھی کافر شمار کرتے تھے اور ان سب کو ایک طرف قرار دیتے تھے اور دوسرے مسلمانوں کو دوسری جانب۔
اسی طرح یہ معتزلہ سے مقابلے کے لئے بھی تھا کیونکہ وہ عمل کو ایمان کے ارکان میں سے شمار کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے گناہگار ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے۔خوارج (جنہوں نے ایمان کو اپنی جاگیر بنایا ہوا تھا اور معتزلہ کے مقابلے میں زبانی تصدیق کے علاوہ ارکان پر عمل کرنے کے بھی قائل تھے) کے مقابلے میں مرجئہ کے نظریات پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں پھیلنے والے ان نظریات کی طرح ان میں بھی ارتقاء پیدا ہوا۔جیسے دوسرے نظریات کہ جو پہلے ایک تفکر کی صورت میں ظاہر ہوئے اورپھران میں جتنی بحث ہوتی اور جتنا وقت گذرتا ان میں اتنی ہی زیادہ وسعت آجاتی۔ خاص طور پر جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ مرجئہ کے آراء و نظریات بنیادی طور پرحکمرانوں کی مصلحت کے لئے کام کر کرے تھے اور اپنے منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اس کی تبلیغ و ترویج کے لے مدد کرتے تھے۔اس رو سے ان میں سے کچھ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان جب تک دل اور زبان سے خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتا ہو اسے جہنم کی آگ میں عذاب نہیں دیا جائے گا چاہے وہ گناہ اور منکرات کو ہی انجام کیوں نہ دے!!۔(2)
ابو حنیفہ اور مرجئہ
جس طرح مؤرخین اورمصنّفین فرق و مذاہب کی کتابوں میں ابوحنیفہ کو مرجئہ میں سے شمار کرتے ہیں کیونکہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ ایمان زبان سے اقرار اور قلبی تصدیق کا نام ہے اور ایمان انہی دو سےتشکیل پاتا ہے اور اسلام و ایمان ایک دوسرے کا لازمہ ہیں۔
--------------
[2] ۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:151
جہم بن صفوان اور اس میں ہونے والے مناظرے (جسے حلی نے کتاب''مناقب ابی حنیفہ!'' میں ذکر کیا ہے) میں ابو حنیفہ نے کہا ہے:اگر کوئی مرجائے جب کہ وہ خدا اور اس کی صفات کو پہچانتاہو اور خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہولیکن زبان سے ان کا اقرار نہ کرے تو وہ کافر مرا اور وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔مؤمن اس وقت مؤمن ہے کہ جس کی اسے معرفت ہے اس کا زبان سے اقرار کرے اور اس پر ایمان بھی رکھے۔
اس سے نقل ہوا ہے کہ اس نے ایمان کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:
1۔ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرے،اس لحاظ سے وہ خدااور لوگوں کے سامنے مؤمن شمار ہوگا۔
2۔ دل سے تصدیق کرے لیکن تقیہ یا خوف کی وجہ سے زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ خدا کے نزدیک تو مؤمن ہے لیکن لوگوں کی نظر میں مؤمن شمار نہیں ہو گا۔
3۔ زبان سے اقرار کرے لیکن دل سے اس کی تصدیق نہ کرے ۔اس صورت میں وہ لوگوں کی نظر میں تو مؤمن ہے لیکن خدا کے نزدیک کافر ہے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے کامل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرے لیکن احکامات پر عمل کرنا صدق ایمان کی شرط نہیں ہے!اسی بنیاد پر ابو حنیفہ معتقد تھا کہ ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا اور ان دونو ں مورد میں ایمان کی توصیف بے مورد ہے۔لیکن اس میں جو فرق ہے وہ احکامات کو انجام دینے اور محرمات کو ترک کرنے میں ہے اور یہ اس وجہ سے ہے تاکہ لوگوں میں فرق پیدا کیا جا سکے اور برتری قرار دی جا سکے ۔ لیکن ایمان کے لحاظ سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے!۔(1)
--------------
[1]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ: 307
مرجئہ اور شیعہ
''مقالات تاریخی'' کے دسویں شمارے میں لکھتے ہیں: ابوحنیفہ اور مؤمن الطاق میں ہونے والی بحثوں میں سے ایک'' شیعہ و مرجئہ کی اصطلاح ایک دوسرے کے مدمقابل''ہے۔ابوحنیفہ نے مؤمن الطاق سے کہا:میں نے سنا ہے کہ تم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرجائے تو تم اس کا بایاں ہاتھ توڑ دیتے ہو تا کہ قیامت کے دن اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں تھمائی جائے۔ مؤمن الطاق نے کہا:یہ جھوٹ ہے۔لیکن میں نے بھی سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو تم پانی کا ایک برتن اس کے مقعد میں رکھ دیتے ہوتا کہ اسے قیامت کے دن پیاس کا احساس نہ ہو!
ابو حنیفہ نے کہا:وہ بات تمہارے لئے جھوٹ کہی گئی تھی اور یہ جھوٹی بات ہمارے لئے بیان کی گئی ہے۔(1)
''محاسبة مع ابی حنیفة و المرجئة''کے نام سے مؤمن الطاق کی ایک کتاب ذکر ہوئی ہے۔ (2)جیسا کہ''مناظرة الشیعی والمرجی فی المسح علی الخفین و.....''کے نام سے ابویحییٰ جرجانی کی بھی ایک کتاب تھی۔(3)ان دونوں کتابوں میں شیعی اصطلاح کو مرجئہ کے مدمقابل سنّی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ابوحنیفہ کی زید بن علی کی حمایت اور پھرحضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں ابوحنیفہ کا رویہ کسی حد تک دوستانہ ہے۔ اس کے علاوہ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دشمنوں کے مقابلے میں حضرت علی علیہ السلام کے مقام کی تائید کی تھی اور انہیں باطل قرار دیا تھا۔اس نے تاکید کی تھی کہ اگر علی علیہ السلام نے جنگ نہ کی ہوتی تو ہمیں یہ پتہ نہ چلتا کہ باغیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔(4)اس آخری بات کی نسبت شافعی سے بھی دیتے ہیں۔
--------------
[1]۔رجال کشی:190
[2]۔ رجال النجاشی:326
[3]۔ رجال النجاشی:254
[4]۔ عقود الجمان:307
اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے مخالفوں کے بارے میں مرجئہ سے کام لینے کے بارے میںاسکافی کے کلمات میں بھی کچھ شاہد موجود ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ''و منزلة المرجئة فی النصب و التقصیر فی علیّ،منزلة الیہود فی التقصیر و شتم عیسی بن مریم ''(1) یہ بالکل ویسا ہی استمال تھا جو شیعہ روایات میں موجود تھا۔وہ کہتے ہیں:ناصبی گری اور حضرت علی علیہ السلام کے حق میں کوتاہی کے سلسلے میں مرجئہ کا وہی مقام تھا جو حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو دشنام دینے اور ان کے حق میں کوتاہی کے سلسلہ میں یہودیوں کا مقام تھا۔اسی طرح اسکافی ناصبہ،نابتہ اور مرجئہ کی اصطلاحات کو بھی ایک ردیف میں قرار دیتے ہیں۔(2)
احتمال ہے کہ ناصبہ کے لئے مرجئہ کی اصطلاح سے استفادہ کرنے کے لئے اہم ترین شاہد ایک شعر ہے جسے جاحظ اور مسعودی نے نقل کیا ہے۔مسعودی کی روایت ہے کہ مأمون نے ابراہیم بن مہدی کی مذمت کرنا چاہی کہ جو بغداد میں اس کے خلاف کھڑا تھااور تسنن کا علم بلند کئے ہوا تھا۔ علی بن محمد مختار بیہقی نے اس کے لئے یہ شعر کہا:
اذ المرجّ سرّک أن تراه یموت لحینه من قبل موته
فجدّد نده ذکریٰ علی وصلّ علی النبیّ و آل بیته
اگر مرجئی کی موت سے پہلے اس کی موت دیکھنا چاہتے ہو ،تو ان کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر کرو اور پیغمبر (ص) اور ان کی اہلبیت علیہم السلام پر درو بھیجو۔(3)
جاحط نے ''العثمانیّة''میں بھی ایک طرح سے شیعہ و مرجئہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل قرار دیا ہے۔(5)،(4)
--------------
[1]۔ المعیار والموازنة:
[2]۔ ا لمعیار والموازنة:71
[3] ۔ مروج الذہب:4173، البیان والتبیین: ج2ص149، تلخیص مجمع الآداب ابن فوطی، حرف کاف، حالات زندگی ش 38 الفرق الاسلامیة ف شر الأموی:269 ، الکنی والألقاب:3201، حیاة السیاسیة للامام الرضا علیہ السلام:232
[4]۔ العثمانیّة:72
[5]۔ مقالات تاریخی(دسواں شمارہ):85
اگر اسکافی کی یہ بات ( مرجئہ حضرت علی علیہ السلام کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے) صحیح ہو تو پھریا یہ کہیں کہ ابو حنیفہ مرجئہ میں سے نہیں تھا اور یا پھر یہ کہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی حمایت اور آپ کے مخالفین کی ردّ میں اس سے نقل ہونے والی باتیں صحیح نہیں ہیں۔کیونکہ مرجئہ اگر ناصبیوں کی حد تک ہی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے دشمن ہوں تو اس کا بالکل احتمال نہیں ہے کہ اگر ابوحنیفہ مرجئی تھا تو وہ آنحضرت کی حمایت و طرفداری کرے۔ بہ ہر حال مرجئہ کی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور آپ کے شیعوں سے دشمنی ثابت ہے۔ اسی وجہ سے بنی امیہ مرجئہ کی طرفداری کرتے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مخالفت کا بیج بویا جاسکے جس کے نتیجہ میں وہ خاندان وحی علیہم السلام سے دور ہوجائیں۔بعض روایات میں مرجئہ کی اہلبیت علیہم السلام سے دشمنی کی تصریح ہوئی ہے۔
مرجئہ اور شیعہ روایات
شیعوں کے ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایات میں مرجئہ کی اصطلاح کو اہلسنت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اکثریہ حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مخالف معنی میں استمال ہوئے ہیں۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
أللّٰهمّ العن المرجئة؛فانّهم أعداؤنا فی الدنیا و الآخرة۔(1)
خداوندا مرجئہ پر لعنت فرما کہ یہ دنیا و آخرت میں ہمارے دشمن ہیں۔
دوسری روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے قدریّہ و خوارج پر ایک بار اور مرجئہ پر دو بار لعنت کی ہے۔راوی نے اس کا سبب پوچھا تو آنحضرت نے فرمایا: ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہمارے قاتل مؤمن ہیں ۔اس بناء پر قیامت تک ان کا لباس ہمارے خون سے رنگین رہے گا۔(2)
--------------
[1]۔ الکافی: ج8 ص276، بحارالأنوار: ج46 ص291
[2]۔ الکافی:ج2ص409
ایک اور روایت میں اسحاق بن حامد کاتب کہتا ہے:قم میں کپڑے بیچنے والا ایک شخص تھا جس کا مذہب شیعہ تھاا اور اس کا ایک شریک مرجئہ تھا۔ان کے پاس بہت ہی قیمت کپرا آیا۔شیعہ شخص نے کہا:میں یہ کپڑا اپنے مولا کے لئے لے کر جاؤں گا۔ مرجئی نے کہا:میں تمہارے مولا کو نہیں جانتا لیکن تم کپڑے کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔جب اس نے وہ لباس امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچایا تو آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور آدھا کپڑا واپس کر دیا اور فرمایا:مجھے مرجئی کے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(1)
پیغمبر اکرم(ص) نے جو یہ روایت ارشاد فرمائی :''میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک مرجئہ اور دوسرا قدریّہ''یہ روایت حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے بھی منسوب ہے اور ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت نے یہ حدیث حضرت ختمی المرتبت(ص) سے روایت کی ہے۔(2) اسی طرح حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہودیوں کی مرجئہ سے شباہت اور قدریّہ کی نصاری سے شباہت ایسی ہی ہے جیسے رات کو رات اور دن کو دن سے شباہت ہے۔(3) ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابوبصیر نے کہا:امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے بصرہ کے لوگوں کے بارے میں پوچھا: میں نے عرض کیا:وہ مرجئی،قدری اور حروری ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا:
لعن اللّٰه تلک الملل الکافرة المشرکة التی لا تعبد اللّٰه علی شئ۔(4)
اسی طرح امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں پانچ گروہوں سے بیزاری اختیار کرتا ہوں:مرجئہ،خوارج،قدریّہ،شامی(بنی امیہ)اور ناصبی۔(5)
--------------
[1]۔ بحارالأنوار:ج51ص340، ازکمال الدین
[2]۔ جامع الأخبار:188
[3]۔ جامع الأخبار:189،بحارالأنوار:ج5ص120
[4]۔ الکافی:ج2ص409-410
[5]۔ مستدرک الوسائل:ج12ص317،بحارالأنوار:ج18ص393
یہ اس چیز کی حکایت کر رہی ہیں کہ اکثر موارد میں جب ائمہ اطہار علیہم السلام سے مرجئہ کے بارے میں کوئی حدیث نقل ہوئی تو ان کے ناصبی ہونے کی خصلت پر اصرارکیا گیا ہے۔اگرچہ ممکن ہے کہ کبھی مرجئہ کی نظر میں ایمان کی تعریف کی طرف بھی اشارہ ہوا ہو۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک اور روایت میں ذکر ہواہے کہ آپ نے فرمایا:
اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے حدیث کی تعلیم دو اس سے پہلے کہ اس بارے میں مرجئہ تم پر سبقت لے جائیں ۔(1)
ضیاء الدین سہروردی نے ایک دوسرا واقعہ یوں نقل کیاہے : حکایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جعفر منصور کے سامنے کسی مرجئی شخص کے ساتھ مناظرہ کیا ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بحث میں کہاکہ ایک مرجئی کو پیغمبر اکرم(ص) کے پاس لایا گیا تا کہ آنحضرت(ص) کے حکم پر اس کو قتل کر دیں!اس شخص نے جواب دیا:پیغمبر(ص) کے زمانے میں یہ مذہب نہیں تھا!امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جو چیز پیغمبر(ص) کے زمانے میں نہیں تھی ،تم وہ کہاں سے لے آئے؟!(2)
سعد بن عبداللہ اشعری نے تیسری صدی کے آخر میں مرجئہ کو تاریخی لحاظ سے بالکل شیعوں کے برابر قرار دیا ہے اور یہ مرجئہ کے بارے میں شیعوں میں رائج اصطلاح کی پیروی کانتیجہ تھا۔ وہ لکھتا ہے:جب حضرت علی علیہ السلام قتل ہو گئے تو آپ کے بہت تھوڑے سے شیعوں اور پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد آپ کی امامت پر یقین رکھنے والے افرادکے علاوہ آپ کے اصحاب اورجو فرقے طلحہ،زبیر اور عائشہ کے کے ساتھ تھے۔وہ سب ایک ہو گئے اور انہوں نے معاویہ کا ساتھ دیا۔ معاویہ کے ہمراہ جانے والے افراد، حشویہ ،ملوک کے پیروکار اور ان کے یار و مدد گار شامل تھے کہ زبردستی مسلّط ہوتے تھے۔انہوں نے معاویہ کو قبول کیا اور ان سب کو مرجئہ کا نام دیا گیا۔(4)(3)
--------------
[1] ۔ ج6ص47: بادروأولادکم بالحدیث قبل أن یسبقکم الیهم المرجئه''، التہذیب شیخ طوسی: ج8 ص111، وسائل الشیعة:ج 21ص478 اور4427۔
[2]۔ آداب المریدین:191-192
[3]۔ المقالات و الفرق:5
[4]۔ مقالات تاریخی (دسواں شمارہ):87
امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار
اموی دور حکومت میں لوگوں کے دماغ میں فتنہ کی آندھیاں چلنے لگیں۔ایسی حکومت جس نے صاحبان علم سے جنگ کی اور جس نے بعثت پیغمبر(ص) کے زمانے کے مشرکوں کے عقائد کو نئے اور دلکش لباس میں پیش کیا۔علماء کا اتفاق ہے کہ اموی حکومت میں قدری گری زیادہ پھیلی اور امویوں نے اسے اپنی آغوش میں پروان چڑھایااور اس کی حمایت کی تا کہ یہ پلے بڑے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔(1) انہوں نے خدا کی راہوں کو مسدود رکرنے اور قضا و قدر جیسے افکار پیش کئے اور انہیں ترویج دی۔ ان کا مقصدیہ تھا کہ دنیا کو حیرت و سرگردانی اور فکری بے راہ روی میں مبتلا کریں۔اس کام کا نتیجہ شریعتوں کو مقدس نہ سمجھنا،اس کے قوانین کی پابندی نہ کرنا اورحرام اعمال کو انجام دینا تھا کہ جن سے آسمانی ادیان نے منع کیا ہے۔یہ تمام کج روی قضاء الٰہی کے بہانے سے انجام دی جا رہی تھی ۔ امویوں نے اس فکر کی پرورش کی اور پھیلایا تا کہ رسول اکرم(ص) کی زبان سے ان کے بارے میں جو کچھ صادر ہوا ہے ، اسے چھپا سکیں اور یہ بیان کر سکیں کہ حاکمیت اور ان کا اقتدار خدا کی مشیت و ارادے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان ان کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں اور کسی بھی طرح کی سرکشی اور ان کے خلاف کوئی تحریک ،قضاء الٰہی کے خلاف سرکشی شمار کی جائے گی۔ جس نے سب سے پہلے جبرکو نئے انداز میں پیش کیا ،اس کے بارے شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:''ہمیں مکمل اطمینان ہے کہجبری گری اموی دور کے آغاز میں پھیلی اور اس دور کے اختتام تک یہ ایک مکتب میں تبدیل ہو گئی۔کہتے ہیں کہ اس تفکّر کو سب سے پہلے رواج دینے والے کچھ یہودی تھے، جنہوں نے یہ افکار مسلمانوں کو سکھائے اورپھر ان کی نشر و اشاعت کی۔کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے جس مسلمان نے اس فکری تحریک کی طرف دعوت دی ،وہ جعد بن درہم تھا جس نے یہ افکار شام کے ایک یہودی سے سیکھے اورپھر اس نے بصرہ میں لوگوں میں اس کی ترویج شروع کر دی۔ پھر جہم بن صفوان نے یہ افکار جعد سے سیکھے''۔(2)
--------------
[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66
[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66
جہم صرف جبر کے عقیدے کی ہی ترویج نہیں کر رہا تھا بلکہ جنت و دوزخ اور خدا سے ملاقات وغیرہ جیسے اپنے نظریات کی طرف بھی لوگوں کو دعوت دیتا تھا ۔(1)اس طرح اہل کتاب سے جبر کے افکار سیکھنے کے بعد(جوامویوں کی سیاست سے ساز گار تھے) اموی درخت کی شاخیں،اہل کتاب کے درخت کی شاخوں سے مل گئیں۔ ظاہر ہے کہ شام اموی خلافت کا دارالحکوت اور مختلف مذہب و نظریات کا پیروکار تھا۔امویوں نے مذاہب کے سربراہوں سے مسالحانہ روایہ رکھا ہوا تھا اور انہوں نے قیصر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تا کہ اپنی طاقت کی حفاظت کے لئے وقت پڑھنے پر مسلمانوں کو قتل اور ان کی سرکوبی کریں۔اس معاہدہ کے دوران احبار اپنی عمارت کو اونچاکرنے کے لئے اسلامی معاشرے میں رخنہ ڈال رہے تھے اور اموی بھی انہیں اپنے قریب کر رہے تھے۔تاریخی لحاظ سے یہ مطلب بھی قطعی ہے کہ سرجون مسیحی( جو معاویہ اور اس کے بعد یزید اور پھر مروان بن حکم (2)کا مشیر اور اموی حکومت کا راز دار تھا )جبریوں میں سب سے آگے تھا۔(3) اس بناء پر سب فرقوں کے علماء کے مطابق اموی حکومت نے جبری گری کو ترویج دینے اور اسے تقویت دینے کی سیاست اپنائی اور اسے اپنی سیاست کی بنیاد قرار دیا کیونکہ اس کی چادر میں امویوں کے کالے کرتوت پوشیدہ تھے اور ان کے منبر سے ان کے فقیہ ہر بندگلی سے بھی اپنے لئے راستہ نکال لیتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کیوں کی؟ کیوں انہیں دشنام دیتے ہو؟کیوں حجر بن عدی کو قتل کیا؟ یااکثر کو معاویہ سے ملحق کیوں کیا اور استلحاق کی جاہلی سنت کو پھر سے کیوں زندہ کیا؟ یا امام حسین علیہ السلام کو کیوں قتل کیا؟ یاحرہ کے واقعہ میں کیوں مدینہ پر حملہ کیا اور اسے مال غنیمت کی طرح لوٹا اور مکہ پر کیوںسنگ باری کی گئی؟کیوں خدا کے مال کو اپنا بازیچہ اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنایا؟ کیوں خدا کے دین کو باطل کیا اور نماز کو ضائع کیا؟ ان سب سوالوں اور دوسرے سوالوں کے جواب میں ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ سب خدا کی قضاو قدر کے مطابق تھا اور اس پر امت کا اجماع ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر وہ جانے اور تلوار جانے!
--------------
[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:106
[2]۔ التنبیہ والاشراف:ج1ص285
[3]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:69
عقیدتی اختلافات مسلمانوں کو نابود کرنے کا اہم ذریعہ
اموی حکومت نے سرکاری طور پر اپنے متقدمین کی سنت اور ان کے نقش قدم پر چلی۔ اہل کتاب نے بھی ان سے ایک قدم آگے بڑھایا جو ان کے باہمی تخریبی مقاصد میں سے تھا۔وہ جبری گری کے خلاف واقعات کی طرف تیزی سے بڑے اور انہوں نے امت کو جدید فکری خوراک فراہم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مکمل طور پر دو متضاد موضوعات سے مربوط رکھا جائے جس سے وہ حیرت و سرگردانی میں دچار رہیں اور انہیں حقیقت (جو ان کے لئے ایک فطری نظام ہے) کی طرف قطعاً نہ آنے دیاجائے۔ قدری افکار کا اصل تفکر یہ تھا کہ انسان کے تمام اعمال و افعال اس کے ارادہ کا نتیجہ ہیں جو مکمل طور پر خداکے ارادے سے مستقل ہے۔(1) یہ عقائد مکمل طور پر جبری گری سے متعارض تھے حالانکہ جبریوں کا یہ خیال تھا کہ انسان پتھر یا کنکر کی طرح حوادث کی تند و تیز آندھیوں کا اسیر ہے اور اسے خود کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کو حاکموں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ان کا یہ دعویٰ تھا کہ تقدیر الٰہی ابتداء ہی سے ان کے لئے مقدر کر دی گئی ہے تا کہ وہ طاغوت کے محکوم ہی رہیں۔ بقول شاعر:''قلم قضا جس پر چلنا تھا چل گیا ۔پس تمہاری طرف سے حرکت و سکون یکساں ہیں اور رزق و روزی کے حصول کے لئے تمہاری کوششیں ایک جنون ہے حالانکہ جنین کو رحم میں بھی روزی فراہم کی جاتی ہے۔(2) ٹھیک اسی زمانے میں کہ جب جبریوں نے ایسے افکار کی ترویج کی تو قدریوں نے بھی ان کے خط مقابل میں حرکت کی اور ان ہدف یہ تھا کہ لوگوں کو ان مسائل میں الجھا دیں۔ جھگڑوں کی آگ شعلہ ور کردیں اور ہر حال میں اس کا فائدہ اہل کتاب کو ہی پہنچ رہا تھا۔ جس نے سب سے پہلے قدرکا تذکرہ کیا اور اس تفکر کابیج بویا ،اس کے بارے میں شیخ ابوزہرہ کہتے ہیں:جس نے سب سے پہلے قدر کے بارے میں بات کی ،وہ عراق کا ایک شخص تھا جو پہلے عیسائی تھااور پھر مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد دوبارہ عیسائی ہو گیا
--------------
[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:111، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:79
[2]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:81
معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے بھی یہ افکار اسی سے ہی سیکھے تھے۔(1)
ان افکار سے جو کچھ امویوں کے سیاسی منصوبوں ،ان کی خلافت اور خدا کے اسماء و صفات کے بارے میں سازگار تھا،وہ انہوں نے اخذکیا اور پھر ان افکار کے پیروکاروں کو کچلنے میں لگ گئے ۔ ان واقعات میں کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ لوگ بھاگ گئے ؛لیکن پھر بھی یہ مکتب ختم نہیں ہوا ۔ اس کے بعد بصرہ میں بہت سے فرقے باقی بچے اور پھیلے لیکن کچھ کے مطابق یہ فرقے ثنوی تفکرات اور دو قدرت(نور و ظلمت) کے عقائد میں تبدیل ہو گئے۔(2)(3)
گذشتہ واقعات سے واضح ہو جاتاہے کہ صرف عقیدتی و فکری اختلافات لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے ،انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے اور اموی حکومت کی بقاء کا باعث ہی نہیں بنے بلکہ انہیں اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بہت سے لوگ قتل بھی ہوئے۔
ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل ہونا اور ان کے درمیان جنگ وجدال کی آگ بھڑکانا یہودیوں کا درینہ ہدف اور عیسائیوں کی بھیہمیشہ سے یہی خواہش تھی۔
اگر رسول خدا(ص) کے زمانے میں دین کے دشمن مسلمانوں سے جنگ کرتے تھے تو پہلے ان کی اپنی فوج کے سپاہی بھی مرتے تھے اور بعد میں وہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے لیکن بنی امیہ کے زمانے میں لشکر کشی اور ان کے سپاہیوں کے قتل ہوئے بغیر ہی انہوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا اور خود ایک طرف بیٹھ کر مسلمانوں کے قتل و غارت کا تماشا دیکھتے رہے۔
یہود و نصاریٰ کچھ ایسے منصوبے بناتے تھے جن کی وجہ سے مسلمان تفرقہ کے شکار ہو کر ایک دوسرے ہی کو قتل کریں اور یہودو نصاریٰ کے اس گھنونے منصوبے کو اموی عملی جامہ پہنا رہے تھے۔
--------------
[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:112 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:40
[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:117
[3]۔ از ژرفای فتنہ ھا: ج۲ص۴۷۲
اموی دور میں عقلی علوم کی ترویج اور.....
جیسا کہ ہم نے کہا کہ جہمیہ وغیرہ کے افکار کی ترویج،بنی امیہ کی حکومت کو جاری رکھنے،اسلام کے عقیدے سے لوٹنے اور کفر میں دلچسپی پیدا کرنے میں یہودیت و عیسائیت کا بہت اہم کردار تھا۔
بنی امیہ نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اپنے منصوبوں اور افکار کو نافذ کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ گمراہ کن افکار کو ترویج دینے کے علاوہ لوگوں کو ان مسائل کی طرف کھینچنے کے لئے عقلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا۔
سب سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام انجام دیا جس نے''مریانوس'' نام کے ایک عیسائی کی مدد سے عقلی علوم کو عربی ممالک میں داخل کیا ۔ اگرچہ بنی امیہ کے زمانے میں یہ کام کچھ زیادہ رواج نہیں پایا تھا لیکن بنی العباس اور بالخصوص مأمون نے اس کی بہت ترویج کی ۔
''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:عقلی علوم اموی دورمیں رائج تھے ۔ فقط کچھ لوگ کیمیا میں مصروف تھے اور بعید نہیں کہ انہوں نے یہ یونانیوں سے سیکھا ہو جنہیں دوہزار سال پہلے اس کا علم تھا۔
یہ نہیں کہہ سکتے کہ عربوں نے مشرق پر اسکندر کے حملے کے بعد یونانیوں سے طب سیکھی کیونکہ اموی زمانے تک عربوں کو طبی علوم کی کوئی خبر نہیں تھی اور خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے طب، نجوم اور کیمیا عرب ممالک میں منتقل کیا۔
کیمیا کی صنعت مدرسۂ اسکندریہ میں رائج تھی اس لئے خالد نے ''مریانوس ''مسیحی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے تقاضا کیا کہ وہ اسے طب اور کیمیا کی تعلیم دے۔جب اس نے یہ تعلیم حاصل کر لی تو اس نے حکم دیا کہ اس سے مربوط یونانی اور قبطی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔یہ دوسروں کے علوم کوعربی میں منتقل کرنے کے لئے عربوں کا پہلا اقدام تھا۔
خالد کو علم نجوم میں بھی دلچسپی تھی اور وہ یہ علم حاصل کرنے اور اس کے وسائل کی فراہمی کے لئے حد سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا ۔ شاید نجوم کی کتابوں میں اس کے لئے کوئی ترجمہ کیا گیا ہو لیکن ہم تک اس کی کوئی خبر نہیں پہنچی۔
جاحظ نے کتاب ''البیان والتبیین'' میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ فصیح و بلیغ خطیب، شاعر اور ادیبوں کی آراء کو پسند کرتا تھا ۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے نجوم، طب اور کیمیا کو عربی میں ترجمہ کیالیکن عرب عباسی زمانے کے آغاز اور خاص طور پر مأمون کے زمانے میں تجربی علوم جیسے طب، کیمیا، ہیئت اور تاریخ وغیرہ میں مشغول ہوئے۔
اس زمانے میں فارسی، یونانی اور ہندی سے بہت سی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور وہ عربوں درمیان رائج ہوئیں۔(1)
خارجی کتابوں کا ترجمہ
بنی امیہ کے دربار میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اثر و رسوخ برقرار تھا یہاں تک کہ ان کی اور یونانی فلاسفہ کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں ۔ اسی طرح کیمیا کے بارے میں کتابیں بھی عربی زبان میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچیں ۔ اگرچہ بعض لوگ مأمون کودوسرے مذاہب کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا عامل سمجھتے ہیں اور کچھ منصور کو اس کام کے لئے واسطہ قرار دیتے ہیں۔
لیکن ظاہراً خارجی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے میں ان دونوں کا ہاتھ تھا لیکن اس کام کا آغاز انہوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے خالد بن یزید نے یہ کام شروع کیا تھا۔ کتاب''نظام اداری مسلمانان درصدر اسلام میں لکھتے ہیں: جاحط نے ''البیان و التبیین''(2)میں کہا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ایک فصیح و بلیغ خطیب اور شاعر تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ستارہ شناسی،طب اور کیمیا کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔(یعنی اس کے لئے ترجمہ کیا گیا)۔ ابن ابی الحدید''شرح نہج البلاغہ''(3)میں لکھتے ہیں:خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے مترجمین اور فلاسفہ کو وظائف دئے اور وہ اہل حکمت،فن کے ماہرین اور مترجمین کو اپنے قریب لایا۔خالد 85ھ میں فوت ہوا جب کہ ابھی تک کچھ صحابی زندہ تھے۔
--------------
[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام (ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن): ج1ص490
[2]۔ البیان والتبیین: ج1ص126
[3]۔ شرح نہج البلاغہ: ج3ص476
صلاح الدین صفدی سے نقل ہوا ہے کہ ترجمہ کا آغاز کرنے والا مأمون نہیں تھا بلکہ اس سے بہت پہلے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے ''کلیلہ و دمنہ''کو فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا اور اس کے لئےیونانی کتابوں''مجسطی''کا ترجمہ کیا گیا۔
نیز مشہور ہے کہ کیمیا میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خالد بن یزید بن معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔
کہتے ہیں:خالد کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں ۔البتہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا وہ منصور عباسی تھا اور خالد صرف کیمیا کا دلدادہ تھا۔ اس باب میں جس کے کچھ رسالے بھی ہیں اور اس نے یہ فن''مریانس رومی''نام کے ایک عیسائی سے سیکھا تھا۔
''کشف الظنون''(1)میں ذکر ہوا ہے:خالد بن یزید بن معاویہ ( جوحکیم آل مروان اورحکیم آل امیہ کے نام سے مشہور تھا) نے کیمیا میں خاطر خواہ کام کیا۔پھر اس نے فلاسفہ کے ایک گروہ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ کیمیا کو یونانی زبان سے عربی میں منتقل کریں اور یہ عالم اسلام کا پہلا ترجمہ تھا۔
سیوطی کی کتاب''الأوائل''میں ذکر ہوا ہے:سب سے پہلے جس کے لئے طب اور ستارہ شناسی کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ خالد بن یزید ہے اور کچھ کے مطابق وہ منصور ہے۔
ابن الندیم کہتا ہے:خالد بن یزید کے زمانے میں کیمیا اسکندریہ میں رائج تھا پھرخالد نے ایک گروہ کو بلایا کہ جس میں ''اسطفار''رومی راہب بھی شامل تھا۔(2)
قفطی کی کتاب''اخبار الحکماء''میں ذکر ہواہے کہ ابن السندی نے قاہرہ کے کتابخانہ میں تانبے کا ایک سکّہ دیکھا جس پر امیر خالد بن یزید کا نام لکھا ہوا تھا۔
--------------
[1]۔ کشف الظنون: ج1ص477
[2]۔ الفہرست:242 اور 244
اس طرح ابن خلدون کا وہ نظریہ ردّ ہو جاتا ہے کہ جس میں اس نے خالد کو بدویّت سے نزدیک اور علوم و صناعات اور بالخصوص کیمیا(جس کے لئے طبایع سے آشنائی ضروری ہے)سے دور قرار دیا تھا۔
ابن الندیم (جو ابن خلدون کی بنسبت خالد کے زمانے سے نزدیک ہے)کاکہنا ہے کہ خالد کے زمانے میں کیمیا رائج تھا۔
کتاب''تاریخ آداب اللغة العربیة''(1)میں ذکر ہواہے کہ مروان کے زمانے میں 'ماسرجویہ'' کے نام سے ایک طبیب (جس کا تعلق سریانی یہودی مذہب سے تھااور جو بصرہ میں رہتا تھا)نے ایک پادری امرون بن اعین کی لکھی ہوئی کتاب''کُناش''کا سریانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔جب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنا تو اسے وہ کتاب خزانے میں ملی۔کچھ لوگوں نے اس کی تشویق کی کہ اسے باہر نکالا جائے تا کہ مسلمان اس سے استفادہ کریں ۔عمر بن عبدالعزیز نے وہ کتاب باہر لانے اور اسے لوگوں کے اختیار میں دینے کے لئے چالیس دن تک استخارہ کیا۔
کتاب''شفاء الغلیل''میں ذکرہوا ہے کہ ''کُناش''(غُراب کے وزن پر)ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی تذکرہ کا مجموعہ ہے۔حکماء کی کتابوں میں یہ کلمہ بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔(2)
یہ ظاہر سی بات ہے کہ کہ مریانس رومی اور اسطفار رومی (جن کے خالد بن یزید سے تعلقات تھے)جیسے عیسائیوں کے افکار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے افکار پر اثرانداز ہوتے ہوں گے ۔ بالخصوص خالد بن یزید پر کہ جو یزید کا بیٹا اور میسون مسیحی کا نواسہ تھا۔ اگرچہ خالد بن یزیدغاصبانہ خلافت پر تخت نشین نہیں ہوا تھا لیکن اس کے بعد مروان اور کچھ دوسرے اور ان کے بعد بنی العباس جیسے منصور و مأمون (جو خلافت کے دعویدار تھے) نے اسی راہ کو جاری رکھا ۔اس کام سے حقیقت کی جستجو کرنے والوں کے ذہنوں میں اہم سوال جنم لیتا ہے۔
--------------
[1]۔ تاریخ آداب اللغة العربیة: ج1ص233
[2]۔ نظام اداری مسلمانان در صدر اسلام:333
وہ سوال یہ ہے:اگر خلافت کے دعویدار اور خود کو رسول خدا(ص) کا جانشین اور خدا کا خلیفہ سمجھنے والے ان جیسے افراد کا دعویٰ جھوٹا تھا تو مسلمان ان کا احترام کیوں کریں ؟انہیں خدا کا خلیفہ کیوں سمجھیں ؟ اور اگر یہ خدا کے خلیفہ تھے تو انہیں دوسروں پر کوئی امتیاز اور فوقیت کیوں نہیں تھی؟یہاں تک کہ حصول علم کے لئے بھی انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے؟
مکتبی ابحاث، حکومت کی بقاء کا ذریعہ
زمانۂ قدیم سے سیاستدان اپنی حکومت کی بقاء کے لئے لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کرتے چلے آئے ہیں اور اپنے منصوبوں کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کے دشمن بناتے آئے ہیں تا کہ وہ سیاسی مسائل سے دور رہیں اور ان کی غفلت کی وجہ سے سیاستدان لوگوں پر حکومت کر سکیں۔
جیسا کہ ہم نے دوسرے مورد بھی کہا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی بناء پریہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر فرعون نے اپنی حکومت کوبچانے کے لئے عمل کیا اور اس کے بعد ہر دور کا فرعون بھی اسی پر عمل پیرا رہااور وہ پس پردہ اپنے ہی ایجاد کئے ہوئے اختلافات کے ذریعہ لوگوں پرحکومت کرتے رہے۔
پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس خائنانہ منصوبے کے برخلاف لوگوں کو اختلافات اور تفرقہ بازی سے باز رکھا اور قرآن و عترت کو محور قرارد ے کر لوگوں کو ایک صحیح عقیدے کی طرف دعوت دی۔
لیکن بنی امیہ نے قرآن و عترت کی محوریت کو ختم کرنے کے لئے تفرقہ پیدا کیا تا کہ آسانی سے لوگوں پر حکومت کر سکیں ۔
اسی وجہ سے ان کی حکومت کے دوران مختلف مذہبی فرقے وجود میں آئے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑائی جھگڑے میں مشغول ہو گیااور لوگ حکومتی مسائل سے غافل ہو گئے۔
2- پیشنگوئیوں کوچھپانا
دنیا کے لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے رونے کے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک اور بنیادی حربہ پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا۔
اس راہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا اپنا اپنا حصہ تھا اور مختلف منصوبوں کے ذریعے یہ بنیادی اور مؤثر پروگرام انجام دے رہے تھے۔انہوں نے جو پروگرام انجام دیئے ان کے ذریعہ انہوں نے بہت سے خاندانوں کو تاریکی و ظلمت کے اندھیرے میں رکھا اور انہیں نور و روشنی سے دور رکھا۔اس صورت میں اگر تورات و انجیل کی پیشنگوئیاں عام لوگوں کے اختیار میں ہوتیں تو دنیا والوں کے عقائد کی شکل ہی کچھ اور ہوتی۔
اس بحث میں ہم صرف رسول اکرم(ص) کے بارے میں تورات کی ان پیشنگوئیوں کے کچھ نمونے بیان کریں گے جنہیں یہودیوں نے مخفی رکھا اور پھر حقائق کو چھپانے کے سلسلے میں بہت ہی اہم واقعہ ذکر کریں گے جس میں کلیسا اور عیسائیتنے عیسائیوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکنے کے لئے اقدامات کئے۔
الف: یہودی اور پیشنگوئیوں کوچھپانا
یہودیوں کے شیطانی حربوں میں سے ایک (جسے وہ رسول اکرم(ص) کی رسالت کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ ظہور اسلام اورآنحضرت کی ولادت سے پہلے سے انجام دے رہے تھے)لوگوں کو ظہور اسلام اور نبی مکرّم اسلام(ص) کی نبوت کے بارے میں سوچنے سے بھی دور رکھنا تھا۔ یہودی علماء نے ظہور اسلام کی نشانیوں اور آنحضرت کی الٰہی حکومت کے ظہور کو لوگوں سے چھپایا اور انہیں آنحضرت کی طرف آنے سے روکا تا کہ اس طرح وہ لوگوں پر حکمرانی کر سکیں اور ان کے جہل و نادانی سے سوء استفادہ کر سکیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت اور آنحضرت کی بعثت کے بعد یہودی بزرگوں نے اسی طرح سے ہی اپنی دھوکا دہی کو جاری رکھا اور بے شمار افراد کو آئین اسلام سے دور رکھا۔
ان کی مکاریاں،دھوکے اور گھنونے منصوبے بہت ہی وسیع پیمانے پر تھے ۔جس کے جاہل اور بے خبر لوگوں پربہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
ان کا ایک مکارانہ منصوبہ ایسی پیشنگوئیوں کو چھپانا تھا جو ان کی آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ یہودی علماء نے تورات میں تحریف کرکے اسلام اور رسول اکرم(ص) کی نبوت ورسالت کے بارے میں بہت ہی واضح و آشکار پیشنگوئیوں کو چھپایا اور انہیں لوگوں کی دسترس سے دور رکھاتا کہ وہ اسی طرح اپنے باطل راستے پر گامزن رہیں اور آئیں اسلام کی طرف مائل ہونے سے دور رہیں۔ اب ہم جو واقعہ نقل کر رہے ہیں وہ یہودی علماء کی انہی مکاریوں کا بہترین نمونہ ہے۔
مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:
میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔
وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے طالب علم کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟
اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔
میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔
تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔
عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں ۔ اس نے کہا:
میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں کہ جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا اور اسے تالا لگا رہتا تھا۔بزرگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اوربالخصوص نو جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!
اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ''الانسان حریص علی ما منع''یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔
ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔
اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی
کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔ میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔
میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔
ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔
جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوںنے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو ہم تم سے زبردستی چھین لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔
لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔
بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔
اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:سرآنکھوں پر؛چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔
انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر انہوں ے پیغمبر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔
انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔
میں نے کہا:عبداللہ کون ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!
بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔
ہم نے کہا:ایسا نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔ جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔ اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟
میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروان سرا کے مالک کو آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری بات نہیں سمجھ پائے۔
اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میںآئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔
ہم نے کہا:یہ کیسی بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں ۔ ہماری اس کے علاوہ اورکوئی غرض نہیں ہے ۔
اس نے کہا:چلو میں ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔
قاضی نے بات کرنا شروع کی اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔
میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص) اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔
قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟
میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور جہاں تک ہو سکا اس نے اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔
میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میںنے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔
اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر پر سفیدرنگ کا عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوںنے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔
انہوں نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟
میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میںنے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟
میں نے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔
انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟
میں نے کہا:نہیں
انہوں نے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟
میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔
انہوں ے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟
میں نے کہا:نہیں
پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔ میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا چاہئے؟
انہوں نے اپنے مغرب کیجانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین روانہ ہو جاؤ اور پھر فرمایا: تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔
میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟ کیونکہ گفتگو کے دوران میںنے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔ مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔ میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟
میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیں ہے اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔
آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی ہے؟....(1)
--------------
[1] ۔ معجزات و کرامات ائمہ اطہار علیہم السلام:175 ، مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی سے منقول، کامیابی کے اسرار:ج۲ ص۱۱6
اگر یہودی علماء (جو مکتب وحی کے سب سے بڑے دشمن تھے اور ہیں) ایسے حقائق کو نہ چھپاتے اور ان کے دولتمند حضرات نور الٰہی کو بجھانے کی کوششیں نہ کرتے تو یہ حقائق کے واضح و آشکار ہوجاتے جنہیں دیکھ کر بہت سے لوگ آئین اسلام کی طرف آجاتے اور اپنے تحریف شدہ دین سے دستبردار ہوجاتے ۔لیکن افسوس!کہ وہ لوگ نہ صرگ لوگوں کو حق پرستی کی طرف آنے کی راہ میں حائل تھے بلکہ( جیسا کہ ذکر کریں گے) انہوں نے انہیں آخرت کی دنیااور قیامت کا منکر بنا ڈالا۔ جس کے لئے انہوں نے اپنے پوشیدہ ہاتھوں کو ہر قسم کی خباثت سے آلودہ کیا اوراب آلودہ کر رہے ہیں۔
ب:عیسائیت اور پیشنگوئیوں کوچھپانا
یہودیوںکی طرح عیسائیوں نے بھی اسلام کی ترقی کو روکنے کے لئے پیشنگوئیوں کو چھپانے کو ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔انہوں نے اس راہ میں کوششیں کیں اور اسی راہ کوجاری رکھا۔
عیسائیوں نے بھی یہودیوں کی طرح نہ صرف پیشنگوئیوں کو ظاہر کرنے سے گریز کیا بلکہ انہوں نے اسلام کی نشر و اشاعت کا باعث بننے والے اہم ترین حقائق کو چھپایا اور اب بھی چھپا رہے ہیں۔
ایک بہت ہی اہم واقعہ(جس کا کلیسا اور عیسائیت کی شکست میں بڑا کلیدی کردار ہے)جو عیسائیوں کو اسلام کی طرف راغب کر سکتا ہے ،وہ انگلینڈ کے صاحب اقتدار بادشاہ کا اسلام قبول کرنا ہے۔
یہ واضح سی بات ہے کہ اپنی قوم میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے بادشاہ کا مسلمان ہونا ان کے مذہبی عقائد پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتاہے۔
عیسائیوں نے برطانیہ کے عیسائیوں کو اسی طرح کلیسا کا پیروکار رکھنے کے لئے وہاں کے بادشاہ کے مسلمان ہونے کی خبر کو چھپایا کیونکہ بادشاہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ مستقبل میں عیسائیوں کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا باعث بن سکتا تھا۔اس لئے انہوں نے یہ اہم واقعہ اپنی کتابوں میں ذکر ہی نہیں کیا۔
اس واقعے سے آگاہ ہونے کے لئے اب ہم اسے بیان کرتے ہیں:
برطانوی بادشاہ کا مسلمان ہونا
برطانوی بادشاہ''اوفا''(OFFA)
تاریخ کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ گذشتہ صدی میں برطانوی بادشاہ ''اوفا''کا نام سامنے آیا کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا ۔لیکن یہ حقیقت کھل کر سامنے نہ آئی۔
''اوفا''کون تھا؟
اس نے کب حکومت کی؟
اس نے کیوں اسلام قبول کیا؟
اس کے مسلمان ہونے کی خبر کو کیوں چھپایا گیا؟
مذکورہ سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائیکلوپیڈیا (لاروس) کی طرف رجوع کریں۔ان دونوں انسائیکلوپیڈیا میں ''اوفا''(OFFA)کے بارے میں یوں ذکر ہواہے:
اوفا''انگلوساکسونی ''(Anglo-Saxon) بادشاہ تھاجس نے انتالیس سال (757 ء سے 796ء )تک برطانیہ پر حکومت کی۔اس زمانے میں یہ انگلینڈ کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔
پہلے وہ مارسیا(Mercia)یا وسطی برطانیہ(Middle England) کا بادشاہ تھا ۔یہ مملکت سات ملکوں کا حصہ تھی۔اس بادشاہ نے چھوٹے ملکوں جیسے Saxons,W اور Welshکو فتح کرکے اپنے ملک کو وسعت دی۔
اس نے اپنی بیٹیوں کی شادیWessexاورNorthrmbiaکے حکمرانوں سے کی اور یوں اس نے اپنے اثرورسوخ کے دائرے کو مزید پھیلایاکہ جس میں برطانیہ کے تمام حصے شامل تھے۔ اس نے فرانس کے بادشاہ''شارلمان''اور پاپ ''اندریان اوّل''سے معاہدہ بھی کیا۔ اس کے زمانے کے باقی بچنے والے آثار میں سے دیوار اور ڈیمہے جو مارسیا (Mercia) اور ولش(Welsh)کے درمیان بنایا گیاور جو اب تک ''دیوار اوفا''OFFA DYKE''کے نام سے مشہور ہے۔
یہاں تک تو ایک عام مسئلہ تھا لیکن 1841ئ(1227) میں مؤرخین کے لئے ایک سوال پیدا ہوا ۔ اس سال سونے کا ایک سکہ ملاجو اس طاقتور بادشاہ کے زمانے کا تھا۔اس سکے پر کون سی ایسی چیز تھی کہ جس نے سب کو حیران کر دیا۔یہ سکہ اب بھی برطانیہ کے عجائب گھر میں قدیم سکّوں کے حصہ میں موجود ہے۔حیران کن چیز یہ تھی کہ اس سکے کے دونوں طرف کلمہ شہادت ''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، و اشهد أن محمّداً رسول اللّٰه''اور عربی زبان میں قرآن کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔
یہ تو تھا اس سکہ کا واقعہ:
سکہ کے ایک طرف عربی زبان میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے: ''اشهد أن لا اله الاَّ اللّٰه ، وحده لا شریک له ''اور سکہ کے حاشیہ میں '' محمّد رسول اللّٰه''اور پھر'' أَرْسَلَهُ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهِ''(1)لکھا ہوا تھا اور درمیان میں انگلش میں یہ جملہ ''OFFA-REK''( یعنی بادشاہ اوفا )نقش تھا۔حاشیہ میں عربی میں یوںلکھا ہوا تھا:''بسم اللہ،یہ دینار 157 میں بنایا گیا۔
''اوفا''بادشاہ کے دستخط سے یہ تشخیص دی جاسکتی ہے کہ یہ سکہ 757ء سے 796 ء کے درمیان بنایا گیا کہ جب ''انگلوساکسونی''پر ''اوفا''حکومت کر رہا تھا۔ 157ھ وہی 774ء بنتا ہے۔ اس بارے میں بہت سے تقریریں کی گئیں اور دسیوں مقالے لکھے گئے ،ہم اس موضوع کے بارے میںمؤرخین کے فرضیات اور تھیوریوں کو یوں خلاصہ کر سکتے ہیں:
پہلا فرضیہ:''اوفا''بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔
دوسرا فرضیہ:اس نے مفہوم و معنی کو سمجھے بغیرخوبصورتی کے لئے عربی کے ان کلمات اور آیت سے استفادہ کیا۔
تیسرا فرضیہ:اس نے یہ سکہ اپنے ملک کے حجاج (جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں)کی مدد کے لئے بنوایاتا کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور ان کے لئے سفر کی سختی آسان ہو جائے ۔گویااس کا یہ کام ایک سیاسی پہلو رکھتا تھا۔
--------------
[1] ۔ سورۂ توبہ ، آیت:33 (هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهِ)
چوتھا فرضیہ:اس نے 787ء میں پاپ ''اندریان''سے معاہدہ کیا کہ بادشاہ سالانہ مالیات ادا کرے اور ممکن ہے کہ یہ سکہ اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہو۔
محققین میں سے ایک کا کہنا ہے:یہ واضح ہے کہ آخری تین فرضیہ منطق اور انسانی عقل سے سازگار نہیں ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ کوئی بادشاہ خوبصورتی کے لئے سکہ پر کوئی جملے لکھے کہ اسے جس کے معنی بھی معلوم نہ ہوں۔جب کہ یہ جملات ''شہادت ''ہیں کہ جن میں اسلام کے عقائد کا خلاصہ کیا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یورپ کے کچھ بادشاہوں پر اسلامی تمدن اثرانداز ہوا اور انہوں نے عربی زبان میں اپنا نام سکوں پر چھپوایاتھا۔
ان میں سے ایک''الفانسو ہشتم ،فاسیلی دیمتریش'' اور کچھ ''نورمان''حکمرانوں میں سے تھے کہ جن میں ''ویلیم راجر''شامل ہے ۔حتی کہ سلطنت جرمنی کے حاکم''ہنری چہارم''نے عثمانی خلیفہ'' المقتدرباللہ''کا نام اپنے ملک کے سکہ پر نقش کروایا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ''اوفا''کی طرح کلمۂ توحید سکہ پر نقش نہیں کیا تھا۔
تیسرے فرضیہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فرضیہ بہت مبہم ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاپ بادشاہ ''اوفا''سے یہ تقاضا کرے کہ سکہ پر کلمۂ شہادتین نقش کروائے اور اسے مالیات کے طور پر ادا کرے؟
کیا اس میں کوئی منطق نظر آتا ہے؟کیا یہ ناممکن نہیں ہے ؛جب کہ ہم جانتے ہیں کہ پاپ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھے۔لہذا یہ فطری امر ہے کہ وہ سکہ پر دشمن کا شعار و عقیدہ دیکھ کر اس کی مخالفت کرے گا۔چاہے سکہ پر یہ خوبصورتی کے لئے ہی نقش کئے گئے ہوں۔
چوتھے فرضیہ کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمزور فرضیہ ہے ۔یہ ماننا مشکل ہے کہ بادشاہ ''اوفا''نے یہ سکہ اس لئے بنوایا تھا تا کہ بیت المقدس کی زیارت کے لئے جانے والے اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر ے ۔ کیونکہ اس زمانے میںجو عیسائی مقدس شہروں کو دیکھنا چاہتے تھے ،ان کے لئے مسلمانوں کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور اسلامی ملکوں میں ان کی رفت و آمد تھی۔
شاید یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس بادشاہ کی مملکت سکہ نہ بنا سکتی ہو لہذا اس نے اپنا سکہ کسی عربی ملک سے بنوایا ہو۔ لیکن یہ احتمال ضعیف ہے اور یہ وار نہیں ہوتا۔
کیونکہ برٹش انسائیکلوپیڈیا میں ذکر ہوا ہے کہ اس بادشاہ کے نوادرات میں سے نئی طرز کے کچھ سکے ہیں کہ جن پر بادشاہ اور سکہ بنانے والے کا نام نقش ہوا ہے۔کئی صدیوں تک انہیں سکوں سے استفادہ کیا جاتا رہا کہ جن پر بادشاہ ''اوفا''اور اس کی بیوی ملکہ کانثریز(Cynethyth)کی تصویر بنی ہوئی تھی۔انگلینڈ میں سکہ بنانے کا نظام متعدد زمانوں میں رائج تھا۔
ممکن ہے کہ اس بادشاہ کے زمانے میں رائج سکوں کے کچھ اور نمونے برٹش انسائیکلوپیڈیا میں سکّوں (Coins) یا بادشاہ کے حالات زندگی کی بحث میں مل سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ احتمال انتہائی ضعیف ہے کہ بادشاہ اپنے ملک میں سکّہ نہیں بنا سکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ''اوفا''بادشاہ نے اسلام قبول کیا تھا لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ملی اور ان سکّوں کے علاوہ کوئی اور مدرک بھی موجود نہیں ہے۔ہمارے پاس اس بادشاہ کے مسلمان ہونے کے بارے میں معلومات کیوں نہیں ہیں؟مؤرخین اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں کہبرطانیہ کے کلیسانے اس بادشاہ کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں تمام مدارک مٹا دیئے تھے!کیا صرف یہ بادشاہ ہی مسلمان ہوا تھا یا اس کے خاندان کے افراد اور رشتہ دار بھی مسلمان ہوئے تھے؟ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور اس بارے میں کوئی معلومات بھی نہیں ہیں۔ ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بادشاہ نے بیت المقدس کی زیارت کے وقت کچھ مسلمانوں اور ان کے علماء سے ملاقات کی ہو اور اس دوران اسلام قبول کرکے اسلام کا معتقد ہوا ہو۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برٹش انسائیکلوپیڈیا اور فرنچ انسائی کلوپیڈیا (لاروس)نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ نہیں کیابلکہ اسے کلی طور پر ان دیکھا کر دیا ہے۔اس سے کچھ لوگوں کے اس اعتقاد کو تقویت ملتی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ ان انسائیکلوپیڈیا میں علمی غیرجانبداری کا لحاظ نہیں کیاگیا۔(1)
--------------
[1]۔ اسلام و غرب:22
نتیجۂ بحث
ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام کے دشمنوں نے دوسرے حربوں کے علاوہ دو بنیادی حربوں سے اسلام کی مخالفت کی اور انہوں نے یہ سوچا کہ فرقہ سازی اور حقائق کو چھپانے سے اسلام کو شکست دے دیں گے لیکن ان کے یہ بے بنیاد خیالات نقش بر آب ہوئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو نابود نہ کر سکے بلکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی کوششوں سے اسلام کا پرچم ہمیشہ سربلند رہا اور آخر کار تمام مذاہب اور انسانی مکاتب نابود ہو جائیں گے اور دنیا پر صرف مکتب پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حکومت ہو گی۔
جی ہاں!لوگوں کے لئے قرآن، پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے توسط سے پیشنگوئیوں کو چھپانے کا جبران کر دیا ہے۔
اگرچہ دشمن بہت سے مسلمانوں کو امویوں کی آغوش میں جگہ دینے اور انہیں اسلام کی حقیقت سے دور کرنے میں کامیاب رہے لیکن بنی امیہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کریم ، پیغمبر خدا(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئیبے شمار مسلمانوں کو نجات دی ہے اور انہیں بنی امیہ کی غاصبانہ حکومت اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفوں سے آگاہ کیا ہے۔
ان پیشنگوئیوں سے آگاہی کے لئے اب ہم انہیں بیان کرتے ہیں کہ جنہیں اہلسنت علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے تاکہ محترم قارئین یہ جان سکیں کہ اسلام کے دشمنوں نے حقائق کو چھپانے میں شکست کھائی ہے اوران کے لئے اموی حکومت کا غاصبانہ ہونا روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔
کیونکہ یہ پیشنگوئیاں بہت زیادہ تھیں لہذا ہم نے ان میں سے کچھ کو کتاب کے ایک مستقل باب میں ذکر کیا ہے۔
01) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی
02) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی
03) حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی
04) پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز
05) بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں
06) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی
07) حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی
08) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی
09) بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
10) بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی
11) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی
12) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی
13) حکم کے داخل ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس پر لعنت کرنا
14) یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا
15) معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی
16) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی
17) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی
18) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی
19) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی
20) عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی
21) معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی
22) امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی
23) ''الغارات''کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
24) اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی
25) ''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی
26) ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
27) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی
28) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی
29) جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض
30) عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام
31) جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث
32) رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے وقت صحابہ و تابعین کے حالات
33) جناب عمار یاسر کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں کے اثرات
34) ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات
35) جناب اویس قرنی کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور جنگ صفین میں آپ کی شرکت
36) جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت
37) اس روایت میں اہم نکات
38) جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی
39) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی
40) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی
41) ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی
42) حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات
43) رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی
44) مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی
45) مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت
46) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
47) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی
48) مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی
49) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی
50) عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی
51) جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی
52) محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی
53) سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی
54) کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
55) کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
56) پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی
57) 1- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
58) 2- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی
بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی
قرآن مجید میں پروردگار عالم کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں پیشنگوئی لوگوں کوبنی امیہ کے طرز حکومت اوران کے غیر اسلامی کردار و رفتار سے آشنا کروانے کے لئے ہے کہ جس میں تمام اہلسنت اور بالخصوص نوجوانوں کے لئے بہت بڑا درس ہے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفین کا نہ صرف حکومت الٰہی پر کوئی حق نہیں ہیبلکہ وہ اس حکومت کے غاصب ہیں، اور ان میں نہ صرف یہ کہ الٰہی حکام کی صفات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے الٰہی حکومت کو اس کے حقیقی حاکموں سے غصب کرکے خدا کے خلیفہ کے عنوان سے مسلمان کی گردن پر سوار ہو گئے۔جہاں تک ہو سکا انہوں نے نور الٰہی کو بجھانے اور دین کے احکامات کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان سب کے باوجود قرآن کریم اور پیغمبر عظیم(ص) کی پیشنگوئیوں نے اس زمانے میں بھی بے شمار لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیااور اس زمانے کے لوگوں کی راہ راست کی طرف ہدایت کی۔
جس طرح قرآن کریم اور پیغمبر اکرم(ص) کے ارشادات نے اس زمانے کے بہت سے لوگوں کو آگاہ کیا تا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے عقائد سے دستبردار ہو جائیں ،اسی طرح اس زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث میں غور فکر کرکے راہ حق کو پہچان کر اسی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
اس طرح کی آیات و روایات سے آشنا ہونے کے لئے ان موارد پر توجہ کریں:
1۔ ترمذی نے یہ روایت سورۂ قدر کے باب (باب85) میں یوسف بن سعید سے نقل کی ہے:
جب لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی تو اس کے بعد ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:تم نے مؤمنینروسیاہ کر دیا!یا کہا:اے مؤمنوں کو روسیاہ کرنے والے!
آنحضرت نے اس سے فرمایا:
میری مذمت نہ کرو،خداوند تم پر رحمت کرے ؛کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بیٹھے ہیں۔
آنحضرت اس واقعہ سے پریشان ہوئے ،پس یہ آیت نازل ہوئی:
(اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ )(1)یعنی جنت میں ایک نہر۔
(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،،وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )(2)
بیشک ہم نے قراان کو شب قدر میں نازل کیا.اور آپ کیا جانیں کہ یہ شب قدر کیا چیز ہے. شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اس میں فرشتے اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں.اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔
اے محمد !بنی امیہ اس کے مالک بن جائیں گے!
قاسم کہتے ہیں:میں نے بنی امیہ کی حکومت کو شمار کیا جس کے ہزار مہینہ تھے نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ۔(3)
2۔ سیوطی نے کہا ہے:خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:
رسول خدا(ص) نے بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھا تو اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔ پس خداوند کریم نے ان پر وحی کی کہ یہ ایک حکومت ہے جو انہیں ملے گی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی: (انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) خطیب نے ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: رسول خدا(ص) نے فرمایا:
--------------
[1]۔ سورۂ کوثر، آیت:1
[2]۔ سورۂ قدر،آیت: 5 -1
[3]۔ الدر المنثور: ج6ص371
میں نے دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیں گے،یہ واقعہ میرے لئے بہت ناگوار تھا۔خدا نے یہ آیت نازل فرمائی: (انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ)
3۔ ابن اثیر کہتا ہے: جب (امام)حسن (علیہ السلام) واپس کوفہ گئے تو ایک شخص نے ان سے کہا:اے مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے!(امام) حسن (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: میری سرزنش نہ کرو؛کیونکہ رسول اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ایک
ایک کر کے ان کے منبر پر چڑھ رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔ خداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:(اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ )''ہم نے تمہیں کوثر عطا کی''جوجنت میں ایک نہرہے۔
اور یہ آیت نازل فرمائی: (انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )
بنی امیہ تمہارے بعد اس کے مالک بن جائیں گے۔
طبری نے بھی ''تاریخ طبری: 5810'' میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور سیوطی نے بھی ''تاریخ خلفائ:25''میں اسے ترمذی سے نقل کیا ہے ۔ حاکم نے بھی اسے اپنی مستدرک میںاور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(1)
بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی
قرآن کریم میں بنی امیہ کو شجر ملعونہ سے تعبیر کیاگیا ہے اور ابن ابی الحدید کے مطابق مؤرخین و محدثین عبداللہ بن عباس (پیغمبر اکرم(ص) کے چچا زاد بھائی) سے نقل کرتے ہیں: ایک رات پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بندروں کا ایک گروہ آپ کے منبر کے اوپر چڑھ رہا ہے اور اتر رہا ہے ۔ اس خواب کے بعد آنحضرت بہت پریشان ہوئے ۔گویا اس خواب سے آپ مطمئن نہیں تھے یہاں تک آنحضرت پر سورہ قدر نازل ہوا جوپیغمبر (ص) کے لئے سکون کا باعث بنا۔
--------------
[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:25
مفسرین قرآن کی تفسیر کی بناپر درج ذیل آیۂ مبارکہ رسول اکرم(ص) کے اس خواب کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا:
(وَاِذْ قُلْنٰالَکَ اِنَّ رَبَّکَ أَحٰاطَ بِالنّٰاسِ وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمٰا یَزِیْدُهُمْ اِلاّٰ طُغْیٰاناً کَبِیْراً)(1)
اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔(2)
پیغمبر اکرم(ص) اس خواب کے بعد بہت زیادہ پریشان تھے یہاں تک کہ بعض کہتے ہیں:اس کے بعد تا وقتِ آخر تک رسول خدا(ص) کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں آئی۔
اس آیت میں شجر ملعونہ (وہی بنی امیہ کے حکمران)کی طرف واضح اشارہ ہوا ہے۔
41 ھ میں معاویہ کے ساتھ حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سفیان بن ابی لیلیٰ حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:اے مؤمنو کو رسوا کرنے والے تم پر سلام ہو!
حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:بیٹھو، خدا تم پر رحمت کرے؛ پیغمبر اکرم(ص) پر بنی امیہ کی بادشاہی واضح ہو گئی تھی اور آپ نے خواب میں یوں دیکھا تھا کہ وہ ایک کے بعد ایک آپ کے منبر پر جا رہے ہیں۔اس کام سے رسول خدا(ص) بہت پریشان ہوئے اور خدا نے اس بارے میں قران کریم کی کچھ آیات نازل فرمائیں اور پیغمبر(ص) سے یوں خطاب ہوا:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے....''۔
--------------
[1]۔ سورۂ اسراء، آیت:60
[2] ۔ اس آیۂ شریفہ میں ایک بہت خوبصورت تلمیح استعمال ہوئی ہے اور وہ ''یزید ''کا نام ہے اور یہ موضوع کہ بہت بڑا ظالم و سرکش ہے
میں نے اپنے بابا علی علیہ السلام (ان پر خدا کی رحمت ہو) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
جلد ہی امت کی خلافت موٹی گردن اور موٹے پیٹ والا شخص سنبھالے گا۔
میں نے پوچھا :وہ کون ہے؟
فرمایا:وہ معاویہ ہے۔
میرے بابا نے مجھ سے فرمایا:قرآن نے بنی امیہ کی حکمرانی اور اس کی مدت کی خبر دی ہے اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے'' اور پھر فرمایا:یہ ہزار مہینے بنی امیہ کی مدت حکومت ہے۔(1)
اس روایت میں ایک اور پیشنگوئی بھی ہوئی ہے کہ جو اس کی صحت پر دوسری دلیل ہے اور وہ یہ کہ:بنی امیہ کی مدت ہزار ماہ تک ہو گی اور اس مدت کے دوران خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام اور تمام لوگوں پر کیسے کیسے مظالم کئے جائیں گے۔
اہلسنت کے معروف علماء نے متعدد روایات میں بنی امیہ کے فتنہ کے بارے میں قرآن کی کچھ آیات نقل کی ہیں کہ جو ان سب لوگوں کے لئے عبرت کا وسیلہ ہونی چاہئیں کہ جو معاویہ اور تمام بنی امیہ کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔
ان روایات مں بنی امیہ کو کفر کے امام اور دین کے دشمنوں کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔ اس بناء پر اہل تسنن میں ایسا گروہ کہ جومعاویہ کو مسلمان اور رسول خدا(ص) کا خلیفہ سمجھتا ہے !وہ اپنے عقیدے میں تجدید نظر کریں اور اپنے دل سے ان کی محبت کو نکال دیں ۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خود کو ملت اسلام کا جزء اور رسول خدا(ص) کی شریعت کا تابع شمار کرنے والے آنحضرت(ص) کے دشمنوں اور آنحضرت کے خاندان اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کا احترام کریں اور انہیں رسول خدا کا جانشین اور خلیفہ سمجھیں؟!
کیا جن کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں دیکھا ہے،تو کیا ان میں آنحضرت(ص) کے آئین کی قیادت و رہبری کرنے کی صلاحیت ہے؟!
--------------
[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آیندہ:302
''تاریخ بغداد''میں خطیب بغدادی کہتے ہیں: رسول اکرم(ص) نے فرمایا:
أریت بن اُمیّة فی صورة القردة و الخنازیر، یصعدون منبر، فشق ذلک فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)
مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں میرے منبر پر چڑھیں گے، یہ مجھ پر سخت ناگوار گذرا پس یہ آیت نازل ہوئی:''
نیز کہا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
أریت بن اُمیّة یصعدونمنبر، فشق علّ فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)(1)
مجھے بنی امیہ دکھلائیگئے کہ وہ میرے منبر پر چڑھیں گے اور یہ مجھ پر سخت ناگوار گذرا پس یہ آیت نازل ہوئی:''بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے''۔
سیوطی نے ''الدّر المنثور''میں نقل کیاہے:
رأء رسول اللّٰه (ص) بن فلان ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک ، فما استجع ضاحکاًحتّی مات وأنزل اللّٰه:(وَمٰاجَعَلْنَا الرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ)۔
رسول اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں۔پس آپ اس سے بہت پریشان ہوئے اور اس واقعہ کے بعد کسی کے ساتھ نہیں مسکرائے یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے گئے ۔خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔نیز سیوطی نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: أریت بن امیّة علی منابر الأرض وسیتملّکونکم فتجدونهم أرباب سوء
مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ زمین کے منبروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور وہ بہت جلد تمہارے مالک بن جائیں گے!اور پھرتم انہیں برے ارباب پاؤ گے۔
--------------
[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:38، تاریخ بغداد:449
واهتمّ رسول اللّٰه (ص) لذلک: فأنزل اللّٰه (وَمٰاجَعَلْنَاالرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ)(1)
پیغمبر اکرم (ص) اس واقعہ سے بہت پریشان و غضبناک ہوئے پس خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔
حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی
بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں نقل ہونے والی پیشنگوئیوں میں سے کچھ پیشنگوئیاں ان سب کے بارے میں ہیں اور کچھ پیشنگوئیاں ان میں سے مخصوص افراد کے بارے میں ہیں۔جیسے ابوسفیان،حکم یا اس کے کسی بیٹے کے بارے میں وارد ہونے والی پیشنگوئیاں۔
ہم اس بارے میں جو روایت ذکر کریں گے ،وہ روایت اہلسنت کے مشہور علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں۔
سیوطی نے اپنی تفسیر میں ابن ابی حاتم سے اور اس نے عمر کے بیٹے سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو اپنے منبر پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے، خداوند نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:
(وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ )(2)
اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے۔ ''شجر ملعونہ''سے حکم اور اس کے بیٹے مراد ہیں۔
نیز سیوطی نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ اس نے مروان بن حکم سے کہا:
میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ وہ تمہارے باپ اور دادا سے فرما رہے تھے:
--------------
[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱
[2]۔ سورۂ اسراء،آیت:60
انکم الشجرة الملعونة فی القرآن
تم ہی وہ شجر ہو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔(1)
آلوسی نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:
رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابرکأٔنهم القردة، و أنزل اللّٰه تعالی فی ذلک: (وَمٰا جَعَلْنٰا....)،والشجرة الملعونة الحکم وولده
میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندر وں کی طرح تھے۔خداوند نے اس بارے میں یہ آیت (وَمٰا جَعَلْنٰا..) نازل فرمائی ۔اور شجر ملعونہ حکم اور اس کے بیٹے ہیں۔(2) قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:
انه رأء فی المنام بن مروان علی منبره نزو القردة، فساء ذلک فقیل:انّما ه الدّنیا أعطوها، فسرّی عنه و ما کان له بمکّة منبر و لکنّه یجوز أن یری بمکّة رؤیا المنبر بالمدینة
رسول اکرم(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی مروان آپ کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے تو آنحضرت سے کہا گیا کہ یہ دنیا ہے کہ جو انہیں دی جائے گی۔اس سے آپ کا غم ہلکا ہوا اور اس زمانے میں آنحضرت کا مکہ میں کوئی منبر نہیں تھا لیکن آپ نے مکہ میں عالم خواب میں وہی منبر دیکھا تھا کہ جو مدینہ میں تھا۔(3)
شوکانی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابر کأنهم القردة ، فأنزل اللّٰه هذه الآیة میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے،پس خدا نے یہ آیت (وَمٰا جَعَلْنٰا...) نازل فرمائی ۔(4)
--------------
[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱
[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:29،روح المعانی:ج4ص191
[3]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،الجامع لأحکام القرآن:ج10ص283
[4]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،فتح القدیر:ج3ص298
فخر رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کی ہے:
.... رأی رسول اللّٰه(ص)ف المنام انّ ولد مروان یتداولون منبره، فقصّ رؤیاه علی أبی بکر و عمر و قد خلا ف بیته معهما، فلمّا تفرّقوا سمع رسول اللّٰه (ص) الحکم یخبر رسول الله (ص)، فاشتدّ ذلک علیه و ممّا یؤکده هذا التأویل قول عایشه لمروان: لعن اللّٰه أباک و أنت ف صلبه، فأنت بعض من لعنه اللّٰه(1)
.... رسول خدا(ص) نے خواب میں دیکھا کہ مروان کے بیٹے آپ کے منبر پر چڑھ رہے ہیں۔آپ نے اپنا خواب ابوبکر و عمر سے بیان کیا کہ جو پیغمبر(ص) کے گھر میں آپ کے ساتھ تنہا تھے ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول خدا(ص) نے سنا کہ حکم نے یہ واقعہ پیغمبر(ص) سے نقل کیا ہے ۔ یہ واقعہ آپ پر سخت ناگوار گذرا (کہ ان دو افراد نے آپ کا فرمان حکم تک پہنچا دیا) اس آیت کی تأویل پر جو چیز تاکید کرتی ہے وہ عائشہ کا مروان سے کہا گیا قول ہے کہ خداوند نے تمہارے باپ پر لعنت کی ہے جب کہ تم اس کے صلب میں تھے پس تم پر بھی خدا کی لعنت ہے۔سیوطی نے بھی اس آیت کی تأویل میں یہ روایت دوسری عبارت میں نقل کی ہے:
.... رأی رسول اللّٰه (ص) بن الحکم بن أب یالعاص ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک، فما استجمع ضاحکاً حتّی مات و أنزل اللّٰه فی ذلک ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ)(2)
پیغمبراکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبروں پر حکم بن ابی العاص کے بیٹے بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد آپ بہت پریشان ہوئے اور دنیاسے جاتے وقت تک کسی نے آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔
--------------
[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،جامع البیان:ج9ص112
[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:33،اتاریخ الخلفاء:26
زمخشری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تأویل کو دوسری طرح نقل کیا ہے:اس نے اس آیت مبارکہ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) کے بارے روایت کی ہے:
رأی فی المنام أنّ ولد الحکم یتداولون منبره کما یتداول الصبیان الکرّة۔(1)
پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ حکم کے بیٹے آپ کے منبر پر اس طرح کھیل رہے ہیں کہ جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔
پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز
پیشنگوئیاں مستقبل کے لوگوں کا رسول اکرم(ص) کے ساتھ ارتباط اور ان بزرگ ہستیوں کے صحیح عقائد سے آشنا ہونے کا ذریعہ ہیں۔ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کو درک نہیں کیا اور جو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپ کے ارشادات سے استفادہ کرنے سے محروم تھے اور ہیں،لیکن وہ مستقبل کے بارے میں آنحضرت کے بیان کئے گئے فرمودات کی طرف رجوع کرکے رسول خدا(ص) کی نظر میںآنے والے واقعات کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ جان سکتے ہیں کہ جو واقعات آنحضرت کے زمانے کے بعد وقوع ہوئے یا وقع پذیر ہوں گے ،ان کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کیا فرمایا ہے۔
پیشنگوئیوں اور آئندہ کے حوادث کو بیان کرنے سے خاندان وحی علیہم السلام کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کے لوگ اپنے زمانے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ ہوں اور کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کریں اور ان کے مقابلے میں ہوشیار رہیں۔
اگرچہ خاندان وحی علیہم السلام نے گذشتہ زمانے میں اپنے پاس موجود لوگوں سے اپنے فرامین بیان کئے لیکن ان کے فرامین ہر اس شخص کے لئے ہیں کہ جنہوں نے ان حوادث کا سامنا کیا یاسامنا کریں گے۔اسی طرح اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والے لوگوں کو گذشتہ تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے اور انہیں یہ جاننا چاہئے کہ ان واقعات کے بارے میں رسول خدا(ص) اور دین خدا کے پیشواؤں کا کیا اعتقاد تھا۔
--------------
[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:34،الکشّاف:ج2ص676
اس بناء پر جس زمانے کے بارے میں بھی خاندان وحی علیہم السلام نے کسی واقعہ کی پیشنگوئی کی ہو تو اس زمانے کے لوگوں (اور اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والوں)کو ان سے آگاہ ہونا چاہئے تا کہ آنکھیں بند کرکے گمراہی کی طرف نہ چلے جائیں اور گمراہ کرنے والی سازشوںسے دھوکا نہ کھائیں۔
پس خاندان وحی علیہم السلام کی زبان سے پیشنگوئیوں کو بیان کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ آئندہ آنے والے لوگ اپنے زمانے کے حوادث و واقعات سے آگاہ ہوں اور گمراہ کرنے والوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں اور گمراہی کی وادی میں قدم نہ رکھیں۔
ایک بہت ہی اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ اور غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ حدیث لکھنے سے منع کرنے کے اسباب وعلل میں سے ایک رسول اکرم(ص) کی احادیث میں پیشنگوئیوں کے انتشار کو روکنا تھا۔کیونکہ رسول اکرم(ص) کی حدیثوں کی وجہ سے لوگ آئندہ کے حالات اور جنم لینے والے فتنوں سے آگاہ ہورہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت سے افراد کی ہوشیاری اور بیداری کے لئے مؤثر تھیں۔
رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں سے آگاہ افراد کے لئے یہ حقیقت واضح و روشن ہے اور سب لوگوں کو ان سے آگاہ ہونے کے لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سپہ سالار جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔
ہم آئندہ اس بارے میں بحث کریں گے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت کی پیشنگوئیوں نے کس طرح شام کے لشکر میں اختلافات پیدا کر دیئے اور ان میں سے کچھ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ کیوں مل گئے حتی کہ پیشنگوئیوں کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ معاویہ اور عمرو عاص کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور نزدیک تھا کہ اس کی وجہ سے شام کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔
بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں
معاویہ، اس کی حکومت اور بنی امیہ کے پورے خاندان کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں یہ بنیادی نکتہ بیان کرتی ہیں کہ امویوں نے رسول خدا(ص) کے فرامین پر توجہ نہیں کی اور حکومت کی کرسی پر ٹیک لگا کر آنحضرت کے حقیقی جانشینوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔
جاری ہے۔۔۔
پوری کتاب پڑھنے کے لئے ڈاوںلوڈ کریں۔ ڈاونلوڈ کتاب
Comments powered by CComment