اس کتاب کی تالیف کا مقصد ۔
عصر حاضرمیں ہم ایک عظیم تبدیلی کے گواہ ہیں، ایسی تبدیلی جو دنیا کے سب سے بڑے آسمانی دین ،اسلام کے سبب سے وجود میں آئی ہے۔
عضر حاضر میں اسلام نے اک نیاجنم لیا ہے، دنیا کے مسلمان، خواب غفلت سے بیدارہوئے ہیں اور اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں، اوراپنی مشکلات کے حل ،جوانھیں کہیںاور نظر نہیں آئی، اسلامی تعلیمات اور اس کے اصول وفروع میں تلاش کررہے ہیں۔
اس وقت یہ جاننا اہم ہے کہ اس عظیم تبدیلی کی وجہ کیاہے؟ یہ ایک مستقل اور جدا موضوع ہے۔ اس وقت اس کے مہم آثار تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں آشکار ہوچکے ہیں، یہی سبب ہے کہ دنیا کے لوگ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیںکہ آخر تعلیمات اسلامی ہیںکیا؟ اور اسلام کے پیغام میں کیا تازگی ہے؟
عصر حاضر کے ایسے حساس ماحول میںہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اسلام حقیقی کو بغیر کسی بیچیدگی کے واضح اور آسان پیرایہ میں لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اسلام اورمذاہب اسلامی کے سلسلے میں جو ان کی تشنگی ہے اسے دور کریں ،اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خاموش رہیں اور دوسرے ہماری طرف سے باتیں اور فیصلہ کریں۔
۲۔ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اسلام میں بھی دوسرے ادیان کی طرح بہت سے مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کے اپنے عقیدتی اور عملی خصوصیات ہیں ۔ البتہ یہ اختلافات ہرگزاس حد تک نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کی راہ میں مانع ہوسکیں۔ بلکہ وہ سب مل کر اتحاد و ہمدلی کے ساتھ دنیا کے طوفانوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اپنے مشترک دشمنوں کی سازشوں کو عملی ہونے سے روک سکتے ہیں۔
یقینا اس اتحاد ، اتفاق ، ہم فکری اورہم دلی کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں اصول و ضوابط کی رعایت کی ضرورت ہوگی، جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ اسلامی فرقے ایک دوسرے کی معرفت حاصل کریں، ان کی خصوصیات اور امتیازات کو پہچانیں، اس لئے کہ صرف اس پہچان کے ذریعے ہی وہ ایک دوسرے کے سوء ظن سے محفوظ رہ سکتے ہیں ،اورایک دوسرے کی طرف دوستی بڑھاسکتے ہیں ،ایک دوسرے کو پہچاننے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ ان کے عقائد،اصول و فروع ،ان کے معروف و مشہور علماء سے حاصل کریں ۔اسلئے کہ اگر ماہرین سے یہ چیزیں حاصل نہیں کی گئیں یا ایک فرقے کے عقاید کو ان کے دشمنوں سے سن کر حاصل کریں تو یقینا کبھی بھی مقصد تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے اور حسن ظن ،سوء ظن میں تبدیل ہوجائے گا۔
۳۔ مندرجہ بالا دو نکتوں کے پیش نظر ہم نے ارادہ کیاہے کہ اسلامی عقاید اور اس کے اصول و فروع کو شیعہ مذہب کے امتیازات کے ساتھ، اس مختصر سی کتاب میں بیان کریں اور ایسی کتاب تالیف ہو جس میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہوں:
۱ ۔ مختصر و مفید تمام مطالب کا احاطہ ہوسکے اور قاری کو ضخیم کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پیش نہ آئے۔
۲ ۔ بحثیں واضح ، روشن اور آسان بیان ہوں، مبھم نہ ہوں اور ایسی باتوں اور اصطلاحوں سے بھی پرہیز کیاجائے جو علمی محافل اور دانشور طبقہ سے مخصوص ہیں۔ہاں یہ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ بھاری اصطلاحوں کے استعمال کے بغیر بھی مفاہیم کے عمق و گہرائی میں کمی واقع نہ ہونے پائے۔
۳ ۔ مقصد صرف عقاید بیان کرناہے، ان کی دلیلیںنہیں،ہاں حساس مواقع پر بحث اور ضرورت کے مطابق کتاب و سنت اورعقل سے دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔
۴ ۔ ہر طرح کی خام خیالی، پردہ پوسی اور سوء ظن سے محفوظ رہیں، تا کہ حقایق ان کی اصلی شکل وصورت مین بیان ہوسکیں۔
۵ ۔ تمام مذاہب کے سلسلے میں شایستگی قلم اور ادب و احترام کا لحاظ رکھا جائے۔
یہ کتاب مندرجہ بالا نکات کی رعایت کے ساتھ سفر بیت اللہ ، جو روح و جان کی طہارت و پاکیزگی کا سبب ہے، میںتالیف کی گئی ،اس کے بعد مختلف بزم میں محققین و دانشوروں کے گر وہ نے بحث و مباحثہ کے بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچایاہے۔
امید ہے کہ جس مقصد کے تحت یہ کتاب تالیف کی گئی ہے۔ ہم اس میں کامیاب ہوں اور یہ کتاب ہمارے لے ذخیرہ آخرت بن جائے۔ آخر میں بارگاہ احدیت میں دعا ہے:
---------
ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی الایمان ان آمنوا بربکم فآمنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیئاتنا و توفنا مع الابرار۔ (۱)
۱
بخش اول۔خداشناسی و توحید ہمارے عقیدے
بخش اول۔خداشناسی و توحید ۱ ۔ وجود قادرمطلق ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم تمام عالمین کا خالق ہے، اور اس کی عظمت، علم و قدرت کے آثار ،تمام مخلوقات و موجودات جہان میں آشکار و ہویدا ہیں، ہیاں تک کہ ہمارے باطن میں، تمام جانداروں اور گیاہوں میں، آسمان کے ستاروں اور تمام عوالم بلکہ تمام ذروں میں ظاہر ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جتنا زیادہ اس دنیا اور اس کے اسرار و رموز میں غور وخوض کیاجائے، خداوند عالم کی ذات کی عظمت، اس کے علم و قدرت کی وسعت سے آگاہی میں اضافہ ہو تا جاتا ہے۔ علم و دانش کی ترقی سے اس کے علم و حکمت کے نئے دروا ہوتے ہیں اور ہماری فکر و نظر کی جہتوں میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔اور یہ تفکر و تدبر اس کی ذات سے عشق کے زیادہ ہونے کا سبب بنتاہے اور ہر لحظہ ہمیں اس سے قریب اور نزدیک کرتا ہے اور ہم اس کے نورو جلال و جمال میں محو ہوتے رہتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہواہے: و فی الارض آیات للموقنین ۔و فی انفسکم افلا تبصرون ۔
ترجمہ: اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں، اور خود تمہارے اندر بھی، کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو۔(١)
ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنھارلآیات لاولی الالباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السماوات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔
ترجمہ: بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل ونھار کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لیے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں۔ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیںاور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور د فکر کرتے ہیںکہ خدایا تونے یہ سب بےکار پیدا نہیں کیا ہے تو پاک و بے نیاز ہے، ہمیں عذاب خدا سے محفوظ فرما۔(٢)
____________________________________
(١) سورہ ذاریات آیہ ۲۰،۲۱
(٢) سورہ آل عمران آیہ ۱۹۰، ۱۹۱
۲ ۔ صفات جمال و جلال ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اور تمام کمالات سے آراستہ ہے، اس کی ذات، کمال مطلق اور مطلق کمال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ اس کائنات میں جتنا بھی حسن اور کمال پایا جاتاہے اس کا مبدا و منبع پروردگار عالم کی ذات با برکت ہے۔
ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان اللہ عما یشرکون۔ ھو اللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی یسبح لہ ما فی السماوات والارض و ھو العزیز الحکیم۔
ترجمہ: وہ اللہ وہ ہے، جس کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں ہے۔ وہ بادشاہ، پاکیزہ صفات، بے عیب، امان دینے والا ، نگرانی کرنے والا صاحب عزت، زبردست اور کبریائی کا مالک ہے۔ وہ ان تمام باتوں سے پاک وپاکیزہ ہے جو مشرکین کیا کرتے ہیں۔ وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کرنے والا ، ایجاد کرنے والااور صورتیں بنانے والا ہے، اس کے لیے بہترین نام ہیںزمین و آسمان کا ہر ذرہ اسی کے لیے محو تسبیح ہے اور وہ صاحب عزت و حکمت ہے۔(١)
یہ اس کی صفات جمال و جلال کے کچھ نمونہ ہیں۔
۳ ۔ خداوند عالم کی ذات پاک و لا محدود ہے: ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کا وجود، تمام جہات سے لا متناہی ہے، علم و قدرت اورحیات ابدی و ازلی ہونے کے لحاظ سے، یہی دلیل ہے کہ اسے زمان و مکان میں قیدنہیں کیاجاسکتا اس لیے کہ زمان و مکان میں مقید محدود ہوتاہے، اس کے با وجود ، وہ ہر جگہ اور ہر زمانہ میں موجود ہے، اس لیے کہ وہ ہر زمان و مکان سے بالا اور مبرا ہے۔
یقینا وہ ہم سے بے حد قریب ہے وہ باطن میں موجود ہے ، وہ ہر جگہ موجود ہے اس کے با وجود کہ وہ بے مکان ہے :
وھوا الذی فی السماء الہ و فی الارض الہ و ھوالحکیم العلیم
ترجمہ: وہ اللہ وہ ہے جو آسمان و زمین معبود ہے اور وہ حکیم و علیم ہے۔(٢)
و ھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر۔
وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کا دیکھنے والا ہے۔(٣)
یقینا وہ ہم سے خود ہماری بہ نسبت زیادہ قریب ہے، وہ ہمارے باطن میں موجود ہے، وہ سب جگہ حاضر و ناظر ہے جبکہ وہ مکان نہیں رکھتا۔
و نحن اقرب الیہ من حبل الورید
ترجمہ: اور ہم اس سے شہ رگ حیات سے زیادہ نزدیک ہیں۔(٤)
ھو الاول والآخر والظاہر والباطن و ھوبکل شی علیم
وہ ہے ابتدا و آخر، ظاہر و باطن اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔(٥)
اور جو قرآن مجید میںذکر ہواہے : ذوالعرش المجید (وہ صاحب عرش و صاحب مجد و عظمت ہے۔)(٦)
(عرش اس آیہ کریمہ میں بلند شاہی تخت کے معنا میں نہیں ہے) قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پرذکر ہواہے:
الرحمن علی العرش استوی ۔ (خداوند عالم کا ٹھکانا عرش ہے۔)(٧)
اس آیہ کریمہ کے یہ معنا ہرگزنہیںہیں کہ وہ ایک مکان میں ہے بلکہ اس کے معنا یہ ہیں کہ خداوند عالم کی حاکمیت تمام عالم مادہ اور جہان ماوراء طبیعت میں قائم ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اگر اس کے کسی خاص مکان کو تسلیم کرلیں تو گویا ہم نے اسے محدود کردیا ہے اور صفات مخلوقات کو اس کے لئے ثابت کردیا ہے اور اسے دوسری تمام اشیاء کی طرح مان لیا ہے جبکہ لیس کمثلہ شی ۔ کوئی بھی شی اس جیسی نہیں ہوسکتی ۔ (٨)
ولم یکن کفوا احد ۔اسکی نظیر ملنا محال ہے اس کے لئے نہ کوئی شبییہ ہے نہ کوئی نظیر ۔(٩)
____________________________________
(١) سورہ حشر آیہ ۲۳،۲۴
(٢) سورہ زخرف آیہ ۴۸
(٣) سورہ حدید آیہ ۴
(٤) سورہ ق آیہ ۶۱
(٥) سورہ حدیدآیہ ۳
(٦) سورہ بروج آیہ۵۱
(٧) سورہ بقرہ آیہ ۲۵۵، قرآن مجید کی بعض آیتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی کرسی تمام آسمان و زمین سے بڑی ہے لہذا یہ عرش تمام عالم مادہ سے بڑا ہے۔ و سع کرسیہ السموات والارض۔
(٨) سورہ شوری آیہ ۱۱
(٩) سورہ توحید آیہ ۴
۴۔ وہ جسم نہیں رکھتا اور ہرگزدکھائی نہیں دے گا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا وند عالم کو ہرگز آ نکھوںسے نہیں دیکھا جاسکتا، اس لیے کہ آنکھوں سے دکھ جانے کے معنا یہ ہیں کہ وہ جسم ہے، مکان رکھتا ہے، رنگ و شکل و جہت رکھتاہے جب کہ یہ سب مخلوقات کی صفات ہیں اور خداوند عالم بالا و منزہ ہے اس بات سے کہ مخلوقات کے صفات اس کے اندر پائے جائیں۔
خداوند عالم کی رویت کا عقیدہ رکھنا، ایک طرح کا شرک ہے:
لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار و ھو اللطیف الخبیر۔
ترجمہ: آنکھیںاسے نہیں دیکھتی مگر وہ ہماری آنکھوں کو دیکھتاہے بے شک وہ بخشنے والا اور جاننے والاہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب موسی کی قوم نے بہانہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں: لن نومن لک حتی نری اللہ جہرة ۔ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لا ئیں گے مگر یہ کہ خداوند عالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (١)
حضرت موسی (علیہ السلام ) انھیں کوہ طور پرلے گئے اور خداوند عالم سے بنی اسرائیل کی خواہش کا اظہار کیا اور خداوند عالم کی طرف سے یہ جواب آیا :
لن ترانی ولکن انظر الی الجبل فان استقر مکانہ فسوف ترانی فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا و خر موسی صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک و انا اول المومنین۔
ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے، ہاںکوہ طور کی طرف نگاہ کرو اگر وہ اپنی جگہ پرثابت رہاتو مجھے دیکھ سکتے ہو اور چونکہ جیسے ہی پروردگار نے کوہ طور پر جلوہ دکھا یاوہ خاک میں تبدیل ہوگیا اور موسی بے ہو ش ہوکر زمین پرگر پڑے، جب ہوش آیا، عرض کیا: پروردگارا تو منزہ ہے اس بات سے کہ آنکھوں سے دکھائی دے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور مومنین میں سے پہلاہوں۔(٢)
اس بات سے ثابت ہوتاسے کہ ہرگز خداوند عالم کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ بعض آیات و روایات میں جو خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہواہے۔ اس سے مراد ، دل اور باطن کی آنکھوں سے دیکھناہے اس لیے کہ آیات قرآن ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں:
القرآن یفسر بہ بعضہ بعضا) (٣)
ان الکتاب یصدق بعضہ بعضا۔۔۔(نہج البلاغہ خطبہ ۱۸، ایک دوسری جگ ہ پر ارشاد فرماتے ہیں: و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض۔ خطبہ ۱۰۳)
مولائے کائنات حضرت علی (ع) سے کسی نے دریافت کیا: ( یا امیر المومنین ہل رایت ربک) اے امیر المومنین کیا آپ نے خداوند عالم کو دیکھاہے؟ آپنے فرمایا: (ا اعبد مالا اری) کیا میں کسی ایسے کی عبادت کروں جسے میں نے دیکھا نہ ہو؟! پھر فرمایا: ( لا تدرکہ العیون بمشاہدة العیان، و لکن تدرکہ القلوب بحقایق الایمان۔ آنکھیں ہرگز اسے دیکھ نہیں سکتیں، ہاں دل کی آنکھیں اسے ایمان کی طاقت سے دیکھ سکتی ہیں۔ (٤)
ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کی ذات میں مخلوقات کی صفات کا قائل ہونا، جیسے اس کے لئے مکان، جہت، جسم، مشاہدہ اور رویت کا قائل ہونا، اس کی معرفت سے دور ہونے اورشرک میں پڑنے کا سبب ہے، بے شک وہ تمام ممکنات و مخلوقات ان کی صفات سے بالا اور منزہ ہے اور کوئی بھی شی ہرگز اس کی طرح نہیں ہو سکتی۔
۵ ۔ توحید ، تمام اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔ ہمارا عقیدہ کہ معرفت خداوند عالم کے باب میں سب سے اہم مسئلہ معرفت توحید (اللہ کو ایک اوریکتا ماننا) ہے۔ توحید صرف اصول دین کا ہی ایک حصہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام اسلامی عقاید کی اصل و روح ہے اور نہایت واضح الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتاہے کہ تمام اسلامی اصول و فروع توحید میں مجسم ہوتے ہیں۔ ہر مقام پر گفتگو توحید و یکتا پرستی سے ہوتی ہے۔ وحدت ذات پاک اور توحید صفات و افعال خدا، ایک دوسری تفسیر کے مطابق دعوت تمام انبیاء کاا یک ہونا، دین و آیین الھی کا ایک ہونا، سمت قبلہ اور آسمانی کتاب کا ایک ہونا، انسان کے بارے میں اللہ کے احکام و قوانین کا ایک ہونا، مسلمانوں کا ایک صف میں منظم ہونا ، اور قیامت کے روز سب کا ایک ساتھ جمع ہونا۔
اسی دلیل کی بنیاد پر قرآن مجید توحید الھی سے انحراف اور شرک کی طرف میلان کو ہرگز نا بخشے جا نے و الا گناہ قرار دیتاہے۔
ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء و من یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیما۔
ترجمہ: خداوند عالم (ہرگز) شرک کونہیں بخشے گا اور اس سے کم کو جسے چا ہتاہے (لایق سمجھتاہے) بخش دیتا ، اور جو بھی اللہ کے لیے شریک قرار دیتاہے وہ عظیم گناہ کا ارتکاب کرتاہے۔(٥)
و لقد اوحی الیک و الی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک و لنکونن من الخاسرین۔
ترجمہ: آپ پر اور آپ سے پہلے تمام انبیاء پر وحی ہو ئی ہے کہ مشرک بن گئے تو سارے اعمال تباہ ہوجائیں گے اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔(٦)
____________________________________
(١) سورہ بقرہ آیہ ۵۵
(٢) سورہ اعراف آیہ ۱۴۳
(٣) یہ مشہور جملہ ہے جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے، مگر یہ معنا نہج البلاغہ میں حضرت امیر علیہ السلام سے دوسری صورت میں بیان ہوا ہے:
(٤) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۹
(٥) سورہ نساء آیہ ۴۸
(٦)سورہ زمر آیہ ۶۵
۶۔ توحید کی شاخیں: ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی بہت سی شاخیں ہیں، جن میں سے مندرجہ ذیل چار سب سے زیادہ اہم ہیں:
الف : توحید ذاتی
یعنی یہ کہ خداوند عالم کی ذات پاک ہے اور وہ اکیلا ہے اور کوئی اس کا شریک و نظیرنہیں ہے۔
ب: توحیدصفاتی
یعنی یہ کہ صفات علم و قدرت و ازلی و ابدی سب اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اور یہ صفات اس کی عین ذات ہیں ۔مخلوقات کی طرح نہیں ہے کہ ان کی ساری صفات ایک دوسرے سے الگ اور ان کی ذات سے جدا ہیں ۔البتہ خداوند عالم کی ذات و صفات کا ایک ہونا ایک ایسی بحث ہے جس کے لئے ظرافت اور دقت لازمی ہے۔
ج: توحید افعالی:
یعنی یہ کہ ہر فعل و حرکت جو اس دنیا میں انجام پاتاہے وہ سب پروردگار عالم کی مشیت و ارادہ سے وجود میں آتاہے:
اللہ خالق کل شی و ہو علی کل شی وکیل۔ خداوند عالم تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا اور ان پر حافظ و ناظر ہے۔(۱)
لہ مقالید السموات و الارض ، آسمان و زمین کی چابھیاں اس کے پاس ہیں ۔ ( یعنی اس کے دست قدرت میں ہیں)(۲)
بے شک (لا موثر فی الوجود الا اللہ)اللہ تعالی کے سوا کوئی اس جہان ہستی میں موثر نہیں ہے۔
اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے کام انجام دینے میں مجبور ہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے ارادے اور فیصلے میں آزاد ہیں ( انا ھدیناہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا) ہم نے اسے (انسان) کو ہدایت کردی (اور اسے راستے دکھا دئیے) چاہے وہ شکر گزار بن جائے(اور قبول کرے) یا انکار کردے (اور طغیان کرے)(۳)
( و ان لیس للانسان الا ما سعی) انسان جو کچھ حاصل کرتاہے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کرتاہے۔(۴)
یہ آیہ کریمہ صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ انسان آزاد و خود مختار ہے لیکن چونکہ ارادہ کی آزادی اور کام انجام دینے کی قدرت اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہے لہذا ہمارے کا م اسی سے نسبت رکھتے ہیں مگر اس سے انجام پانے کام کی ذمہ داری ہم سے ختم نہیں ہوتی۔ اس پر توجہ ہونے چاہئے۔
البتہ اس نے ارادہ کیاہے کہ ہم اپنے اعمال کو آزادی، ارادہ اور اختیار کے ساتھ انجام دیں تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ ہمیں آزما سکے اورہمیں کمال کی منزلوں تک پہچا ئے اس لئے صرف ارادے کی آزادی اور اختیار کے ساتھ خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت ہی انسان کو کمال تک سکتی ہیں۔ اور مجبوری میں انجام دیئے جالے افعال اور زبردستی کے اعمال نہ کسی انسان کے لیے خوبی کا سبب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی برائی کی علامت، اگر ہم اپنے افعال کے انجام دینے میں مجبور ہوتے تو نہ انبیاء کی بعثت کا کوئی مفہوم ہوتانہ ہی آسمانی کتابوں کے نازل ہونے کا کوئی مقصد، اور نہ ہی دینی فریقوں اور تعلیم و تربیت کا کوئی فایدہ ہوتا اور جزا و سزا بھی بے معنی و مفہوم ہوجاتے، یہ وہ تعلیمات ہیں جنہیں ہم نے ائمہ اھل بیت علیہم السلام کے مکتب سے حاصل کیاہے، فرماتے ہیں: نہ جبر مطلق صحیح ہے اور نہ تفویض و آزادی مطلق بلکہ ان کے در میان کا راستہ انتخاب کرنا صحیح ہے: ( لا جبر و لا تفویض و لکن امر بین الامرین)(۵)
د ۔ توحید عبادت
عبادت ،خداوند عالم سے مخصوص ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یہ شاخ ،توحید کی سب سے اہم شاخ میں شمار ہوتی ہے اور انبیاء الہی سب سے زیادہ اس پر تاکید کرتے ہیں:
وما امرواالا لیعبدوااللہ مخلصین لہ الدین حنفاء۔۔۔و ذلک الدین القیمہ
انھیں (انبیاء) اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کریں اور شرک سے باز آئیں، یہ ہے اللہ کا محکم اور پایدار دین۔(٦)
اخلاق و عرفان کے کمال کی منزلیں طے کرنے کے لیے اس سے بھی عمیق توحید کی ضرورت ہوتی ہے، اس راہ میں توحید اس منزل تک پہیچ جاتی ہے جہان انسان صرف اللہ تعالی سے لو لگاتاہے اور ہر مرحلہ پر صرف اسی کو طلب کرتاہے اور اس کے سوا کسی کی فکر اسے مشغول نہیں کرتی اور کوئی بھی شی اسے خدا سے دور کرکے خود میں مشغول نہیں کرتی:
کلما شغلک عن اللہ فھو ضمک۔ ہر چیز جو تجھے خود سے مشغول کردے اور خداوند سے دور کرے ، وہ تیرابت ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی شاخیں صرف ان چار تک محدود و منحصر نہیں ہیں بلکہ توحید مالکیت (تمام اشیاء کا مالک خداوند عالم ہے) اللہ ما فی السماوات و ما فی الارض) (٧)
و توحید حاکمیت (قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کوہے) من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون) (٨)
یہ سب توحید کی شاخیں ہی۔ں
________________________________________
(۱) سورہ زمر آیہ ۶۲
(٢) سورہ زمر آیہ ۶۲
(۳) سورہ انسان آیہ ۳
(۴) سورہ نجم آیہ ۳۹
(٥)اصول کافی جلد ۱،صفحہ ۱۶۰ (باب الجبر والقدر والامر بین الامرین)
(٦) سورہ بینہ آیہ ۵
(٧)سورہ بقرہ آیہ ۲۸۴
(٨) سورہ مائدہ آیہ ۴۴
۷۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید افعالی کی اصل و بنیاد اس حقیقت کی تاکید کرتی ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید افعالی کی اصل و بنیاد اس حقیقت کی تاکید کرتی ہے کہ وہ عظیم معجزات و کرامات، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ظاہر ہوئے ہیں، سب اللہ کے اذن سے تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے ارشاد ہواہے: ( و تبری الاکمہ و الابرص باذنی و اذ تخرج الموتی باذنی ۔
ترجمہ: پیدا یشی اندھوں اور برص جیسے نا قابل علاج مریضوں کو میرے اذن سے شفا دیتے تھے اور مردوں کو میرے حکم سے زندہ کیا کرتے تھے۔(١)
اور حضرت سلیمان کے ایک وزیر کے بارے میں ارشاد ہوتاہے:
قال الذی عندہ علم من الکتاب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک فلما رآہ مستقرا عندہ قال ھذا من فضل ربی۔
ترجمہ: وہ جس کے پاس کتاب آسمانی کا علم تھا، کہا: میں آپ کے پلک چھپکنے سے پہلے اسے (ملکہ سبا کے تخت کو) آپ کے پاس لا سکتا یہوں اور جب حضرت سلیمان نے اسے اپنے سامنے مستقر دیکھا تو کہا: یہ میرے اللہ کے فضل (ارادہ ) فضل سے ہے۔ (٢)
لہذا اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام ناقابل علاج مریضوں کو شفا دیتے اور مردوں کو زندہ کرنے کی نسبت دینا، جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہواہے، عین توحید ہے۔
____________________________________
(١) سورہ مائدہ آیہ ۱۱۰
(٢) سورہ نحل آیہ ۴۰
۸۔ اللہ کے فرشتے ہمارا عقیدہ ہے کہ ملائکہ وجود رکھتے، ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو خاص امرکے لئے مقرر کیا گیاہے، بعض کو ابلاغ و حی پرمامور کیا گیا تھا۔(۱)
ایک گروہ کو انسانوں کے اعمال لکھنے پر مامور کیاگیاہے۔(۲)
ایک گر وہ قبض روح پر مامور ہے۔(۳)
ایک گروہ کو مومنین حقیقی کی مدد پر مامور کیا گیاہے۔(۴)
ایک گروہ کو جنگوں میں مومنین کی مدد کے لیے مامور کیا گیا ہے۔(۵)
ایک گروہ کا کام باغی اور سرکش قوموں پر عذاب نازل کرناہے ۔ (۶) (سورہ ھود آیہ ۷۷ ) اس کے علاوہ کائنات کے دوسرے امور ان کے حوالے کے کیے ہیں۔
چونکہ یہ سارے امور اللہ کے اذن اور حکم اور اس کی نصرت و استعانت سے ملائکہ کے سپرد کے گیے ہیں لہذا اصل توحید افعالی اور توحید ربوبیت سے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی منافات نہیں ہے بلکہ اس پر تاکید بھی ہے۔
اس سے یہ بات بھی روشن اور واضح ہوجاتی ہے کہ چونکہ شفاعت انبیاء و ائمہ و ملائکہ، اللہ کے اذن اور حکم سے ہے لہذا عین توحید ہے ۔مامن شفیع الا من بعد اذنہ ۔۔ کوئی بھی شفاعت کرنے والا خدا کے اذن کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا۔(۷)
اس مسئلہ اور مسئلہ توسل کے بارے میں تفصیلی بحث انشاء اللہ نبوت انبیاء کے باب میں آئے گی ۔
____________________________________
(۱)سورہ بقرہ آیہ۹۷۔
(۲)سورہ انفطار آیہ۱۰۔
(۳)سورہ اعراف آیہ۳۷۔
(۴)سورہ فصلت آیہ ۳۰۔
(۵)سورہ اْحزاب آیہ ۹
(۷)سورہ یونس آیہ۳
۹ ۔ عبادت خداوند عالم سے مخصوص ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عبادت خداوند عالم کی ذات اقدس سے مخصوص ہے۔ (جیسا کہ توحید عبادت کی بحث میں اشارہ ہوا ہے) لہذا جو بھی غیر خدا کی پرستش کرے گا وہ مشرک ہے، تمام انبیاء کی دعوت اسی مسئلہ پر متمرکز ہے۔
اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ۔ خداوند عالم کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
یہ بات قرآن مجید میں انبیاء کے حوالے سے کئی بار ذکرہوئی ہے۔(١)
قابل توجہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ہمیشہ اپنی نمازوں میں سورہ حمد میں ایک مہم اسلامی شعار کے طور پر اس آیہ کریمہ کی تکرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں
ایاک نعبد و ایاک نستعین ۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے استعانت و مدد طلب کرتے ہیں۔
واضح ہے کہ آئمہ اللہ تعالی کے اذن سے انبیاء اور فرشتوں کے شفاعت کرنے کا عقیدہ جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا اللہ کے اذن سے ہے ، عبادت کے معنی میں نہیں ہے۔
اسی طرح انبیاء سے متوسل ہونا، اس معنی میں کہ وہ پروردگار عالم سے ان کی مشکلات کے حل کے لئے توسل کریں، یہ بات نہ پرستش و عبادت میں شمار ہوتی ہے اور نہ ہی توحید افعالی و توحید عبادت سے منافات رکھتی ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل نبوت کی بحث میں آئے گی۔ انشاء اللہ۔
____________________________________
(١)سورہ اعراف آیہ ۵۹،۶۵،۷۳،۸۵ و۔۔۔
۱۰۔ پروردگار عالم کی حقیقت سب کے لیے پوشیدہ ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ با وجود اس کے کہ خداوند عالم کے وجود کے آثار تمام کائنات پر آشکار و ہویدا ہیں، اس کی حقیقت ذات کسی پر روشن نہیں ہے۔ اور کوئی بھی اس کے حقیقت وجود تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اس کی ذات تمام جہات سے لا محدود ہے اور انسان ہر لحاظ سے محدود ہے۔ اور محدود کے لیے نامحدود کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے: الا انہ بکل شی محیط لا محدود۔ بے شک وہ تمام شی پر احاطہ و قدرت رکھتاہے۔(۱)
و اللہ من ورائھم محیط۔ پروردگار عالم تمام اشیاء پر محیط ہے۔(۲)
حکیم تو اپنی عقل پرناز کرتاہے۔ تیری فکر اس راہ کو طی نہیں کرسکتی
اس کی ذات تک خرد پہنچ سکتی ہے۔ اگر خس دریا کی تہہ میں پہنچ جائے تو
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مشہور و معروف حدیث میں ارشاد ہواہے: ما عبد ناک حق عبادتک و ما عرفناک حق معرفتک ۔ ہم تیری عبادت کرسکے اورمعرفت کا کما حقہ حق ادا نہیں کرسکے۔(۳)
واضح رہے کہ اس کہ معنا یہ نہیں ہیں کہ چونکہ ہم اس کے بارے میں علم تفصیلی نہیں رکھتے لہذا علم و معرفت اجمالی بھی حاصل نہ کریں اور صرف معرفت الہی کی باب میں ذکر ہونے والے ان الفاظ پر قناعت کریں جو ہمارے لیے واضح نہیں ہیں۔ یہ وہی نظریہ تعطیل معرفت ہے جسے ہم قبول نہیںکرتے ،اور جس کا عقیدہ نہیں رکھتے۔اس لیے کہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابیں سب کی سب اللہ کی معرفت اور شناخت کے لیے نازل کی گئی ہیں۔
اس موضوع کے بارے میں ٹھیروں مثالیں دی جاسکتی ہیں جیسے ہم حقیقت روح کے بارے میں نہیں جانتے کہ کیاہے؟
لیکن اس کے بارے میں اجمالی علم ہمیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ روح وجود رکھتی ہے اور ہم اس کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث مین ارشاد ہوا ہے: کلما میتر تموہ باوھامکم فی اذن معانیہ مخلوق وضوع مثلکم مردود الیکم ۔ ہر وہ چیز جسے انسان فکر و نظرسے اس کے واقعی معنا تک تصور کرسکے وہ آپ کی مخلوق و مصنوع ہوجاتی ہے اور خود اس انسان کے مانند ہے اور وہ تمہاری طرف ہی پلٹنی ہے۔ (اور یقینا خداوند عالم اس سے مبرا و منزہ ہے) (۴)
حضرت امیر المومنین کی ایک حدیث میں معرفت الہی کی دقیق راہ کو نہایت بلیغ و حسین پیرایہ میں بیان کیا گیاہے ارشاد فرماتے ہیں: لم یطلع اللہ سبحانہ العقول علی تحدید صفتہ، و لم یحجبھا امواج معرفتہ۔ خداوند عالم نے عقلوں کو اپنی صفات کی حد سے آگاہ نہیں کیا ہے اور (جبکہ) اسی کے با وجود انھیں ضروری ا شناخت و معرفت سے محروم اور محجوب نہیں کیاہے۔(٥)
____________________________________
(۱) سورہ فصلت آیہ۵۴
(۲)سورہ بروج آیہ ۲۰
(۳) بحار الانوار جلد ۶۸ صفحہ ۲۳
(۴)بحار الانوار جلد ۶۶ صفحہ ۲۹۳
(٥) غرر الحکم
۱۱ ۔ نہ تعطیل صحیح ہے نہ تشبیہ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سے (تعطیل) یعنی خداوند عالم اور اسکی صفات کی شناخت و معرفت کا حاصل کرلینا صحیح نہیں ہے، اسی طرح سے تشبیہ کے عقیدہ کا قائل ہونا بھی غلط اور شرک آلود ہے، یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس ذات پاک کو بالکل نہیں پہنچان سکتے، اس کی معرفت حاصل کرنے کا ہما رے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ، جیسا کہ اسے مخلوقات سے تشبیہ نہیں سکتے۔ ایک راہ افراط پر منتہی ہوئی ہے تو دوسری تفریط پر ،اس نکتہ پر توجہ ہوئی چاہیے۔
۲
بخش دوم نبوت انبیاء الہی ہمارے عقیدے
بخش دوم نبوت انبیاء الہی فلسفہ بعثت انبیاء ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت اور انھیں کمال و سعادت ابدی تک پہنچانے کے لیے انبیاء و مرسلین کو مبعوث کیاہے، کیونکہ اگر خداوند عالم انھیں نہ بھیجتا تو انسان کے کا مقصد حاصل نہ ہوتا اور وہ گمراہی کے گرداب میں غوطہ ور رہتے اور مقصد خلقت کے برعکس نتیجہ نکلتا:
رسلا مبشرین ومنذرین لئلایکون للناس علی اللہ حجة بعد الرسل و کان اللہ عزیزا حکیما۔
ترجمہ: انبیاء (کو بھیجا) بو حنت بچی دینے جو بشارت اور جہنم سے ڈرانے والے تھے تا کہ لوگوں پر سے حجت تمام ہوجائے ( تا کہ انبیاء لوگوں کو راہ سعادت و کمال دکھائیں اور سب کے لیے اتمام حجت کا سبب ہو) اور یقینا خداوند قدرت اور حکمت والاہے۔(١)
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء میں پانچ حضرات اولو العزم اور صاحب شریعت ہیں، جن کے پاس آسمانی کتاب اور نئی شریعت تھی، ان میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام ہیں پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام ، اس کے بعد حضرت موسی و حضرت عیسی (ع) اور ان میں آخری حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔
و اذ اخذنا من النبیین میثاقھم و منک و من نوح و ابراھیم و موسی و عیسی بن مریم و اخذنا منھم میثاقا غلیظا۔
اس وقت کو یاو کریں جب ہم نے انبیاء سے عمد لیا اور (اسی طرح) آپ ہے نوح و ابراہیم و موسی و عیسی ہے اور ہم نے ان سب سے محکم عمد لیا ( کہ کا رسالت کی تبلیغ اور آسماین کتاب کی تعلیمات کے لیے سعی کریں)(٢)
فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل۔
صبر و استقامت سے کام لو جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر و استقامت سے کام لیا ۔ (٣)
ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام،خاتم الانبیاء اور اللہ کے آخری رسول میں اور ان کی شریعت دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ہے اور دنیا کے ختم ہونے تک باقی رہے گی۔ یعنی اسلامی معارف و احکام و تعلیمات میں ایسی جامعیت پائی جاتی ہے کہ انسانوں کی تمام مادی و معنوی ضروریات کو پورا سکے۔ اور نبی اسلام کی بعد جو بھی نبوت و رسالت کا دعوی کرے وہ باطل و بے بنیاد ہے۔
ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین و کان اللہ بکل شی علیما۔ (٤)
محمد (ص) تم میں سے کسی بھی فرد کی منی بوے باپ نہیں ہیں، وہ اللہ کے رسول اور خاتم المرسلین رہیں اور یقینا خداوند پرستی ہے تم میں سے کسی بھی مرد آگاہ ہے۔ ( و جو کچھ نبی اکرم (ص) کے ضروری تھا، خداوند عالم نے ان کے اختیار میں قرار دیا)
____________________________________
(١) سورہ نساء آیہ ۱۶۵
(٢)سورہ احزاب آیہ ۷
(٣)سورہ احقاف آیہ ۳۵
(٤) سورہ احزاب آیہ۴۰
۱۳ ۔ ادیان آسمانی کے ماننے والوں کے ساتھ زندگی گزارنا۔ اس کے با وجود کہ ہم اسلام کو اس دور میںخداوندعالم کے حقیقی دین کے طور مانتے میں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ دیگر آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کے ساتھ (صلح و دوستی و محبت کے ساتھ) زندگی گزارنا حقیقی چاہیے، چاہے وہ اسلامی ممالک میں رہتے ہوں یا غیر اسلامی ممالک میں، سوائے ان میں سے ایسے لوگوں کہ جو اسلام و مسلمین سے جنگ کرنا چاہتے ہوں۔
لا ینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبرد ہم و تقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین
ترجمہ: خداوند عالم تمیں نیکی کرنے اور ایسے لوگوں سے عدالت کی رعایت کرنے سے، جنھوں نے دین کی خاطر تم سے جنگ نہیں کی اور تمیں تمہارے گھر اور وطن سے دور نہیں کیا، منع نہیں کرتا، اس لیے کہ خداوند عالم انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتاہے۔(١)
ہمارا عقیدہ ہے کہ سلجھی ہوئی باتوں کے ذریعہ ہم حقیقت اور تعلیمات اسلام کو دینا کے تمام انسانوں کے سامنے بیان اور آشکار کرسکتے ہیں، یقینا اسلام میں اس قدر قوی جاذبیت و کشش پائی جاتی ہے کہ اگر اسے اچھی طرح سے بیان کردیا جائے تو وہ بہت بڑی تعداد کو اپنی طرف جذب کرسکتاہے، خاص طور پر آج دینا میں اسلام کا پیغام سننے کے لیے لوگوں کے قلوب آمادہ ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کو جبر و زبردستی کے ساتھ لوگوں پر تحمیل نہیں کرنا چاہیے ( لا اکر اہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی) دین کے قبول کرنے میں کوئی زبر دستی نہیں ہے اس لیے کہ صحیح اور غلط راستے آشکار ہوچکے ہیں۔ (٢)
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کے جامع اصول و قوانین پر عمل کرکے مسلمان دوسروں کے لیے اسلام کو پیش کرسکتے ہیں۔ لہذا کسی اجبار و تحمیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
____________________________________
(١)سورہ ممتحنہ آیہ ۸
(٢)سورہ بقرہ آیہ ۲۵۶
۱۴ ۔ انبیاء کا عمر کے ہر حصہ میں معصوم ہونا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء الہی معصوم عن الخطا ہیں، عمر کے ہر حصہ میں ( چاہے نبوت سے پہلے کی عمر ہو یا بعد کی) وہ خطا و غلطی و گناہ سے اللہ کی تائید و توفیق سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ گناہ یا خطاء کے مرتکب ہوں تو مقام نبوت پرسے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے گا اور لوگ انہیں اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ بنانے سے مطمئن نہیں رہیں گے اور انھیں اپنی زندگی کے تمام امور میں اپنا راہنما و آئیذیل نہیں بنا سکیں گے۔
اسی دلیل کے تحت ہمارا عقیدہ ہے کہ اگربعض آیات قرآنی کے ظاہر سے بعض نبیوںکی طرف گناہ کی نسبت دی گئی ہے وہ ترک اول کے طور پر ہیں (یعنی یہ کہ انھوں نے نیک کاموں میں کم درجہ کا کو منتخب کرلیا حالانکہ بھتر یہ ہوتا کہ وہ عالی درجہ کام کا انتخاب کرتے۔ یا دوسری تعبیر کے مطابق جیسے (حسنات الابرار سیئات المقربین) اچھوں کی نیکیاں (کبھی) مقرب لوگوں کے لیے گناہ کا درجہ اختیار کرلیتی ۔ (۱)
____________________________________
(۱) مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں اس جملہ کی نسبت آئمہ علیہم السلا م طرف دی ہے،حالانکہ انھوں نے کسی معصوم کا نام نہیں لیا ہے۔(بحار الانوار جلد ۲۵ صفحہ ۲۰۵) اس لیے کہ ہر انسان سے عمل کی توقع اس کے مقام و مرتبہ کے صاحب سے کی جاتی ہے ۔
۱۵ ۔ وہ سب اللہ کے مطیع بندے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا سب سے بڑا افتخار یہ تھا کہ وہ اس کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے، یہی دلیل ہے کہ ہم ہر روز اپنی نمازوں میں پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں اس جملہ کی تکرار کرتے ہیں : و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ، میں گواہی دیتاہوں کہ محمد (ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ کسی بھی نبی نے اللہ ہونے کا دعوی نہیں کیاہے اور لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی ہے ۔ ما کان بشر ان یوتیہ اللہ الکتاب و الحکم و النبوہ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللہ۔
ترجمہ: کسی بھی انسان کے لیے بھتر نہیں ہے کہ خداوند اے آسمانی کتاب اور حکم و نبوت دے اور پھر وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کے علاوہ میری عیادت کرو۔(١)
یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی ہرگز لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی اور ہمیشہ خود کو اللہ کی مخلوق ، بندہ اور رسول ہونے کا اعلان کیا:
لن یستنکف المسیح ان یکون عبدا اللہ و لا الملائکہ المقربون۔ ہرگز عیسی (ع) کواس بات سے انکار نہیں تھا کہ وہ اللہ کے بندہ ہیں اور نہ ہی مقرب فرشتوں نے کبھی اس بات کی تائید کی کہ وہ اللہ کے بندے نہیں ہیں۔(٢)
عیسائیت کی موجودہ تاریخ بھی گواہی دیتی ہے کہ مسئلہ تثلیث (تین خدا کا عقیدہ رکھنا) یہلی صدی عیسوی میں اس کا وجود نہیں تھا بلکہ یہ عقیدہ بعد میں پیدا ہوا ہے۔
____________________________________
(١)سورہ آل عمران آیہ ۷۹
(٢)سورہ نساء آیہ ۱۷۲
۱۶ ۔ معجزات و علم غیب انبیاء کا بندہ ہونا اس بات سے منافات نہیں رکھتا کہ وہ اذن و فرمان خداوند سے غیب کی ماضی، حال اور مستقبل کی باتوں سے آگاہ نہ ہوں ۔
عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتفی من رسول ۔
ترجمہ: پروردگار عالم غیب کا جاننے والا ہے و کسی کو اپنے غیب کے اسرار سے آگاہ نہیں کرتا مگر ان رسولوں کو جنھیں اس نے منتخب کیاہے۔(١)
ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسی کی معجزوں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غیب کی خبر دیتے تھے:
و انبئکم بما تاکلون و ما تدخرون فی بیوتکم۔ میں تمہیں ان چیزوں کے بارے میں، جو تم کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، خبر دیتاہوں۔(٢)
پیغمبر اسلام (ص) بھی تعلیم الھی کے وسیلہ سے بہت سی پوشیدہ باتوں کو بیان فرمایا کرتے تھے:
ذلک من ابناء الغیب توحید الیک یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ پر وحی کرتے ہیں۔
لہذا اس بات میں کوئی منافات نہیں ہے کہ انبیاء الھی وحی کے ذریعہ اللہ کی اجازت سے لوگوں کو غیب کی خبریں دیں اور قرآن مجید کی جن آیات میں نبی اکرم(ص) سے غیب کے علم کی نفی کی گئی ہے: جیسے و لا اعلم الغیب و لا اقول لکم انی ملک۔ مجھے غیب کا علم نہیں ہے اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میں ملک ہوں۔(٣)
اس سے مراد علم ذاتی و استقلالی ہے وہ علم نہیں ،جو تعلیم الھی کے ذریعہ حاصل ہوتاہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی بعض آیات ،دیگر بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی غیر معمولی کاموں اور اہم معجزات کو اللہ کے اذن سے انجام دیا کرتے تھے اور اس طرح کے کام انجام دینے کا عقیدہ رکھنا ،جو اللہ کے اذن سے ہو، نہ شرک ہے اور نہ ہی مقام عبودیت سے کوئی منافات رکھتاہے۔ حضرت عیسی (ع) قرآن مجید کی صراحت کی مطابق مردوں کو اللہ کے اذن سے زندہ کردیا کرتے تھے، ناقابل علاج بیماروں کو اللہ کے حکم شفاء عطا کیا کرتے تھے: و ابری الاکمہ والابرص و احی الموتی باذن اللہ۔(٤)
____________________________________
(١) سورہ جن آیہ ۲۶، ۲۷
(٢) سورہ آل عمران آیہ ۴۹
(٣)سورہ انعام آیہ ۵۰
(٤) سورہ آل عمران آیہ ۴۹
۱۷۔ مقام شفاعت انبیاء ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی اور ان میں سب سے افضل و برتر پیغمبر اسلام (ﷺ) مقام شفاعت رکھتے ہیں اور گناہ گاروں کے خاص گروہوں کے لیے خداوند عالم سے شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت بھی اذن و اجازہ پروردگار کے ساتھ ہوگی:
ما من شفیع الا من ہو اذنہ۔ کوئی بھی شفاعت نہیں کرسکتا مگر وہ جسے اللہ اذن دے گا۔(١)
من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ۔ کون ہے جو اللہ شفاعت کرے مگر یہ کہ اس کے اذن سے۔(٢)
اور اگر قرآن مجید کی بعض آیات کریمہ میں بطور مطلق شفاعت کی نفی کی گئی ہے اور ارشاد ہو رہاہے:
من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلة
انفاق کرو اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس دن نہ بیع ہوگی (تا کہ کوئی اینے لیے سعادت و نجات کو خرید کے) نہ دوستی (اور معمولی رفاقت کا کوئی فایدہ نہیں ہوگا) اور نہ شفاعت ۔ (٣)
ہمارا عقیدہ ہے کہ مسئلہ شفاعت، انسانوں کی تربیت اور گناہگاروں کو راہ راست پر پلٹانے اور انھیں پاکی و تقوی کی طرف تشویق دلانے ،ان کے دل میںامید زندہ کرنے کے لیے نہایت اہم وسیلہ ہے۔ اس لیے کہ ایسا نہیں ہے مسئلہ شفاعت بغیر کسی حساب و کتاب کے ہو بلکہ یہ صرف ایسے افراد اور لوگوں کے لیے ہے جن میں اس کی شایستگی و اہلیت پائی جاتی ہوگی یعنی ان کے گناہ اس حد تک نہ ہوں کہ ان کا رابطہ شفاعت کرنے والے حضرات سے بالکل ٹوٹ گیاہو۔ مسئلہ شفاعت گناہگاروں میں خوف پیدا کرانے کہ لیے ہے کہ انسان اپنے پیچھے بازگشت کے ایک راستہ کو کھلا رکھے اور شفاعت کی لیاقت و استعداد کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
____________________________________
(١) سورہ یونس آیہ ۳
(٢) سورہ سورہ بقرہ آیہ ۲۵۵
(٣) یہاں شفاعت سے مراد استقلالی اور بغیر اذن والی شفاعت ہے یا ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جن میں شفاعت کی قابلیت ہوگی۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی بعض آیات دیگر بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔
۱۸ ۔ مسئلہ توسل ہمارا عقیدہ ہے کہ توسل کا مسئلہ بھی شفاعت کی طرح ہے۔ یہ مسئلہ مادی و معنوی مشکل میں بھنسے ہوئے لوگوں کو امید اور اجازت دیتاہے کہ اولیاء الھی کے دامن کا سہارا لیں تا کہ اللہ تعالی کے اذن سے وہ ان کی مشکلات کو حل کرا دیں۔ یعنی یہ کہ ایک طرف تو وہ خود اللہ کی بارگاہ میں حضور پیدا کریں اور دوسری طرف اولیاء الھی کو اپنا وسیلہ قرار دیں:
و لو انھم اذ ظلموا انفسھم جاؤک فاستغفروا اللہ و استغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما۔
اگر وہ لوگ خود پر ظلم کرنے اور گناہ کے مرتکب ہونے کے بعد، آپ کے پاس آتے اور اللہ سے طلب بخشش کرتے اور رسول خدا (ص) بھی ان کے لیے طلب غفران کرتے تو خداوند عالم کو معاف کرنے والا اور مھربان پاتے۔(۱)
حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کی داستان میں ہم یہ پڑھتے ہیں کہ وہ سب اپنے والہ سے متوسل ہوئے اور سب نے کہا:
یا ابانا استغفر لنا انا کنا خاطئین۔ اے پدر، ہمارے لیے خداوند سے طلب مغفرت کریں، اس لیے کہ ہم نے خطا کی تھی، بوڑھے باپ (یعقوب نبی) نے ان کے اس درخواست کو قبول کیا اور ان سے مدد کا وعدہ کیا اور کہا: سوف استغفر لکم ربی۔ عنقریب میں تم سب کے لیے بارگاہ خداوندی میں طلب مغفرت کروں گا۔(۲)
یہ آیات اس بات کی گواہ ہیں کہ توسل گذشتہ امتوں میں بھی تھا اور آج بھی باقی ہے۔
ہاں اس عقلی حدسے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور اولیاء خدا کو مستقل اور اذن خداوند سے بے نیاز نہیں سمجھنا چاہیے اس لیے کہ ایسا کرنا مشرک و کفر سبب بن جائے گا۔
اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ توسل، اولیاء الھی کی عبادت کی میں تبدیل ہوجائے، ایسا کرنا بھی کفر و شرک ہے ۔ اس لیے کہ وہ ذاتا اور بغیر اذن الھی سود و زیان نہیں پہچا سکتے۔
قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشاء اللہ۔ کہہ دیجیے کہ میں (حتی) کہ خود کو بھی فایدہ و نقصان نہیں پہچا سکتا مگر یہ کہ خدا ایسا چاہے۔(۳)
غالبا تمام اسلامی فرقوں کی عوام توسل کے مسئلے میں افراط و تفریط سے کام لیتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ہدایت و راہنمایی کرنی چاہیے۔
____________________________________
(۱)سورہ نساء آیہ ۶۴
(۲) سورہ یوسف آیہ ۹۷،۹۸
(۳)سورہ اعراف آیہ ۱۸۸
۱۹ ۔ تمام انبیاء کی دعوت کا مقصد ایک ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کا ہدف مشترک تھا اور وہ انسانی معاشرہ میں ایمان، خدا و قیامت ، دین کی صحیح تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصولوں کی تقویت سے انسانوں کو سعادت تک پہچانا ہے۔ یہی دلیل ہے کہ تمام انبیاء محترم ہیں، قرآن مجید نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے:
لا نفرج بین احد من رسلہ: ہمارے نزدیک انبیاء الھی کے در میان کوئی فرق نہیں ہے۔(١)
اگر چہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ بشریت اعلی تعلیمات کے لیے بتدریج آمادہ ہوتی گئی اور ان تعلیمات کے عمق میں اضافی ہوتا گیا اور سلسلہ یہاں تک آگے بڑھا کہ آخری اور کامل ترین دین ا،سلام تک آگیا اور خداوند عالم کی طرف سے یہ حکم صادر ہوگیا کہ
الیوم الکمات لکم دینکم و التمت علیکم نعمتی و رفیت لکم الاسلام دینا۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا اور اسلام کو دین جاوید کے طور پر قبول کرلیا۔
____________________________________
(١)سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵
۲۰ ۔ گذشتہ انبیاء کی خبریں ہمارا عقیدہ ہے کہ بہت سے نبیوں نے اپنے بعد آنے والے پیغمبروں کی بشارت دی، جیسے حضرت موسی (ع) حضرت عیسی (ع) جنھوں پیغمبر اسلام (ص) کے بارے واضح نشانیوں کی ساتھ خبردی، جو آج بھی ان کی بعض کتابوں میں مندرج ہے:
الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورات والانجیل۔۔۔اولئک ھم المفلحون۔
جو لوگ اللہ کے امی (دنیا میں درس نہ پڑھنے والے اگر عالم و آگاہ) رسول کی پیروی کرتے ہیں، و ہی نبی جس کے صفات کو وہ تورات و انجیل جوان کے یاس ہے امین ہوتے ہیںایسے لوگ ہی کامیاب و کامران ہیں۔(١)
اس بات کی دلیل ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام( ص) کی بعثت سے پہلے یہود کا ایک گروہ مدینہ آیا اور وہ بڑی نے صبری اور بے تابی سے آپ بعثت کا انتظار کر رہے تھے، اس لیے کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا کہ اس کا ظہور اسی سرزمین سے ہوگا۔ اگرچہ آپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد ان میں سے بعض ایمان لے آئے اور بعض اپنے فایدوں کی وجہ سے مخالفت پر اترآئے۔
____________________________________
(١)سورہ اعراف آیہ ۱۵۷
۲۱ ۔ انبیاء الھی انسانی زندگی کے تمام پہلو کی اصلاح چاہتے تھے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آسمانی ادیان جو اللہ کے رسولوں کو دیئے گیے بہ خاص طور پردین اسلام ، وہ صرف انسان کی فردی ا،نفرادی زندگی یا معنوی و اخلاقی مسائل تک منحصر نہیں تھے بلکہ وہ انسان کی معاشرتی زندگی کے تمام پہلووں اور گوشوں پر محیط تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے علوم ،جو انسان کی روزمرہ زندگی کے لیے ضروری اور ناگزیر تھے، لوگ آپ سے ان کی تعلیم حاصل کرتے تھے، جس میں بعض کی طرف قرآن مجید میں بھی اشارہ کیا گیاہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی کے منجملہ مہمترین اہداف میںسے ایک ہدف، سماج اور معاشرہ میں نظام عدل و انصاف قائم کرنا تھا:
و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط۔
ترجمہ: ہم نے اپنے رسولوں کے روشن دلایل کے ساتھ بھیجا ان کے ساتھ آسمانی کتاب اور میزان (حق کو باطل کی بھجان اور عادلانہ قوانین کو نازل کیا تا کہ (دیناکے) لوگ عدل و انصاف قائم کریں۔(١)
____________________________________
(١)سورہ حدید آیہ ۲۵
۲۲ قومی و نسلی امتیاز کی نفی ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی مخصوصا پیغمبر اسلام (ص) کسی طرح کے قومی و نسلی امتیاز کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی نظر میں دنیاکی ساری نسلیں ، زبانیں ، قومیں اور ملتیں یکسان تھیں۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے اعلان کرتاہے:
یا ایھا الذین آمنوا انا خلقنا کم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔
اے لوگوں ہم نے تمیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمییں خاندان اور قبیلوں میں قراردیا تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو (یہ کوئی امتیاز کا معیار نہیں ہے) ہم اللہ کے نزدیک تم سب سے زیادہ محترم سباسے زیادہ تقوی لوگ ہیں۔(۱) پیغمبر اسلام (ص) کی ایک نہایت معروف حدیث میں اس طرح سے ذکر ہواہے کہ سرزمین منی پر (حج کے موسم میں ) آپ اس حالت میں کہ شتر پرسوار تھے،
لوگوں کی طرف رخ کیا اور یہ حدیث ارشاد فرمائی:
یا ایھا الناس ، الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد، الا لا فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولا لاسود علی احمر، ولا الاحمر ولی اسود، الا بالتقوی۔
اے لوگوں ، جان لو کہ تمہارے پروردگار ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے، نہ عرب کو عجم پر برتری ہے ، نہ عجم کو عرب دلی نہ سیاہ پوست کو گندمی رنگ والے پر برتری ہے، نہ گندمی رنگ والے کو سیاہ پوست والوں پر، اس برتری کا معیار صرف تقوی ہے۔ کیا میں نے ثم تک پیغام پہچادیا؟ سب نے کیا: ہاں۔ پھر فرمایا ابن بات کو حاضرین غائبین تک پہنچائیں۔(۲)
____________________________________
(۱) سورہ حجرات آیہ ۱۳
(۲) تفسیر قرطبی ، جلد ۹ صفحہ ۶۱۶۲ ۲۳۔ اسلام اور انسانی سرشت ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوندعالم پر ایمان ، توحید اور انبیاء کی تعلیمات کے اصول اجمالی اور فطری طور پر تمام انسانوں کی سرشت میں موجود ہیں، انبیاء الھی نے ان پر ثمر تخموں کی آبیاری آب وحی سے کی ہے اور شرک و گمراھی کی جھاڑیوں کو انسان سے دور کیاہے:
فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون۔
یہ (پروردگار کا خالص دین) ایسی فطرت ہے جس پر خداوند عالم نے تمام انسانوں کو خلق کیاہے اور خلقت الھی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے (امہ پہ فطرت تمام انسانوں میں ثابت ہے) یہ استوار دین ہے مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔(١)
یہی دلیل ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ دین، انسانوں کے در میان رہا اور مورخین کے قول کے مطابق بے دینی و لا دینی ایک امر نادرست اور استثنایی ہے یہاں تک کہ بہت سے ایسے نامور مکتب جو ایک دراز مدت تک سختیوں اور پرو پینگنڈوں کے باعث ضد دین رہے ہیں، مگر انہیں جیسے ہی آزادی حاصل ہوئی، دینداری کی طرف لوٹ آئے ہیں۔
ہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بہت سی گذشتہ قوموںکا ثقافتی پچھڑا پن سبب بتنا کہ ان کے عقاید اور دینی آداب خرافات اور بدعتوں کی نذر ہوجائیں اور اس مقام پر ، انبیاء الھی کا کام ایسی بدعتوں اور خرافات سے مقابلہ کر آئینہ فطرت انسان سے غبار باطل کو صاف کرنا ہوتا تھا۔
____________________________________
(١) سورہ روم آیہ ۳۰
۳
بخش سوم۔ قرآن اور کتب آسمانی ہمارے عقیدے
بخش سوم۔ قرآن اور کتب آسمانی ۲۴ ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے متعدد آسمانی کتابوںکو نازل کیا۔ خدا اور عبادت پروردگار میں خطا کا شکار ہوجاتا اور تقوی و اخلاق و تربیت کے اصولوں اور انسانی سماج کے قوانین سے بے بھرہ رہ جانا۔
یہ آسمانی کتابیں باران رحمت کی طرح صفحہ دل بر نازل ہوئیں اور تقوی و اخلاق و معرفت ت خدا و علم و حکمت کے بذر کو انسانی سرشت میں کاشت کرنے کے بعد انھیں پرورش دے کر ثمرہ تک پہچایا۔
آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون کل آمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ۔
ترجمہ: اے پیغمبر، جو کچھ اللہ کی طرف سے ان پر نازل ہوا، سب پر ایمان لائے اور تمام مومنین (بھی) خدا و ملائکہ اور تمام آسمانی کتب اور ان کے لانے والوں پر ایمان لائے۔(۱)
اگرچہ صد افسوس کہ زمانہ گزرنے اور جاہلوں اور نا اھلوں کی دخالت کی وجہ سے بہت سی آسمانی کتا تحریف کا شکار ہوگئیں اور ان میں باطل افکار مخلوط ہوگیے، مگر قرآن مجید بعض دلائل کی وجہ سے جن کا ذکر بعد میں آئے گا، تحریف سے محفوظ رہا اور آفتاب کی طرح ہر زمانہ اور صدی میں نور ا فشانی کرنا رہا اور قلوب کو منور کرتا رہا۔
قد جائکم من اللہ نور و کتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام۔
خداوند عالم کی طرف سے نور اور کتاب مبین تمہارے پاس بھیجے گیے۔ پروردگار عالم اس کی برکت سے، ایسے لوگوں کو ،جو خوشی سے اس کی پیروی کرتے ہیں، راہ سلامت ( و سعادت ) کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔
____________________________________
(۱)سورہ بقرہ آیہ ۲۸۵
۲۵ قرآن مجید، پیغمبر اسلام(ص) کاسب سے بڑا معجزہ ۔ ۳۳۔ سنت آیمہ اھل بیت علیہم السلام ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام (ص)کے مہمترین معجزوں میں ہے، صرف فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ شیرینی بیان اور معانی کے بلیغ ہونے کے لحاظ سے بھی، ان کے علاوہ دوسرے مختلف جہات کے اعتبار سے بھی قرآن مجید اعجاز ی حیثیت رکھتاہے۔ جس کی شرح و تفصیل عقاید و کلام کی کتابوں میں موجود ہے۔
اسی دلیل کے سبب ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی قرآن کی مانند حتی اس کے ایک سورہ کی مثال نہیں لاسکتا ۔قرآن نے بارھا شک و تردید کرنے والوں کو دعوت مقابلہ دی مگر کسی میں اس کی نظیر لانے کی جرات پیدا نہ ہوسکی:
قل لئن اجتمعت الانس والجن ولی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیرا۔
اے بنی کہہ دیجئیے کہ اگر انسان و جنات مل کر اس قرآن کا جواب لانا چاہیں تو بھی اس کا جواب نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے شریک بن جائیں۔(١)
و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔
جو کچھ ہم نے اپنے بندہ (محمد) پر نازل کیاہے اگر اس میں شک و تردید ہے تو (کم از کم) اس جیسا ایک سورہ لے آؤ اور اللہ کے سوا اس کام کے لیے اپنے گواہوں کو دعوت دو اگر تم سچے ہو۔(۲)
اور ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ کہنہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اعجازی نکات اور زیادہ آشکار اور اس کی عظمت دنیا والوں پر روشن ہوتی جاتی ہے۔
امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:
ان اللہ تبارک و تعالی لم یجعلہ لزمان دوزمان و لناس دون ناس فھو فی کل زمان جدید و عند کل قوم غض الی یوم القیامة۔
خداوند متعال نے قرآن مجید کو ایک خاص زمانہ یا گروہ کے لیے قرار نہیں دیاہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر زمانہ میں تازہ اور ہر گروہ کے نزدیک قیامت تک کے لیے با طراوت رہے گا۔ (٣)
____________________________________
(١) سورہ اسراء آیہ ۸۸
(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۳
(۲)سورہ بقرہ آیہ ۲۳
۲۶۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آج دنیا کے مسلمانوںکے پاس جو قرآن مجید ہے ، وہ وہی ہے جو پیغمبر اسلام پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ ابتداء نزول وحی سے ہی اصحاب کا ایک بڑا گروہ ، قرآن مجید کی آیات کو نازل ہونے کے بعد لکھا کرتا تھا اور مسلمانوںکایہ فریضہ تھا کہ شب و روز اس کی تلاوت کریں اور پنج گانہ نماز میں اس کی تکرار کریں ۔ایک عظیم گروہ قرآن مجید کے حافظ اور قاری کی حیثیت رکھتا تھا جس کو اسلامی معاشرہ میں ایک خاص مقام و منزلت حاصل رہی ہے ۔
یہ ساری باتیں اور ان کے علاوہ دوسری باتیں سبب بنیںکہ قرآن مجید چھوٹی سے چھوٹی تحریف و تغییر سے محفوظ رہا ۔
اس کے علاوہ خدا وند عالم نے قرآن مجید کی دنیا کے ختم ہو نے تک حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ذمہ داری کے بعد قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تغییر و تحریف کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ( انّا نحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون ) ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے۔ بزرگ اسلامی علماء و محققین شیعہ ہوں یا سنی سب اس امر پر متفق ہیں کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے ، سوائے دونوںگروہ کے بعض افراد کے جو بعض روایات کی وجہ سے تحریف کے قائل ہیں حالانکہ دونوںگروہوں کے علماء ان کے نظریہ کو قاطعیت کے ساتھ رد کرتے ہیں اور تحریف کی روایات کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ یا انہیں تحریف معنوی (یعنی آیات قرآن کی غلط تفسیر کرنا)یا تفسیر قرآن کو متن قرآن سے خلط کردینا، جانتے ہیں، اس بات پر دقت ہونا چاہئے۔
ایسے کو تاہ فکر حضرات جن کا تحریف قرآن پر عقیدہ ہے حالانکہ شیعوں اور سنیوں کے بزرگ علماء صریحاً تحریف قرآن کی مخالفت کرتے ہیں ، شیعہ و غیر، گروہ کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیںاور ناآگاہانہ طو رپر قرآن مجید کی حیثیت کونقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ان تعصب بھرے عمل سے ، اس مقدس آسمانی کتاب کے اعتبار کو زیر سوال لارہے ہیں اور اس کے تقدس کو مخدوش کر نے کا موقع دشمن کو فراہم کررہے ہیں
جمع آورئی قرآن کے تاریخ سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام کے زمانے ہی میں جمع آوری قرآن کے تاریخی عصر پیغمبر میں قرآن کے جمع ہو جانے ، اس کے لئے غیر معمولی اہتمام و انتظام ، مسلمانوں کا کتابت ، حفظ و حفاظت کرنا خصوصاً گروہ کاتبان وحی کا روز اول سے وجود میں آنا ، اس حقیقت کو آشکار کردیتا ہے کہ قرآن مجید میں تحریف ہو نا غیر ممکن امر رہاہے۔
اور اس قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کا وجود نہیں ہے اس بات کی دلیل بالکل واضح ہے اور اس کی تحقیق کے راستے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں اس لئے کہ آج قرآن تمام گھروں ، مسجدوں ، کتب خانوں میں موجود ہے حتی کہ وہ خطی نسخے بھی سینکڑوں سال پہلے لکھے گئے ہیں اور میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں سب اس بات کی علامت ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو جو تمام اسلامی ممالک میں پایا جاتا ہے اور اگر گزشتہ وقتوں میں اس بات کی تحقیق کے وسائل فراہم نہیںتھے تو آج یہ امکان فراہم ہے اور سب کے لئے تحقیق کے راستے کھلے ہیں مختصر جستجو اور تحقیق سے ان باتوں کے بے بنیاد ہونے کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ فبشّر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۔ میرے بندوںکو بشارت دیدو کہ جب وہ باتوں کو سنتے ہیں تو ان میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں آج کے دور میں ہمارے مدرسوں میں علوم قرآنی بطور وسیع تدریس کئے جاتے ہیں مھم ترین بحث جو ان مدرسوں میں ہو تی ہے وہ قرآن مجید میں تحریف و تغیر کا نہیں پایا جانا ہے۔ (١)
____________________________________
(١) ہم نے اپنی کتابوں تفسیر و اصول فقہ کے علاوہ تحریف قرآن سے متعلق مفصل بحثیںکی ہیں (کتاب انوار الاصول اور تفسیر نمونہ کی طرف رجوع کریں )
۲۷۔ قرآن اور انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ انسانی زندگی کی مادی و معنوی ضروریات ہیں ان کے اصول و کلیات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں نظام حکومت اور مسائل سیاسی دوسرے کے ساتھ معاشرتی روابط ، اصول معاشرت ، جنگ و صلح عدالتی و اقتصادی مسائل وغیرہ ان کے اصول و کلیات بیان ہوئے ہیں جن پر عمل سے ہماری زندگی کے مسائل حل اور بہتر ہو سکتے ہیں
ترجمہ آیت : ہم نے اس کتاب کو تم پر نازل کیا جو تمام چیزوں کے بارے میں بیان کرنے والی ہے اور مسمانوں کے لئے ھدایت و بشارت ہے اور مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ اپنی حکومت کی زمام خود سنبھالیں اور بلند پایہ اسلامی اقدار کو اس کی مدد سے زندہ کریں اور اسلامی سماج کی اس طرح سے تربیت ہو کہ تمام لوگ عدل و انصاف کی راہ پر گام زن ہو جائیں اور دوست و دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا نظام قائم ہو جائے ۔
یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ و لو علی انفسکم اووالدین و الاقربین ۔
اے ایمان لانے والوں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے قیام کرو اور خدا کے لئے شھادت دو اگر چہ وہ تمہارے یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے لئے نقصان کا باعث ہو۔
ولا یجرمنکم شنئان قوم علی ان الا تعدلوا اعدلو ا ھوا اقرب للتقوی ۔
ہر گز ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ سے دشمنی تمہیں گناہ وبے انصافی تک لے جائے عدل و انصاف کرو کہ وہ تقوی اور پرھیزگاری سے زیادہ نزدیک ہے ۔
اس دلیل کی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ہرگز اسلام حکومت و سیاست سے جدا نہیں ہے ۔
۲۸۔ تلاوت تدبر و تفکر اور عمل ہمارا عقیدہ ہے کہ تلاوت قرآن افضل ترین عبادتوں میں سے ہے کم عبادتیں ہیں کہ جو اس کے پائیہ منزلت تک پہونچ سکتی ہیں اس لئے کہ یہ تلاوت فکر کو الھام بخشنے والا ، قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے اور نیک و صالح اعمال کا سرچشمہ ہے ۔
قرآن پیغمبر اسلام کو خطاب کرکے فرماتا ہے :
قم اللیل الا قلیلاً ،نصفہ او انقص منہ قلیلاً او زد علیہ و رتّل القرآن ترتیلاً ۔
شب میںکم عبادتیںکریں آدھی رات (بیدار ہوں) یا اس سے پہلے کی بیداری کو کم کریں یا بڑھائیں اور تلاوت قرآن مجید کو دقت اور فکر کے ساتھ تلاوت کریں قرآن تمام مسلمانوں کو خطاب کر کے فرماتا ہے : جہاں تک ممکن ہو سکے قرآن کی تلاوت کیا کرو ۔قرآن کی تلاوت تا حد امکان کرو ۔
ہاں لیکن جیسا کہ بیان کیا گیا قرآن کی تلاوت اس میں اور اس کے معنی میں تفکر و رتدبر کا سبب ہونا چاہئے اور یہ تفکر و تدبر اس پر عمل کرنے کے لئے مقدم ہونا چاہئے افلا یتدبرون القرآن ام علی قلو بھم اقفالھا۔ کیا وہ قرآن میں تفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے۔
و لقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مذکر ۔ ہم نے قرآن مجید کو یاد آوری کے لئے آسان کر دیا ہے آیا کوئی ہے جو اس پر عمل کرے۔ (۱)
ہذا کتاب انزلناہ مبارک فاتبعوہ یہ پر برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ نازل کیا ہے لہذا اس کی پیروی کریں لہذا وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت اور حفظ پر قناعت کر تے ہیں اور اس کی آیات میں غورو فکر نہیں اور اس کے معنا پر عمل نہیں کرتے ، اگر چہ انہوں نے تین میں سے ایک رکن پر عمل کیا ہے لیکن دو زیادہ اہم رکن سے محروم رہے ہیں اور عظیم خسارہ اٹھایا ہے ۔
____________________________________
(۱) بدیہی اور واضح ہے اگر تفسیر بہ رای کرنے والا شخص صحیح و سالم ایمان کا مالک ہو تا تو کلام خداکو اسی معانی و مفاھیم کے ساتھ قبول کرلیتا اور اسے اپنے میل اور ھوا وھوس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرتا ۔
۲۹ ۔انحرافی بحثیں ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن میں غورو فکر و تدبر اور ان پر عمل سے لوگوں کومنحرف ہمیشہ نا محسوس سازشوں کا جال بچھایا گیا ہے ، حکام بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میںکلام الھی کے حاد ث یا قدیم ہو نے کی بحث کو ہوا دی گئی اور مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا یا گیا اس بحث کے نتیجہ میں مسلمانوں کا کافی خون بہا ، آج سب پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ بحث اصلااپنے صحیح مفہوم کے الحاظ سے کسی نزاع کاباعث نہیں بنتی اس لئے کہ اگر کلام الھی سے مراد حروف و نقوش و کتابت و کاغذ کو لیا جائے تو واضح ہے کہ یہ سب حادث ہیں اور اس سے مراد اسکے وہ معانی ہوں میںہیں تو بے شک علم خدا اسکی ذات کی طرح قدیم اور ازلی ہے مگر ظالم حاکموں اور خلفاء نے مسلمانوں کو سالہا اس میں مشغول رکھا اور آج بھی کچھ لوگ ہیں جو چاہتے ہیںکہ دشمن اور دوست نما دشمن پہ پروپیگنڈے کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے قرآن مجید غورو فکر اور اس پر عمل سے روکا جائے ۔
۳۰۔ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط ہمارا عقیدہ ہے کہ الفاظ قرآن کریم کو اس کے عرفی معانی پر حمل کرنا چاہئے مگر یہ کہ آیت کے ظاہر و باطن میں قرینہ عقلی یا نقلی پایا جاتا ہو کسی دوسرے معنا پر دلالت رکھتا ہو (البتہ مشکوک قرائن پر اعتماد سے پرہیز کرنا چاہئے ) اور آیات قرآنی کی اندازہ اور گمان کے تفسیر نہیں کرنی چاہئے ۔
مثلاًاگر قرآن مجید میںارشاد ہوا ہے (و من کان فی ہذہ اعمی فہو فی الآخرة اعمی ) جو اس دنیا میں نابینا ہے وہ آکرت میں بھی نابینا اور گمراہ ہو گا ۔ اس بات کا یقین ہے کہ یہاں لفظ اعمی سے مراد ظاہر نابینائی نہیں ہے جو اس کے لغوی معنا ہیں اس لئے کہ بہت سے نیک اور پاک لوگ ایسے بھی ہیں جو ظاہراً نابینا ہیں تو یہا ں پر اس سے مراد باطن کی نابینائی اور گمراہی ہے ۔
یہاں پر قرینہ عقلی کا وجود اس تفسیر کی طرف راہنمائی کرتا ہے اسی طرح سے قرآن مجید میں اسلام دشمن گروہ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :
صم ٌ بکمٌ عمیٌ فہم لا یعقلون وہ لوگ گونگے بہرے اور اندھے ہیں اسی وجہ سے کچھ نہیں سمجھتے ۔
آشکار اور واضح ہے کہ ظاہری اعتبار سے وہ لوگ گونگے ، بہرے اور اندھے نہیں تھے بلکہ یہ ان کے باطنی اوصاف تھے اس آیة کریمہ کی یہ تفسیر ہم نے قرینہ حالیہ کی بنیاد پر کی ہے ۔
قرآن مجید خدا وند عالم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے بل یداہ مبسوطتان اللہ کے دونو ں ہاتھ کشادہ ہیں یا دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ہے : و اصنع الفلک باعیننا (اے نوح ) ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ ۔
ہرگز ان آیات کا یہ مطلب نہیںہے جہ خدا وند عالم آنکھ ،کان، اور ہاتھ جیسے اعضاء جسم رکھتا ہے ، اس لئے کہ جسم اجزاء سے تشکیل پاتا ہے اور سے زمان و مکامن جھت کی ضرورت ہوتی ہے اورا س کا انجام فنا ہو جانا اور مٹ جانا ہے اورخدا وند متعال ان صفات جسمانی اور مادہ سے منزہ و مبرّا ہے ۔ لہذا یداہ (ہاتھو ں ) سے مراد اللہ تبارک و تعالی کی قدرت کاملہ ہے جس نے تمام عالمین کو اپنے قبضئہ قدرت میں لے رکھا ہے اور عین (آنکھوں ) سے مراد تمام اشیاء اور مخلوقات کے بارے میں علم و آگاہی رکھنا ہے ،۔
ان اسباب کی بناء پر ہم ہرگز مندرج بالا تعبیرات کے سلسلہ میں ( چاہے وہ صفات خدا کے باب میں ہوں یا اس کے علاوہ ۔ہم جمود و رکود اختیار نہیں کرتے اور قرائن عقلی اور نقلی کو نظر انداز نہیں کرتے اس لئے کہ دنیا کے تمام سخن پرور اور سخنوران قرائن پر تکیہ کر تے ہیں اور قرآن مجید نے بھی اس طریقہ اور روش کی تایید کی ہے وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ ہم نے تمام انبیاء کو ان کے قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث کیا ہے
۳۱ ۔ تفسیر بہ رای کے خطرات ہمارا عقیدہ ہے کہ تفسیر بہ رای قرآن کے وجود کے لئے سب سے خطرناک چیز ہے جسے اسلامی روایات میں گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور تفسیر بہ رای کرنے والا بارگاہ قرب خداوند ی سے مردود ہو جاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ خداوند نے ارشاد فرمایا کہ ما امن بی من فسّر برایہ کلامی ۔ جس نے میرے سخن کی اپنے میل اور من سے اپنے ھوای نفس کے مطابق تفسیر کی وہ ایسا ہے کہ گویا مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا۔
بہت سی معروف مشہور کتابوں میں (جیسے صحیح ترمذی و سنن نسائی و سنن ابی داوود )( یہ حدیث پیغمبر اسلام سے نقل ہو ئی ہے آپ نے فرمایا : من قال فی القرآن برایہ او بما لا یعلم فلیتّبوء مقعدہ فی النار ۔ جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے ھوا و ھوس اور میل کے مطابق کی یا نہ جاننے کے باوجود اس بارے میں اپنی رای کا اظہار کیا ، اس کا مقام اور ٹھکانا جہنم ہے۔
تفسیر بہ رای سے مراد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کو اپنی تمایلات اور شخصی عقیدہ یا گروہی عقیدہ کے مطابق معنا و تفسیر کرے یا ان پر تطبیق کرے حالانکہ اس پر کوئی قرینہ یا شاھد موجود نہ ہو ایسا کرنے والا وقعیت میں قرآن کے حضور میں تابع اور اس کا مطیع نہیں ہے بلکہ وہ قرآن کو اپنا تابع بنانا چاہتا ہے اور اگر وہ قرآ ن مجید پر کاملا ً ایمان رکھتا تو ہر گز ایسا نہیں کرتا ۔ اگر تفسیر بہ رای قرآن کے بارے میں ہوتی رہی تو بلا شبہ پوری طرح سے اس کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور جب ہر شخص اپنی میلان کے مطابق اس کے معنا اور تفسیر کرنے لگے گا تو ہر باطل عقیدہ قرآن کے اوپر تطبیق دیا جانے لگے گا ۔
لہذا تفسیر بہ رای یعنی قوانین و مقررات علم لغت اور ادبیات عرب ، فھم اھل زبان کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر اور اسے اپنے باطل گمان اور خیالات و رای اور تمایلات شخصی و گروہی کے مطابق تطبیق دینا ، قرآن مجید میں معنوی تحریف کا سبب ہو جائے گا ۔ تفسیر بہ رای کی کئی شاخیں ہیں ان میںسے ایک آیات قرآن کے ساتھ جدا جد نا برتاؤ کرنا ہے ، اس معنا میں کہ انسان مثلاً شفاعت و توحید و امامت وغیرہ کی بحث میں صرف ان آیات کا انتخاب کرے جو اس کے نظریہ کے موافق ہو ں اور ان آیات کو جو اس کے مزاق سے موافقت نہ رکھتی ہوں اور دوسری آیات کی تفسیر کر سکتی ہوں انھیں نظر انداز کرے یا ان کی بحث سے سرسری اور بے توجھی سے گزرجائے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ : جس طرح سے الفاظ قران کریم کے بارے میںجمود اختیار کرنا اور معتبر وعقلی و نقلی قرینوں پر توجہ نہ کرنا ایک طرح سے انحراف ہے تفسیر بہ را ی بھی اسی طرح کا انحراف شمار کی جائے گی جبکہ دونوں ہی قرآن کی اعلی و مقدس تعلیمات سے دوری کا سبب بنتا ہے یہ نکتہ غور طلب ہے ۔
۳۲ ۔ سنّت کا منبع اللہ کی کتاب ہے ہمارہ عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ (کفانا کتاب اللہ ) ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے اور احادیث اور سنّت نبوی کہ جو تفسیر و تبیین و حقائق قرآن فہم ناسخ و منسوخ ، خاص و عام قرآن کے بارے میں یا تعلیمات اسلامی سے مربوط ہیں جو اصول و فروع دین سے متعلق ہیں۔ انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ قرآن مجید کی آیات سنّت پیغمبر اور ان کے کلمات و افعال مسلمانوں کے لئے اصلی منبع قرار دئے گئے ہیں ۔ وما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتہوا جو کچھ رسو ل خدا تمہارے لئے لائے (اور تمہیں اس کا حکم دیا اسے لے لو(اور اس پر عمل کرو ) اور جس چیز سے منع کیا ہے اسے چھوڑ دو ۔
وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی اللہ و رسولہ امراً ان یکون لہم الخیرة من امرہم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضلّ ضلا لا مبیناً ۔
کسی بھی مومن مرد و عوررت کو یہ حق حاصل نہیں ہے جب اللہ یا نبی کسی اور کو لازم کہین اس کے سامنے اختیار رکھتا ہو (اللہ کے حکم کے سامنے) اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلم کھلا گمراہی میں گرفتار ہو چکا ہے ۔
جوہ لوگ سنّت نبوی کی پرواہ نہیں کرتے اصل میں وہ قرآن مجید کو نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ واضح اور بدیھی ہے کہ سنت پیغمبر کو معتبر طرق سے ثابت ہونا چاہئے اور ہر حدیث کو کوئی بھی آنحضرت کی طرف نسبت دیدے قبول نہیں کرنا چاہیے ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنی ایک حدیث میں ارشاد فر ماتے ہیں : و لقد کتاب علی رسول اللہ حتی قاما خطیباً فقال: من کذب علیٌ متعمداً فلیتّبو ء مقعدہ من النار ۔نبی اسلام کے زمانے میں آپ کی طرف جھٹی نسبتیں دی گئی یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ پڑھنے کے بعد فرما یا :جو بھی جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی نسبت دے گا اسے اپنے مقام جہنم کے لئے تیار ہوجانا چاہئے ۔ اسی معنی کی ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی نقل ہوئی ہے ۔
۳۳۔ سنت آیمہ اھل بیت علیہم السلام ہمارا عقیدہ ہے کہ احادیث آیمہ علیہم السلام بھی حکم پیغمبر کی طرح واجب الاطاعت ہیں اس لئے کہ اولاً : معروف و مشہور و متواتر حدیث جو اکثر شیع ی و سنی کتابوںمیں نقل ہوئی ہیں ان میں اس معنا کی تصرہح ہوئی ہے ، صحیح ترمذی میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا :
یا ایھا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذ تم بہ لن تضلوا کتاب اللہ وعتری اھل بیتی ۔ اے لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب دوسرے میرے اھل بیت ۔(١)
ثانیاً ۔ائمہ اھل بیت اپنی تمام حدیثوں کو نبی اکرم سے نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ ہمارے باپ دادا سے ہم تک پہونچی ہے ۔
یقینانبی اسلام مسلمانوں کی آیندہ کی مشکلوں کو سیکھ رہے تھے لہذا آپ نے مشکلوں کے لئے حل بتا دیا دنیا کے ختم ہونے تک آنے والی مشکلات کا حل قرآن و اھل بیت کے دامن سے تمسک اختیار کرنے میں ہے ۔
کیا ممکن ہئے کہ ہم اس حدیث کو جو اس قدر اہمیت کی حامل ہےھاور اتنے قوی محتوی اور سند کی مالک ہ ے اسے نظر انداز کیا جائے اور سرسری طور پر اسے پڑھ کر گزر جائیں ۔ اسی دلیل کی بنیاد پر ہمارا عقہدہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کے بارے میں توجہ دی گئی ہوتی تو آج مسمانوں کی بعض مشکلیں جو عقاید و فقھی مسائل سے متعلق ہین نہ ہو تی ۔
____________________________________
(١) صحیح ترمذی جلد ۵ ،ص ۶۶۲ ،باب مناقب اہل بیت النبی حدیظ ۷۸۱ ۳ اس ھدیث کی متعدد سندوں کا ذکر امامت کی بحث میں
آئے گا ۔
۴
چوتھا حصہ قیامت اور موت کے بعد کی زندگی ہمارے عقیدے
چوتھا حصہ قیامت اور موت کے بعد کی زندگی ۳۴۔ قیامت کے بغیر زندگی بے معنا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد ایک معین دن میں سارے انسان زندہ کیے جائیں گے اور ان کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیک اور صالح عمل والے جنت الفردوس اور برے اور گناہ گارافراد دوزخ بھیجے جائیں گے۔
اللہ لا الہ الاھو لیجمعنکم الی یوم القیامة لا ریب فیہ۔
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بے شک قیامت کے دن ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، وہ تم سب کو جمع کرے گا۔
(سورہ نساء آیہ ۸۷)
فاما من طغی و اثر الحیوة الدنیا فان الجحیم ھی الماوی، و اما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی، فان الجنة ھی الماوی۔
ترجمہ: لیکن جن لوگوں نے سرکسی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم رکھا، بے شک ان کا ٹھکانہ جھنم ہے اور جو لوگ مقام عدالت پروردگار سے ڈرتے ہیں اور اپنے نفس کو ھوی و ھوس سے بچاتے ہیں، یقینا جنت ان کا مقام ہیں۔
(سورہ نازعات آیہ ۳۷ سے ۴۱)
ہماراعقیدہ ہے کہ یہ دنیا ایک پل کی طرح ہے جس پر سے تمام انسانوں کو گزرنا ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا کی طرف جانا ہے یا دوسرے لفظوں میں ، دنیا ایک ایسی گزرگاہ، یونیورسٹی ، بازار، تجارت یا کھیتی ہے، جس کو ذریعہ بنا کر انسان اپنے اصلی ھدف تک پہچتاہے۔
امیر المومنین علیہ السلام دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان الدنیا دار صدق لمن صدقھا ۔۔۔ و دارغناء لمن تذور منھا ، و دار موعظة لمن اتعظ بھا، مسجد احباء اللہ و مصلی ملائکة اللہ و مھبط وحی اللہ و متجر اولیاء اللہ۔
ترجمہ: نے شک دنیا صدق وصداقت کا گھر ہے اس کے لیے جو اس کے ساتھ سچا ہو، بے نیازی کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے زاد راہ ذخیرہ کرے، آگاھی و بےداری کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے نصیحت لے، دنیا محبان خدا کے لیے سجدہ کرنے ، نماز پڑھنے اور وحی نازل ہونے کی جگہ اور دوستان خدا کے لیے تجارت گاہ ہے۔
(نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر۱۳۱)
۳۵۔ قیامت کے دلائل واضح اور روشن ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کی دلیلیں اور نشانیاں نہایت واضح ہیں۔ اس لیے کہ ایک تو اس دنیاوی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلقت کا اصلی اور بنیادی مقصد نہیں ہو سکتی، کہ جس میں انسان چند روز کے لیے آئے اور ڈھیروں مشکلات کے ساتھ زندگی گزارے اور آخر میں سب کچھ ختم ہو جائے اور دنیا فنا ہو جائے۔ افحسبتم انما خلقنا کم عبثا و انکم الینا لا ترجعون۔ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تمہیں بیکار پیدا کیا گیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آوگے۔
(سورہ مومنون آیہ ۱۱۵)
آیہ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اگر قیامت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا بیہودہ و بیکار ہوتی۔
دوسرے یہ کہ: عدل الہی کا تقاضا ہے کہاچھے اور برے افراد جو اس دنیا میں ایک یہ صف میں ہیں بلکہ برے لوگ آگے ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہوں اور سب کو ان کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا ملے۔ ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلھم کالذین آمنوا و عملوا الصالحات سواء محیاھم و مماتھم ساء ما یحکمون۔
ترجمہ: یعنی جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کی طرح قرار دیں گے جو ایمان لائیں ہیں اور عمل صالح انجام دیتے ہیں؟ اور ان کی زندگی اور موت ایک جیسی یوگی؟ وہ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں۔
(سورہ جاثیہ ۲۱)
۳۔ خدا کی بے پناہ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے فیض اور نعمت کا سلسلہ انسان کی موت سے ختم نہ ہو ، بلکہ با صلاحیت اور اہل افراد کے تکامل کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے۔ (کتب علی نفسہ الرحمة یجمعنکم الی یوم القیامةلا ریب فیہ) یعنی خدا نے اپنے اوپر رحمت کو فرض کیا ہے وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے۔
(سورہ انعام آیہ ۱۲)
جو لوگ قیامت کے سلسلہ میں شک و تردید کے شکار تھے ، قرآن ان سے کہتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں تم خدا کی قدرت میں شک کرو، حالانکہ تمہیں پہلی مرتبہ بھی اس نے ہی پیدا کیا ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار مٹی سے پیدا کیا ہے وہی تمہیں ایک بار پھر دوسری زندگی کی طرف پلٹائے گا۔ (افعیینا بالخلق الاول بل ھم فی لبس من خلق جدید) یعنی کیا پہلی خلقت سے تھک گیے(جو قیامت کی خلقت پر قادر نہ ہوں؟ لیکن وہ (ان واضح دلائل کے باوجود نئی خلقت کے متعلق شک کرتے ہیں۔
(سورہ ق آیہ ۱۵)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: (وضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ھی رمیم) (قل یحیی الذی انشاء ھا اول مرة و ھو بکل خلق علیم)
یعنی اس نے ہمارے لیے ایک مثال پیش کی ، لیکن اپنی خلقت کو بھلا بیٹھا اور کہا کون ان پوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا؟ کہو کہ جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ ہر مخلوق کے بارے میں علم رکھتا ہے۔
(سورہ یاسین آیہ ۷۸، ۷۹)
علاوہ از ایں کیا زمین و آسمان کی خلقت کے مقابلہ میں انسان کی خلقت کوئی بڑی بات ہے؟ جو ہستی یہ قدرت رکھتی ہے کہ اس قدر وسیع اور حیرت انگیز کائنات کو پیدا کرے وہ یہ طاقت بھی رکھتی ہے کہ موت کے بعد مردوں کو زندہ کر دے۔ (اولم یرو ان اللہ الذی خلق السماوات والارض و لم یعیا بخلقھن بقادر علی ان یحیی الموتی بلی انہ علی کل شی قدیر) یعنی کیا وہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور جو ان کی خلقت سے عاجز نہیں ہوا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(سورہ احقاف ۳۳)
۳۶۔ معادجسمانی ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف انسان کی روح بلکہ جسم اور روح دونوں ہی دوسری دنیا میں جائیں گے اور ایک نئی زندگی شروع ہوگی۔کیونکہ اس دنیا میں جو کچھ انجام پایا تھا وہ اسی روح اور جسم کے ذریعہ انجام پایا تھا، لہذا سزا اور جزا بھی دونوں کو ملنی چاہیے۔
قرآن مجید میں قیامت سے متعلق اکثر آیات میں ---معاد جسمانی کی بات کی گئی ہے اور مخالفین کے تعجب کا کہ پوسیدہ ہڈیاں کیسے نئی زندگی حاصل کریں گے، قرآن نے یہ جواب دیا ہے: (قل یحیی الذی انشاء ھا اول مرة ) یعنی جس نے انسان کو پہلی بار خاک سے پیدا کیا ہے وہ اس طرح کے کام پر قادر ہے۔
(سورہ یاسین آیہ ۷۹)
(ا یحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ ) (بل قادرین علی ان نسوی بنانہ) یعنی کیا انسان یہ گمان کر تا ہے کہ ہم اس کی (پوسیدہ ) ہڈیوں کو جمع (اور زندہ) نہیں کر پائیں گے؟ ہاں ہم قدرت رکھتے ہیں۔ اس کی (انگلیوں کے) پوروں کو بھی درست کر دیں۔(اور پہلی حالت میں پلٹا دیں۔)
(سورہ قیامت آیہ ۳،۴)
یہ آیات اور اس طرح کی دورسری آیات معاد جسمانی کو صریحا بیان کرتی ہیں۔
وہ آیات جو یہ کہتی ہیں کہ تمہیں تمہاری قبروں سے اٹھایا جائے گا، وہ بھی واضح طور پر جسمانی معاد پر دلالت کر رہی ہیں۔
(سورہ یونس ۵۱ و ۵۲ آیت، سورہ قمر آیہ ۶۷ ، سورہ معارج آیہ ۴۲)
قرآن میں قیامت سے متعلق اکثر آیات روحانی معاد اور جسمانی معاد دونوں کو بیان کرتی ہیں۔
۳۷۔ موت اور بعد کی عجیب دنیا ہمارہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد قیامت اور پھر بہثت و دوزخ کے سلسلہ میں جو کچھ رونما ہوگا اس کی عظمت کا ہم اس محدود دنیا میںاندازہ نہیں لگا سکتے ارشاد ربانی ہے -:(فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرة آعین) یعنی کہ کوئی نہیں جانتا --،ان (نیک لوگوں ) کے لئے کیسی نعمتیں رکھی گئی ہیں جو انکی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک کی بائث ہیں ۔(سورئہ سجدہ آےت ۷۱)نبی اکر م کی اک بہت ہی مشہور حدیث میں منقول ہے ( اللہ ےقول اعددت لعباد ی ا لصالحین ما لا عین رات ولا عذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ) یعنی خدا نے فرمیا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں ے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہے کہ جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل میں انکا خیال تک نہیں آیا ہے۔
(معروف محدثین مثلا بخاری اور مسلم اور مشھور مفسرین مشلا طبرسی،آلوسی اور قرطبی نے ےہ حدیث اپنی کتابوں مین نقل کی ہے۔)
حقیقت میں ہم اس دنیا میں اس جنین کی مانند ہیںجو شکم مادر کی محدود دنیا میں رہ رہا ہو۔ اگر فرضا جنین عقل اور حوش بھی رکھتا تو وہ ان حقائق کا ادراک نہیں کر سکتا جو رحم مادر کے باہر کی دنیا میں موجود ہے مثلا درخشان سورج اور چاند ،باد سحری کے چلنے پھولوں کے منظر اور سمندر کی لہروں کی آواز کو ہر گز درک نہیں کرتا ۔ قیامت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہی ہے جیسی دنیا کے مقابلہ میں جنین کی ۔ (اس نکتہ پر غور فرمائےے)
۳۸۔ قیامت اور نامئہ اعمال ہمارہ عقیدہ ےہ ہے کہ :وہ اعمال نامے جو ہمارے اعمال کی نشاندہی کر رہے ہوں گے۔ اس دن ہمارے ہاتھ میں دئےے جا ئیں گے۔ نیک لوگوں کا نامئہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں جب کہ برے لوگوں کا نامئہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا۔نیک اورمومن لوگ اپنا نامئہ اعمال دیکھ کر خوش ہوںگے جبکہ برے لوگ اپنا نامئہ اعمال دیکھ کر بہت غمگین اور پریشان ہوںگے۔قرآن نے بھی ےہ بیان فرمیا ہے :(فاما من اوتی کتابہ بیمینہ فیقول ھا ٓ ام اقرؤاکتابیہ)(انی ظننت انی ملاق حسابیہ)(فھوفی عیشةراضیة)۔۔۔۔۔۔(و اما من اوتی کتابہ بشمالہ فیقول یآلیتنی لم اوت کتابیہ) یعنی وہ شخص جس کا نامئہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جا ے گا (وہ خوشی سے ) پکارے گا کہ( اے اہل محشر)میرا نامئہ اعمال پکڑ کر پڑھو۔مجھے ےقین تھا کہا میں اپنے اعمال کا نتیجہ پاؤںگا۔وہ ایک پسندیدہ زندگی گزارے گا۔لیکن جس شخص کا نامئہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گاوہ کہے گا کہ اے کاش میرا نامئہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ (سورئہ الحاقہ،آیت۱۹ تا ۲۳)
البتہ ےہ بات واضح نہیں ہے کہ نامئہ اعمال کیا ہے اور کس طرح لکھا جاتا ہے،مگر اس کے اندر لکھی ہوئی باتوں کو کوئی شخص نہیں جھٹلا سکے گا۔چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ معاد اور قیامت کی کچھ ایسی خصوصیات اور جزئیات ہیںجن کا ادراک دنیا کے لوگوں کے لئے مشکل یا نا ممکن ہے۔البتہ قیامت کے بارے میں جو موٹی موٹی باتیں سب کو معلوم ہے اور ےہ ناقابل انکار ہیں۔
۳۹۔ قیامت کے گواہ ہمارا عقیدہ ہے کہ:قیامت کے دن علاوہ اس کے کہ اللہ خود ہمارے اعمال پر شاھد اور گواہ ہے،کچھ دوسرے گواہ بھی ہمارے اعمال پر گواہی دیں گے ۔ہمارے ہاتھ اور پاؤں ےہاں تک کہ ہمارے بدن کی جلد اور وہ زمین جس پرہم رہ رہے ہیں ،اس کے علاوہ دوسری تمام چیزیں ہمارے اعمال کی گواہ اورشاہد ہیں ۔
(الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بماکانوایکسبون ) یعنی ہم آج (قیامت کے دن)ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور انکے ہاتھ ہمارے ساتھ گفتگو کریںگے اور ان کے پاؤں ان کے کاموں کی گواہی دیںگے ۔
(سورئہ ےس ،آےت ۶۵)
(و قالو ا لجلودھم لم شھدتم علینا قالوا انطقنااللہ الزی انطق کل شئی) یعنی وہ اپنے بدن کے چمڑے سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کےوں گواہی دی؟وہ جواب میں کہیں گے :جس خدا نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے اس نے ہمےں گویائی عطا کی ۔(اور تمہارے اعمال سےپردہ ہٹانے کی ذمہ داری ہمیں سونپی ہے)۔
(سورئہ حم سجدہ ،آیت ۲۱)
( ویومئذ تحدث اخبارھا)(بان ربک اوحی لھا )یعنی اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی کےونکہ تیرے رب نے اس پر وحی کی ہے(کہ ےہ ذمہ داری انجام دے)۔
(سورئہ زلزال ،آیت ۴ اور ۵)
۴۰۔ پل صراط اور میزان اعمال ہم قیامت کے دن پل صراط اور میزان کی موجودگی پر ایمان رکھتے ہیں۔
صراط وہی پل ہے جو جنم کے اوپر سے گزرتا ہے اورسب کو اس سے گزرنا ہوگا۔ ہاں جنت کا راستہ جہنم کے اوپر سے گزرتا ہے۔
(وان منکم الا واردھاکان علی ربک حتما مقضیا)(لم ننجی الزین اتقواوتذرالظالمین فیھا جثیا)یعنی تم سب کے سب جہنم میں وارد ہوںگے ۔ےہ تمہارے پر وردگار کا ےقینی اور حتمی امر ہے ۔اس کے بعد متقی لوگوں کو ہم اس سے نجات دیں گے اور ظالموں کو اسکے اندر زانو کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔
(سورئہ مرےم ،آیات ۷۱اور ۷۲)
اس خطرناک اور مشکل راستہ سے گزرنا ہمارے اعمال سے و ابستہ ہے۔چنانچہ ایک مشہور حدیث ہے:ِ”منھم من یمر مثل عدوالفرس،ومنھم من یمر حبوا،و منھم من یمر مشیا،ومنھم من یمرمتعلقا، و قد تاخز النار منہ شئیاوتترک شیئا---“یعنی کچھ لوگ بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے،کچھ ذمہ داری گھوڑے کی سی تیزی کے ساتھ ، بعض ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل،کچھ پیدل چلنے والوں کی طرح،اور بعض اس سے لٹک کر چلیںگے۔کبھی جہنم کی آگ ان سے کچھ چیزیں لے لے گیاور کچھ چیزیں چھوڑ دے گی۔( ےہ حدیث معمولی سے فرق کے ساتھ فریقین کی کتابوں میں آئی ہے مثلا کنزالعمال حدیث۳۶۔۳۹ اور قرطبی جلد ۶ صفحہ ۴۱۷۵(سورئہ مرےم کی آےت ۷۱ کے ذیل میں)،نیز شیخ صدوق نے اپنی آمالی میںحضرت امام جعفر صادق (ع) سے رواےت کی ہے ۔صحیح بخاری میں بھی ”الصراط جسر جہنم “کے عنوان سے ایک باب موجود
ہے ۔(دیکھئے صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ۱۴۶)
” میزان “ جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے انسانوں کے اعمال جانچنے کاایک ذریعہ ہے۔ ہاں اس دن ہمارے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ہر عمل کے وزن اور قدر و قیمت کا علم ہو جائے گا۔
”وتضعالموازین القسط لیوم القیٰمة فلا تظلم نفس شیئا وان کان مثقال حبة من خردل اتینابھا وکفٰیبنا حاسبین)یعنی ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو نصب کریںگے پھر کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگرچہکسی کا عمل (اچھے اور برے اعمال)رائی کے دانہ کے برابر ہی کےوں نہ ہو ،ہم اسے حاضر کریں گے۔ اور ہم حساب کرنے کے واسطہ بہت کافی ہیں ۔
(سورئہ انبیاء آیت ۴۷)
(فاما من ثقلت موازینہ )(فھوفی عیشہ راضیة)(واما من خفت موازینہ)(فامہ حاویة)یعنی البتہ وہ شخص جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ ایک خوشحال زندگی گزارے گا اور جس کے اعمال کا پلڑاہلکا ہوگا اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔
(سورئہ قارعہ،آیات ۶تا۹)
ہاں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی نجات اور کامیابی کا دارومدار اس کے اعمال پر ہے نہ اس کی آرزؤں اور تصورات پر۔ایک کو اسکے اعمال کا صلہ ملے گا ۔نیکی اور تقویٰ کے بغیر کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔(کل نفس بما کسبت رھینة)یعنی ہرکوئی اپنے اعمال کے بدلے گرو ی ہے۔
(سورئہ مدثر ،آیت ۳۸)
پل صراط اور میزان کے بارے میں ےہ ایک مختصر سی وضاحت تھی ،اگرچہ ان کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آخر ت کی دنیا اس دنیا سے بہت بڑی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔لہذا اس عالم کی تمام باتوں کا ادراک ہم مادی دنیا کے قیدی انسانوں کے لئے مشکل یا ناممکن ہے۔
۴۱۔ قیامت کے دن شفاعت ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن انبیاء ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اولیاء اللہ خدا کے اذن سے بعض گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے اور خدا کی بخشش انہیں نصیب ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ اجازت فقط ان لوگوں کے لیے ہوگی جنہوں نے اللہ اور اولیاء اللہ سے اپنا رابطہ قائم رکھا ہوگا۔ لہذا شفاعت مشروط ہے۔ےہ بھی ہماری نیتوں اور اعمال سے ایک طرح کا تعلق رکھتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے (ولایشفعون الا لمن ارتضیٰ) یعنی وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جسکی شفاعت پر خدا راضی ہوگا ۔ (سورئہ انبیاء آےت ۲۸)
جس طرح پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ”شفاعت “انسانوں کی تربیت کا ایک ذریعہ اور گناہوں میں غوطہ زن ہونے سے روکنے کاایک ذریعہ ہے گویا ےہ انسان سے کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہو بھی گیا ہے تو یہیں سے لوٹ جاؤ اور اس سے زیادہ گناہ مت کرو۔
یقینی طور پر شفاعت عظمیٰ کا مقام پیغمبر اسلام ﷺکو حاصل ہے ۔ ان کیابعد باقی انبیاء اور ائمہ معصومین (ع) ےہاں تک کہ شہداء ، علماء صاحب معرفت اور کامل مومنین ،نیز قرآن اور نیک مومنین بھی بعز افراد کی شفاعت کریں گے۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ایک حدیث میں مزکور ہے ” ما من احد من الاولین والاخرین الا وھو یحتاج الی شفات محمد ﷺ یوم القیامة“‘یعنی اولین اور آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو قیامت کے دن حضرت محمد ﷺکی شفاعت کا محتاج نہ ہو۔(بحار الانوار،جلد ۸ صفحہ ۴۲)
کنزالعمال میں نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث ےوں کہتی ہے کہ ”الشفعاء خمسة :القرآن والرحم والامانة ونبیکم و اھل بیت نبیکم“ یعنی روز قیامت شفاعت کرنے والے پانچ ہوں گے ۔قرآن،صلئہ رحم ، امانت ،تمہارے نبی ﷺ اور تمہارے نبی کے اھل بیت۔ (کنزالعمال ،حدیث ۲۹۰۴۱جلد ۱۴ صفحہ ۲۹۰)
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ایک اور حدیث کچھ ےوں ہے : ”اذا کان یوم القیامة بعث اللہ العالم والعابد ،فاذا وقف بین یدی اللہ عز وجل قیل للعابد انطلق الیٰ الجنة و قیل للعالم قف تشفع الناس بحسن تادیبک لھم“ یعنی جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ عالما ور عابد کو اٹھائے گا۔جب دونو ں خالق کی بارگاہ میں کھڑے ہوںگے تو عابد سے کہا جائے گا ، کھڑے رہو اور لوگوں کی جو اچھی تربیت تم نے کی تھی اس کی بنا پر اسکی شفاعت کرو۔(بحار الانوار،جلد۸ صفحہ ۵۶ حدیث۲۲)
ےہ حدیث شفاعت کے فلسفہ کی طرف بھی لطیف اشارہ کر رہی ہے۔
۴۲ ۔ عالم برزخ ہمارا عقیدہ ہے کہ:اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک تیسری دنیا بھی موجود ہے جس کا نام” عالم برزخ “ہے۔ موت کے بعد اور قیامت تک تمام انسانوںکی روحیں اس میں ٹھہریںگی ۔
(ومن ورا ٓئھم برزخ الیٰ ےوم ےبعثون “ یعنی اور انکے پیچھے (موت کے بعد) قیامت تک ایک برزخ ہے۔ (سورئہ مومنون،آےت ۱۰۰)
البتہ ہم عالم برزخ کی جزئیات سے بھی زیادہ اگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے ۔ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ نیک اور صالح لوگوں کی روحیں جو بلند درجات کی حامل ہے۔ (جیسے شھداء کی روحیں )عالم برزخ میں بہت سی نعمتوں سے بہرہ مند رہتی ہیں۔
(ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون) یعنی ایسا ہرگز مت سوچو کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے اللہ کے ہاں رزق پاتے ہیں ۔ (سورئہ آل عمران ،آےت ۱۶۹)
نیز ظالموں ،متکبروں اور انکے حامےوں کی روحیں عالم برزخ میں عزاب پائیںگی ۔ جس کہ قرآ ن نے فرعون اور آل فرعون کے بارے میں کہا ہے:(النار یعرضون علیھا غدوا و عشیویوم تقوم الساعةادخلوا آل فرعون اشد العذاب)یعنی (برزخ میں)ان کا عذاب (جہنم کی)
آگ ہے۔ انہیں صبح وشام اسکے آگے کیا جائے گا ۔ اور جب قیامت برپا ہوگی (تو ارشاد ہوگا)کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کر دو۔ (سورئہ مومن ،آےت۴۶)
لیکن تیسرا گروہ جن کے گناہ تھوڑے ہیں وہ نہ اس گروہ کے ساتھ ہیں اور نہ ا س گروہ کے ساتھ۔وہ عذاب اور سزا س ے بچے رہیں گے۔ گویا وہ عالم برزخ میں نیند جیسی حالت میں رہیںگے اور قیامت کے دن بیدار ہوں گے۔
(ویوم تقو م الساعةیقسم المجرمون ما لبثوا غیرساعة)(وقال الذین اوتوالعلم والایمان لقدلبثتم فی کتاب اللہ الیٰ یوم البعث فھٰذا ےوم البعث ولکنکم کنتم لایعلمون )یعنی اور جس دن قیامت آئے گی توگنہگار قسم کھائیںگے کہ وہ عالم برزخ میں ایک گھڑی ہی ٹہرے ہیں ۔لیکن وہ لوگ جنہیں علم اورایمان دیا گیا ہے۔(وہ مجرموں کو مخاطب کرکے کہیں گے )تم خدا کے حکم سے قیامت کے دن تک (برزخ کی دنیا میں)ٹھہرے ہوئے تھے ۔اب قیامت کا دن ہے لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ (سورئہ روم ،آیات ۵۵ اور ۵۶)
احادیث میں بھی ذکر ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمیا ہے کہ ”القبر روضة من ریاض الجنة او حفرة من حفرالنیران“یعنی قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔(دیکھئے صحیح ترمذی ،جلد ۴،کتاب صحیفةالقیامة،باب ۲۶ ،حدیث ۲۴۶۰۔شیعہ مآخذمیں ےہ حدیث کہیں امیرالمومنین(ع) سے اور کہیں امام علی ابن الحسین (ع)سے رواےت کی گئی ہے۔
۴۳۔مادی اور معنوی صلے ہمارا عقیدہ ہے کہ :قیامت کے دن ملنے والا صلہ مادی پہلو بھی رکھتا ہے اور معنوی بھی،کیونکہ معاد،روحانی ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی بھی ہوگی۔
قرآن کریم اوراحادیث میں بہشت کے باغات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے درختوں کے نیچے نہرے جاری ہوں گی۔(جنات تجری من تحتھاالانھار)(سورئہ توبہ ، آےت ۸۹)اور ےہ کہ جنت کے باغات کے پھل اور سائے ابدی ہوں گے(اکلھا دائم وظلھا)(سورئہ رعد ،آیت ۳۵)اور مومن لوگوں کے لئے بہشت میں بیویاں موجود ہوںگی(ازواج مطھرة)(سورئہ آل عمران آےت ۱۵)یاد رہے ےہ اور اسی طرح جہنم کی جلانے والی آگ اور اسکی دردناک سزاؤں کا جو تذکرہ آیا ہے وہ سب عالم آخرت کی جسمانی سزا اور جزا سے مربوط ہے۔
لیکن ان سے بڑھکر معنوی نعمتیں،معرفت الہی کے انوار ، پروردگار کا روحانی قرب اور اسکے جمال کے جلوے ہیں۔ےہ وہ لذتیں ہیں جو زبان اور بیان کے ذریعہ قابل وصف نہیں ہیں ۔
قرآن کی بعض آیات میں جنت کی بعض مادی نعمتوں،سرسبز وشاداب باغات ،اور پاکیزہ گھروں کے تذکرے کے بعد ارشاد ہوا ہے (ورضوان من اللہ اکبر)یعنی خدا کی خشنودی اور رضا سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے :(ذاٰلک ھو فوز العظیم)یعنی ےہی تو عظیم کامیابی ہے ۔(سورئہ توبہ آےت ۷۲)
جی ہاں ،اس سے بڑھ کر لذت بخش بات اور کونسی ہوگی کہ انسان ےہ محسوس کرے کہ اس کے عظیم اور پیارے معبود نے اسے اپنی بارگاہ میںشرف قبولےت بخشا ہے اور اسے اپنی خشنودی کے سائے میں جگہ دی ہے ؟
امام علی ابن الحسین (ع) سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ ”ےقول (اللہ)تبارک وتعالیٰ رضای عنکم و محبتی لکم خیر و اعظم مما انتم فیہ“ یعنی خدا وند متعال ان سے کہے گا کہ تم سے میری خوشنودی اور تم سے میری محبت ان نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں جو تمہیں حاصل ہیں ۔وہ سب ےہ بات سنیں گے اور اس بات کی تصدیق کریںگے۔ (تفسیر عیاشی ،سورئہ توبہ کی آےت ۷۲ کع ذیل میں ،برواےت المیزان جلد:۹۱)
سچ مچ اس سے بڑھکر اور کو نسی نعمت ہو سکتی ہے کہ انسان سے ےہ کہا جائے ۔( یا ایتھاالنفس المطمئنة)(ارجعی الیٰ ربک راضیةمرضیه)(فادخلی فی عبادی )(وادخلی جنتی)یعنی اے نفس مطمئنة اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے ،پس میرے بندوں کی صف میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا ۔(سورئہ فجر ، آیات ۲۷ تا ۳۰)
۵
پانچواں باب مسئلہء امامت ہمارے عقیدے
پانچواں باب مسئلہء امامت ۴۴۔ امام کا وجود ہمیشہ ضروری ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سے خداوند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ انسانوں کی ھدایت کے لیے انبیاء و رسل کوبھیجے، اسی طرح سے اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ہر عصر اور زمانہ میں انبیاء کے بعد امام اورھادی کو بھیجے ، جو انبیاء کی شریعتوں اور اللہ کے دین کو تحریف و تغییر سے بچائیں، لوگوں کو عصری تقاضوں سے با خبر کریں اور خدا کے احکام اور شریعت پر عمل کی دعوت دیں۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہ ہو تو انسان کی سعادت اور کامیابی ،جو انبیاء کے آنے کا مقصد ہے ، متحقق نہیں ہو سکے گا اور انسان راہ ھدایت سے دور ، انبیاء کی تبلیغ ضایع اور لوگ سرگردان رہ جائیں گے۔
مذکورہ بالا دلائل کے پیش نظرہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی بھی عھد یا زمانہ امام کے وجود سے خالی نہیں رہا ہے: یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین۔ ترجمہ۔ اے ایمان والو، تقوی الہی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
یہ آیہء کریمہ کسی خاص زمانہ تک کے لیے محدود نہیں ہے اور اس میں بغیر کسی قید و شرط کے صادقین کے ساتھ ہونے کا بیان،ا س بات کی دلیل ہے کہ ہر عصر میں امام معصوم موجود ہوتا ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے، جیسا کہ بہت سے شیعہ سنی مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۴۵۔امامت کیا ہے؟ ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت فقط ظاہری حکومت کا عہدہ نہیں ہے بلکہ ایک نہایت بلندروحانی اور معنوی منصب ہے۔امام، اسلامی حکومت کی قیادت کے ساتھ ساتھ دین و دنیا کے معاملہ میں ہمہ گیر حکومت کا بھی ذمہدار ہے۔ امام،لوگوں کی روحانی و فکری راہنمائی کرتا ار پیغمبر اسلام (ص) کی شریعے کو جملہ تحریفات اور تغےّر اور تبدل سے محفوظ رکھتا ہے۔ امام، ان اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے جن کے لئے پیغمبر اسلام (ص) مبعوث ہوئے تھے۔
یہ وہی عظیم منصب ہے جو خدا نے ابرا ہیم (ع) خلیل اللہ کو نبوت اور رسالت کا راستہ طے کرنے اور متعدد امتحانات میں کامیابی کے بعد عطا کیا ۔انہوںنے بھی خدا کے حضور اپنی ذریّت اور اولاد میں سے بعض کے لئے اس عظیم منصب کی درخواست کی اور انہیں یہ جواب ملا کہ ظالم اور گناہ گار لوگ ہر گز اس رتبے پر فائز نہیں ہو سکیں گے۔
(واذابتلٰی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھنّ قال انّی جاعلک للنّاس اماما قال ومن ذرّیتی قال لا ینال عھدی الظّالمین ) یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا نے ابراھیم (ع) کو مختلف چیزوں سے آزمایا اور وہ خدا کی آزمائش سے سرخ رو ہوکر نکلا ۔خدا نے فرمایا میں نے تجھے لوگوں کا امام بنایا ہے۔ ابراھیم (ع) نے عرض کی، میری نسل میں سے بھی امام بنائیے۔ خدا نے فرمایا میرا یہ عھدہ(امامت)ہرگز ظالموں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ (اور تیری نسل سے فقط معصوم لوگوں کو حاصل ہوگا)۔ (سورئہ بقرہ،آیت ۱۲۴)
واضح رہے کہ اتنا عظیم منصب صرف ظاہری حکومت سے عبارت نہیں ہو سکتا۔اگر امامت کا جلوہ وہ نہ ہو جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے تو مزکورہ بالا روایت کا کوئی واضح مفہوم نہیں ر ہے گا۔
ہمارہ عقیدہ ہے کہ: تمام اولوالعزم انبیاء کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا ۔جو کچھ انہوں نے اپنی رسالت کے ذریعہ پیش کیا اس پر خود عمل کیا۔ وہ لوگوں کے معنوی ، مادی ، ظاہری اور باطنی قائد تھے ۔خاص کرپیغمبر اسلام (ص) کو اپنی نبوت کے آگاز سے ہی امامت اور رہبری کے عظیم مرتبے پر فائز تھے۔ان کا کام فقط خدا کے احکام کو آگے پہونچانا نہیں تھا۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد امامت کا سلسلہ ان کی پاک ذریت کے درمیان جاری رہا ہے۔
امامت کی جو تعریف اوپر کی گئی ہے اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس ،قام تک رسائی دشوار شرائط کی حامل ہے۔خواہ تقویٰ (ہر گناہ سے معصوم ہونے کی حد تک) کے لحاظ سے ہو یا علم و دانش اور دین کے تمام معارف و احکامات کو جاننے نیز انسانوں کی شناخت اور ہر عصر میں ان کی ضروریات کو پہچاننے کے حوالے سے۔ (غور کیجئے)
۴۶۔امام ،گناہ اور غلطی سے محفوظ ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ:امام کو ہر گناہ اور غلطی سے معصوم ہونا چاہئے،کیونکہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں بیان شدہ بات کے علاوہ غیر معصوم شخص پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس سے دین کے اصول وفروع اخذ نہیں کئے جا سکتے۔ اس لئے ہماراعقیدہ ہے کہ امام کی گفتگو اس کے افعال اور تقریر کی حجت اور شرعی دلیل ہے۔ (تقریر سے مراد یہ ہے کہ امامم کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اپنی خاموشی کے ذریعہ اسکی تائید کرے)
۴۷۔امام، شریعت کا محافظ ہمارا عقیدہ ہے کہ :امام ہرگز اپنے ساتھ کوئی زریعت یا دین لیکر نہیں آتا بلکہ اسکی ذمہ داری پیغمبر (ص) کے دین کی حفاظت اور آپکی شریعت کی نگہبانی ہے۔اس کا کام دین کی تبلیغ ، تعلیم ،دین کی ھفاظت اور لوگوں کو اس دین کی طرف بلانا ہے۔
۴۸۔امام ،لوگوں میں سب سے زیادہ اسلام سے آگاہ ہے نیز ہماراعقیدہ ہے کہ:امام کو اسلام کے تمام اصول و فروع،احکام وقوانین اور قرآن کے معانی و تفسیر سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہئے۔ان چیزوں کے متعلق اس کے علم کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے اور یہ علم پیغمبر و کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
جی ہاں؛اس طرح کے علم پر ہی لوگوں کو مکمل اعتماد ہو سکتا ہے اور اسلام کی حقیقتوں کو سمجھنے کے لئے اس پر ہی اعتماد کیا جا سکتاہے۔
۴۹۔امام کو منصوص ہونا چاہئے ہمارا عقیدہ ہے کہ:امام (جانشین پیغمبر (ص)) کو منصوص ہونا چاہئے ،یعنی اسکی امامت پیغمبر (ص) کے صریح اور واضح پیغام کے مطابق ہونی چاہئے اور بعد والے امام کے لئے پہلے امام کی تصریح ضروری ہے۔بالفاظ دیگر امام بھی پیغمبر کی طرح خدا کی طرف سے(پیغمبر (ص) کے ذریعے) متعین ہوتا ہے۔ جس طرح ہم نے ابراہیم (ع) کی امامت سے متعلق آیت میں پڑھا:(انّی جاعلک للنّاس اماما)یعنی میں نے تجھے لوگوں کا امام قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ (عصمت کی حد تک)تقویٰ اور بلند علمی مقام(جو تمام احکامات اور تعلیمات الھٰی پر ایسے احاطہ کی صورت میں ہو جس میں غلطی اور اشتباہ کی گنجائش نہ ہو) کی موجودگی کا علم صرف خدا اور ر سول (ص) کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔
بنانبر ایں ہمارے عقیدہ کی رو سے معصوم اماموں کی امامت لوگوں کی رائے سے نہیں حاصل ہو سکتی ہے۔
۵۰۔اماموں کا تعین،رسول (ص) کے ذیعے ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے بعد والے اماموںکومتعین فرمایا ہے۔حدیث ثقلین (جو مشہور و معروف ہے)میں حضور (ص)نے اماموں ک اجمالی ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ”خم “نامی جگہ پر پیغمبر اکرم (ص) نے کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا ۔ اس کے بعد فرمایا:میں عنقریب تم لوگوں سے جدا ہو جاؤں گا۔(انّی تارک فیکم الثّقلین،اوّلھما کتاب اللہ فیہ الھدیٰ والنّورواھل بیتی،اذکرکم اللہ فی اھل بیتی)”یعنی میں تمہارے درمیان دو ران قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ا ن میں سے پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں نور اور ہدایت ہے اور (دوسری چیز)میرے اھل بیت ہیں ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوںکہ میرے اھل بیت کے سلسلے میں خدا کو فرماوش نہ کرناْْْْْْْْْْْْْ(آنحضرت (ص)نے یہ جملہ تین بار دہرایا)۔(صحیح مسلم ،جلد۴صفحہ۱۸۷۳)۔
صحیح ترمذی میں بھی اس بات کا ذکر ہوا ہے اور صریحا مذکور ہے کہ اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہر گزگمراہ نہ ہوگے۔(صحیح ترمذی ،جلد۵ صفحہ۶۶۲)یہ حدیث سنن دارمی ، جلد ۲ صفحہ ۴۴۲۲،خصائص نسائی صفحہ ۲۰، مسند احمد،جلد۵ صفحہ ۱۸۲ اور کتاب کنز العمال جلد ۱۰ صفحہ ۱۸۵ حدیث۹۴۵ اور دیگر مشہور و معروف اسلامی کتب میں مذکور ہے۔ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت میں اس ھدیچ کا شمار ان متواتر احادیث میں ہوتا ہے جن کا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ مختلف مواقع پر یہ حدیث بیان فرمائی ہے۔
وااضح سی بات ہے کہپیغمبر اکرم (ص) کی ذرّیت کے سارے لوگ اس عظیم مرتبے کے حامل اور قرآن کے ہم پلّہ نہیں ہو سکتے۔لہٰذا یہ پیغمبر اکرم (ص) کی ذرّیت میں سے فقط معصوم اماموں کی طرف اشارہ ہے(یاد رہے کہ صرف کمزور اور مشکوک احادیث میں اہل بیتی کی جگہ لفط سنّتی مذکور ہے)۔
اس سلسلے میں ہم ایک اور معروف حدیچ سے استدلال کریں گے (جو صحیح بخاری ،صحیح مسلم،صحیح ترمذی،صحیح ابوداؤد ۔مسند حنبل اور دیگر کتب میں مذکور ہے)۔پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے:(لا ےزال الّذین قائما حتّیٰ تقوم السّاعة او ےکون علیکماثنٰی عشر خلیفة کلّھم من قریش) یعنی دین اسلام قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت اآجائے یا بارہ خلیفہ تم پر حکومت کریں،یہ خلفاء سب کے سب قریش سے ہوں گے۔(صحیح مسلم ،جلد۳صفحہ ۱۴۵۳میں یہ عبارت ---” جابر ابن سمرہ“نے نبی اکرم سے نقل کی ہے۔یہی عبارت مختصر سے فرق کے ساتھ مذکورہ بالا کتب میں مذکور ہے۔دیکھئے صحیح بخاری،جلد ۴ صفحہ۱۰۱،صحیح ترمذی،جلد ۴ صفحہ۵۰۱اورصحیح ابی داؤد،جلد ۴ کتاب المہدی)
ہمارا عقیدہ ہے کہ :ان روایا ت کی قابل قبول تفسیر صرف وہی ہو سکتی ہے جو بارہ اماموں کے متعلق شیعہ امامیہ نے کی ہے۔ذرا غور فرمائیں کہ کیا اسکے علاوہ کوئی معقول تفسیر ہو سکتی ہے؟
۵۱۔پیغمبر اکرم کے ذریعہ،حضرت علی (ع)کا تعین ہمارا عقیدہ ہے کہ :پیغمبر اسلام (ص) نے متعدد جگہوں پرحضرت علی (ع) کو بالخصوص اپنے جانشین کے طور پر (خدا کے حکم سے)معین فرمایا ہے۔چنانچہ ایک دفعہ حجةالوداع سے لوٹتے وقت صحابہ کے ایک عظیم اجتماع میں غدیر خم (جحفہ کے نزدیک ایک جگہ) کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:(ایھاالنّاس الست اولٰی بکم من انفسکم قالوا بلیٰ،قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ) یعنی اے لوگوں کیا میں تم پر تمہاری بہ نسبت زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟انہوںنے کہا،کیوں نہیں۔آپ (ص) نے فرمایا :بس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی (ع) مولا ہے)۔(یہ حدیث متعدد اسناد کے ذریعہ نبی اکرم (ص) سے نقل ہوئی ہے ۔حدیث کے راویوں کی تعداد ۱۱۰ اصحاب اور ۸۴ تابعین سے زیادہ ہے۔۳۶۰ سے زیادہ مشہور اسلامی کتابوں میں یہ حدیث منقول ہے جس کی تفصیل اس مختصر سی کتاب میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ دیکھئے پیام قرآن ،جلد ۹ صفحہ ۱۸۱ اور مابعد۔)
یہاں چونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ان عقائد کی مزید دلائل بیان کریں اور بحث اور تمحیص کو طول دیں لہٰذایہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے ایک عام سی خوشنودی یا محبت کے اظہار کا عنوان دیا جا سکتا ہے جبکہ پیغمبر اسلام (ص) نے اتنے بڑے اہتمام اور تاکید کے سا تھ اسے بیان کیا ہے۔
کیا یہ وہی چیز نہیں ہے جس کا ابن کثٰیر نے اپنی تاریخ ”الکامل“میں ذکر کیا ہے؟کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی تبلیغ کے آغاز میں قرآنی آیت(انذر عشیرتک الاقربین) کے نزول کے بعد اپنے عزیزوں کو جمع کیا اور انکے سامنے اسلام پیش کرنے کے بعد فرمایا:
(ایّکم یوازرنی علیٰ ھٰذاالامر علیٰ ان یکون اخی و وصیّی و خلیفتی فیکم) یعنی تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ و جانشین ہو؟
حضرت علی (ع) کے سوا کسی نے پیغمبر (ص) کی بات کا جواب نہیں دیا ۔حضرت علی (ع) نے عرض کیا-:(انا یا نبیّ اللہ اکون وزیرک علیہ) یعنی اے اللہ کے نبی میں اس کام میں آپ کا وزیر اور مددگار بنوں گا۔
پیغمبر اکرم نے انکی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:(انّ ھٰذا اخی و وصیّی وخلیفتی فیکم)یعنی بہ تحقیق یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے۔(کامل ابن اثیر ،جلد۲ صفحہ۶۳، مطبوعہ بیروت /دارصادرم، مسند احمد بن حنبل،جلد ۱ صفحہ۱۱،شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۳ صفحہ۲۱۰ و دیگر مئولفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں یہی بات بیان کی ہے۔)
کیا وہ مسئلہ نہیں ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام (ص)اپنی عمر کے آخری حصّہ میںایک بار پھر کرنا چاہتے تھے اور اسکی تاکید کرنا چاہتے تھے؟صحیح بخاری کے بقول آنحضرت (ص)نے حکم ددیا:(ایتونی اکتب کتابا لن تضلّوا بعدہ ابدا) یعنی کوئی چیز (کاغز و قلم ) لے آؤتاکہ تمہارے لئے ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم ہر گز گمراہ نہ ہوں گے۔اسی حدیث میں مذکور ہے کہ بعض حضرات نے اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی مخالفت کی یہاں تک کہ بہت ہی توہین آمیز بات کی اور رکاوٹ بن گئے۔(بخاری نے جلد ۵ صفحہ ۱۱ باب ”مرض النبی“ میں یہ حدیث بیان کی ہے۔اس سے زیادہ واضح صحیح مسلم ،جلد ۳ صفحہ ۱۲۵۹ میں مذکور ہے۔)
ہم ایک بار پھر اس بات کی تکرار کریں گے کہ یہاں ہمارا مقصد عقائد کو مختصر سے استدلال کے ساتھ بیان کرنا ہے اور زیادہ تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے،وگرنہ گفتگو کا انداز کچھ اور ہوتا۔
۵۲۔ہر امام کی تاکید،اپنے بعد والے امام کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ :بارہ اماموں میں سے ہر ایک کی تائید اس سے پہلے والے امام کے ذریعہ ہوتی ہے۔سب سے پہلے امام ھضرت علی علیہ السلام ہیں ان کے بعد انکے بیٹے امام حسن علیہ السلام ،ان کے بعد امام علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے سےدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے امام حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے امام محمد باقی علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے امام جعفربن محمد الصادق علیہ السلام،انکے بعد انکے بیٹے امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے علی ابن موسیٰ الرّضا علیہ السلام،پھر انکے بیٹے محمد ابن علی التقی علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے علی ابن محمد النقی علیہ السلام،ان کے بعد ان کے بیٹے ھسن ابن علی العسکری علیہ السلاماور سب سے آخری امام محمد بن الحسن المھدی علیہ السلام ہیں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں لیکن لوگوں کی نظر وں سے غائب ہیں۔
البتہ حضرت مہدی علیہ السلام (جو دنیا کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی) کے وجود پر ایمان صر ف ہمارے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔بعض سنی علماء نے حضرت امام مہدی علیہ السلام سے متعلق روایات کے متواتر ہونے پر الگ کتابیں لکھی ہیں۔(رابطةالعالم الاسلامی) کی طرف سے شائع ہونے والے رسالے میں چند سال قبل امام مہدی علیہ السلام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امام (ع) کے ظہور کو حتمی قرار دیاگیا تھا اور ساتھ ہی امام حضرت مہدی علیہ السلام کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و مستند روایات کے کافی سارے اسناد کا ذکر ہوا تھا(یہ خط ۲۴شوال۱۳۹۶ ہجری کو ”رابطةالعالم الاسلامی“ سے ” مجمع الفقہ الاسلامی“ کے ڈائرکٹرمحمدالمنتصرالکتانی کے دستخط کے ساتھ شائع ہوا ہے۔) البتہ ان میں بعض اس بات کے قائل ہیںکہ حضرت مہدی علیہ السلام آخری زمانے میں متولد ہوں گے۔لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ بارہویں امام ہیں اب بھی زندہ ہیں اور جب خداانہیں زمین سے ظلم و جور کاخاتمہ کرنے ا ور حکومت عدل الھٰی قائم کرنے کا حکم دے گا تو وہ خروج کریں گے۔
۵۳۔حضرت علی (ع) سب صحابہ سے افضل ہیں ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ:حضرت علی علیہ السلام سب صحابہ سے افضل ہیں ۔پیغمبر اکرم (ص) کے بعد اسلامی امت میںان کا مقام سب سے بڑا ہے۔اس کے باوجود ان کے بارے میں ہر قسم کا غلو حرام ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی علیہ السلام کے لئے مقام الوہیت اور ربوبیت یا اس طرح کی کسی بات کے قائل ہیں وہ کافر اور مسلمانوں کے زمرے سے خارج ہیں۔ ہم ان کے عقائد سے بےزار ہیں ۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شیعوں کے ساتھ انکا ملتا جلتا نام اس سلسلے میں غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔حالانکہ علماء شیعہ امامیہ نے ہمیشہ اپنی کتابوں میں اس گروہ کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔
۵۴۔صحابہ،عقل اور تاریخ کی عدالت میں ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر (ص) کے اصحاب میں بڑے عظیم،جاں نثار اور عظمت والے لوگ تھے ۔قرآن و حدیث نے انکی فضیلت میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تمام اصحاب پیغمبر (ص) کو معصوم سمجھنے لگیں اور کسی استثناء کے بغیر ان کے اعمال کو درست قرار دیں ۔کیونکہ قرآن نے بہت سی آیات (سورئہ توبہ،سورئہ نور ،اور سورئہ منافقین کی آیات)میں ایسے منافقین کا تذکرہ کیا ہے جو اصحاب پیغمبر (ص) میں شامل تھے۔ظاہری طور پر وہ ان کا حصّہ تھے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کی بہت زیادہ مذمت کی ہے۔دوسری طرف سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے پیغمبر (ص) کے بعد مسلمانوں میں جنگ کی آگ بھڑکائی،انہوں نے وقت کے امام اور خلیفہ کی بیعت توڑ دی اور دسیوں ہزار مسلمانوں کا خون بہایا۔ کیا ہم یہ کہ سکتے ہیںکہ یہ افراد ہر لحاظ سے پاک و منزّہ تھے؟
بالفاظ دیگر نزاع اور جنگ(مثلا جنگ جمل و صفین) کے دونوں فریقوں کو کس طرح صحیح اور درست قرار دیا جا سکتا ہے؟یہ تضاد ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔کچھ لوگ اس کی توجیہ کے لئے ”اجتہاد“ کے بہانے کو کافی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک فریق حق پر تھا اور دوسرا خطا کار لیکن چونکہ اس نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ہے لھذٰا خدا کے نزدیک اسکا عذر قابل قبول ہے،،بلکہ اسکو صواب ملے گا ۔ہمارے لئے اس استدلال کو قبول کرنا مشکل ہے۔
اجتہاد کا بہانہ بنا کر پیغمبر (ص) کے جانشین کی بیعت کیسے توڑی جا سکتی ہے؟ اور پھر جنگ کی آگ بھڑکا کر بے گناہ لوگوں کا خون کیسے بہایا جا سکتا ہے؟اگراجتہاد کا سہارا لیکر اس قدر بے تہاشا خونریزی کی توجیہ کی جا سکتی ہے تو پھر کون سا ایسا کام ہے جسکی توجیہ نہ ہو سکے؟
ہم واضح طور پر کہیں گے کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے تمام انسانوں ،یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کی اچھائی برائی کا سار و مدار انکے اعمال پر ہے۔قرآن کا یہ زرّین اصول(انّ اکرمکم عند اللہ اتقٰیکم) یعنی خدا کے نزدیک تم سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے(سورئہ حجرات آیت۱۲) ان کو بھی شامل ہے۔
لھٰذا ہمیں ان کے اعمال سامنے رکھتے ہوئے ان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ یوں ہم ان سب کے بارے میں ایک منطقی موقف اختیار کرتے ہوئے کہ سکتے ہیں کہ جو لوگ آنحضرت (ص) کے دور میں مخلص اصحاب کی صف میں شامل تھے اور پیگمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد بھی وہ اسلام کی حفاظت میں کوشاں رہے اور قرآن کے ساتھ اپنے وعدہ کو نبھاتے رہے،ہم ان کو اچھا سمجھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن جو لوگ آنحضرت لے دور میں منافقین کی صف میں شامل تھے اور انہوں نے ایسے کام کئے جن سے پیغمبر (ص) کا دل دکھایا اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور ایسے کام کئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھے تو ہم انہیں نہیں مانتے۔ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے(لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوآدّون من حآدّاللہ ورسولہ ولوکانوا آبائھم او ابنائھم او اخوانھم اوعشیرتھم اولٰٓئک کتب فی قلوبھم الایمان)یعنی آپ خدا اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو خدا اور رسول (ص) کے ساتھ نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پائیں گے، اگر چہ وہ ان کے باپ ،اولاد ،بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ ہیں جن کے صفحات قلوب پر اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے۔(سورئہ مجادلہ ،آیت ۲۲)
جی ہاں ؛جو لوگ پیغمبر (ص) کی زندگی میں یا حضور کی ر حلت کے بعد پیغمبر (ص) کو تکلیف پہونچاتے رہے وہ ہمارے عقیدہ کے مطابق احترام کے قابل نہیں ہیں۔
لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پیغمبر (ص) کے بعض اصحاب نے اسلام کی ترقی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں انجام دی ہیں ۔ خدا نے بھی ان کی تعریف و تمجید کی ہے۔اسی طرح جو لوگ ان کے بعد آئے یا دنیا کے خاتمہ تک آتے رہیں گے اگر وہ حقیقی اصحاب کے راستہ پر چلتے ہوئے ان ک کے مشن کو آگے بڑھائیں تو وہ بھی تعریف اور تمجید کے لائق ہیں ۔ارشاد ہوتا ہے(السّابقون الاوّ لون من المھاجرین والانصار والّذین اتّبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ) یعنی مھاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اوّلین افراد نیز نیکیوں میں انکی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔(سورئہ توبہ ،آیت ۱۰۰)
یہ ہے پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کے متعلق ہمارے عقیدہ کا خلاصہ ۔
۵۵۔اہل بیت ،علوم پیغمبر (ص) سے ماٴخوز ہیں ہمارا عقیدہ ہے کہ :چونکہ متواتر روایات کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے ہمیں اہل بیت کے متعلق حکم دیا ہے کہ ہم ان دونوں کا دامن نہ چھوڑیں تاکہ ہم ہدایت پائیں،نیز چونکہ ہم آئمّہ اہل بیت (ع) کو معصوم سمجھتے ہیں ،اس لئے ان کی ہر بات اور ان کا ہر عمل ہمارے لئے حجت اور دلیل ہے ۔اسی طرح ان کی تقریر (یعنی ان کے سامنے کوئی کام انجام پائے اور وہ اس سے منع نہ کریں ) بھی حجت ہے۔بنا بریں قرآن و سنت کے بعد ہمارا ایک فقہی ماٴخذ آئمہ اہل بیت (ع) کا قول،فعل اور تقریر ہے۔
اور چونکہ متعدد اور معتبر روایات کے مطابق آئمّہ اہل بیت (ع) نے فرمایا ہے کہ ان کے فرامین رسول اللہ (ص) کی احادیث ہیں جو وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ،بنابر ایں واضح ہے کہ حقیقت میں ان کے فرامین پیغمبر (ص) کی روایات ہیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے ثقہ اور با اعتماد شخص کی روایت علمائے اسلام کے نزدیک قابل قبول ہے۔
امام محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے جابر سے فرمایا( یا جابر انّالو کنّانحدّثکم براٴینا و ھو ان ا لکنّا من الھالکین ،ولکن نحدّثکم باحادیث نکنذھا عن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)یعنی اے جابر ؛اگر ہم اپنی رائے اور خواہشات نفسانی کی بناء پر تمہارے لئے کوئی بات بیان کریں تو ہم تباہ ہونے والوں میں شامل ہو جائیں گے ۔ لیکن ہم تمہارے لئے ایسی احادیچ نقل کرتے ہیں جو ہم نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے خزانہ کی صورت میں جمع کی ہیں ۔
(جامع احادیث الشیعہ ،جلد ۱صفحہ۱۸ از مقدمات ،حدیث ۱۱۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ کسی نے امام (ع) سے سوال کیا اور حضرت (ع) نے جواب دیا ۔ اس شخص نے امام کی رائے تبدیل کرنے کی غرض سے بحث شروع کر دی تو امام صادق (ع) نے فرمایا :(ما اجبتک فیہ من شئی فھو عن رسول اللہ)یعنی میں نے تجھے جو جواب دیا ہے وہ پیغمبر (ع) سے منقول ہے(اور اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے)۔(اصول کافی ،جلد ۱ صفحہ۵۸حدیث۱۲۱)
قابل غور اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حدیث کے سلسلہ میں ہمارے پاس کافی،تحذیب،استبصار، من لا ےحضرہ الفقیہ اور دوسری معتبر کتابیں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہر روایت ہماری نظر میں قابل قبول ہے بلکہ روایات سے متعلق کتب کے ساتھ ہمارے پاس علم رجال کی کتب بھی موجود ہیں ،جن میں ہر طبقہ کے راویان احادیث پر بحث کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ روایت قابل قبول ہے،جس کی سند میں مذکور تمام افراد ثقہ اور قابل اطمینان ہوں ۔لہٰذا ان مشہور اور معتبر کتب میں جو روایات اس شرط کی حامل نہ ہوں وہ ہماری نظر میں قابل قبول نہیں۔
علاوہ از ایں ممکن ہے کہ کوئی روایت ایسی ہو جس کا سلسلہ سندبھی معتبر ہو لیکن ابتداء سے لے کر آج تک ہمارے بڑے بڑے علماء اور فقہاء نے اسے نظر انداز کیا اور اس پر عمل نہ کیا ہو ا ور انہیں اس میں کچھ دیگر نقائص نظر آتے ہو ں ۔ اس قسم کی روایت کو ہم ”معرض عنھا“ کہتے ہیں ۔ یہ ہماری نظر میں معتبر نہیں ۔
بنابر ایں یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ ہمارا عقیدہ جاننے کے لئے فقط اور فقط ان کتب میں موجود کسی ایک روایت یا مختلف روایات کا سہارا لیتے ہیں،بغیر اس کے کہ روایت کی سند کے بارے میں کوئی تحقیق کریں انکا طریقہ کار غلط ہے۔
بعض معروف اسلامی فرقوں میں ”’صحاح “کے نام سے کتابیں موجود ہیں ،جن میں موجود روایات کا صحیح ہونا ان کتابوں کے مصنّفین کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز دوسرے لوگ بھی ان روایات کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ لیکن ہمارے نزدیک موجود معتبر کتابیں اس طرح نہیں ہیں ۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جن کے مصنّفین معروف اور قابل اعتماد شخصیات ہیں ۔ لیکن ان کتابوں میں موجود روایات کی سند کا صحیح ہونا علم رجال کی کتب کی روشنی میں راویوں کی تحقیق پر موقوف ہے۔
مذکورہ بالا نکتے کی طرف توجہ ہمارے عقائد کے متعلق پیدا ہونے والے بہت سے سوالوں کا جواب دے سکتی ہے ۔ جس طرح اس سے بے توجہی ہمارے عقائد کی پہچان کے سلسلے میں بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتی ہے ۔
بہر حال قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام (ص)کی احادیث کے بعد ہماری نظر میں بارہ اماموں (ع) کی احادیث معتبر ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام سے ان احادیث کا صدور معتبر طریقہ سے ثابت ہو۔
مختلف مسائل گزشتہ ابواب میں ذکر ہونے والے مباحث میں نے دین اسلام کی بنیادوں سے متعلق ہمارے نظریاتی وا عتقادی اصولوں کو واضح کیا۔ان کے ساتھ ساتھ ہمارے عقائد کی کچھ اورخاص باتیں ہیں جواس باب میں بیان کی جاتی #ہیں۔
۵۶۔حسن و قبح کا مسئلہ ہمارا عقیدہ ہے کہ انسانی عقل بہت سی اشیاء کی خوبی و بدی اور حسن و قبح کا ادراک کر سکتی ہے ۔ یہ خو ب و بد کی پہچان ،اس طاقت کی بدولت ہے جو خدا نے انسان کو عطا کی ہے۔بنابر ایں آسمانی شریعتوں کے نازل ہونے سے پہلے بھی بعض امور عقل کی بدولت انسانوں کے لئے واضح تھے۔مثلا عدل اور نیکی کی خوبی ، ظلم و ستم کی برائی نیز ہدایت ،امانت، شجاعت اور سخاوت جیسی بہت سی اخلاقی صفات کی اچھائی اسی طرح جھوٹ ،خیانت ،بخل اور اس طرح کی دوسری صفات کی برائی و قباحت،ان امور میں سے ہیں جنہیں عقل درک کرتی ہے۔ لیکن چونکہ عقل تمام اشیاء کی اچھائی اور برائی کو سمجھنے سے عاجز ہے اور انسان کی معلومات بہر حال محدود ہیں اس لئے ادیان الھٰی،آسمانی کتب اور انبیاء ،خدا کی طرف سے اس امر کی تکمیل کے لئے بھیجے گئے ،تاکہ وہ عقلی ادراکات کی بھی تاکید کریں اور ان تاریک گوشوں کو بھی نمایاں کریں جن کے ادراک سے عقل عاجز ہے۔
اگر حقائق کی پہچان کے سلسلے میں ہم عقل کی ذاتی صلاحیت کے سرے سے ہی منکر ہوجائیںتو پھر توحید ،خدا شناسی اور آسمانی ادیان کی بات ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ وجود خدا کا اثبات اور بعثت انبیاء کی حقانیت صرف عقل کے ذریعہ ہی قابل اثبات ہے۔یہ بات واضح ہے کہ شرعی تعلیمات اس صورت میں قابل قبول ہیں جب یہ دو اصول (توحید و نبوت)پہلے عقلی دلیل کے ذریعہ ثابت ہو چکے ہوں ۔صرف شرعی دلیل کے ذریعہ ان دونوں موضوعات کا اثبات نا ممکن ہے۔
۵۷۔عدل الھٰی مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پرہم خدا کے عادل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس بات کو محال سمجھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں پر ظلم کرے یا بلا وجہ کسی کو سزا دے یا بلا وجہ کسی کو معاف کر دے ۔یہ محال ہے کہ وہ اپنا وعدہ وفا نہ کرے اور محال ہے کہ برے اور خطاکار شخص کو اپنی طرف سے نبوت اور رسالت کا مقام عطا فرمائے اور اسے معجزات سے نوازے۔
نیز یہ بھی محال ہے کہ اس نے اپنے جن بندوں کو سعادت کا راستہ طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے،انہیں کسی راہنما اور رہبر کے بغیر سرگرداں چھوڑ دے،کیونکہ یہ سبکام برے اور قبیح ہیں ۔قرآنی آیات ایسی آیات سے بھری پڑی ہیں جو عقل اور عقلی دلائل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔جادئہ توحید پر گامزن ہونے کے لئے قرآ ن نے ارباب عقل و خرد کو زمین اور آسمان میں موجود خدا کی نشانیوں کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی ہے۔(انّ فی خلق السّمٰوات والارض واختلا ف ا للّیل والنّھار لآیات لاولی الالباب )(سورئہ آل عمران ،آیت ۱۹۰)
دوسری طرف سے انسانی عقل و شعور میں اضافہ کو خدا کی نشانیوں کے بیان کا ہدف قرار دیا۔(انظر کیف نصرّف الآیات لعلّھم یفقھون )یعنی دیکھو کہ ہم مختلف تعبیروں سے کس طرح اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ لیں ۔(سورئہ انعام ،آیت ۶۵)
تیسرا نکتہ :ان دونوں باتوں کے علاوہ تمام انسانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ نیکیوں اور برائیوں میں تمیز کریں۔ اور اس سلسلہ میں قوت فکر سے کام لیں ۔ارشاد ہوتا ہے کہ ( قل ھل یستوی الاعمی والبصیر افلا تتفکّرون )یعنی کیا نابینا اور بینا(نادان اور دانا )برابر ہیں ؟کیا تم فکر نہیں کرتے ؟(سورئہ انعام ،آیت ۵۰)
چوتھا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ :جو لوگ اپنے کانوں ،آنکھوں اورزبان سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل و خرد سے استفادہ نہیں کرتے انہیں زمین پر چلنے والوں میں سب سے بد ترین حیوان قرار دیا گیا ہے۔(انّ شرّ الدّوآب عند اللہ الصمّ البکم الّذین لا یعقلون)یعنی خدا کے نزدیک زمین پر چلنے والوں میں سب سے برے وہ بہرے اور گونگے افراد ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے(سورئہ انفال ،آیت ۲۲)اور بھی متعدد آیات اس بات کو بیان کرتی ہیں ۔
ان دلائل کی موجودگی میں اسلام کے اصول و فروع کے حوالے سے ہم عقل و خرد اورتفکر کی قوّت سے کیسے چشم پوشی کر سکتے ہیں ؟
خدا وند عالم کے لئے برے اور قبیح کام کا امکان نہیں ہے۔
۶
آذادی انسان ہمارے عقیدے
آذادی انسان ۵۹۔فقہ کا ایک ماٴخذ عقل ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ:دین اسلام کا ایک بنیادی ماٴخذ مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں عقل ہے۔یعنی یہ کہ عقل ےقینی طور پر کسی چیز کو درک کرے اور اسکے بارے میں فیصلہ کرے۔مثال کے طور پر اگر( بطورفرض)قرآن اور سنت میں ظلم و خیانت ،جھوٹ ،قتل،چوری اور لوگوں کے حقوق پامال کرنے کی حرمت پر کوئی دلیل ہی نہ ہوتی و ہم دلیل عقلی کے ذریعہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے اور ےقین رکھتے کہ اس عالم اور حکیم خدا نے ہم پر یہ چیزیں حرام کر دی ہیں اور وہ ان کی انجام دہی پر راضی نہیں ہے۔عقل کا یہ حکم ہمارے اوپر حجت محسوب ہوتا۔
۶۰۔عدل الھٰی پر ایک نظر جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ہم خدا کے عادل ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ ےقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے کسی بندہ پر کوئی ظلم نہیں کرتا کیونکہ ظلم ایک برا اور نا پسندیدہ کام ہے اور خدا کی ذات اس طرح کے کام سے پاک اور منزہ ہے(ولا یظلم ربّک احدا)یعنی تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا۔(سورئہ کہف ،آیت ۴۹)
اگر دنیا اور آخرت میں بعض افراد کو سزا ملے گی تو اس کااصل سبب وہ خود ہیں۔(فما کان اللہ لیظلمھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون )یعنی خدا نے عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے والی گزشتہ (اقوام )پر ظلم نہیں کیا (سورئہ توبہ،آیت ۷۰)بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے۔
نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی خدا ظلم نہیں کرتا ۔(وما اللہ یرید ظلما للعالمین)یعنی خدا اہل عالم پر ظلم کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتا۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۱۰۸)یاد رہے کہ یہ تمام آیات حکم عقل کی طرف راہنمائی کر رہی ہے اور اسی کی تاکید کر رہی ہیں۔
تکلیف مالا یطاق
تکلیف مالا یطاق کی نفی مذکورہ وجوہات کی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہر گز تکلیف مالا یطاق (انسان کی طاقت سے باہر کاموں ) کا حکم نہیں دیتا (لایکلّف اللہ نفسا الّا وسعھا)(سورئہ بقرہ،آیت ۲۸۶)
۶۱۔المناک حادثات کا فلسفہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں جو المناک واقعات رو نما ہوتے ہیں (مثلا زلزلے ، مصیبتیںاور مشکلات)مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں وہ کبھی تو خدا کی طرف سے سزا کے طور پر واقع ہوتے ہیں جیسا کہ قوم لوط کے متعلق فرمایا ہے(فلمّا جآء امرنا جعلنا عٰالیھا سافلھا وامطرنا علیھم حجارة من سجّیل منضود) یعنی جب عذاب کے بارے میں ہمارا حکم آگیا تو ہم نے انکے شہروں کو ملیا میٹ کر دیا اور ان پر پتھروں کی موسلا دھار بارش نازل کر دی۔(سورئہ ہود ،آیت ۸۲)
اور ”سبا“ کے سرکش اور ناسپاس لوگوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے(فاعرضوا فارسلنا علیھم سیل العرم)(سورئہ سبا ،آیت ۱۶)یعنی انہوں نے خدا کی اطاعت سے منہ موڑ لیا اور ہم نے تباہ کن سیلاب انکی طرف بھیج دیا۔
نیز ان میں سے نعض واقعات انسانوں کو بیدار کرنے کے لئے ہوتے ہیں تاکہ وہ حق کے راستے کی طرف لوٹ آئیں ۔(ظھر الفساد فی البرّ والبحر بما کسبت اید النّاس لیذیقھم بعض الّذی عملوا لعلّھم یرجعون) خشکی اور سمندروں میں لوگوں کے کاموں کی وجہ سے خرابی آشکار ہو گئی۔خدا چاہتا ہے کہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے ۔شاےد وہ لوٹ آئیں۔(سورئہ روم ،آیت ۴۱) لہٰذا اس طرح کی مصیبتیں حقیقت میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ ہیں۔
بعض مصیبتیں ایسی ہیں جو انسان خود اپنے لئے ڈھونڈ لاتا ہے۔با الفاظ دیگر وہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔(انّ اللہ لا یغیّر ما بقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسھم )یعنی یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔(سورئہ رعد ،آیت ۱۱)
(ما اصابک من حسنة فمن اللہ وما اصابک من سیّئة فمن نفسک)یعنی جو نیکی تجھے نصیب ہو وہ خدا کی طرف سے ہے (اور اس کی مدد سے ہے)اور جو برائی تجھے لاحق ہو وہ خود تیری طرف سے ہے۔(سورئہ نساء،آیت ۷۹)
۶۲۔ کائنات کا نظام سب سے بہترین نظام ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ کائنات عالی ترین نظام کا نظارہ پیش کر رہی ہے ۔یعنی اس کائنات کا موجودہ نظام ممکنہ نظاموں میں سب سے بہتر نظام ہے۔ہر چیز حساب کتاب کے مطابق ہے اس میں حق ،عدل ،انصاف اور نیکی کی منافی کوئی بات موجود نہیں ہے۔اگر انسانی معاشرہ میں کوئی برائی نظر آرہی ہے تو یہ خود انکی طرف سے ہیں۔
ہم یہ بات دہراتے ہیں کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے کائنات کے بارے میں اسلامی نظریہ کہ ایک اصلی بنیاد عدل الہٰی ہے۔اس کے بغیر توحید ،نبوّت اور معاد کا نظریہ بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے،ذرا غور کیجئے۔
ایک حدیث میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے پہلے فرمایا”انّ اساس الدین التوحید والعدل “یعنی دین کی بنیاد توحید اور عدل ہیں ۔اس کے بعد فرمایا”امّا التوحید فان لا تجوزعلیٰ ربّک ما جاز علیک و امّا العدل فان لا تنسب الیٰ خٰالقک ما لامک علیہ“یعنی توحید یہ ہے کہ جو باتیں تیرے کئے روا نہیں ہیں ،انہیں خدا کے لئے روا نہ سمجھ۔(اسے ممکنات کی تمام صفات سے پاک و منزہ سمجھو)اور عدل یہ ہے کہ تم خدا کی طرف کسی ایسے کام کی نسبت نہ دوجسے اگر تم انجام دو تو وہ اس پر تمہاری مذمت کرے۔غور کیجئے(بحار الانوار ،جلد ۵صفحہ۱ حدیث ۲۳)
۶۳۔فقہ کے چار ماٴخذ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہمارے فقہی منابع(ماٴخذ)چار ہیں ۔
۱۔”کتاب اللہ“یعنی قرآن مجید جو اسلامی معارف اور احکام کی بنیاد ہے۔
۲۔پیغمبر اسلام (ص) اور آئمّہ معصومین علیہم السلام (اہل بیت) کی سنت۔
۳۔علماء اور فقہاکا اجماع و اتفاق جو معصوم کی رائے کا مظہر ہو۔
۴۔عقل،عقل یا دلیل عقلی سے مراد ےقینی اور قطعی دلیل عقلی ہے۔جو دلیل عقلی ظنّی ہو(مثلا قیاس ،استحسان وغیرہ )وہ ہمارے نذدیک کسی بھی فقہی مسئلہ میں قابل قبول نہیں ہے ۔لہٰذا اگر فقیہ اپنے گمان کے مطابق کسی چیز میں مصلحت دیکھے لیکن اس کے مطابق قرآن اور سنت میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ اپنے گمان کو حکم خدا کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔اسی طرح شرعی احکام اٴخذ کرنے کے لئے ظنّی قیاسات اور اس طرح کی چیزوں کا سہارا لینا ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔لیکن جن مقامات پر انسان کو ےقین حاصل ہو جائے (جیسے ظلم،جھوٹ ،چوری اور خیانت کی برائی کا ےقین)تو ان مقامات پر عقل کا حکم معتبر ہے۔عقل کا یہ قطعی حکم ”کلّ ما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع“(عقل جس چیز کا حکم دے شرع کا حکم بھی وہی ہوگا) کے قاعدہ کے تحت حکم شرعی محسوب ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادتی،سیاسی ،اقتصادی اور سماجی امور میں مکلّف لوگوں کے لئے ضروری مسائل کے متعلق پیغمبر (ص) اور آئمّہ علیہم السلام کی احادیث ہمارے یہاں موجود ہیں اور ظنّ اور گمان پر مشتمل دلیلوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مسائل مستحدثہ (یعنی وہ مسائل جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو پیش آتے ہیں ) کی پہچان کے سلسلہ میں بھی کتاب خدا نیز رسول (ص) اور آئمّہ (ع) کی سنت میں اصول اور ضوابط بیان کر دئے گئے ہیں،جن کے بعد ہمیں اس طرح کے ظنّی مسائل کی ضرورت نہیں رہتی ۔یعنی ان قواعد اور ضوبط کی طرف رجوع کرنے سے مسائل مستحدثہ کا حکم معلوم ہو جاتا ہے۔(اس مسئلہ می تفصیل بیان کرنے کی گنجائش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے،کتاب ”المسائل المستحدثة“میں ہم نے یہ بات تفصیل سے بیان کی ہے )۔
۶۴۔اجتھاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ:شریعت کے تمام مسائل میں اجتھاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہو ا ہے۔تمام صاحب نظر فقہاء مذکورہ بالا چار فقہی ماٴخذ سے احکام خداوندی کا استنباط کر سکتے ہیں جو استنباط کی قدرت نہیں رکھتے ،اگر چہ انکی آراء سے بطور کامل مطابقت نہ رکھتی ہوں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ:جو لوگ فقہ میں صاحب نظر نہیں ان کو ہمیشہ ایسے زندہ فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو زمانہ کے تقاضوں اور مسائل سے آگاہ ہوں ۔یعنی انکی تقلید کریں ۔فقہ ست نا بلد لوگوں کا فقہ کے ماہرین کی طرف رجوع کرنا ہمارے نزدیک ایک بدیہی ضرورت ہے۔ان فقہاء کو مرجع تقلید کہتے ہیں ،اسی طرح ہم مرد ہ فقیہ کی تقلید ابتدائی طور پر جائز نہیں سمجھتے۔لوگوں کو زندہ فقیہ کی تقلید کرنی چاہئے تاکہ فقہ ہمیشہ ترقی اور تکامل کی طرف رواں دواں رہے۔
۶۵۔قانون سازی کی ضرورت نہیں ہمارا عقیدہ ہے کہ:اسلام میں قانونی خلا موجود نہیں ہے۔یعنی اسلام نے قیامت تک کے لوگوں کے لئے ضروری احکام بیان کر دئے ہیں ،البتّہ گاہے خاص صورت میں اور کبھی ایک عام اور کلّی حکم کے ضمن میں۔اسی وجہ سے ہمارے نزدیک فقہاء کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ۔بلکی ہم انکی ذمّہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ مندرجہ بالا چال ماٴخذ سے احکام اخذ کریں اور سب کے سامنے رکھیں ۔کیا خود قرآن نے سورئہ مائدہ (جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہونے والی آخری سورت یا آخری سورتوں میں سے ایک ہے)میں یہ نہیں فرمایا (الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا)یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کر دی اور اسلام کو تمہارے دین کے طور پر قبول کر لیا (سورئہ مائدہ ،آیت ۳)اگر اسلام تمام زمانوں اور ادوارکے لئے مکمل فقہی احکام کا حامل نہ ہو تو وہ کامل دین کیسے ہو سکتا ہے؟
کیا ہم پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّمکی یہ حدیث نہیں دیکھتے”یا ایّھا النّاس واللہ ما من شئی یقرّبکم من الجنّةو یباردکم عن النّار الّا وقد امرتکم بہ وما من شئی یقرّبکم من النّار و یباعد کم عن الجنّة الّا و قد نھیتکم عنہ“یعنی اے لوگوں ؛ہر وہ چیز جو تمکو بہشت سے نزدیک کرتی ہے اور دوزخ کی آگ سے دور کرتی ہے میں نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے اور ہر وہ چیز جو تمہیں جہنم کی آگ سے نزدیک کرتی ہے اور جنت سے دور کرتی ہے میں نے تمہیں اس سے روکا ہے۔(اصول کافی ،جلد ۲ صفحہ ۷۲اور بحار الانوار ،جلد ۶۷صفحہ ۹۶)۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ایک مشہور حدیث ہے ”ما ترک علیّ شئیاالّا کتبہ حتّیٰ ارش الخدش“یعنی حضرت علی (ع) نے اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں چھوڑا جسے آپ نے (حضور کے حکم سے اور آپ کے لکھوانے پر)لکھ نہ لیا ہو ۔یہاں تک کہ ایک معمولی سی خراش (کہ جو انسانی بدن پر آتی ہے) کی دیت بھی(جامع الاحادیث ،جلد اول ،صفحہ ۱۸ حدیث ۱۲۷،اسی کتاب میں اس سلسلہ کی اور بھی روایات مذکور ہیں )۔
بنابریں ظن وگمان پر مبنی دلائل اور قیاس و استحسان کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
۶۶۔تقیہ اور اس کا فلسفہ ہمارا عقیدہ ہے کہ:جب بھی انسان متعصب ،ہٹ دھرم اور غیر معقول افراد کے درمیان اس طرح پھنس جائے کہ ان کے درمیان اپنے عقیدہ کا اظہار اس کے لئے جانی یا مالی خطرہ کا باعث ہو اور عقیدہ کے اظہارکا کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں اس کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے عقیدہ کا اظہار نہ کرے اور نہ اپنی جان گنوائے۔اس عمل کا نام” تقیہ “ ہے۔ہم نے یہ بات قرآن مجید کی دو آیتوں اور عقلی دلیل سے اخذ کی ہے۔
قرآن مومن آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔(وقال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ ا تقتلو ن رجلاان یقول ربّی اللہ و قد جآئکم بالبینآت من رّبکم )یعنی آل فرعون میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپاتا تھا (موسیٰ(ع) کا دفاع کرتے ہوئے ) کہا :کیا تم اس مرد کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے؟حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح دلائل لیکر آیا ہے۔(سورئہ مومن ،آیت ۲۸)
ےکتم ایمانہ کا جملہ صریح الفاظ میں تقیہ کا مسئلہ بیان کر رہا ہے ۔کیا یہ درست تھا کہ مومن آل فرعون اپنا ایمان ظاہر کرتے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے جبکی کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا؟
صدر اسلام کے بعض مجاہد اور مبارز مومنین کو جو متعصب مشرکین کے چنگل میں پھنس چکے تھے ،ا ن کو تقیہ کا حکم دیتے ہوئے قرآن یوں فرماتا ہے(لا یتخذ المومنون الکافرین اولیآء من دون المومنین و من یفعل ذٰلک فلیس من اللہ فی شئی الّا ان تتّقوا منھم تقاة)یعنی با ایمان لوگ مومنین کو چھوڑ کر کافروں اور مشرکوں کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کریگا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر یہ کہ (تم خطرہ کے وقت)ان سے تقیہ کرو۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۲۸)
بنابر ایں تقیہ (یعنی عقیدہ کو چھپانا)وہاں جائز ہے جہاں انسان کی جان ، مال اور عزت کو متعصب اور ہٹ دھرم دشمنوں سے خطرہ ہو اور وہاں عقیدہ کے اظہار کا فائدہ بھی کچھ نہ ہو۔ایسے موقعہ پر بلا وجہ انسان کو خطرہ میں ڈالنا اور افردای قوّت کو ضائع کرنا صحیح اور معقول نہیں ہے۔بلکہ اسے محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔اسی لئے حضرت امام جعفر صادق (ع) کی مشہور حدیث ہے۔”التقیة ترس المومن“یعنی تقیہ مومن کی ڈھال ہے(وسائل ،جلد ۱۱ صفحہ ۴۶۱حدیث ۶ باب ۲۴۔بعض احادیث میں ”ترس اللہ فی الارض“یعنی زمین میں خدا کی ڈھال کے الفاظ مذکور ہیں۔)
یعنی ترس(ڈھال ) کا استعمال اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ تقیہ دشمن کے مقابلہ میں دفاع کا ایک ذیعہ ہے۔
مشرکین کے مقابلہ میں عمار یاسر کے تقیہ کرنے اور پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے اس پر ان کی تائےد فرمانے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔(بہت سے مفسرین، مورّخین اور ارباب حدیث نے اپنی مشہور کتاب میں یہ حدیث بیان کی ہے ۔واحدی نے اسباب النزول میں اور طبری ،قرطبی ،زمخشری ،فخر رازی ،بیضاوی اور نیشاپوری نے اپنی تفسیر کی کتابوں میں ،سورئہ نحل کی آیت۱۰۶کے ذیل میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔)
جنگ کے میدانوں میں دشمن سے اسلحہ اور سپاہیوں کو چھپانا اور جنگی رازوں کو مخفی رکھنا وغیرہ سب کے سب انسانی زندگی میں ایک قسم کا تقیہ ہیں۔بہر حال جہاں حقیقت کا اظہار خطرہ کا یا نقصان کا باعث ہو اور اظہار کا کوئی فائدہ بھی نہ ہو وہاں تقیہ کرنا (یعنی چھپانا)ایک عقلی اور شرعی حکم ہے جس پر نہ فقط شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمان ،بلکہ دنیا کے تمام عقلاء ضرورت کے وقت عمل پیرا ہوتے ہیں ۔
اس کے باوجود تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض لوگ تقیہ کو شیعوں اور مکتب اہل بیت کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں اور اسے ان کے خلاف ایک اہم اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔حالانکہ بات بالکل واضح ہے۔تقیہ کا سرچشمہ قرآن ،سنّت ،نبی (ص)کے صحابہ کی سیرت اور دنیا کے تمام عقلاء کا طرز عمل ہے۔
۶۷۔تقیہ کہاں حرام ہے؟ ہمارا عقیدہ ہے کہ:مذکورہ بدگمانیوں کی وجہ ،شیعہ عقائد سے نا آگاہی یا شیعہ دشمن عناصر سے شیعہ عقائداٴخذ کرنے کا عمل ہے۔ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ بالا وضاحت سے بات مکمل طور پر صاف ہو گئی ہو گی۔
البتّہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض جگہوں پر تقیہ حرام ہے۔یہ وہاں ہے جہاں تقیہ کرنے سے دین،اسلام اور قرآن کی بنیاد یا اسلامی نظاموں کو خطرہ لاحق ہو جائے ۔ایسی جگہوں پر عقیدہ کا اظہار ضروری ہے۔اگر چہ انسان اس اظہار عقیدہ کی وجہ سے جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ عاشورہ کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اسی نظرئے پر عمل کیاکیونکہ بنی امیہ کے حکمرانوں نے اسلام کی اساس کو خطرہ میں ڈال دیا تھا۔امام حسین علیہ السلام کے قیام نے ان کے کرتوتوں کا پردہ چاک کردیا اور اسلام کو خطرہ سے بچا لیا۔
۶۸۔ اسلامی عبادات قرآن و سنت نے جن عبادتوں پر زور دیا ہے ہم ان پر عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے پابند ہیں ، مثلا نماز پنجگانہ جوخالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ کی کڑی ہے ۔اسی طرح رمضان المبارک کے روزے جو ایمان کی تقویت ،تزکیہ نفس اور تقویٰ کا بہترین ذریعہ ہے اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کا ہتھیار ہیں۔
ہم صاحب استطاعت افراد پر زندگی میں ایک بار حج خانہ خدا کو واجب سمجھتے ہیں جو تقویٰ اختیار کرنے اور باہمی محبت کے بندھنوں کو مضبوط کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے نیز مسلمانوں کی عزت کا باعث ہے ۔ہم زکات المال ،خمس ،امر بالمعروف ،نہی عن المنکر نیز اسلام اور مسلمانوں پر حمل ور ہونے والوں کے خلاف جھاد کو بھی مسلمات میں شمار کرتے ہیں ۔
ہمارے اور بعض دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان ان مسائل کے بعض جزئیات میں اختلاف ہے ،بالکل اسی طرحجس طرح اہل سنت کے چار فرقے بھی عبادات میں اور دوسرے احکامات میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔
۷
۶۹۔دونمازوں کو ساتھ پڑھنا ہمارے عقیدے
۶۹۔دونمازوں کو ساتھ پڑھنا ہمارا عقیدہ ہے کہ : نمازظھر و عصر یا مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے(اگرچہ انہیں انہیں الگ الگ وقت میں پڑھنا افضل اور بہتر ہے) ہمارا عقیدہ ہے کہ :نبی اکرم (ص)کی طرف سے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ان لوگوں کی حالت کے پیش نظر ہے جو مشکلات سے روبرو ہیں۔
صحیح ترمزی میں ابن عباس سے یوں منقول ہوا ہے کہ”’جمع رسول اللہ (ص)بین الظھر والعصر و بین المغرب والعشاء بالمدینةمن غیر خوف والمطر،قال تقول لابن عباس ما اراد بذٰلک ؟قال اراد ان لا یحرج امتہ“‘یعنی مدینہ میںپیغمبر اسلام (ص) نے ظھر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھیں حالانکہ نہ کوئی خطرہ تھا اور نہ بارش تھی ۔ابن عباس سے دریافت کیا گیا کہ اس کام سے آنحضرت کا کیا مقصد تھا ؟ تو اس نے جواب دیا تاکہ اپنی امت کو مشکل میں نہ ڈالیں(یعنی جس مقام پر دو نوں نماز وں کو ایک ساتھ پڑھنا زحمت کا باعث ہو وہاں اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے)(سنن ترمزی ،جلد ا صفحہ ۳۵۴ باب ۱۳۸ اور سنن بیہقی،جلد ۳ صفحہ ۶۷۔)
خاص کر موجودہ دور میں جب کہ معاشرتی زندگی خاص کر کارخانوں اور مصروف صنعتی مراکز میں بڑی پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے اور پانچ الگ الگ اوقات میں نماز کی پابندی کی شرط کے باعث بعض لوگوں نے نماز کو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے یہ جو اجازت عطا فرمائی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے نماز کو زیادہ پابندی سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
۷۰۔خاک پر سجدہ ہمارا عقیدہ ہے کہ :مٹی یا زمین کے دوسرے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہوں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی نیز دیگر پودوں پر سوائے ان چیزوں کے جو کھائی جاتی ہیں یا پہننے کے کام آتی ہیں۔
لہذٰا قالین وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ہم مٹی پر سجدہ کرنے کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ،اسی لئے آسانی کی وجہ سے بہت سے شیعہ سانچے میں ڈھلے ہوئے پاک مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے پاس رکھتے ہیں جسے سجدہ گاہ کہتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں ۔یہ پاک بھی ہے اور مٹی بھی۔
اس سلسلہ میں ہماری دلیل نبی اکرم (ص) کی یہ مشہور حدیث ہے۔-”جعلت لی الارض مسجدا و طھورا“ہم یہاں لفط مسجد کو ”سجدہ کی جگہ“کے معنی میں لیتے ہیں ۔ یہ حدیث اکثر کتب صحاح اور دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔(بخاری نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم (جلد ا صفحہ ۹۱)میں،نسائی نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم بالصعید میں اسے ذکر کیا ہے۔مسند احمد میں یہ حدیث ابن عباس سے منقول ہے ۔دیکھئے جلد ۱ صفحہ ۳۰۱ ،شیعہ کتب میں بھی پیغمبر اکرم (ص)سے یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد نماز کی جگہ ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے عمل کی نفی کرتی ہے جو صرف ایک مخصوص مقام پر نماز پڑھتے ہیں ۔لیکن اس بات کے پیش نظر کہ یہاں طہور یعنی ”تےمم کی مٹی“کی بات آئی ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں اس مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ ہے۔یعنی زمین کی مٹی طہور بھی ہے اور سجدہ کرنے کی جگہ بھی۔
اس کے علاوہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی روایات منقول ہیں جن میں مٹی اور پتھر وغیرہ کو سجدہ کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔
۷۱۔انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،آئمہ اہل بیت علیہم السلام ،عظیم علماء ،دانشمندوں اور راہ حق کے شہیدوں کے مزارات کی زیارت سنت موکدہ ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں نبی اکرم (ص) کے روضہ مبارک کی زیارت کرنے کے بارے میں بے شمار روایات موجود ہیں ۔شیعہ کتابوں میں بھی یہ بات مذکور ہے۔اگر ان روایتوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو ایک الگ کتاب بن سکتی ہے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے ،اسی طرح زیارت کے سلسلہ میں بزرگوں کے کلمات اور حالات دیکھنے کے لئے الغدیر ،جلد۵ ،صفحہ ۹۳تا ۲۰۷ کی طرف رجوع کریں ۔)
ہر دور میں تمام بڑے علماء اور لوگوں کے طبقوں نے اس کو اہمیت دی ہے۔کتابیں ان لوگوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔جو رسول اکرم (ص)یا دوسرے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے نیز زیارت کے بارے میں بزرگوں کے اقوال اور حالات کے مطالعہ کے لئے سابقہ ماٴخز کی طرف رجوع کریں۔)بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ زیارت اور عبادت کے درمیان فرق کو نہیں بھولنا چاہئے ۔عبادت و پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے جبکہ زیارت کا مقصد بزرگان دین کا احترام ،ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور خدا کے حضور ان سے شفاعت طلب کرنا ہے۔یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق آنحضرت (ص) اہل قبور کی زیارت کے لئے جنت البقیع جاتے اور ان کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرماتے تھے۔(یہ روایات صحیح مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ، مسند احمد ،صحیح ترمذی اور سنن بیہقی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔)
بنابر ایں اسلامی فقہ کے نقطئہ نظر سے اس کام کے جواز میں کسی شخص کو شک نہیں کرنا چاہئے ۔
۷۲۔مراسم عزا داری کا فائدہ ہمارا عقیدہ ہے کہ-:شہدائے اسلام بالخصوص شہیدان کربلا کی عزاداری اور ان کا سوگ منانے کا مقصد ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کا پرچار ہے۔اسی لئے ہم مختلف دنوں بالخصوص عاشور کے ایام (محرم کے پہلے دس دن )میں عزا داری مناتے ہیں جو رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کے لخت جگر ،بہشت کے جوانوں کے سردار (”الحسن والحسین سےدا شباب اہل الجنة“حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔یہ حدیث صحیح ترمذی جلد ۲ صفحہ ۳۰۹،۳۰۷، میں ابو سعید خدری اوٖر حذیفہ سے منقول ہے۔نیز صحیح ابن ماجہ باب فضائل اصحاب رسول اللہ (ص) مستدرک الصحیحین ،حلیةالاولیاء ،تاریخ بغداد ،اصابة ابن حجر ،کنز العمال ،ذخائر اعقبی اور دوسری بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔)امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں۔ہم ان کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ،ان کے اہداف پر بحث کرتے ہیں اور ان کی پاک روحوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔
ےزید ایک فاجر،خود سراور اسلام سے بیگانہ شخص تھا ۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی خلافت پر قابض تھا ۔امام حسین علیہ السلام نے سن ۶۱ ہجری میں اس کے خلاف قیام کیا۔اگر چہ وہ اور ان کے تمام ساتھی عراق میں کربلا نامی سرزمین پر شہید کر دئے گئے اور انکی خواتین قیدی بنا لی گئیں لیکن انکے خون نے اس دور کے تمام مسلمین میں ایک حیرت انگیز جزبہ اور ولولہ پیدا کر دیا۔بنی امیہ کے خلاف ےکے بعد دیگر بغاوتیں ہونے لگیں۔ان بغاوتوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔آخر کار انکا ناپاک وجود ختم ہو گیا ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ واقعہ عاشورہ کے بعد بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جتنی بغاوتیں ہوئیں سب کا عنوان ”الرضا لآل محمد “اور ”ےٰالثارات الحسین “کے نعرے تھے ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نعرے تو بنی عباس کے ابتدائی دورر حکومت میں بھی بلند ہوتے رہے۔(ابو مسلم خراسانی جس نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا،اس نے مسلمانوں کی بعد ہم دردیاں حاصل کرنے کے لئے الرضا لآل محمد کا نعرہ لگایا ۔کامل ا بن اثیر ،جلد ۵ صفحہ ۳۷۲۔توابین کا قیام بھی”یا لثارات الحسین “کے نعرہ سے شروع ہوا۔الکامل ،جلد۴ صفحہ ۱۷۵ ۔مختار ابن ابو عبیدہ ثقفی کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہوا تھا،جلد ۴ صفحہ۲۸۸۔بنی عباس کے خلا ف جن لوگوں نے قیام کیا ان میں سے ایک حسین ابن علی شہیدفتح ہیں۔انہوں نے اپنا مقصد ایک جملے میں اس طرح بیان کیا ۔”و ادعوکم الیٰ الرضا من آل محمد “یعنی مین تمہیں آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ۲۹۹ اور تاریخ طبری ،جلد ۸ صفحہ۱۹۴)
امام حسین علیہ السلام کا خونچکاں قیام آج ہم شیعوں کے لئے ہر قسم کی استبدادیت یا سینہ زوری اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نمونئہ عمل اور لا ئحہ عمل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ”ھیھات منّاالذلّة“(ہم ہر گزذلت قبول نہیں کرتے )اور ”انّ الحیاة عقیدة و جھاد “(زندگی ایمان اور جھاد ہے) کے نعروں نے،جو کربلا کی خونین تحریک کا عطیہ ہےںہماری ہمیشہ مدد کی ہے تاکہ ہم ظالم اور جابر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سےد الشہدا ء امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے ظالم کے شر کو دفع کریں ۔(انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نعرہ ہر طرف دکھائی دیتے ہیں )۔
مختصر یہ کہ شہدائے اسلام خاص کر شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے سے ہمارے اندر عقیدہ اور ایمان کی راہ میں شہادت ،ایثار ،شجاعت اور فداکاری کا جزبہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ یہ ہمیں عذت سے زندہ رہنے اور ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ہے ان واقعات کو زندہ رکھنے اور ہر سال عزاداری کا سلسلہ باقی رکھنے کا فلسفہ ۔
ممکن ہے بعض لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ہم عزاداری کے مراسم میں کیا کرتے ہیں اور وہ اسے ایک ایسا تاریخی واقعہ سمجھے کہ جس پر عرصہ سے فراموشی کی گرد و غبار پڑی ہو۔لیکن ہم خود جانتے ہیں کہ ان واقعات کی یاد زندہ رکھنے سے ہمارے کل ،آج اور آئندہ کی تاریخ پر کیا اثرات مترتب ہوئے ہیں اور ہوں گے۔
غزوہ احد کے بعد سےد الشہداء حضرت حمزہ پر پیغمر اکرم ْ(ص) اور مسلمانو ں کے سوگ منانے کا واقعہ تاریخ کی سب مشہور کتابوں میں درج ہے ۔ رسول اکرم (ص) انصار کے ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے ۔ آپ (ص) نے گریہ اور نوحہ کی آواز سنی۔ آپ کی آنکھیں بھی برسنے لگی اور چہرئہ اقدس سے آنسوں بہنے لگے ۔ آپ (ص) نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے۔سعد بن معاز نے جب یہ بات سنی تو وہ قبیلہ بنی عبد الاشہل کے بعض لوگوں کے پاس گئے اور انکی عورتوں کو حکم دیا :آنحضرت (ص) کے چچا کے گھر جاؤ اور سےد الشہدا ء حمزہ کا سوگ مناؤ(کامل ابن اثیر ،جلد ۲ صفحہ ۱۶۳و سیرہ ابن ہشام ،جلد ۳ صفحہ ۱۰۴)۔
واضح ہے کہ یہ کام حضرت حمزہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ باقی تمام شہداء کے معاملہ میں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ہمیں چاہئے کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے انکی یاد زندہ رکھیں اور اس طریقہ سے مسلمانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑاتے رہیں ۔اتفاقا آج جب کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں عاشورہ کا دن ہے(۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۲ ہجری)۔
آج پورے عالم تشیع میں سچ مچ ایک عظیم ولولہ موجزن ہے۔جوان ،نوجوان اور بوڑھے سب مل کر سیاہ کپڑے پہنے ہوئے امام حسین (ع) اور شہدا ء کربلا کا سوگ منا رہے ہیں ۔ ان سب کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ایسا انقلاب برپا ہے کہ اگر انہیںاسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کہا جائے تو سب اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر جائیں گے اور کسی قسم کی قربانی اور جاں نثاری سے دریغ نہیں کریں گے۔گویا سب کی رگوں میں شہادت کا خون دوڑ رہا ہے اور اس وقت اور اس گھڑی حضرت امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو اسلام کی قربان گاہ کربلا میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
ان پر شکوہ مراسم میں جو ولولہ انگیز اشعار پڑھے جاتے ہیں وہ استعمار اور استکبار کے خلاف دندان شکن نعروں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ ایک عظیم معنوی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلام ،ایمان اور تقویٰ کی بقا کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
۷۳۔ متعہ ہمارا عقیدہ ہے کہ:وقتی شادی ایک شرعی کام ہے جسے اسلامی فقہ میں”متعہ“ کہتے ہیں ۔شادی دو قسم کی ہے ایک دائمی شادی جس میں وقت معین نہیں ہوتا اور دوسری متعہ جس کی مدت طرفین کے توافق سے معین ہوتی ہے۔
یہ شادی دائمی شادی کے ساتھ بہت سے مسائل میں مشابہت رکھتی ہے ۔مثلا حق مہر،عورت کا ہر مانع سے خالی ہونا وغیرہ ،نیز اس شادی سے پیدہ ہونے والے بچے انہی احکام کے حامل ہیں جو دائمی شادی سے پیدہ ہونے والے بچے رکھتے ہیں ۔جدائی کے بعد عدت پوری کرنے کا مسئلہ مشترک ہے۔یہ سب چیزیں ہمارے نزدیک مسلم ہیں ۔دوسرے لفظوں میں متعہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ایک قسم کی شادی ہے۔البتہ دائمی نکاح اور متعہ میں کچھ فرق بھی ہیں اور وہ یہ کہ متعہ میں عورت کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث کے حقدار نہیں ہوں گے۔(لیکن ان کے بچے والدین اور ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوں گے )۔
بہر حال ہم نے یہ حکم قرآن مجید سے لیا ہے ،جو فرماتا ہے کہ(فما استمتعتم بہ منھنّ فاتوھنّ اجورھنّ فریضة) یعنی جن عورتوں سے تم متعہ کرتے ہوں ان کا حق مہر تم کو ادا کرنا ہوگا (سورئہ نساء آیت ۲۴)بہت سے مشہور محدثین اور عظیم مفسرین نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت متعہ کے متعلق ہے ۔
تفسیر طبری میں اس آیت کے ذیل میں متعہ سے متعلق بہت سی احادیث بیان کی گئی ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں ہے اور پیغمبر اکرم (ص) کے بہت سے صحابیوں نے اس پر گواہی دی ہے ۔(تفسیر طبری ،جلد ۵ صفحہ ۹)
تفسیر الدرّالمنثور اور سنن بیہقی میں بھی اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں ۔(الدر المنثور،جلد ۲ صفحہ ۱۴۰ اور سنن بیہقی جلد ۷صفحہ ۲۰۶)
صحیح بخاری ، مسند احمد،صحیح مسلم اور دوسری بہت سی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں ،جو نبی اکرم (ص) کے دور میں متعہ کی موجودگی پر دلیل ہیں ،اگر چہ اسکی مخالف روایات بھی موجود ہیں۔(مسند احمد،جلد ۴صفحہ ۴۲۶،صحیح بخاری ،جلد ۷صفحہ ۱۶ اور صحیح مسلم ،جلد ۲ صفحہ ۱۰۳۳،باب نکاح المتعہ)
بعض سناٴی فقہاء قائل ہیں کہ نبی اکرم (ص) کے دور میں نکاح متعہ رائج تھا ۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا ،جبکہ نعض یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم آنحضرت (ص) کی زندگی کے آخر تک باقی تھا اور جناب عمر نے یہ حکم منسوخ کیا۔ حضرت عمر کا یہ قول ”’متعتان کانتا علیٰ عھد رسول اللہ و انا احرمھما و اعاقب علیھا:متعةالنسآء و متعة الحجّ“‘یعنی پیغمبر اکرم کے دور میں دو متعہ جائز تھے اور میں انہیں حرام قرار دیتا ہوںاور ان پر سزا دوں گا ۔ان میں سے ایک عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعةالحج (حج کی ایک خاص قسم ) ہے۔( یہ حدیث اسی عبار ت یا اس سے ملتی جلتی عبارت کے ساتھ سنن بیہقی،جلد ۷صفحہ ۲۰۶ اور دوسری بہت سی کتابوں میں آئی ہے”الغدیر“کے مصنف نے کتب صحاح اور مسند ست ۲۵ احادیث نقل کی ہیں ،جو یہ بتاتی ہیں کہ اسلامی شریعت میں متعہ حلال ہے اور پیغمبر اکرم (ص)، خلیفہ اول اور حضرت عمر کے دور کے کچھ حصہ میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے۔پھر خلیفہ دوم نے اپنی عمر کے آخری دور میں اس پر پابندی لگا دی ۔ الغدیر جلد ۳ صفحہ ۳۳۲)
اس بات میں شک نہیں ہے کہ بہت سے دوسرے احکام کی طرح اس اسلامی حکم میں بھی اہل سنت کے راویوں کے درمیان اختلاف ہے۔بعض اس بات کے قائل ہیں کہ یہ نبی اکرم (ص) کے دور میں نسخ ہو چکا ہے ۔بعض خلیفہ دوم کے دور میں اس کے نسخ کے قائل ہیں اور بعض مکمل طور پر اسکا انکار کرتے ہیں ۔ فقہی مسائل میں اس طرح کا اختلاف موجود ہے،لیکن شیعہ فقہاء میں اسکے جائز ہونے پر اتفاق رائے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ آنحضرت (ص) کے دور میں نسخ نہیں ہوا اور آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد نسخ نا ممکن ہے۔
بہر حال میرا عقیدہ ہے کہ:اگر متعہ سے غلط استفادہ نہ کیا جائے تو یہ ان جوانوں کے سلسلہ میں بعض معاشرتی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے جو دائمی شادی نہیں کر سکتے۔یا جو تجارتی،اقتصادی ،تعلیمی یا دیگر وجوہات کے باعث کچھ عرصہ کے لئے اپنے گھر والوں سے دور رہتے ہیں ۔متعہ کی مخالفت اس طرح کے افراد میں برائی کا راستہ کھول دے گی۔خاص کر ہمارے دور میں جس میں مختلف اسباب کی وجہ سے دائمی نکاح کی عمر بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف سے جنسی شہوت کو ابھارنے والے اسباب بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ اگر اس راستہ پر پابندی لگا دی جائے تو ےقینی طور پر برائی کا راستہ کھل جائے گا ۔
ہم یہ بات دوبارہ دہراتے ہیں کہ ہم اسلامی حکم سے ہر طرح کے غلط استفادہ کرنے،اسے شہوت پرست افراد کے ہاتھ کا کھلونا قرار دینے اور عورتوں کو بدکاری کی طرف دھکیلنے کے مخالف ہیں۔لیکن کسی قانون سے بعض شہوت پرست افراد کے غلط فائدہ اٹھانے کے بہانے خود اس قانون پر پابندی نہیں لگنی چاہئے بلکہ اس کے غلط استعمال پر پابندی لگنی چاہئے۔
۷۴۔ تاریخ تشیع ہمارا عقیدہ ہے کہ:تشیع کی بنیاد پیغمبر کے دور میں آنحضرت کی احادیث کے باعث پڑی ۔ اس مطلب پر ہمارے پاس برے واضح ثبوت موجود ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کریمہ (انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک ھم خیر البریة) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے وہ (خدا کی ) بہترین مخلوق ہیں ( سورئہ بینة ،آیت ۷) کے ذیل میں پیغمبر اکرم (ص) کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ
ہیں ۔
نشہور مفسر سیوطی نے درالمنثور میں ابن عساکر سے اور اس نے اجبر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ ہم پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ علی (ع) ہماری طرف آئے ۔جب آنحضرت (ص)کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ نے فرمایا۔”والّذینفسی بیده انّ ھٰذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیامة“‘یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے ،بے شک یہ اور اسکے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہیں۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (انّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئک ھم خیر البریة) اس کے بعد جب حضرت علی علیہ السلام جب اصحاب کی محفل میں آتے تھے تو وہ یہ کہتے تھے ”جاء خیر البریّة“‘خدا کی مخلوق کی سب سے بہترین فرد آگئی۔(الدر المنثور ،جلد ۶ صفحہ ۲۷۹)
”ابن عباس “۔”ابو حریرہ “،”ابن مردویہ“اور ”عطیہ عوفی“ سے بھی یہی بات (مختصر سے فرق کے ساتھ)منقول ہے۔(مزید معلومات کے لئے پیام قرآن جلد ۹ صفحہ ۲۷۹ اور ما بعد کی طرف رجوع کریں )۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علی(ع) سے محبت رکھنے والوں کے لئے لفظ ”شیعہ“کا انتخاب نبی اکرم (ص) کے دور میں ہی ہو گیا تھا ۔ یہ نام انہیں پیغمبر اکرم (ص) نے عطا کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ عصر خلفاء یا عصر صفویہ میں انہیں یہ نام ملا ہو۔
اگر چہ ہم دوسرے اسلامی فرقوں کا احترام کرتے ہیں اور انکے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر حج ادا کرتے ہیں اور اسلام کے مشترکہ اہداف کے لئے تعاون کرتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود ہمارا عقیدہ ہے کہ علی (ع) کے ماننے والے بعض خصوصیات کے حامل ہیں اور ان پر نبی اکرم (ص) کی خاص توجہ اور نظر کرم تھی۔اسی لئے ہم نے اس مکتب کی پیروی اختیار کی ہے۔
شیعوں کے بعض مخالفین اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ مذہب شیعہ اور عبد اللہ ابن سبا کے درمیا رابطے کی کڑیاں ملائیں ۔اور وہ ہمیشہ یہ بات کہتے ہیں کہ شیعہ عبداللہ ابن سبا کے پیرو کار ہیں جو حقیقت میں یہودی تھا اور بعد میں اسلام لایا تھا۔یہ بات بہت ہی عجیب ہے کیونکہ شیعوں کی تمام کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے اس شخص سے ذرہ برابر لگاؤ نہیں رکھتے ۔ اس کے بر عکس شیعوں کی تمام رجالی کتابوں میں عبد اللہ ابن سبا کو ایک گمراہ اور منحرف شخص قرار دیا گیا ہے ۔ہماری بعض روایتوں کے مطابق حضرت علی (ع) نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اسکے قتل کا حکم جاری کر دیا تھا (”تنقیح المقال فی علم الرجال “عبد اللہ ابن سبا کے ذکر میں اور علم رجال میں شیعوں کی دیگر مشہور و معروف کتب کی طرف رجوع کریں )۔
علاوہ از یں تاریخی حوالے سے عبد اللہ ابن سبا کا وجود ہی مشکوک ہے ۔بعض محققین کا خیال ہے کہ عبد اللہ ابن سبا ایک فرضی اور افسانوی شخصیت ہے اور اس نام کا شخص حقیقت میں موجود نہیں تھا۔چہ رسد باین کہ وہ مذہب شیعہ کا بانی ہو۔(کتاب عبد اللہ ابن سبا ، مصنفہ علامہ مرتضیٰ عسکری)بالفرض اگر ہم اس کو ایک فرضی انسان نہ بھی سمجھیں تب بھی ہماری نظر میں وہ ایک گمراہ اور منحرف شخص تھا ۔
۷۵۔شیعیت کے مراکز یہ نکتہ اہمیت کا قابل ہے کہ شیعوں کا مرکز ہمیشہ ایران نہیں رہا بلکہ اسلام کی ابتدائی صدیوںمیں ہی اس کے متعدد مراکز تھے جن میں کوفہ،ےمن اور خود مدینہ بھی شامل ہیں۔شام میں بنی امیہ کے زہریلے پرپگینڈہ کے باوجودبھی شیعوں کے بہت سے مراکز موجود تھے،اگرچہ ان کی وسرت عراق میں موجود شیعہ مراکز کے برابر نہ تھی۔
مصر کی وسیع سر زمین میں بھی ہمیشہ شیعوں کی مختلف جماعتیں آتی رہی ہیں ۔یہاں تک کہ فاطمی خلفاء کے دور میں تو مصر کی حکومت بھی شیعوں کے ہاتھ میں تھی۔(بنی عباس کے دور میں شام کے شیعہ ہول ناک دباؤ کا شکار تھے ۔بنی عباس کے دور میں انہیں آرام نصیب نہیں ہوا۔یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگ بنی امیہ اور بنی عباس کے زندانوں میں چل بسے۔کچھ لوگ مشرق کی طرف چلے گئے اور بعض مغرب کی طرف۔ادریس بن عبداللہ بن حسن مصر چلے گئے اور وہاں سے مراکش چلے گئے ۔مراکش کے شیعوں کی مدد سے انہوں نے ادریسی سلسلہ حکومت کی بنیاد رکھی جو دوسری صدی کے آخر سے لیکر چوتھی
صدی کے آخر تک قائم رہی اور مصر میں شیعوں کی ایک اور حکومت بنی ۔یہ لوگ اپنے کو امام حسین علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد کہتے تھے ۔مصر کے لوگوں میں ایک شیعی حکومت کی تشکیل کے لئے آمادگی پاکر انہوں نے یہ کام کیا ۔چوتھی صدی ہجری ست باقاعدہ طور پر خلفاء کی کل تعداد چودہ ہے۔ان میں سے دس خلفاء کا مرکزحکومت مصر تھا۔تقریبا تین صدیوں تک انہوں نے مصر اور افریقہ کے دوسرے علاقوں میں حکومت کی ۔مسجد جامع الازہر اور الازہر یونیورسٹی انہوں نے بنائی ۔فاطمیوں کا نام فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ماٴخوز ہے ۔دیکھئے دائرةالمعارف دہخدا ،دائرة المعارف فرید وجدی ،المنجد فی الاعلام ،لفظ ”فطم“و”زہر“۔
اب بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں شیعہ مسلمان موجود ہیں ۔مثلا سعودی عرب کے مشرقی علاقہ میں شیعوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور دیگر اسلامی فرقوں سے ان کے اچھے تعلقات ہے۔اگر چہ اسلام کے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ شیعہ مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان دشمنی ،عداوت،بدنیّتی اور غلط فہمیوں کے بیج بوئیں ، ان کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کی آگ بھڑکائیں اور دونوں کو کمزور کرتے چلے جائیں ۔
بالخصوص آج جب کہ اسلام ، مادیت کے علم بردار مشرقو مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں عالم گیر طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ا ور دنیا کے لوگوں کو جومادی تہذیبوں سے مایوس ہو گئے ہیں اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔اسلام کے دشمنوں کی امیدوں کا سب سے بڑا سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے اور دنیا میں اسلام کی بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لئے مذہبی اختلاف پھیلائیں اور مسلمانوں کو آپس میں الجھا دیں ۔بے شک اگر تمام اسلامی فرقوں کو ماننے والے بیدارا ور آگاہ رہیں تو اس خطرناک سازش کا سامنہ کر سکتے ہیں ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کی طرح شیعوں کے بھی مختلف فرقے ہیں ۔لیکن سب سے مشہور اور معروف شیعہ اثناء عشری ہیں جن کی تعداد دنیا کے شیعوں میں سب سے زیادہ ہے۔۔اگر چہ شیعوں کی صحیح تعداد اور دنیا کے مسلمانوں میں انکا تناسب واضح نہیں ہے لیکن کچھ اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ، جو دنیا کی مسلم آبادی کا تقریبا چوتھا حصہ ہے۔
۷۶۔ میراث اہل بیت اس مکتب فکر کے ماننے والوں نے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی بہت سی احادیث نقل کی ہیں نیز حضرت علی (ع) اور دوسرے اماموں سے بھی بہت زیادہ روایات نقل کی ہیںجو آج شیعی تعلیمات اور فقہ کے بنیادی ماٴخذ میں سے ایک ماٴخذ ہے۔ ان احادیث پر مشتمل کتابوں میں سے چار کتابیں مشہور ہیں -:
۱۔ اصول کافی
۲۔من لا ےحضرہ الفقیہ
۳۔تھذیب الاحکام
۴۔الاستبصار
لیکن اس بات کو دہرانا ضروری ہے کہ ان مشہور ماٴخذ یا دوسرے معتبرماٴخذ میں کسی حدیث کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث اپنی جگہ معتبر ہے ۔ بلکہ ہر حدیث کا ایک سلسلہ سند ہے۔سند میں مذکور ہر راوی کا جائزہ کتب رجال کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔اگر سند کے تمام اشخاص قابل اعتماد ثابت ہوں تو اس وقت وہ حدیث ایک معتبر حدیث کی حیثیت سے پہچانی جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ حدیث مشکوک یا ضعیف کہلائے گی ۔یہ کام صرف علمائے حدیث اور رجال کے بس کی بات ہے۔
اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ کتب شیعہ میں احادیث کی جمع آوری کا طریقئہ کار اہل سنت کے معروف ماٴخذ سے مختلف ہے۔کیونکہ مشہور کتب صحاح خاص کر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ان کے مولفین کی روش یہ رہی ہے کہ وہ ایسی احادیث جمع کریں جو ان کے نزدیک معتبر اور صحیح ہوں اسی
وجہ سے اہل سنت کے عقائد تک رسائی کے لئے ان میں مذکور احادیث پر استناد کیا جا سکتا ہے(مقدمہ صحیح مسلم اور فتح الباری فی شرح صحیح البخاری کی طرف رجوع کریں ۔)جبکہ شیعہ محدثین کا موقف یہ رہا ہے کہ اہل بیت سے منسوب تمام احادیث اکٹھی کر دی جائیں پھر صحیح اور غیر صحیح احادیث کی پہچان کا کام علم رجال کے سپرد کر دیا جائے، غور کیجئے۔
۷۷۔دو عظیم کتابیں شیعوں کے اہم ماٴخذ (جو انکے عظیم ورثے کا ایک حصہ محسوب ہوتے ہیں)میں سے ایک نھج البلاغہ ہے جس میں تقریبا ایک ہزار سال پہلے شریف رضی مرحوم نے تین حصوں حضرت علی (ع) کے خطبات،خطوط اور مختصر فرمودات جمع کئے ہیں ۔اس کتاب کے مضامین اس قدر بلند اور الفاظ اتنے خوب صورت ہیں کہ کسی بھی مکتب فکرکا پیروکار جب اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے مفاہیم سے متاٴثر ہو جاتا ہے۔ اے کاش نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اس سے آشنا ہوتے تاکہ وہ توحید ، مبداٴ اور معاد کے علاوہ اخلاقی و سیاسی و معاشرتی مسائل کے بارے میں اسلام کی عظیم تعلیمات سے آگاہ ہوتے۔
ان عظیم ورثوں میں سے ایک عظیم ورثہ ”صحیفہ سجادیہ“ہے جو بہترین ،فصیح ترین اور زیباترین دعاؤں کا ایسا مجموعہ ہے جو بڑے عمیق اور بلند معانی پر مشتمل ہے ۔حقیقت میں یہ کتاب نھج البلاغہ والا کردار دوسرے انداز میں انجام دے رہی ہے۔ اس کے ایک ایک فقرے میں انسان کے لئے ایک نیا سبق پوشیدہ ہے ۔حقیقت میں یہ کتاب ”خدا کے حضور ہر انسان کو دعا اور مناجات کرنے کاسلیقہ سکھاتی ہے اور انسان کی روح اور دل کو نورانیت اور پاکیزگی عطا کرتی ہے۔
جیسا کہ اس کتاب کے نام سے واضح ہے یہ کتاب شیعوں کے چوتھے امام حضرت علی ابن الحسین علیہما السلام ،جن کا لقب سجاد ہے کی دعاؤں پر مشتمل ہے ۔ جب بھی ہم اپنے اندر دعا کی روح ،کدا کی طرف زیادہ توجہ اور اس کی ذات پاک سے زیادہ عشق پیدا کرنا چاہتے ہیں تویہ دعائیں پڑھتے ہیں اور اس نوخیز پودھے کی طرح جو بہار کے بابرکت بادلوں سے سےراب ہوتا ہے اس کتاب سے سےراب ہوتے ہیں۔
شیعہ احادیث جن کی تعداد دسیوں ہزار سے زیادہ ہے کا بیشتر حصہ پانچویں اور چھٹے امام یعنی امام محمد ابن علی الباقر(ع)اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق (ع) سے مروی ہے۔بہت سی احادیث آٹھویں امام حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے بھی مروی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تین عظیم ہستیوں کو زمان و مکان کے اعتبار سے ایسا ماحول ملا جس میں ان پر دشمنوں اور اموی اور عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم تھا ۔اسی وجہ سے یہ ہستیاں رسول اکرم (ص) کی بہت ساری احادیث جو ان تک اپنے آباء و اجداد کے ذریعہ پہنچی تھی بیان کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔یہ احادیث اسلامی فقہ کے تمام ابواب سے متعلق تھیں۔مذہب شیعہ کو مزہب جعفری کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اکثر روایات چھٹے امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہیں ۔ امام صادق (ع) کے دور میں بنی امیہ کی حکومت کمزور ہو چکی تھی اور بنی عباس کو ہنوز لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی طاقت نصیب نہیں ہوئی تھی ۔
ہماری کتابوں کی رو سے مشہور ہے کہ اس امام نے حدیث ، معارف اور فقہ کے میدانوں میں چار ہزار شاگردوں کوو تربیت دی۔حنفی مذہب کے مشہور امام ابو حنیفہ نے ایک مختصر سے جملہ میں امام صادق علیہ السلام کا تعارف اس طرح پیش کیاہے”ما راٴیت افقہ من جعفر ابن محمد “یعنی میں نے جعفر ابن محمد (ع) سے برا فقیہ نہیں دیکھا۔(تذکرة الحفاظ ذہبی ،جلد ۱ صفحہ۱۶۶)
اہل سنت کے ایک اور امام مالک بن انس نے کہا :میں کچھ عرصہ تک جعفر(ع) ابن محمد (ع) کے پاس آتا جاتا رہا۔میں نے انہیں ہمیشہ ان تین حالتوں میں سے ایک میں پایا:یا نماز کی حالت میں یا روزہ کی حالت میںیا قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے۔
میرے عقیدہ کے مطابق علم و عبادت کے حوالے سے کسی نے جعفر ابن محمد (ع) الصادق (ع)سے بڑھکر کسی شخص کو نہ دیکھا اور نہ کسی کے بارے میں سنا ہے ۔( تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۱۰۴،کتاب الامام الصادق (ع)جلد ۱ صفحہ ۵۳ میں اسد حیدر کے بقول)۔چونکہ اس کتاب میں نہایت اختصار کے ساتھ مطالب کو بیان کرنا مقصود ہے لہٰذا آئمّہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں دوسرے علمائے اسلام کے تبصروں کا تذکرہ نہیں کرتے۔
۷۸۔ اسلامی علوم میں شیعوں کا کردار ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی علوم کو وجود بخشنے میں شیعوں کا اہم کردار رہا ہے ۔بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ شیعہ ،علوم اسلامی کا سر چشمہ ہیں۔یہاں تک کہ اس سلسلہ میں کتاب یا کتابیں لکھی گئی ہیں اور ثبوت پیش کئے گئے ہیں ۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ کم ا زکم ان علوم کو وجود میں لانے میں ان کا بہت بڑا حصّہ ہے۔اس بات کی سب سے بڑی دلیل وہ کتابیں ہیں جو شیعہ علماء نے مختلف اسلامی علوم اور فنون کے بارے میں لکھی ہیں ۔ فقہ اور اصول فقہ میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں کچھ بہت زیادہ مفصل اور بے نظیر ہیں۔تفسیر اور قرآنی علوم میں ہزاروں کتابیں ،عقائد اور علم کلام میں ہزاروں کتابیں اب بھی ہماری لائبریریوں اور دنیا کی مشہور لائبریریوں میں موجود ہیں اور سب لوگوں کے سامنے ہیں ،ہر شخص ان لائبریریوں کی طرف رجوع کر کے اس دعویٰ کی صداقت کا مشاہدہ کر سکتا ہے ۔
ایک مشہور عالم دین نے ان کتابوں کی فہرست مرتب کی ہے اور ۲۶ بڑی جلدوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔(اس کتاب کا نام الذریعہ الیٰ تصانیف الشیعہ ہے اور اس کے مصنف مشہور مفسر اورمحدث شیخ آغا بزرگ تہرانی ہیں۔ اس عظیم فہرست میں جن کتابوں کا تذکرہ ان کے مصنف کے نام پتہ اور ان کے حالات کے ساتھ ہو اہے ۔ ان کی تعداد۶۸ ہزار جلدیں ہیں ۔یہ کتاب ایک عرصہ پہلے چھپ کر منطر عام پر آچکی ہے۔)
یہ فہرست دسیوں سال پہلے مرتب ہوئی۔گذشتہ چند دہوں کے دوران ایک طرف سے گذشتہ شیعہ علماء کے علمی آثار کو زندہ کرنے نیز ان کی قلمی اور چاپ شدہ کتابوں کو جمع کرنے کی بڑی کوششیں ہوئی ہیں ۔دوسری طرف سے جدید کتابوںکی تصنیف و تالیف کے مےدان میں ےقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سینکڑوں یا ہزاروں نئی کتابیں رشتئہ تحریر میں لائی جا چکی ہیں۔اگرچہ ان کتابوں کے اعداد و شمار کے بارے میں ہم نے کوئی فہرست مرتب نہیں کی ہے۔
۷۹۔سچائی ،صداقت اور امانت،اسلام کے اہم ارکان ہمارا عقیدہ ہے کہ سچائی ،صداقت اور امانت اسلام کے اہم اوربنیادی ارکان میں سے ہیں۔قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے کہ :(قال اللہ ھٰذایوم ینفع الصادقین صدقھم)یعنی خدا وند عالم فرماتا ہے کہ آج وہ دن ہے کہ جس دن سچوں کی سچائی انہیں فائدہ پہنچائے گی۔(سورئہ مائدہ ،آیت ۱۱۹)
بلکہ قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حقیقی جزا وہ ہے جو انسان کو سچائی اور صداقت (ایمان،خدا کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر عمل اور زندگی کے تمام شعبوں میں سچائی اور صداقت) کے بدلے میں عطا کی جائے گی۔(لےجذی اللہ الصادقین بصدقھم)(سورئہ احزاب،آیت ۲۴)
جیسا کی پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے قرآنی حکم کے مطابق ہم سب مسلمانوں کی یہ ذمّہ داری ہے کہ ہم زندگی بھر معصومین اور سچوں کے ساتھ رہیں اور ان کے ہمراہ چلیں ۔(یاایھاالّذین آمنوااتقوا اللہ و کونوامع الصادقین)(سورئہ توبہ،آیت ۱۱۹)
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہی خدا نے اپنے پیغمبر (ص)کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ خدا سے ہر کام کو صداقت کے ساتھ شروع کرنے اور صداقت کے ساتھ اس سے فارغ ہونے کی توفیق طلب کرے۔(و قل ربّ ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق)(سورئہ بنی اسرائیل،آیت ۸۰)
اسی بناء پر ہم احادیث میں دیکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہو ا مگر یہ کہ اس کے بنیادی لائحہ عمل میں صداقت ،سچائی اور امانت شامل تھیں”انّ اللہ عزّ وجلّ لم یبعث نبیا الّا بصدق الحدیث و ادآء الامانةالیٰ البرّ والفاجر“(بحار الانوار میں یہ حدیث حضرت امام جعفر صادق (ع) ہے،دیکھئے جلد ۷۸ صفحہ ۲ اور نیز جلد ۲ صفحہ ۱۰۴)
ہم نے بھی ان آیات اور روایات کی روشنی میں اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کی ہے کہ اس کتاب کے مباحث میں صرف اور صرف صداقت و سچائی کا راستہ اپنائیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جو حقیقت اور امانت داری کی منافی ہو۔امید ہے کہ خدا کے لطیف و کرم سے ہم اس ذمّہ داری سے عہدہ برآہونے میں خدا کی توفیق حاصل کر چکے ہوں گے ۔انّہ ولیّ التّوفیق ۔
۸۰۔حرف آخر اس کتاب میں ذکر شدہ باتیں اسلام کے اصول و فروع کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام کے معتقدین اور شیعوں کے عقائد کا خلاصہ ہے۔یہ کسی کمی بیشی
اور تحریف کے بغیر بیان ہوئی ہیں ۔قرآنی آیات ،اسلامی روایات اور علمائے اسلام کی مختلف کتابوں سے انکا ثبوت بھی اجمالی طور پر فراہم کر دیا گیا ہے ۔اگر چہ ابحاث کے اختصار اور تلخیص کے پیش نظر تمام شواہد اور دلائل کو پیش کرنا ممکن نہ تھا اس کتاب میں ہمارا مقصد بھی اجمالی طور پر اور اختصار کے ساتھ مطالب کو بیان کرنا تھا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب مندرجہ ذیل نتائج کی حامل ہے۔۔
۱مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شیعہ عقائد کو واضح اور موثر انداز میں بیان کرتی ہے۔تمام اسلامی فرقے یہاں تک کہ غیر مسلم بھی اس مختصر سے کتابچہ کا مطالعہ کرکے شیعہ مذہب کے ماننے والوں کے عقائد سے براہ راست اجمالی طور پر آگاہ ہو سکتے ہیں ۔اس کتاب کی تدوین میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی ہے۔
۲ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے اتمام حجت کا باعث ہو سکتی ہے جو سمجھے اور جانے بغیر ہمارے عقائد کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں نیز مشکوک اور مفاد پرست افراد یا غیر معتبر کتابوں سے ہمارے عقائد لیتے ہیں ۔
۳ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بالا عقائد کے مطالعہ کی روشنی میںاس مکتب فکر کے ماننے والوں اور باقی اسلامی فرقوں میں اتنا بڑا اختلاف نہیں ہے جو اس فرقے اور باقی اسلامی فرقوں کے درمیان مشترکہ تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنے،کیونکہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان مشترکہ نکات بہت زیادہ ہیں اور سب کو مشترکہ دشمنوں کا بھی سامنا ہے۔
۴ہمیں ےقین ہے کہ اسلامی فرقوں کے اختلاف کو ہوا دینے اور ان کے درمیان جنگ اور خونریزی کی آگ بھڑکانے کے لئے خفیہ ہاتھ کام کر رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اسلام (جو اس دور میں دنیا کے عظیم خطوں پر چھاتا جا رہا ہے اور کمیونزم کی بربادی سے پیدا ہونے والی خلاء کو پر کرنے والا ہے نیز سرمایہ دارانہ نظام کی روز بروز بڑھتی ہوئی لا ینحل مادی مشکلات کو حل کرنے والا ہے) کو کمزور کریں۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دشمنوں کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اس کام میں کامیاب ہوں اور یہ قیمتی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے جو دنیا میں اسلام کی شناخت کے لئے ہمارا ہاتھ آیا ہے۔
۵ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسلامی فرقوں کے علماء اکھٹے ہو جائیں اور محبت و خلوص سے معمور ماحول میں ہر قسم کے تعصب اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر اختلافی مسائل پر بحث و گفتگو کریں تو ان اختلافات کے کم ہو جانے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے اختلافات ختم ہو جائیں گے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اختلافات میں کمی آئے گی ۔جس طرح کچھ عرصہ پہلے ایران کے بعض شیعہ اور سنی علماء زاہدان نامی شہر میں بیٹھے اوربعض اختلافات کا کاتمہ کر دیا اس کی تفصیل اس مختصر سی کتاب کے دامن میں نہیں سما سکتی۔(اس کی تفصیلات ”پیام حوزہ “نامی رسالے میں ملاحظہ ہوں )
آخر میں ہم خدا وند متعال کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں (ربّنا اغفر لنا ولاخواننا الّذین سبقوونابالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلّاللّذین امنوا ربّنا ا نّک رؤف رّحیم)یعنی خدایا ہمیں معاف معاف کر دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں پر ایمان والوں کے لئے کسی قسم کا کینہ قرار نہ دینا ۔اے ہمارے پروردگار تو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔(سورئہ حشر ،آیت ۱۰)
Comments powered by CComment