اقتباس از عقاب الاعمال شيخ صدوق عليہ الرحمہ
اھل بیت سے بغض رکھنے کی سزا حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ہمارے اہل بیت (علیھم السلام) کے ساتھ بغض رکھے گا تو الله تعالیٰ اسے یہودی اٹھائے گا پوچھا گیا یارسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اگرچہ وہ شھادتین ہی کیوں نہ پڑھتا ہو !!؟؟ فرمایا جی ہاں اس نے اپنی جان بچانے یا ذلیل و خوار ہو کر جزیہ کی ادائیگی سے بچنے کیلئے شھادتین کا اقرار کیا ہے مزید فرمایا ہمارے اہلبیت سے بغض رکھنے والے کو الله یہودی اٹھائے گا پوچھا گیا یا رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یہ کس طرح ہو گا ؟ فرما یا اگر یہ لوگ دجال کا زمانہ پائیں تو اس کے مذہب کو اختیار کرکے اس پر ایمان لے آئیں گے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے اس روایت کو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ہم اہل بیت سے بغض رکھنے والے کو الله تعالیٰ قیامت والے دن ہاتھوں کے بغیر اٹھائے گا۔
فرمان الہی سے ہٹ کر عبادت کرنے والوں کی سزا (۱) حضرت اما م جعفر صادق (علیہ السلام)ارشاد فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے ایک شخص نے اس قدر الله کی عبادت کی کہ سوکھ کر لکڑی کی مانند ہو گیا خدا نے اس زمانے کے نبی کی طرف وحی کی اور کہا کہ اس سے کہو کہ خدا نے فرمایا ہے مجھے اپنی عزت ، جلالت اور عظمت کی قسم اگر تم میری اتنی عبادت کرو کہ دیگ میں پڑی ہوئی چیز کی طرح گل سٹر کر پانی ہو جاؤ تو تب بھی میں اسے قبول نہ کروں گا مگر یہ کہ میرے فرمان کے مطابق عبادت کی جائے۔
امر الہی کو سبک سمجھنے کی سزا
(۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں ، غفلت سے بچو غفلت کرنے والا خود سے غافل ہوتا ہے۔ اور امر الہی کو سبک سمجھنا چھوڑ دو کیونکہ امر الہی کو سبک سمجھنے والے کو الله تعالیٰ قیامت والے دن ذلیل و خوا ر کرے گا۔
اہل بیت (علیھم السلام) کے حق سے جاہل ہونے کی سزا (۱) راوی کہتا ہے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھے فرمایا اے معلی اگر کوئی بندہٴ خدا رکن و مقام کے درمیان سو سال تک الله کی عبادت کرتا رہے ۔دن میں روزے رکھے اور راتیں قیام و سجود میں گزار دے یہاں تک کہ اس کے آبرو آنکھوں تک لٹک آئیں ، کمر جھک جائے ، اور وہ ہمارے حق سے جاہل ہو تو اس کے لئے کسی قسم کا ثواب و جزاء نہیں ہے۔
(۲) راوی کہتا ہے کہ حضرت ا مام زین العابدین (علیہ السلام)نے مجھ سے دریافت کیا کہ کونسی سی زمین افضل ہے میں نے عرض کی کہ خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور فرزند رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں حضرت نے فرمایا افضل جگہ رکن و مقام کا درمیانی علاقہ ہے فرمایا اگر کوئی شخص حضرت نوح کی طرح نو سو پچاس سالہ زندگی پائے اور ساری زندگی دن میں روزے رکھے اور رات میں اس افضل زمین پر نمازیں پڑھتا رہے اور اگر ہماری ولایت کے بغیر بارگاہ خداوند میں حاضری دے گا تو اسے کوئی عمل بھی فائدہ نہ دے گا۔
(۳) راوی کہتا ہے کہ میں حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھا آپ کے سامنے چادر پر تقریباً پچاس آدمی بیٹھے ہوئے تھے ایک طویل خاموشی کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ شاید تم یہ خیال کر رہے ہو کہ میں الله کا نبی ہوں خدا کی قسم میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میری حضرت رسو ل خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے قرابت داری ہے اور میں انہی کی نسل سے ہوں جو شخص ہمارے ساتھ اچھائی کرے گا خدا اسکے ساتھ بھلائی کرے گا جو ہم سے محبت رکھے گا۔ خدا اس سے محبت رکھے گا اور جو ہمیں محروم رکھے گا تو خدا اسے محروم رکھے گا کیا جانتے ہو کہ کو نسا زمین کا حصّہ الله کے نزدیک مقام و منزلت کے لحاظ سے افضل ہے ؟
راوی کہتا ہے کہ ہم سب خاموش رہے حضرت نے جواب دیتے ہوئے فرمایا یہی مکہ مکرمہ ہی تو ہے جسے الله نے اپنے لئے بہترین نقطہٴ زمین قرار دیا ہے یہاں اپنا حرم بنایا اور اسے اپنا گھر قرار دیا پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ مکہ کا کونسا حصہ محترم ہے؟ سب خاموش رہے تو آپ نے خود ہی جواب میں فرمایا مسجد الحرام، اسکا محترم ترین مقام ہے۔ پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ مسجد الحرام میں کونسی جگہ الله کے نزدیک زیادہ عظمت و حرمت کی حامل ہے ؟ سب خاموش رہے اور آپ نے خود ہی جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ جگہ رکن اسود ، مقام (ابراہیم) اور باب کعبہ کے درمیان ہے یہی جگہ حضرت اسماعیل کا حطیم تھی اسی جگہ اپنی قربانی کو عذا دی تھی اور نماز ادا کی تھی۔ خدا کی قسم اگر کوئی شخص اس جگہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر عبادت میں مشغول رہے ساری ساری رات نمازیں پڑھتا رہے اور جب دن ہو تو اسے روزے میں گزار دے یہاں تک کہ رات ہو جائے اور وہ ہمارا حق شناس نہ ہو اور ہم اہل بیت کی عظمت سے نا آشنا ہو تو کبھی بھی الله اسکے کسی عمل کو شرف قبولیت نہ بخشے گا۔
امام کی معرفت کے بغیر مرنے کی سزا (۱) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس فرمان کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ جو شخص امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جہالت کی موت مرا ہے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ہاتھ کیساتھ سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا اسوقت تجھے اس (معرفت امام (علیہ السلام)) کی بہت زیادہ ضرورت ہو گی نیز فرمایا اس حوالے سے تیری سوچ عمدہ ہے۔
(۲) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں جن ائمہ کی اطاعت واجب ہے وہ ہم ہیں جو ان کا انکار کرے گا وہ یہودی اور نصرانی مرے گا۔ خدا کی قسم جب سے الله نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی روح قبض فرمائی ہے زمین کو ہدایت کرنے والے امام (علیہ السلام) کے بغیر نہیں چھوڑا ۔یہ بندوں پر الله کی حجّت ہیں جنھوں نے ان کا دامن چھوڑا وہ ہلاک ہوئے اور جنھوں نے ان کی فرمانبرداری کی ، ان کی نجات کی ذمہ داری الله پر ہے۔
اس شخص کی سزا جس نے خدا کی طرف سے منسوب نہ ہونے والے ظالم پیشوا کی اطاعت کی
(۱) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا کہ
الله تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ملت اسلام کا جو فرد اس ظالم پیشوا کی اطاعت کرے جو خدا کا بنایا ہوا نہیں ہے تو میں (خدا) اس پر حتماً عذاب نازل کروں گا خواہ اس ملت کے نیک اعمال ہوں اور وہ متقی ہوں اور ملت اسلام کا جو فرد اس امام کی اطاعت کرے جو ہادیِ خدا ہے تو میں خدا حتماً اسکو معاف کر دوں گا خواہ اسکے اعمال ظلم و گناہ پر مشتمل ہی کیوں نہ ہوں۔
اعلم اور افقہ کے ہوتے ہوئے قوم کی ذمہ داری سنبھالنے کی سزا (۱) حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ
جو شخص اعلم اور افقہ حضرات کی موجودگی کے باوجود قوم کی ذمہ داری اپنے کندھے پر ڈال لے تو قیامت والے دن اسکا معاملہ (جہنم کے) نیچے درجے میں ہوگا۔
نماز اور ذکر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے وقت درود نہ بھیجنے کی سزا
(۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درود نہ بھیجے تو اسکی نماز جنت کے علاوہ کسی اور راہ پر ہوگی نیز حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا جب کسی کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ جہنم میں جائے گا اور رحمت خداوندی سے دور ہو گا نیز فرمایا جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود بھیجنا بھول جائے تو وہ جنت کی راہ گم کر بیٹھا ہے۔
امیر المؤمنین (علیہ السلام) کیساتھ دشمنی رکھنے اور انکی ولایت کا انکار یا شک کرنے کی سزا (۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں مسلسل شراب پینے والا بت پرست کی مانند ہے اور آل محمد کا دشمن تو اس سے بھی بدتر ہے راوی کہتا ہے کہ میں آپ پر قربان جاؤں یہ بت پرستوں سے بدتر کیوں ہے ؟ فرمایا شاید شرابی کی کسی دن شفاعت ہو جائے لیکن اگر تمام اہل زمین و آسمان بھی اہل بیت کے دشمن کی شفاعت کرنا چا ہیں تو قابل قبول نہ ہوگی؟۔
(۲) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اپنے آباؤ اجداد (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسو ل خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا جب تک (حضرت علی (علیہ السلام)) کی محبت کا دم بھرنے والے اس دنیا میں ہیں، جنت انکی مشتاق ہے اور محبانِ علی (علیہ السلام) کیلئے نور بڑھانے کی منتظر ہے۔ اس طرح جب تک (دشمنان علی (علیہ السلام) اس دنیا میں ہیں جہنم اپنی تیز اور خوفناک آوازوں کیساتھ شدّت سے ان کی منتظر ہے۔
(۳)حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ دشمن اہلبیت (علیھم السلام) جتنی عبادت و کوشش کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے کہ وہ اپنے عمل میں جتنی چاہے مشقت کرے وہ جائے گا بھڑکتی ہوئی آگ ہی میں ۔
(۴) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
ہم اہلبیت (علیھم السلام)کیساتھ دشمنی رکھنے والا ناصبی نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں کوئی ایسا (بدبخت) انسان موجود نہیں ہے جو کہے کہ میں محمد وآل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیساتھ بغض و عدوات رکھتا ہوں بلکہ ناصبی وہ ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہو کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ تم ہمارے دوست اور پیرو کار ہو۔
(۵)حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں اگر الله تعالیٰ کے خلق کیئے ہوئے تمام فرشتے ، تمام برگزیدہ انبیاء تمام صدیق اور شہداء ہم اہلبیت (علیھم السلام) کے دشمن کی شفاعت کرنا چاہیں کہ الله اسے جہنم سے نکال دے تب بھی الله اسے کبھی جہنم سے نہ نکالے گا بلکہ الله تبارک و تعالیٰ نے تو قرآن میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے (جہنم) میں رہیں گے۔
(۶) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جو شخص ہمارے ساتھ ہونے والی بدسلوکی ، ہم پر ہونے والے ظلم اور ہمارا حق چھننے سے آگاہ نہیں ہے اور اسے غلط کام شمار نہیں کرتا تو وہ ہم پر ظلم وستم کرنے والوں کا ساتھی ہے۔
(۷) حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ ﴿مرجئہ﴾ اور انکے پیشوا کو اندھا محشور کرے گا اور انہیں کافر دیکھ کر کہیں گے ساری امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اندھی محشور ہوئی ہے تو ان سے کہا جائے گا یہ امت محمدیہ کے پیرو کار نہیں ہیں انہوں نے تبدّل و تغییر کیا ہے لہذا یہ خود بھی تبدیل و متغیر ہوگئے ہیں۔
(۸) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا کہ جس طرح الله تعالیٰ ہر نماز کے وقت اپنے نمازی معتقد اور مؤمن بندے پر رحمت نازل کرتا ہے اسی طرح بعض پر لعنت بھی کرتا ہے میں نے پوچھا آپ پر قربان جاؤں ان پر لعنت کیوں ہوتی ہے؟ فرمایا ہمارے حق کا انکار کرنے اور ہماری تکذیب کرنے کی وجہ سے ان پر لعنت ہوتی ہے۔
(۹) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ قیامت والے دن ابلیس لعین اور اس امت کے گمراہ لوگوں کو نکیل ڈال کر لایا جائے گا جن کا حجم احد پہاڑ جتنا ہوگا انہیں اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جائے گا اس سے جہنم کا ایک دروازہ بند ہوجائے گا۔
(۱۰) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ کیا تجھ تک ختم کر دینے کا قصہ پہنچا ہے ؟ فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ قائم آل محمد (عج) تلوار سے انہیں ختم کر دیں گے میں نے عرض کی کہ اس آیت کا کیا معنی ہے کہ چہرے خوف سے لرزر ہے ہونگے فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ وہ متواضع ہونگے اور روگردانی نہ کر سکیں گے عرض کی ﴿عَامِلَة﴾ کا کیا معنی ہے فرمایا ان کے اعمال فرمان الہی کے مطابق نہ ہونگے ، عرض کی ﴿نَاصِبَة﴾ کا کیا معنی ہے فرمایا جو ولی امر کے اذن کے بغیر منصوب ہوئے ہوں اور جو صلاحیت تو نہ رکھتے تھے لیکن ان کو امامت کے لئے منسوب کر دیا۔ عرض کی ﴿تُصْلیٰ نَاراً حَامِیَة﴾کا کیا معنی ہے فرمایا دنیا میں قائم آل محمد (عج) کی حکومت کے وقت آگ کی جنگ اور آخرت میں جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔
(۱۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام)نے فرمایا کہ خداوند متعال نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنے اور مخلوق کے درمیان ایک نشانی قرار دیا ہے ۔ الله اور مخلوق کے درمیان حضرت علی (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور نشانی (آیت ) نہیں ہے جس نے ان کی اتباع کی وہ مؤمن ٹھہرا، انکا منکر کافر اور انکی ذات میں شک کرنے والا مشرک ہے۔
(۱۲) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) ہدایت کا باب ہیں انکی مخالفت کرنے والا کافر اور انکا منکر جہنمی ہے۔
(۱۳) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تمام اہلیان زمین ولایت امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے منکر ہو جائیں تو الله سب پر عذاب نازل کرے گا اور سب کو جہنم میں ڈالے گا۔
(۱۴) راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا کہ تمھارا چچا زاد دیوانے اعرابی کی طرح میرے پاس آیا ۔ اس نے کھلے کھلے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ایک چادر کندے پر ڈال رکھی تھی اور جوتے ہاتھوں میں لیئے ہوئے تھا مجھ سے کہنے لگا بعض لوگ آپ (علیہ السلام) کے متعلق کچھ باتیں کرتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کیا تم عرب نہیں ہو؟ کہنے لگا کیوں نہیں میں عرب ہوں میں نے کہا عرب تو حضرت علی (علیہ السلام) سے بغض نہیں رکھتے اور پھر میں نے اس سے کہا شاید تمھارا تعلق ان لوگوں سے ہے جو حوض کوثر کے منکر ہیں جان لو ! خدا کی قسم اگر اس سے بغض رکھتے ہوئے حوض کوثر پر جاؤ گے تو یقینا تشنگی سے مرجاؤ گے۔
(۱۵) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے یا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ پر سلام ہو اور خدا نے بھی سلام کہلا بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ساتوں آسمانوں اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے اور ساتوں زمین اور ان پر جو کچھ بھی ہے ان میں سے کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے جو رکن و مقام سے بڑھ کر ہو اگر کوئی بندہ زمین و آسمان کی خلقت سے لیکر اب تک اس مقام پر دعا و مناجات کرتا رہے اور منکر ولایت علی (علیہ السلام) کی شکل میں مجھ سے ملاقات کرے تو میں یقینا اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالوں گا ۔
(۱۶) راوی کہتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی زیارت سے مشرف ہوا اور ان سے عرض کی میں آپ پر قربان جاؤں میرا ایک ہمسایہ ہے میں اسکی آواز سے بیدار ہوتا ہوں وہ قرآن پڑھتا رہتا ہے ، آیتوں کی مکرر تلاوت کرتا ہے اور تضرع و زاری کرتا ہے اور رو رو کر دعائیں مانگتا ہے میں نے مختلف لوگوں سے ظاہر اور پوشیدہ طور پر اسکے متعلق پوچھا ہے انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شخص تمام محارم خدا سے اجتناب کرتا ہے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا اے میسر کیا یہ تجھ جیسا عقیدہ و اعتقاد بھی رکھتا ہے ؟
میں نے عرض کہ خدا بہتر جانتا ہے ۔ بہر حال جب میں آئندہ سال حج پر گیا تو اس کے متعلق ایک شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا یہ ایسا کوئی عقیدہ نہیں رکھتا میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس شخص کے متعلق بتایا حضرت نے گذشتہ سال کی طرح دوبارہ وہی سوال کیا کہ کیا تجھ جیسا عقیدہ و اعتقاد رکھتا ہے؟ میں نے کہا نہیں حضرت نے فرمایا میسر بتاؤ محترم ترین نقطہٴ زمین کونسا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ خدا و رسول اور فرزند رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا اے میسر رکن و مقام کے درمیان بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور اسی طرح قبر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور منبر کے درمیان بھی بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اگر خداوند متعال کسی شخص کی زندگی اتنی طولانی کر دے کہ وہ رکن و مقام اور قبر رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور منبر کے درمیان ایک ہزار سال تک عبارت کرتا رہے اور قربانی کے خوبصورت جانور کی طرح بستر پر مظلومیت کی حالت میں قتل ہو جائے اور ہماری ولایت کے بغیر حق تعالیٰ سے ملاقات کرے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ الله اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے۔
(۱۷) راوی نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا کہ جونہی دشمن علی (علیہ السلام) دنیا سے جاتا ہے تو اسے جہنم کے کھولتے ہوئے پانی کا گھونٹ پلایا جاتا ہے۔ دشمنِ علی میں فرق نہیں ہے خواہ نمازی ہو یا زانی۔
(۱۸) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ہم اہل بیت (علیھم السلام) کیساتھ دشمنی رکھنے والے میں فرق نہیں ہے کہ وہ روزے رکھتا ہو ، نمازیں پڑھتا ہو یا زنا اور چوریاں کرتا ہو وہ حتماً جہنمی ہے وہ یقینا جہنم میں جائے گا ۔
(۱۹) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو گالیاں بکنے والے شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا خدا کی قسم اسکا خون حلال ہے ہاں البتہ ایسا کرنا کسی بے گناہ کے قتل کا سبب نہ بنے راوی نے تب عرض کی کہ یہ کس طرح ایک بے گناہ کے قتل کا سبب ہو سکتا ہے ؟ فرمایا اس کا فر کے مقابلے میں کسی مؤمن کا قتل ہونا۔
(۲۰) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا ہمارا دشمن جہنم کے گڑھے کے کنارے پر ہے اور بہر حال جہنم میں جائے گا اور جہنمی نابود ہونگے اور یہ انکا بُرا ٹھکانہ ہے جیسا کہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿یہ (جہنم) تکبر کرنے والوں کا بُرا ٹھکانہ ہے﴾ کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ خدا نے جسے خیر و بھلائی عطا کی ہو اور وہ ہمارا محب نہ ہو۔
(۲۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں یقینا ایک مؤمن اپنے ساتھی کی شفاعت کر سکتا ہے مگر یہ کہ ناصبی ہو کیونکہ اگر تمام انبیاء مرسل ، اور مقرب فرشتے کسی ناصبی کی شفاعت کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
(۲۲)حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی کشتی میں کتے اور خنزیر تک کو سوار کیا لیکن حرام زادے کو نہ بٹھایا ۔ اور دشمن اہل بیت (علیھم السلام) تو حرام زادے سے بڑھ کر ہے۔
(۲۳) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی بارگاہ میں عرض کی کہ
میرا ایک ہمسایہ ہے جو محرمات خداوندی کا مرتکب ہوتا ہے یہاں تک بعض اوقات کہ نماز بھی نہیں پڑھتا اور اسکے علاوہ بھی اسکی کئی بد اعمالیاں ہیں بتائیں حضرت نے فرمایا سبحان الله کیا چاہتے ہو اس سے بھی بد تر انسان کے متعلق تمھیں بتاؤں ۔ میں نے عرض کی جی ہاں فرمایا ہم سے دشمنی رکھنے والا شخص اس سے بھی بد تر ہے۔
Comments powered by CComment