عورت کی غیرت کفر ہے، سے کیا مراد ہے؟

مختلف مقالات حدیث
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

ترجمہ : فرحت حسین حسینی

اس سوال کا تعلق اميرالمۆمنين (ع) کے اس کلام سے ہے کہ:

 

{غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ وَ غَيْرَةُ الرَّجُلِ إِيمَانٌ}- (1)

 

"عورت کي غيرت کفر کا سبب اور مرد کي غيرت ايمان کي علامت ہے"-

 

واضح رہے کہ "کفر" کي دو قسميں ہيں:

 

1- اعتقادي کفر، جو ديني اصولوں اور ضروريات دين يعني توحيد، نبوت اور معاد (قيامت) کے انکار کے معني ميں آيا ہے-

 

2- عملي کفر، جو درحقيقت اوامر و احکام الہيہ کي عدم پابندي، ہے؛ جيسے ترک نماز يا ترک حج؛ حالانکہ واجبات کو ترک کرنے والے کا اعتقاد يہي ہوتا ہے کہ يہ احکام اللہ کي طرف سے ہيں ليکن عملي طور پر ان کا پابند نہيں ہے- چونکہ عورت شوہر کي متعدد شاديوں کے مسئلے ميں "غيرت" اور "حساسيت" رکھتي ہے اور دين کے ايک حکم کو نظرانداز کرتي ہے، لہذا اس کے عمل سے احکام الہي کا انکار لازم آتا ہے-

 

تاہم امام صادق (ع) نے اس غيرت  کے بارے ميں فرمايا:

 

"اس غيرت کا سرچشمہ شوہر سے بيوي کي محبت ہے"- (2)

 

بالفاظ ديگر "غيرة المرأة كفر"، سے مراد حقيقي کفر نہيں ہے، بلکہ يہ عمل کفر کے بعض حالات اور اسباب کي طرف کھينچ ليتا ہے جو اللہ کے حلال کي تحريم کے زمرے ميں نہيں آتا؛ کيونکہ شوہر کي دوسري شادي کي صورت ميں، بيوي کے منفي جذبات انتہاپسندي کي طرف مائل ہوجاتے ہيں! اور اس کا ردعمل اس قدر شديد ہوتا ہے کہ گويا اس کا شوہر فعل حرام يا (معاذاللہ) زنا کا مرتکب ہوا ہے؛ اور وہ قوانين و احکام الہي پر تنقيد کرنے لگتي ہے؛ کيونکہ بعض خواتين شوہر کي دوسري شادي کے شرعي جواز کو اپنے حق ميں ظلم سمجھتي ہيں"- (3)

 

خلاصہ يہ کہ اسلام ميں مرد کے لئے متعدد شادياں جائز ہيں اور حتي بعض مواقع پر دوسري شادي ضروري قرار دي گئي ہے اور اس شرعي حکم کے مقابلے ميں عورت کي غيرت اور مخالفت، اميرالمۆمنين (ع) کے ہاں، کفر ہے- اور ہاں! کفر عملي بھي يہي ہے کہ ايک جائز شرعي کام کي مخالفت کي جائے يا ايک قدم بڑھ کر جائز شرعي کام کا راستہ روکا جائے-

 

دوسري طرف سے مرد کي "غيرت" کے معني اپني زوجہ اور ناموس کے حريم کے حوالے سے حساس ہونے کا نام ہے جو ايمان کي علامت اور اجر و ثواب کا باعث ہے-

 

 حوالہ جات:

 

1- نهج البلاغه حکمت 124.

2. الكافي، ج 5 ، ص 506.

3. سيد محمد حسين فضل الله، اسلام، زن و جستاري تازه، ص 164.

Comments powered by CComment